مصنف : ارنسٹ ہیمنگ وے (امریکہ)
مترجم: عقیلہ منصور جدون (راولپنڈی)
کر بس کنساس کے مسیحی کالج سے ہی جنگ پر چلا گیا تھا ۔ایک تصویر میں وہ اپنے ہم پیشہ بھائیوں کے ساتھ ہے ۔جس میں سب نے ایک جیسی چوڑائی والے ایک ہی نمونے کے کالر پہنے ہوے ہیں ۔ وہ 1917 میں بحری فوج میں شامل ہوا تھا ۔اور جب تک 1919 کے موسم گرما میں سیکنڈ ڈویژن رائن سے واپس نہ آگئی ،وہ بھی امریکہ واپس نہیں آیا ۔
ایک دوسری تصویر میں وہ دو جرمن لڑکیوں اور ایک اور فوجی کے ساتھ دریاۓ رائن کے پاس موجود ہے ۔کربس اور اس دوسرے سپاہی کا یونیفارم ان کی جسامت سے بہت چھوٹا ہے ۔تصویر میں موجود جرمن لڑکیاں بلکل بھی خوبصورت نہیں ہیں ۔ دریا تصویر میں دکھائی نہیں دے رہا ۔
جب کربس اپنے آبائی قصبے اوکلاہوما واپس آیا تب تک جنگ سے واپس آنے والے ہیروز کا استقبال ختم ہو چکا تھا ۔وہ تاخیر سے واپس آیا تھا ۔قصبے کے ان تمام لوگوں کا جو جنگ پر گئے تھے واپسی پر تپاک استقبال کیا گیا تھا ۔وہ جوش و خروش اب ختم ہو چکا تھا ۔معاملات اب سرد پڑ چکے تھے ۔لوگوں کو کربس کا جنگ ختم ہونے کے سالوں بعد اتنی دیر سے واپس آنا مضحکہ خیز لگتا تھا ۔
کربس جو Belleau Wood / بیلیو وڈ ،Soissons / سوائسنز ، The Champagne / دی چیمپین ،سینٹ میہیل/ St. Mihiel اور آرگون / Argonne میں رہ چکا تھا ،جنگ پر گفتگو کرنا بلکل پسند نہیں کرتا تھا ۔بعد میں جب اسے جنگ کے حوالے سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی تو کوئی بھی سننے کے لئے تیار نہیں تھا ۔قصبے والوں نے ظلم کی اتنی داستانیں سن لی تھیں کہ اب اس موضوع میں ان کے لئے کوئی سنسنی نہیں رہی تھی ۔اس لئے کربس نے محسوس کیا کہ اگر وہ دوسروں کو اپنی بات سنوانا چاہتا ہے تو اسے جھوٹ کی آمیزش کرنی پڑے گی ۔ جب وہ دو دفعہ ایسا کر چکا تو اس کے اندر بھی جنگ اور جنگ سے متعلقہ گفتگو کے خلاف رد عمل پیدا ہو گیا ۔ اس کے اندر جنگ کے دوران جو کچھ اس پر بیتی اس کے لئے بیزاری پیدا ہو گئی ۔ دور ماضی میں گزرنے والے لمحات جن کے بارے میں سوچ کر اسے راحت اور سکون ملتا تھا اب وہ سکون اور راحت ختم ہوتا چلا گیا ۔
اس کے بولے گئے جھوٹ بہت معمولی نوعیت کے تھے ۔جو کچھ دوسروں نے کیا ،سنا یا دیکھا وہ اس نے اپنے ساتھ منسوب کر کے سناۓ تھے اور ایسے حقائق بیان کرتے ہوے کچھ ایسے غیر مستند واقعات جن سے ہر فوجی آگاہ ہوتا ہے بھی شامل کر لئے تھے ۔اس کے جھوٹ پول روم / Pool room کے لئے ہر گز سنسنی خیز نہیں تھے ۔
