تتلی اور مکڑے کا جال
(یاداشتوں سے ایک اقتباس)
میں نے جارج برناڈ شا کے160ویں یوم پیدائش کی مناسبت سے 26 جولائی 2016 ء کو اس پر ایک ادبی نوٹ ” جنگی سالار ، جادوگرنی اور راہبہ“ کے نام سے لکھا تھا ۔ اس میں ، میں نے برناڈ شا کے علاوہ اس کے واحد المیہ ڈرامے ’ سینٹ جون‘ پر بات کی تھی ۔ ٹی ایس ایلیٹ کے مطابق برناڈ شا کا یہ ڈرامہ جون آف آرک کو روایتی اساطیری کردار سے مُکت کرتے ہوئے درمیانے طبقے کی ایک اصلاح پسند عورت کا روپ دھارن کرواتا ہے ۔ جب یہ ڈرامہ1957 ء میں دوسری بار فلمایا جانے لگا تو سکرپٹ رائٹر ’گراہم گرین‘ جہاں برناڈ شا کے اس ڈرامے کو فلمی نکتہ نظر سے ' ری ۔ سٹرکچر ' کر رہا تھا وہاں جون آف آرک کا کردار ادا کرنے کے لئے اِس برطانوی۔امریکی فلم کا آسٹرین نژادامریکی ہدایت کار ’ آٹو پرینگر‘ (Otto Preminger) اٹھارہ ہزار نئی اداکاراﺅں کا سکرین ٹیسٹ اور انٹرویو لے رہا تھا جس کے بعدایک نوعمر لڑکی نے اس کردار کے لئے منتخب ہونا تھا ۔
میں نے یہ فلم اپنے والد کے ہمراہ لاہور کے ریگل سنیما میں 1960ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں کسی اتوار کو میٹنی شو میں دیکھی تھی اورجب ہم گھر سے سائیکل پر یہ فلم دیکھنے جا رہے تھے تو انہوں نے مجھے جون آف آرک بارے میں یہ بتایا تھا کہ وہ فرانس میں تو مسیحوں کی سینٹ مانی جاتی تھی جبکہ برطانیہ میں اسے جادوگرنی کہا جاتا تھا ۔ انہوں نے مجھے جارج برناڈ شا کے بارے میں بھی یہ بتایا تھا کہ وہ شیکسپئیر کی طرح ایک بڑا ڈرامہ نگار تھا ۔ اس وقت میں شاید چوتھی جماعت کا طالب علم تھا ۔ میں اس وقت تک ان کے ساتھ’ سیمسن اینڈ ڈیلائیلہ‘ ، ’بن حر‘ ، ' ہنچ بیک آف ناٹراڈیم ' اور’ برج آن دی ریور قوائی‘ جیسی کئی فلمیں دیکھ چکا تھا ۔ انہی کی زبانی مجھے یہ معلوم ہو چکا تھا کہ ’ سیمسن اینڈ ڈیلائیلہ‘ اور ’بن حُر‘ انجیل کی کہانیاں ہیں اور دیگر دونوں فلمیں فرانسیسی ناولوں پر بنی تھیں ۔ وہ مجھے جو بھی انگریزی فلم دکھاتے تھے اس کے بارے میں مجھے کچھ نہ کچھ ضرور بتایا کرتے تھے ۔ ان انگریزی فلمیں دکھانے کے پیچھے ان کا مقصد میری انگریزی کی سمجھ بوجھ کو بڑھانا تھا ۔ میں انگریزی سیکھ پایا یا نہیں ، یہ الگ قصہ ہے لیکن ان فلموں کو دیکھنے سے مجھے انگلش فلموں میں کام کرنے والے اداکاروں اور اداکاراﺅں کے ناموں سے بھی آشنا کر دیا تھا ، بعد میں ان فلموں نے مجھے عالمی ادب کی طرف متوجہ کرنے میں بھی کافی اہم کردار ادا کیا تھا ۔
