پشتون تحفظ موومینٹ کا مارکسی جائزہ اور تناظر
پشتون تحفظ موومینٹ پی ٹی ایم جو کہ محسود تحفظ موومینٹ کے نام سے شروع ہوا تھا اس وقت وجود میں آیا ۔جب کراچی میں 13 جنوری 2018 کو نقیب اللہ محسود شہید کو ماورائے عدالت راوء انور نامی ایک پولیس افسر نے قتل کیا ۔ اس تحریک نے پاکستان کے بڑے بڑے شہروں جیسے کراچی، لاہور، پشاور، کوئٹہ سوات، خیبر پختون خواہ اور بلوچستان کے دیگر پشتون علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر جلسے کئے ہیں۔ اس وقت اس تحریک کی قیادت ایک 26 سالہ نوجوان منظور پشتین کررہا ہے جس کا تعلق جنوبی وزیرستان سے ہے پشتون تحفظ موومینٹ کا ظہور کیوں ہوا اور یہ تحریک کیا ہے اسکا مسقبل کیا ہوگا اس کا ایک مارکسسٹ نقطہء نظر سے جائزہ لیتے ہیں
پشتون تحفظ موومینٹ کیا ہے
۔
آگر ہم زمین کے اوپر سطح کو دیکھیں تو نسبتی طور پر مادی اجسام بظاہر جمود اور سکون کی حالت میں نظر آتا ہے جیسے کسی بھی شئے میں کوئی حرکت ہی نہ ہو ۔ مگر زمین کے نچلی تہہ میں آہستہ آہستہ مسلسل تبدیلیاں وقوع پذیر ہورہی ہوتی ہے جسے ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتے ہیں ۔ مگر وہی معمولی تبدیلیاں ایک مخصوص نہج میں اکر دھماکہ خیز تبدلیوں کو جنم دیتا ہے جسے ہم زمین پر سونامی ، زلزلوں کے شکل میں دیکھ سکتے ہیں۔ پاکستانی معاشرے میں رونما ہونے والے تبدیلیاں اور اسکے نتیجے میں ابھرنے والا پشتون تحفظ موومینٹ بھی اسی سونامی کی ہی مثال ہے ۔جسے پاکستان کے حکمران سیاسی ، سماجی اور معاشی حلقے سمجھنے سے قاصر ہیں ۔ جو کہ پاکستانی معاشرے میں متواتر اور مسلسل جبر،ریاستی دہشت گردی، غربت، طبقاتی تفریق، قومی اور مذہبی تعصب کو چیر کر ابھرا ہے
عظیم فلسفی ہیگل نے کہا تھا کہ ہر حادثہ ایک لازمہ ہوتا ہے ۔ پشتون تحفظ موومینٹ کا ابھار کوئی حادثہ نہیں بلکہ وقت کی ضرورت ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ تحریک پاکستانی اشرافیہ اور پاکستانی ریاستی اداروں کے خلاف مظلوم قومیتوں اور مظلوم طبقے کی ایک انقلابی جدوجہد ہے یہ تحریک پشتون مظلومییت ،قومی استحصال اور ریاستی دہشتگردی کا براہ راست نتیجہ ہیں۔ ہمیں اس سوال کو سمجھنا ہو گا کہ پشتون تحفظ موومینٹ پشتون قومی جدوجہد ہے مگر یہ تحریک دوسرے مظلوم قومیتوں اور طبقات کو جوڑنے کی انقلابی صلاحیت بھی رکھتی ہیں ۔ اس لیے یہ ایک مزاحمتی، باغی اور انقلابی کردار کے حامل بھی ہے۔ مارکسٹوں کا قومی جدوجہد کے حوالے سے کیا نقطہء نظر ہے اسکا ایک تجزیہ کرتے ہیں ۔
پشتون تحفظ موومینٹ اور قومی جدوجہد کا سوال
مارکسسٹ مظلوم قومیتوں کے جدوجہد کی حمایت کرتا ہے ۔ مارکسسٹ مظلوموں کا ساتھی ہے خواہ مظلومییت قومی ہو یا طبقاتی یا مذہبی اقلیتوں پر ظلم ہو یعنی ہماری جدوجہد اسی مظلوم طبقے کے لیے ہیں۔ مگر ہم اس تحریک کو دوسرے مظلوم قومیتوں اور انقلابی طبقہ یعنی محنت کش طبقے سے ہمیشہ جوڑنے پر زور دیتے ہیں یعنی قومی جدوجہد کے دریا کو انقلابی طبقاتی جدوجہد کے سمندر میں سمونا ہوگا۔ کیونکہ آخری تجزیہ میں صرف محنت کش طبقہ ہی یہ صلاحیت رکھتی ہے کو وہ ریاست کے تمام اداروں کو جڑ سے اکھاڑ سکتی ہے عظیم انقلابی راہنما کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ قومی سوال آخری تجزیہ میں روٹی کا سوال ہے