اس کےواقف کار اس کی کہانیوں میں دلچسپی نہیں لیتے تھے ۔کیوں کہ وہ پہلے ہی سن چکے تھے کہ کس طرح آرگون کے جنگل میں مشین گنوں سے بندھی جرمن لڑکیاں ملی تھیں ،جو اپنی حب الوطنی کی وجہ سے ان مشین گنرز جو آزاد تھے ،میں دلچسپی نہیں لیتی تھیں ۔
کربس کا جی اپنے جھوٹ اور مبالغہ آرائی سے متلانے لگا تھا ۔ اور اگر کبھی اتفاقا”کسی سابقہ فوجی سے ملاقات ہو جاتی اور وہ ڈانس کے دوران ڈریسنگ روم میں کچھ دیر بات چیت کرتے تو وہ اس پرانے فوجی کے سکون سے بہت متاثر ہوتا ۔ کیوںکہ وہ خود ہر وقت گھبراہٹ اور بےچینی محسوس کرتا تھا ۔
ان دنوں گرمیاں ختم ہونے کے قریب تھیں ۔کربس رات دیر سے سویا تھا ،جب اٹھا تو لائبریری سے کتاب لینے چلا گیا ۔لنچ گھر پر کیا سامنے والے برآمدے میں بیٹھ کر مطالعہ کرتا رہا ،یہاں تک کہ بوریت نے اسے آن گھیرا ۔تو وہ دن کے گرم ترین اوقات قصبے کے پول روم کے ٹھنڈے نیم تاریک ماحول میں گزارنے چلا گیا ۔ اسے پول ( بلیئرڈ) کے کھیل سے محبت تھی ۔
شام کے وقت وہ بانسری پر پریکٹس کرتا ۔چہل قدمی کرتا ،مطالعہ کرتا اور سو جاتا ۔ وہ اپنی دونوں چھوٹی بہنوں کے لئے ابھی بھی ہیرو تھا ۔اگر وہ چاہتا تو اس کی ماں اسے بستر میں ناشتہ دے دیتی ۔ اس کی والدہ جب وہ بستر میں ہوتا آ جاتی اور اس سے جنگ کی باتیں سننے کی خواہش کرتی ، لیکن اس دوران اس کی توجہ ادھر ادھر ہوتی رہتی ۔لیکن والد کوئی خاص دلچسپی ظاہر نہیں کرتا تھا ۔
جنگ پر جانے سے قبل کربس کو فیملی کار چلانے کی اجازت نہیں تھی ۔اس کے باپ کا جائیداد کی خریدو فروخت کا کاروبار تھا ۔اسے ہر لمحے کار کی ضرورت رہتی تھی ۔ تاکہ وہ کلائنٹ کو کسی بھی وقت قصبے سے باہر مزروعہ جائیداد دکھانے کے لئے لے جا سکے ۔
کار ہمیشہ فرسٹ نیشنل بینک کی عمارت کے باہر کھڑی رہتی تھی ۔جہاں سیکنڈ فلور پر اس کے باپ کا دفتر تھا ۔ اب جنگ کے اختتام پر بھی ان کے پاس وہی کار تھی ۔
قصبے میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی تھی ،سواۓ اس کے کہ نوجوان لڑکیاں بڑی ہو گئی تھیں ۔لیکن وہ اتنی پیچیدہ دنیا میں رہتے تھے جس کے اپنے طے شدہ اتحاد اور عداوتیں تھیں ۔ جنہیں توڑنے کی اس میں نہ ہمت تھی اور نہ جرات ۔لیکن وہ ان لڑکیوں کو دیکھنا پسند کرتا ۔ بہت ساری خوبصورت لڑکیاں تھیں ۔