سستا زمانہ تھا ، تین روپے کی’ فرسٹ کلاس‘ جسے عرف عام میں ’ ون ایٹ ‘ کلاس کہا جاتا تھا ، میں دو ٹکٹیں ، ہاف ٹائم پر چپس کا ایک ایک پیکٹ یا بھنی ہوئی ’دال چنا ‘ کی ایک ایک پُڑیا اور چائے کا ایک ایک کپ ، پانچ روپے بھی خرچ نہ ہوتے تھے اور میرے والد کا میری انگریزی بہتر کرنے کا عمل پورا ہو جاتا تھا ۔ یہ اس زمانے کی’ آڈیو۔ وژیول ایڈ ‘ تھی جو مجھے ہفتے میں ایک بار میسر آتی تھی ۔
یہ وہ زمانہ تھا جب سلور سکرین کے حوالے سے برطانوی آرڈے ہیپبرن ، الزبتھ ٹیلر ، فرانسیسی برجی باردت ، امریکی ڈورس ڈے، مارلن منرو ، شرلے میکلین ، اطالوی صوفیہ لارین اور جینا لولو بریجیڈا بطور ادارکارائیں زیادہ مشہور تھیں ۔ ادھراداکاروں میں برطانوی ایلیکس گینیس ، جیمز میسن ، رچرڈ برٹن ،لارنس اولیویر، ڈیوڈ نیون ، امریکی مارلن برانڈو ، جیک لیمن ، کرک ڈگلس ، گریگری پیک ، کیری گرانٹ ، راک ہڈسن ، چارلٹن ہیسٹن ، ولیم ہولڈن ، وکٹر میچیور ، روسی نژاد امریکی یُل برائنر اور ہنگیرین نژاد امریکی ٹونی کرٹس شامل تھے ۔ جون آف آرک کون تھی ، شیکسپئیرکون تھا اور برناڈ شا ؟ اس وقت مجھے یہ سب جاننے میں کچھ خاص دلچسپی نہ تھی ۔ ان کی بات ختم ہوئی تو میں نے ان سے پوچھا تھا کہ اس فلم میں ہیرو اور ہیروئن کون ہیں ؟
میرے سوال کے جواب میں میرے والد نے جب یہ بتایا تھا کہ اس فلم کی کاسٹ نئی ہے تو میری دلچسپی فلم میں کچھ کم ہو گئی تھی ۔ سینما ہال میں پاکستان کا تصویری خبرنامہ طلعت حسین کی زبانی ، کارٹون اور آنے والی فلموں کے نمونے ختم ہونے پر جب فلم شروع ہوئی تو یہ جان کر کہ فلم سینما سکوپ اوررنگین نہیں ہے میرا دل اس فلم سے اور بھی اچاٹ ہو گیا تھا البتہ پہلے چند ہی مناظر دیکھ کر مجھے یہ بات سمجھ میں آ گئی تھی کہ وہ ساری اداکارائیں جن کا میں نے اوپر ذکر کیا جون آف آرک کے کردار کے لئے بوجوہ ’عمر‘ موزوں نہ تھیں ۔ جوں جوں فلم آگے بڑھی مجھے فلم دلچسپ لگنے لگی اور جون آف آرک کے بارے میں مزید جاننے کا شوق پیدا ہونے لگا ( اس وقت تو نہیں ، لیکن اب جبکہ میں نے اس فلم کو دوبارہ دیکھا ہے تو مجھے احساس ہوا کہ جون کا کردار ادا کرنے والی یہ نوعمر لڑکی اداکاری تو کر ہی نہیں رہی ، اس کی ہر حرکت ، اٹھنا ، بیٹھنا ، ہنسنا ، رونا اور مکالمے ادا کرنا سب ایسے ہی ہے جیسے ہم عام زندگی میں کرتے ہیں) ۔
میں ایک مشنری کیتھولک سکول ’ سینٹ فرانسس ہائی سکول ‘ میں پڑھتا تھا ۔ اگلے روز میں نے اپنی کلاس ٹیچر سے جون آف آرک کے بارے میں پوچھا تو اس نے مجھے جواب میں وہی بتایا جو میں اپنے والد سے سن چکا تھا ۔ وہ مجھے’ انگلش ورژن‘ بتا رہی تھی ۔ میں نے خاموشی سے ان کے منہ سے جادوگرنی والی کہانی سنی اور سر جھکا کر کتاب پر نظر جما لی تھی ۔