گرچہ اس وقت تحریک کے مطالبات آئینی اور جمہوری نوعیت کے مطالبات ہے مگر آنے والے دنوں میں ریاستی حملے اسکے مطالبات کو مزید ریڈیکل بنا سکتی ہے گو کہ کوئی بھی تحریک پہلے مرحلے میں معاشی جمہوری اور آئینی مطالبات سے ہی شروع ہوتے ہیں مگر جوں جوں تحریک کو ردانقلابی کوڈے لگنا شروع ہوجاتی ہیں توں تو قیادت میں اور تحریک میں معیاری تبدیلیاں آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اپنے حالیہ ویڈیو پیغام میں منظور پشتین نے کہا کہ ہمیں پنجاب میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہوئی جاسکا ہمیں توقع تھا ۔ ماسوائے ان کچھ لیفٹ اور پروگریسو دوستوں نے ہماری حمایت کی باقی پنجاب نے ہمارا ساتھ نہیں دیا۔ اول تو بات یہ ہے کہ کیا پشتون تحفظ موومینٹ نے پنجاب کے محنت کشوں، مزدوروں، نوجوانوں ، طالبعلموں اور کسانوں کو ایک واضح انقلابی اور طبقاتی جدوجہد کا پیغام دیا کہ ہماری اور آپکی جدوجہد ایک ہے کہ آو یہ ایک انقلابی اور طبقاتی جدوجہد ہے کہ ہم اس جدوجہد کو ایک ساتھ بڑھاتے ہیں اور ہم اس سسٹم کے جبر کے خلاف ایک ساتھ ہے کہ آو آس ریاست کو جس نے ہم سب کو قومی، طبقاتی، مذہبی ،لسانی بنیادوں پر تقسیم کیا ہے کہ خلاف متحد ہوکر جدوجہد کریں کیونکہ ہمارا درد ایک ہے اور ہماری جدوجہد بھی ایک ہونے چاہئیں۔ پشتون تحفظ موومینٹ کو دوسرے مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں میں پذیرائی آس وقت نصیب ہوگا جب اسکی قیادت ایک واضح انقلابی لائحہ عمل اور سوشلزم کے نظریات کو اپنا آئیگی اس کے لیے پشتون تحفظ موومینٹ کو اپنے نام کو بدلنے کے لیے بھی سنجیدگی سے غور کرنا پڑے گا ۔جب پشتون تحفظ موومینٹ دوسرے مظلوم قومیتوں اور عوامی حلقوں میں مقبولیت حاصل کریں گی پھر یہ ایک عوامی انقلابی تحریک میں بدل جائینگی ۔ دوسرے مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں کو جوڑنے کے لیے پشتون تحفظ موومینٹ کو واضح سوشلسٹ نظریہ اپنا نا ہوگا۔ اس تحریک کو آئینی اور جمہوری مطالبات سے آگے بڑھانا ہوگا ۔ اس کو عوامی جدوجہد سے جوڑنا پڑے گا اور پاکستان کہ اندر رہنے والے تمام مظلوم قومیتوں اور محنت کش طبقے کی اصل معاشی، سیاسی اور سماجی جبر کے حل کے لیے ایک واضح انقلابی سوشلزم کے نظریات کا پرچار کرنا پڑے گا انکو واضح الفاظ میں کہنا ہوگا کہ یہ جبر اس نظام کا پیدا کردہ ہیں اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام رہیگا تب تک یہ جبر، ظلم طبقاتی، مذہبی، لسانی اور قومی استحصال اسی طرح برقرار رہیگا
پشتون تحفظ موومینٹ اور ایک انقلابی سوشلسٹ پارٹی کی تعمیر
پشتون قومی جدوجہد کی تحریک کو وسیع پیمانے پر پاکستان ، ہندوستان ، ایران اور افغانستان کے محنت کشوں سے جوڑنے کے لیے سوشلسٹ نظریہ پر مبنی ایک بالشویک انقلابی پارٹی طرز کئ ایک پارٹی بنانا ہوگی جو کہ خطے کے تمام محنت کشوں کو متحد کریگی صرف ایک انقلابی پارٹی ہی پاکستان اور خطے کے دیگر محنت کشوں کو متحد کرسکتا ہے ۔ قومی اور طبقاتی جبر کے خلاف آسکی قیادت کو ایک واضح انقلابی سوشلزم کے پروگرام دینا ہوگی۔ اس تحریک کو ایک انقلابی جدوجہد کی تحریک بنانے کےلیے لیفٹ اور پشتون تحفظ موومینٹ کے کارکنوں کو یہ انقلابی پروگرام پاکستان کے کھونے کھونے تک لے جانا ہو گا۔ اس کام کو انجام دینے کے لیے ایمرجنسی بنیادوں پر گلی، علاقائی، صوبائی اور قومی سطح تک اپنی عبوری عوامی کمیٹیاں جمہوری انداز میں بنانا ہوگی۔ اسی طرح بتدریج یہی عوامی کونسلز اپنی علاقائی، صوبائی اور قومی سطح کے مرکزی کونسل تشکیل دے سکے گی۔ اور یہ عبوری کونسلز اپنے انقلابی نظریے کو پسے ہوئے طبقات تک لے جاسکتا ہے۔ تاکہ تحریک کو عوامی اور انقلابی قوت مل سکے۔ اور ریاستی حملوں کا دفاع بھی کرسکے۔ پھر یہی عبوری کمیٹیاں ایک رسمی انقلابی پارٹی کی تعمیر کی طرف بھی بڑھ سکے گا۔ بڑے پیمانے پر عوامی جڑت اور واضح انقلابی تحریک پاکستان کے ہر گلی، قصبے اور شہروں میں پھیل جائیگی ۔ مگر اس کام کو اگے بڑھانے کے لیے انقلابی نظریہ، جذبہ، توانائی اور فنڈز درکار ہوگی۔ تب جا کر ہم ایک مارکسسٹ لیننیسٹ طرز کی ایک انقلابی پارٹی مثلا پیپلز سوشلسٹ اسٹرگل پارٹی بنانے میں کامیاب ہوسکے گے۔ جو کہ موجودہ پاکستان پیپلز پارٹی کو تاریخی طور پر رد کرتے ہوئے ایک نئی متبادل فراہم کر سکے گا۔ عظیم انقلابی راہنما کامریڈ ٹراٹسکی نے کہا تھا کہ انسانی تاریخ کا بحران ایک انقلابی قیادت کے بحران میں سمٹ چکا ہے۔ اسی لیے پاکستان کے محنت کشوں کو اپنی انقلابی قیادت اور پارٹی مارکسزم اور سوشلزم کے نظریات پر تعمیر کرنا ہوگی۔ جس کا عالمگیریت اور بین الاقوامییت پر پتھر پر لکھییر کی طرح پختہ یقین ہو۔ورنہ یہ تحریک اگر صرف اور صرف پشتون قوم تک محدود رہتی ہے تو اس کے کاونٹر ھونے کے امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا۔ اور اسکے ردانقلابی قوتوں کے ہاتھوں ایک رجعت پسندی ،ایڈوینچریزم اور مفاد پرستی کے طرف امکانات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اگر ریاست پشتون تحفظ موومینٹ کے عارضی مطالبات کو قبول کرتی ہے۔ تو کیا پشتون تحفظ موومینٹ کو یہ تحریک ختم کر لینا چاہیے ۔ اس کا فیصلہ خود اسکی قیادت اور تحریک ہی کر سکے گا۔ اگر یہ تحریک کاونٹر ہوتی ہے تو اسے کے تحریک اور انکی قیادت کے اوپر منفی اثرات مرتب ہونگے ۔ پشتون تحفظ موومینٹ کے پاس دو راستے ہیں ہے۔ ایک یہ کہ اس تحریک کو آگے کی سمت لیے جایا جائے یا پھر تحریک کاونٹر ہوجائیں۔ تیسرا راستہ کوئی بھی نہیں ہے۔ گرچہ اس تحریک کے اگے یا پیچھے ہٹنے کے علاوہ بھی انے والے دنوں میں پاکستان کے اندر بڑی انقلابی تحریکوں کو رد از امکان نہیں قرار دیا جا سکتا ہے ۔ یہ تحریک دہائیوں کے جمود اور سکوت کے خلاف ایک شروعات ہے۔ کیونکہ یہ دور عالمی سطح پر تیز رفتار اور اچانک تبدیلیوں کا دور یے۔ اگر پشتون تحفظ موومینٹ پیچھے ہٹتی ہے تو اس کے نسبتی منفی اثرات پاکستان کے مظلوم قومیتوں اور محنت کشوں پر پڑے گی ۔ مگر ختم نہیں ہوگی اور اگر اگے بڑھتی ہے تو اس کے پاس اس نظام اور ریاست کو جڑ سے اکھاڑنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں آئینی آور جمہوری مطالبات سے مسئلے حل نہیں ہوا کرتے۔اب بھی حکمران طبقات آئین اور جمہوریت کے تحت اس آپریشن کو وزیرستان میں جاری رکھے ہوئے ہے ۔ اس آئین اور جمہوریت میں وہ صلاحیت ہی نہیں کہ یہ محنت کشوں اور مظلوم قومیتوں کے مسائل حل کرسکیں یہ آئین اور سرمایہ دارانہ جمہوریت صرف مظلوموں کو دبانے کے لیے بنا یا گیا ہے ۔اسی آئین کے تحت حکمران مظلوموں اور غریب طبقات کا استحصال کرتے ہیں اور اپنی حکمرانی کو برقرار رکھتی ہے ۔ کامریڈ لینن نے کہا تھا کہ ایک طبقاتی معاشرے میں جمہوریت بھی طبقاتی ہوتی ہے جہاں حکمران طبقہ اس ریاستی مشینری کو پوری طاقت سے محنت کشوں اور مظلوموں پر استعمال کرتا ہے ایک خالص جمہوریت صرف ایک مزدور ریاست میں ہی بن سکتی ہیں عظیم انقلابی روزا لگسمبرگ نے کہا تھا کہ اس وقت انسانیت کے پاس دو راستے ہیں ۔ سوشلزم یا بربریت ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