اکثریت نے بال چھوٹے کروا لئے تھے ۔ جب وہ گیا تھا تب صرف چھوٹی بچیوں ہی کے چھوٹے بال ہوتے تھے ۔ یا پھر ان لڑکیوں کے جنہیں تیز طرار کہا جاتا تھا ۔ وہ سب سویٹراور کمر تک قمیض جس کے گول ڈچ کالر ہوتے تھے پہنتی تھیں ۔وہ اپنے گھر کے سامنے والے برآمدے سے انہیں دیکھتا تھا ۔اسے انہیں درختوں کے ساۓ میں چلتے دیکھنا اچھا لگتا تھا ۔اسے وہ گول ڈچ کالر سویٹرؤں کے گلے سے باہر نکلے ہوے اچھے لگتے ۔اسے ان کی ریشمی لمبی جرابیں ،ہموار جوتے ،کٹے ہوے بال اور چلنے کا انداز سب پسند تھا ۔
جب وہ قصبے میں تھا تو وہ کچھ خاص پرکشش نہیں تھیں ۔جب اس نے انہیں یونانی آئیس کریم پارلر کے باہر دیکھا تھا تو اسے پسند نہیں آئی تھیں ۔
اسے لڑکی تو چاہیے تھی لیکن اس کے لئے وہ محنت نہیں کرنا چاہتا تھا ۔وہ لڑکی کے حصول کے لئے وقت اور محنت دونوں کا قائل نہیں تھا ۔نہ ہی وہ سازشوں اور سیاست میں ملوث ہو کر لڑکی حاصل کرنے پر یقین رکھتا تھا ۔ وہ جھوٹ بولنے سے بھی متنفر تھا ۔ اس کے نز دیک لڑکی کا حصول اس سب کے قابل نہیں تھا ۔
اسے کسی نتیجے کی بھی پرواہ نہیں تھی ۔وہ نتیجوں کی پرواہ کئے بغیر جینا چاہتا تھا ۔اس کے علاوہ اسے لڑکی کی ضرورت بھی نہیں تھی ،یہ اسے فوج نے سکھایا تھا ،ایسا ظاہر کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ تمہارے پاس لڑکی ہونی چاہیے . تقریباً” ہر شخص ایسا ہی کرتا تھا ۔ لیکن یہ سچ نہیں تھا ۔بلکہ یہ انتہائی مضحکہ خیز بات تھی کہ پہلے تو آدمی شیخیاں بگھارتے کہ اس کے لئے لڑکی بے معنی ہے ،مزید یہ کہ وہ ان کے بارے میں بلکل نہیں سوچتا ۔ اور یہ کہ وہ اسے چھو نہیں سکتیں ۔پھر ایک ساتھی بڑے فخر سے بتائے کہ وہ لڑکیوں کے بغیر رہ نہیں سکتا ۔ اسے ہر وقت ان کا ساتھ چاہیے ۔ وہ ان کے بغیر سو بھی نہیں سکتا ۔
یہ سب جھوٹ تھا ۔یہ دونوں۔ طرح سے جھوٹ تھا ۔ جب تک تم لڑکیوں کے بارے میں نہ سوچو ،تمہیں ان کی ضرورت نہیں ہوتی یہ اس نے فوجی زندگی کے دوران سیکھا تھا ۔ تمہیں اس بارے میں زیادہ سوچ بچار کی ضرورت نہیں ۔ جب تم لڑکی کے لئے مکمل تیار ہو جاتے ہو تو وہ تمہیں مل جاتی ہے ۔