جون آف آرک کے بارے میں اور برناڈ شا کو تو میں نے بہت بعد میں پڑھا البتہ اس فلم میں جون کا کردار ادا کرنے والی اداکارہ کو میں نے ایک اور فلم میں چند برس بعد دوبارہ دیکھا ۔ یہ فلم ’ مومنٹ ٹو مومنٹ ‘ ( Monent to Moment ) تھی ۔ یہ ’ سینٹ جون‘ کے برعکس ایک شادی شدہ عورت کے ایکسٹرا میریٹل (Extra- marital ) معاشقے کی کہانی تھی اور جس میں ہیروئن کے ہاتھوں اپنے اس عاشق پر گولی چل جاتی ہے اور وہ اسے مرا جان کر اپنی ایک سہیلی کی مدد سے کھائی میں پھینک دیتی ہے۔ وہ ہلاک نہیں ہوا ہوتا اور ہیروئن کے خاوند ، جو ڈاکٹر ہوتا ہے، کے علاج سے نہ صرف صحت مند ہو جاتا ہے بلکہ اس کی یاداشت بھی بحال ہو جاتی ہے ، جو کھائی میں گرائے جانے اور دماغ پر چوٹ آنے کی وجہ سے جاتی رہتی ہے ۔ وہ کیسے زخمی ہوا تھا ، اس کا راز وہ فاش نہیں کرتا البتہ اس کا معالج یہ جان جاتا ہے کہ وہ اس کی بیوی کی گولی سے گھائل ہوا تھا ۔ جب فلم کے کریڈٹس چلے تو مجھے اس اداکارہ کا نام معلوم ہوا۔ یہ ’جین سیبرگ ‘ تھا ۔ ( اب جبکہ میں یہ سب لکھ رہا ہوں تو میں نے امریکی فلمی تاریخ کی ایک کتاب میں اس فلم کی تفصیلات دیکھیں تو معلوم ہوا کہ 1966 ء میں پہلی بار ریلیز ہوئی اس فلم کا سکرپٹ ’ ایلک کُوپل ‘کی کہانی ’ Laughs with a Stranger ‘ پر مبنی تھا اور اس فلم کا ہدایت کارامریکی’ مروِن لی رائے ‘ تھا جس نے پچھترفلمیں بنائی تھیں اور ان میں سے سات نے آسکر جیتے تھے اور یہ اس کی آخری فلم تھی گو اس نے 1968 ء کی فلم’ The Green Berets‘ میں بھی ’جان وین‘ اور’ رے کیلوگ‘ کی ہدایت کاری میں معاونت کی تھی لیکن اس نے اپنا نام اس فلم کے کریڈٹس میں شامل کرانے سے گریز کیا تھا کیونکہ وہ ویت نام کی جنگ اور اس میں امریکی مداخلت کا مخالف تھا ۔ یہ فلم مکمل طور پر ’ انٹی ۔کمیونسٹ ‘ بھی تھی ) ۔ مجھے یاد نہیں کہ یہ فلم کبھی پاکستان کے سینماﺅں میں دکھائی گئی تھی یا نہیں ، البتہ میں نے اسے ان فلموں کے ہمراہ، جن کا ذکر میں یہاں کر رہا ہوں، اس نوٹ کو لکھنے سے پہلے دیکھا ہے اور مجھے ہنسی آئی تھی کہ امریکی ’ کمیونزم ‘ سے کس قدر خوفزدہ تھے ، بلکہ اب بھی ہیں جبکہ نہ سوویت یونین رہا نہ مشرقی یورپ کا کمیونسٹ بلاک اور نہ ہی کمیونسٹ چین یا ویت نام ، اور یہ خوف اس حد تک بڑھا ہے کہ حالیہ صدارتی انتخابات میں انہوں نے امریکی سفید فام پروٹیسٹنٹس کے نمائندہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جِتوا کر امریکہ کو دائیں بازو کی ' الٹرا قوم پرستی ' کی گود میں دھکیل دیا ہے ۔
