آج اپنی ٹائم لائن پر پانچ عدد تعزیتی پیغامات لکھے ہیں اور اتنے ہی بیمار دوستوں یا ان کے پیاروں کی صحت یابی کے لیے دعاوں بھرے کمنٹس۔ یہ صرف آج کی بات نہیں، اب روز کا معمول بن چکا ہے۔
موت بانہیں پھیلائے بال کھولے ، مانند کسی ڈائن کے گلیوں محلوں گھروں میں ناچتی پھر رہی ہے۔
آئیے اس کے مقابلے کے لیے زندگی کی لگن، جذبوں، احتیاط، حفاظتی تدابیر اور مناسب علاج کے ہتھیار استعمال کریں۔
ڈھائی ماہ قبل مجھ سے ڈھائی برس بڑا بھائی ایک آن میں اس دنیا سے دوسری دنیا کی طرف عازم سفر ہوا۔ ڈاکٹر نے موت کے سرٹیفکیٹ پر رحلت کی وجہ حرکتِ قلب بند ہو جانا لکھا۔
لیکن ۔۔۔۔
اور یہ بہت بڑا لیکن ہے ۔۔۔
بھائی کی اچانک موت کی وجہ میری دانست میں کرونا تھا۔ وہ کئی روز سے بخار، کھانسی اور گلے کی خرابی کا علاج خود ہی اینٹی بائیوٹک دواوں سے کر رہا تھا۔ ساری علامات کرونا کی تھیں۔ بھوک نہیں لگ رہی تھی۔ کمزوری بڑھتی جا رہی تھی۔ سانس کی تکلیف سے بچنے کے لیے پفر کا استعمال تو وہ پہلے بھی کرتا تھا۔ اب زیادہ کر رہا تھا۔ وفات سے تین دن پہلے جب مجھے اس کی بیماری کا علم ہوا تو تاکید کی کہ فورا" کرونا کا ٹیسٹ کروایا جائے۔ بھائی چوبیس گھنٹوں کی تاخیر سے بالآخر اپنے علاقے کے ای این ٹی سپیشلسٹ کے پاس گیا۔ اس نالائق سپیشلسٹ نے کرونا کے ٹیسٹ کے لیے نہیں کہا۔ کچھ اینٹی بائیوٹک تجویز کیں اور یہ کہا کہ چار روز کے بعد اسے دوبارہ دکھایا جائے اور ساتھ ہی پھیپھیڑوں کا ٹیسٹ لے کر آئیں۔ سپیشلسٹ سے ملاقات کے چالیس گھنٹوں کے اندر اندر بھائی رخصت ہو گیا۔
میرا دل کہتا ہے کہ اسے کرونا لے گیا کیونکہ وفات کے دو دن بعد بھابی کا شدید بخار اور گلے کی خرابی کی وجہ سے کرونا ٹیسٹ مثبت آیا تھا۔ بھابی کی ہر ممکن دیکھ بھال اور مناسب علاج سے کچھ دنوں میں طبیعت سنبھل گئی۔
لیکن ایک سوال مجھے آج بھی بے پناہ اذیت دے رہا ہے۔ بھائی تعلیم یافتہ تھا۔ اس نے کرونا کے امکان کی طرف سے اپنی آنکھیں کیوں بند کیں۔ کیا اس کی وجہ "کرونا شیمنگ" تھی۔ ۔۔۔۔ ہاں شاید ۔۔۔۔ پاکستان میں پچھلے برس جب کرونا مریضوں کی وفات کے بعد ان کی میتوں اور تدفین کا ایک خاص انداز اختیار کیا گیا تو عوام کی اکثریت خوفزدہ ہو گئی اور ایسی موت سے پناہ مانگنے لگی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لوگوں نے کرونا کی تمام علامات کی موجودگی میں بھی اس کا ٹیسٹ کرانے سے اجتناب کیا۔ جن لوگوں میں کرونا سے مقابلے کی قدرتی مدافعت تھی وہ بچ گئے اور جن کی صحت پہلے ہی کسی نہ کسی بیماری کی وجہ سے کمزور تھی وہ بیماری کے دوران یا کرونا کی رخصتی کے بعد اس کے پہنچائے گئے نقصان کے ہاتھوں حرکتِ قلب بند ہو جانے سے رخصت ہونے لگے۔
آپ یقین کیجیے کہ میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ پاکستان میں اس بیماری کے ہاتھوں جانے والوں کے سرکاری اعداد و شمار اصل تعداد سے کہیں کم ہیں۔ لوگ اپنے پیاروں کی اچانک رخصتی کو کرونا سے منسوب کرنا نہیں چاہتے۔ جنازوں میں آنے والے بعد ازاں اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں، یوں یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔
۔۔۔۔
اپنی اور اپنے پیاروں کی زندگی کے لیے ۔۔۔۔۔ آپ صرف اتنا کیجیے کہ گلے کی خرابی، اور بخار کی کسی بھی تکلیف کے ظاہر ہوتے ہی یہ ٹیسٹ ضرور کرائیں۔ اس مرض کی فوری تشخیص کے بعد بچ جانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ اس سے بھی کہیں اہم یہ ہے کہ بیماری سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر پر سختی سے عمل کریں۔