اب اگر کوئی لڑکی اس کے پاس آتی تو وہ اسے پسند کر لیتا ۔ لیکن یہاں گھر میں سب کچھ پیچیدہ تھا ۔ اسے احساس تھا کہ وہ اس سارے عمل سے دوبارہ نہیں گزر سکتا ۔یہ ایسا معاملہ نہیں جس کے لئے تکلیف اٹھائی جاۓ ۔فرانسیسی اور جرمن لڑکیوں کا معاملہ مختلف تھا ۔وہاں اتنی زیادہ بات چیت کی ضرورت نہیں تھی ۔وہاں زیادہ بات چیت کئے بغیر ہی آپ دوستی کر سکتے تھے ۔اس نے پہلے فرانس کے بارے میں سوچا اور پھر جرمنی کے بارے میں ۔اسے مجموعی طور پر جرمنی زیادہ پسند تھا ۔وہ جرمنی سے آنا نہیں چاہتا تھا ۔بلکہ وہ تو گھر ہی آنا نہیں چاہتا تھا ،پھر بھی وہ گھر آ گیا تھا ۔ وہ سامنے والے برآمدے میں بیٹھا تھا ۔اسے سڑک پر چلتی لڑکیاں اچھی لگ رہی تھیں ۔لیکن وہ جس دنیا کی تھیں وہ اس دنیا کا نہیں تھا ۔وہ چاہتا تھا کہ ان میں سے کوئی ایک اس کے پاس ہو ،لیکن یہ سب اس قابل نہیں تھا کہ اس کے لئے بہت زیادہ بات چیت کی جاۓ ۔اس کی طلب اتنی بھی ناقابل برداشت نہیں تھی ۔
وہ ادھر ہی برآمدے میں بیٹھا جنگ کے بارے میں کتاب پڑھتا رہا ۔ یہ تاریخ تھی اور وہ خود اس کا حصہ رہا تھا ۔یہ بہت دلچسپ مطالعہ تھا ۔ وہ سوچ رہا تھا اگر یہاں زیادہ نقشوں سے سمجھایا گیا ہوتا ۔ اس نے مستقبل میں اچھے مؤرخوں کی زیادہ نقشوں والی اچھی تاریخی کتب پڑھنے کے بارے میں سوچا ۔اب وہ صحیح معنوں میں جنگ کو سمجھ رہا تھا ۔وہ ایک اچھا فوجی تھا ۔یہی اہم تھا ۔
ایک صبح جب اسے واپس آۓ ہوۓ مہینہ گزر چکا تھا تو اس کی ماں اس کے کمرے میں آئی ۔اس کے پلنگ پر بیٹھتے ہوۓ اپنا ایپرن درست کیا اور۔ بولی ،
“ ہیرالڈ ، کل رات میں اور تمہارے باپ نے بات کی ،وہ اس بات کے لئے راضی ہیں کہ تم شام میں کار لے جایا کرو “ ۔
“ ہییں ؟ “ وہ ابھی مکمل طور پر جاگا نہیں تھا ،” کار لے جاؤں ؟ “
“ ہاں ،تمھارے باپ نے کچھ عرصے سے یہ محسوس کر لیا تھا لیکن ہماری بات چیت کل ہی ہوئی کہ تم شام کو کار لے سکتے ہو ۔ “
“ میں شرط لگاتا ہوں ،یہ آپ نے ہی والد سے کہا ہو گا ۔ “ کربس نے کہا ۔
“ نہیں ،یہ تمہارے والد کی ہی تجویز تھی ۔ “
کربس نے بستر سے اٹھتے ہوے پھر اصرار کیا ،” میں شرطیہ کہتا ہوں ،یہ آپ نے ہی والد سے کہا ہو گا ۔”
ماں نے اٹھتے ہوۓ اسے ناشتے کے لئے آنے کا کہا۔
“ بس تیار ہو کر آتا ہوں ۔” کربس نے جواب دیا ۔ماں کمرے سے نکل گئی ۔اسے نیچے سے ماں کی کچھ فرائی کرنے کی آواز سنائی دی ۔اس دوران وہ نہایا دھویا ،شیو بنائی ،کپڑے پہنے اور ڈرائنگ روم میں ناشتے کے لئے پہنچ گیا ۔ ناشتے کے دوران ہی اس کی بہن تازہ ڈاک لے آئی ۔اسے مخاطب کیا ،” ہیرے نیند کے مارے ،کب کس لئے اٹھتے ہو ۔ کربس نے اسے دیکھا وہ اسے پسند تھی ۔
“ کیا اخبار آ گیا ؟ “ اس نے بہن سے پوچھا ۔