میں نے جین سیبرگ کی تیسری فلم ’ ائیرپورٹ ‘ 1970 ء کی دہائی کے اوائل میں دیکھی تھی ۔ 1970 ء میں پہلی بار ریلیز ہوئی اس فلم میں وہ برٹ لنکاسٹر اور ڈین مارٹن کے ساتھ کام کر رہی تھی ۔ یہ ایک بڑی کاسٹ کی فلم تھی جس میں جین سیبرگ باقی اداکاروں میں کچھ گم سی دکھائی دی تھی ( یہ فلم آرتھر ہیلے کے اسی نام کے ناول ، جو 1968 ء میں شائع ہوا تھا اور اس سال کا بیسٹ سیلر رہا تھا ، پر بنی تھی ) ۔ اس کے بعد جین سیبرگ کی کوئی فلم پاکستان کے سینماﺅں میں میری نظر سے نہ گزری ( اب میں اس کی دیگر اہم فلمیں بھی دیکھ چکا ہوں تو مجھے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس کے ساتھ امریکہ میں کیا بیتا تھا ) ۔ آئیے اس بارے میں کچھ جانتے ہیں ۔
جین سیبرگ 13 نومبر 1938 ء کو اپنی پشت پر سویڈش ، برطانوی و جرمن جد لادے آیووا کے ایک فارمسسٹ ایڈورڈ والدیمار سیبرگ اور استانی ڈورتھی آرلین کے ہاں پیدا ہوئی تھی ۔ اپنی بڑی بہن میری این ، اور بھائیوں کرٹ اور ڈیوڈ کے ساتھ پرورش پاتی جین جیسے ہی ہائی سکول سے فارغ ہوئی تو ہدایت کار ’ آٹو پرینگر‘ نے اسے ’ سینٹ جون ‘ کے لئے منتخب کر لیا یوں اس کی زندگی کا وہ باب شروع ہوا جو اس کے لئے اچھا بھی تھا اور بُرا بھی ۔
یہ امریکہ اور سوویت یونین کے درمیان سرد جنگ کا وہ زمانہ تھا جب ایک طرف امریکہ میں سینیٹر جوزف میکارتھی نے امریکی عوام میں سوویت یونین کا خوف پھیلا رکھا تھا اور اس سے جڑا ’ میکارتھی ازم ‘ اپنے عروج پر تھا اور نام نہاد سوویت ’ infiltration ' کے خلاف مہم میں فنون لطیفہ سے جڑے بہت سے لوگ بھی زد میں آئے ہوئے تھے تو دوسری طرف ایف بی آئی نے اپنا ’ COINTELPRO‘ (کاﺅنٹر انٹیلی جنس پروگرام ) پراجیکٹ بھی شروع کر رکھا تھا ۔ ایف بی آئی کا ہدف ایسے اشخاص اور گروپ تھے جو امریکی حکومت کے خیال میں subversive تھے ۔ ان میں ’ کالوں کی انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے والی تحریکیں جیسے مارٹن لوتھر کنگ جونئیر کی تحریک اور بلیک پینتھر پارٹی ، ویت نام جنگ مخالف تنظیمیں ، عورتوں کے حقوق کے لئے لڑنے والے گروپ ، نوآبادیاتی نظام کے خلاف آواز اٹھانے والے عوامی گروہ اور امریکہ میں پروان چڑھتا ’ بایاں بازو‘ شامل تھے ۔ اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر ’ جے ، ایڈگر ہُوور ‘ نے ایف بی آئی کے کارندوں کو اس حد تک اختیارات دے رکھے تھے کہ اگر ان ملک دشمنوں کے خلاف کاروائی کے دوران کسی کو ’ eliminate‘ بھی کرنا پڑے تو گریز نہیں کرنا چاہیے ۔