بہن نے “ کنساس سٹی سٹار “ اسے پکڑا دیا ۔اس نے اخبار کے گرد لپٹا خاکی لفافہ ہٹایا اور اخبار کا کھیلوں کا صفحہ نکالا ،اسے تہہ کر کے پانی کے برتن کے ساتھ ایسے رکھا کہ ناشتے کے دوران اسے پڑھ سکے ۔
“ ہیرالڈ ،” اس کی ماں نے اسے کچن کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر پکارا ،” پلیز اخبار کا ستیاناس نہ مار دینا ،تمہارے باپ بے ابھی پڑھنا ہے ۔”
“ میں خراب نہیں کر رہا ،” کربس نے جواب دیا ۔
اس کی بہن بھی میز کے سامنے بیٹھ کر اسے دیکھنے لگی ۔
“ ہم اس سہہ پہر سکول میں انڈور اوور کھیلیں گے “ بہن نے کربس کو بتایا ۔” میں پچ کرنے جا رہی ہوں “
“ بہت اچھے “ ، کربس بولا ،” پرانا ونگ کیسا ہے “
“ میں بہت سارے لڑکوں سے بہتر پچ کرتی ہوں ۔میں نے انہیں وہ سب بتایا جو تم نے مجھے سکھایا تھا ۔باقی لڑکیاں اتنا اچھا نہیں کھیلتیں ۔ “
“ آں ہاں “ ، کربس بولا
“ میں سب کو بتاتی ہوں کہ تم میرے beau / عاشق ہو ۔ہیرے کیا تم ہو نا ؟ “
“لگاؤ شرط “
“ کیوں بھائی عاشق نہیں ہوسکتا ؟ ۔صرف اس لئے کہ وہ تمہارا بھائی ہے ؟ “
“ مجھے نہیں معلوم “
“ تمہیں معلوم ہے ۔ تم میرے عاشق نہیں ہو سکتے ۔ اگر میں بڑی ہوتی اور اگر تم چاہتے تو ۔۔۔۔۔ .” یقینا” ،اب تم ہی میری گرل ہو “
“ کیا ۔واقعی ؟ “
“ یقینا” “
“ کیا تم مجھ سے محبت کرتے ہو ۔؟ “
“ بلکل”
“ تو کیا تم مجھے کھیلتے ہوے دیکھنے آؤ گے ؟ “
“ شاید “
“ آہ، ہیرے تم مجھ سے محبت نہیں کرتے ،اگر محبت کرتے ہوتے تو ضرور آتے ۔ “ اس دوران ان کی ماں کچن سے ڈرائنگ روم میں آ گئی ۔ اس نے ایک پلیٹ میں دو فرائی انڈے اور ان کے اوپر خستہ سؤر کا گوشت اور ایک پلیٹ میں میتھی کے کیک اٹھاۓ ہوے تھی ۔
“ ہیلن ،تم جاؤ یہاں سے مجھے ہیرالڈ سے بات کرنی ہے ۔” ماں نے یہ کہتے ہوے دونوں پلیٹیں کربس کے سامنے رکھ دیں ۔کیکوں کے ساتھ پینے کے لئے میپل کے شربت کا جگ بھی رکھ دیا ۔پھر کرسی پر بیٹھتے ہوے کہا ، “ ہیرالڈ ،تھوڑی دیر کے لئے اخبار رکھ دو ۔”
کربس نے اخبار تہہ کر کے رکھ دیا ۔”تمہارا مستقبل کا کیا پلان ہے ،میرا مطلب ہے تم نے اب کیا کرنا ہے ؟” ماں نے اپنا گلاس اٹھاتے ہوے پوچھا ۔
“میں نے اس بارے میں ابھی کچھ نہیں سوچا ،” کربس نے جواب دیا ۔
“ خدا نے سب کے کرنے کے لئے کچھ نہ کچھ رکھا ہے ۔اس کی بادشاہت میں کوئی بیکار نہیں بیٹھ سکتا ۔” ماں نے گفتگو کا سلسلہ بڑھاتے ہوے کہا ۔
“ میں اس کی بادشاہت میں نہیں ہوں ۔” کربس بولا ۔
“ ہم سب اس کی بادشاہت میں ہیں ۔” کربس ماں کی اس گفتگو سے ہمیشہ کی طرح بےچین اور ناراض دکھائی لگنے لگا ۔
“ میں تمہارے لئے پریشان ہوں ،ہیرالڈ “ ۔ماں نے بات جاری رکھی ۔” میں جانتی ہوں تمہیں بہت ساری ترغیبات کا سامنا رہا ہو گا ۔مجھے یہ بھی معلوم ہے مرد کتنا کمزور ہوتا ہے ۔میں یہ بھی جانتی ہوں ،تمہارے پیارے نانا ،میرے والد نے ہمیں خانہ جنگی کے بارے میں بتایا تھا ،اور میں تمہارے لئے دعا گو رہی ۔میں پورا پورا دن تمہارے لئے دعائیں مانگتی تھی ۔”
کربس نے دیکھا کہ بیکن (سؤر کے گوشت ) کی چربی پلیٹ میں سخت ہو رہی ہے ۔
“ تمہارا باپ بھی تمہارے لئے پریشان ہے ۔اس کا خیال ہے کہ تمہارے عزائم کہیں کھو گئے ہیں ۔؟؟ مطلب تمہارا زندگی کا مقصد نہیں رہا ۔تمہارے حوصلے پست ہو چکے ہیں ۔ چارلی سمونز تمہارا ہم عمر ہے ۔اس کے پاس اچھی ملازمت ہے ۔اس کی شادی ہونے والی ہے ۔ سب لڑکے زندگی میں پاؤں جما رہے ہےں ۔سب کے پاس کہیں نہ کہیں پہنچنے کا ہدف ہے ۔تم دیکھ رہے ہو چارلی سمونز جیسے لڑکے کمیونٹی کے لئے باعث فخر ہیں ۔”
کربس خاموش رہا ۔
“ ہمیں تم سے محبت ہے ،اس طرح اپنے آپ کو ضائع مت کرو ۔ہم تمہارے مفاد میں تمہیں صورتحال سمجھا رہے ہیں ۔تمہارے والد تمہاری آزادی پر کوئی قدغن نہیں لگانا چاہتے ۔ان کا خیال ہے کہ تمہیں کار چلانے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ اگر تم کسی بھی اچھی لڑکی کو اپنے ساتھ کار میں کہیں گھمانے لے جانا چاہتے ہو تو ہمیں خوشی ہو گی ۔ہم چاہتے ہیں کہ تم زندگی کا لطف اٹھاؤ ۔ تمہیں اب کسی کام میں مصروف ہو جانا چاہیے ۔ تمہارے ولد کو ہر گز کوئی اعتراض نہیں ہوگا ۔کہ تم کس کام سے آغاز کرتے ہو ۔ سب کام باعزت ہیں ۔لیکن تمہیں کہیں سے تو ابتداء کرنی ہے ۔اس نے مجھے آج صبح تم سے بات کرنے کا کہا ۔ اس کے بعد تم اسے دفتر میں مل سکتے ہو ۔ “
“ بس یہی سب کہنا تھا آپ نے “ کربس نے پوچھا ۔
“ ہاں ، کیا تم اپنی ماں سے محبت نہیں کرتے ،پیارے بیٹے ؟”
“ نہیں “ کربس کے منہ سے نکلا ۔اس کی ماں نے اسے بغور دیکھا ۔ اس کی آنکھیں چمک رہی تھیں ۔ماں رونے لگی ۔
“ میں کسی سے بھی محبت نہیں کرتا ،میں بلکل بھی اچھا نہیں ہوں ۔وہ ماں کو اپنی بات سمجھا نہیں پا رہا تھا ۔اسے احساس ہو گیا تھا کہ وہ کتنی بےوقوفانہ بات کہہ چکا ہے ۔ اور ماں کو کتنا دُکھی کر دیا ہے ۔ وہ اٹھ کر ماں کے پاس پہنچا ،اس کا بازو پکڑا ۔وہ اپنا سر اپنے ہاتھوں میں تھامے رو رہی تھی ۔
“ میرا یہ مطلب نہیں تھا ۔” اس نے کہا ۔” مجھے کسی اور بات پر غصہ آیا ہوا تھا ۔میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ مجھے آپ سے محبت نہیں ۔”
اس کی ماں روتی رہی ۔کربس نے اپنے ہاتھ اس کے کندھوں پر رکھ لئے ۔ اور کہا ،” والدہ، آپ کو مجھ پر یقین نہیں ۔”
اس کی ماں نے سر ہلایا ۔
“ پلیز ماں ،پلیز پلیز میرا یقین کرو ۔ “
“ ٹھیک ہے “اس کی ماں نے گلو گیر آواز میں جواب دیا ۔ ہیرالڈ مجھے تم پر یقین ہے “ ۔
کربس نے ماں کے بالوں پر بوسہ دیا ۔ماں نے چہرہ اوپر کیا ۔”میں تمہاری ماں ہوں ۔” اس نے کہا ،” جب تم چھوٹے بچے تھے ،میں تمھیں اپنے سینے سے لگاۓ رکھتی تھی ۔”
کربس نے سخت کمزوری محسوس کی اس کا جی متلانے لگا ۔ “ مجھے معلوم ہے ممی ، میں کوشش کرکے آپ کا اچھا بیٹا بنوں گا ۔”
“ کیا تم گھٹنے ٹیک کر میرے ساتھ دعا مانگو گے ؟ ۔” اس کی ماں نے پوچھا
وہ ڈائینگ روم کے ٹیبل کے ساتھ ہی جھک گئے ۔ماں نے دعا مانگی اور کربس کو دعا مانگنے کا کہا ۔ کربس نے کہا ،” میں نہیں مانگ سکتا ۔”
“ہیرالڈ ،کوشش کرو ۔” ماں نے کہا ۔
“ میں نہیں مانگ سکتا ۔”
“کیا میں تمہارے لئے دعا مانگوں ؟ “
“ ہاں “
تب اس کی ماں نے اس کے لئے دعا مانگی ،پھر وہ کھڑے ہو گئے ۔کربس نے ماں کے ہاتھ پر بوسہ دیا ۔اور گھر سے باہر چلا گیا ۔ اس نے یہ سب اپنی زندگی میں مزید الجھنوں سے بچنے کے لئے کیا ۔تاہم اس پر اس سب کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا ۔ وہ ماں کے لئے دُکھی تھا ۔ کہ ماں نے اسے جھوٹ بولنے پر مجبور کیا ۔ وہ کنساس شہر چلا جاۓ گا ۔وہاں نوکری کر لے گا ۔ماں کو یہ سب اچھا لگے گا ۔ شاید اس کے جانے سے قبل ایک آدھ مزید ایسا منظر پھر نظر آۓ ۔ وہ باپ کے دفتر نہیں جاۓ گا ۔ وہ اپنی زندگی پرسکون گزا رنا چاہتا تھا ۔بہرحال ،یہ سب گزر گیا ۔ اب وہ سکول جاۓ گا اور ہیلن کو انڈور بیس بال کھیلتا دیکھے گا ۔
Original Title: Soldier’s Home
Written by:
Ernest Hemingway (July 21, 1899 – July 2, 1961) was an American novelist, short-story writer, journalist, and sportsman. Winner of Pulitzer Prize for Fiction (1953), Nobel Prize in Literature (1954
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...