مارٹن لوتھر کنگ جونئیرکی جدوجہد کا آغاز 1955ء میں ’ منٹگمری ، البامہ بس بائیکاٹ ‘ سے ہو چکا تھا اور یہ تحریک دن بدن مضبوط سے مضبوط ہوتی جا رہی تھی جبکہ بلیک پینتھر پارٹی 1966ء میں قائم ہوئی تھی ۔ یاد رہے کہ مارٹن لوتھر کنگ جونئیر ٹالسٹائی کی طرح ’عدم تشدد‘ کا حامی تھا جبکہ بلیک پینتھر پارٹی کالوں کی قوم پرست اور سوشلسٹ جماعت تھی جو سیاہ فاموں کے لئے فلاحی کاموں کے علاوہ مسلح جدوجہد پر بھی یقین رکھتی تھی اور اس کا مرکزی ہدف امریکی پویس ہوا کرتی تھی جو افریقین امریکیوں کو اپنا نشانہ بناتی تھی ۔ نوبل امن انعام یافتہ ، عدم تشدد کا داعی اور ’ میرا اک خواب ہے ‘ کہنے والا مارٹن لوتھر کنگ جونئیر 4 اپریل 1968 ء کو قتل کر دیا گیا تھا جبکہ بلیک پینتھر پارٹی ایف بی آئی کے مختلف النوع ہتھکنڈوں کا اس بری طرح شکار ہوئی کہ 1980 ء میں اس کے صرف 27 ارکان باقی بچے تھے ۔ یہ پارٹی 1982 ء میں اپنے آپ میں ہی تحلیل ہو گئی تھی ۔
اس سماجی و سیاسی پس منظر میں جین سیبرگ فلم انڈسٹری سے جڑے دیگر کئی افراد کی طرح شخصی آزادی کی قائل ایک روشن خیال اداکارہ تھی اور’ میکارتھی ازم‘ و ایف بی آئی کے’ کاﺅنٹر انٹیلی جنس پروگرام‘ کی مخالف تھی ۔ وہ امریکہ کے اصل باشندوں اور افریقن امریکیوں کی اس جدوجہد کی حامی تھی جو وہ اپنے حقوق کے لئے کر رہے تھے ۔ جب سے بلیک پینتھر پارٹی وجود میں آئی تھی وہ اس کی ایک اہم ’ہمدرد‘ تھی اور اسے باقاعدہ طور پر چندہ دیتی تھی ۔ یہی وجہ تھی کہ اسے ہالی ووڈ کی فلموں میں اُس طرح کام ملنا بند ہو گیا تھا جس طرح ’ آٹو پرینگر‘ کے زمانے سے اسے ملتا آ رہا تھا ۔
فلم ’ائیرپورٹ‘ میں کام کرنے تک وہ اپنے پہلے فرانسیسی وکیل خاوند’ فرانکوئیس موریل‘ کو ’ گھریلو تشدد‘ کی بنا پر شادی کے دو سال بعد ہی 1960 ء میں چھوڑ چکی تھی اور خود سے 24 سال بڑے فرانسیسی ناول نگار اور فلمساز’رومین گیری ‘ کی بیوی اور اس کے بیٹے کی ماں بن چکی تھی ۔ 1958 ء ' میں فرانکوئیس موریل‘ سے شادی کے بعد سے وہ بنیادی طور پر فرانس میں ہی رہی تھی گو فلموں میں کام کرنے کی غرض سے وہ امریکہ آتی جاتی رہتی تھی ۔ اسی عرصے میں جب وہ فلم ’ ماچو کیلاہن ‘ کی شوٹنگ کے لئے میکسیکو میں تھی تو اس کا معاشقہ بائیں بازو کے ایک انقلابی طالب علم ’ نیوارا ‘ سے بھی چلا جس کے نتیجے میں حاملہ بھی ہوئی ۔ اِدھر رومین گیری اس حمل کو اپنا تخم قرار دیتا رہا اُدھر ایف بی آئی جین کے خلاف یہ منفی پروپیگنڈا کرتی رہی کہ یہ حمل بلیک پینتھر پارٹی کے ایک رکن سے جنسی تعلقات کی نتیجے میں ٹہرا تھا ۔ جب وقت سے پہلے پیدا ہونے والی بچی پیدائش کے دو دن بعد ہی فوت ہو گئی تو جین سیبرگ نے ’ نیوارا ‘ سے اپنے معاشقے اور اس سے ٹہرنے والے حمل کا اخباری نمائندوں کے سامنے اقرار کیا اور بچی کی تدفین کھلے بندوں کی تاکہ سب جان سکیں کہ وہ کسی سیاہ فام سے جنسی تعلق کے نتیجے میں پیدا نہیں ہوئی تھی ۔ انہی دنوں اس کا ایک اور معاشقہ کھڑا ہوا جو اداکار کلنٹ ایسٹ ووڈ کے ساتھ تھا ۔ یوں اس کی دوسری شادی بھی اختتام ہذیر ہو گئی ۔
ہالی ووڈ میں کام نہ ملنے پر اس نے یورپی سینما کے لئے زیادہ کام کرنا شروع کر دیا اور 1972 ء میں اس وقت کے ابھرتے ہدایت کار ’ ڈینس بیری‘ سے شادی کر لی ۔ ڈینس بھی اس سے عمر میں چھ سال بڑا تھا ۔ ان کی ازدواجی زندگی 1978 ء تک عمومی طور پر درست رہی اور وہ ڈینس کی فلموں میں بھی کام کرتی رہی لیکن اس سال کے اختتامی مہینوں میں ایک الجیرین احمد حسنی کے بہکاوے میں آ کر وہ ڈینس سے علیحدٰہ ہوئی اور احمد حسنی کے ساتھ سپین چلی گئی ۔ یہ شاید اس کی زندگی کی سب سے بڑی حماقت تھی ۔ اس نے حسنی کے کہنے پر اپنا ایک اپارٹمنٹ بھی بیچا تھا جس کے عوض ملنے والے دس لاکھ سے زائد فرانک حسنی کھا گیا ۔ اس نے جین کو جھانسا دیا تھا کہ وہ ان پیسوں سے بارسلونا میں ریستوراں کھولے گا ۔ حسنی نے پیسے ہتھیا کر اسے چھوڑ دیا اور وہ لٹی پٹی اکیلی پیرس واپس آئی ۔ احمد حسنی بھی اس کے پیچھے پیچھے پیرس آیا لیکن جین اس سے کنی کتراتی رہی ۔
30 اگست 1979 ء کی رات جین سیبرگ پیرس میں گم ہو گئی ۔ اس کی لاش نو دن بعد اس کے اپارٹمنٹ کے پاس ہی اسی کی گاڑی میں کمبل میں لپٹی ہوئی ملی ۔ کار میں’ باربیچوریٹ‘ نامی گولیوں کی شیشی ، منرل واٹرکی ایک خالی بوتل اور بیٹے کے نام ایک رقعہ بھی پڑا ہواتھا ۔ رقعے میں لکھا تھا ؛
” مجھے معاف کر دینا، میرے اعصاب اب جواب دے چکے ہیں ۔“
اس نے بیس سال سے زائد اپنے فلمی کیرئیر میں لگ بھگ چالیس فلموں میں کام کیا تھا جن میں آدھی ہالی ووڈ اور انگریزی سے ہٹ کر دیگر یورپی زبانوں میں ہیں ۔ فلم ’ Lilith,1964 ‘ میں غالباً اس کا ادا کیا پاگل عورت کا کردار سب فلموں میں اس کی پرفارمنس پر بھاری ہے ۔ یاد رہے کہ اس فلم کا پروڈیوسر، ہدایت کار اور سکرپٹ رائٹر ’رابرٹ روزن ‘ بھی میکارتھی ازم کا شکار رہا تھا اور اسے ’HUAC‘ ( ہاﺅس اَن ۔ امریکن ایکٹویٹز کمیٹی ) نے 1951ء میں ہالی ووڈ سے بلیک لسٹ کر دیا تھا ۔ وہ 1937ء سے 1947ء تک کمیونسٹ پارٹی آف امریکہ کا رکن رہا تھا ۔ یہ فلم ’جیک رچرڈ سلمانکا ‘ کے اسی نام کے ناول پر بنائی گئی تھی ۔ جین کی وہ تمام فلمیں جو اپنے زمانے میں فلاپ ٹہریں تھیں آج اہم گردانی جاتی ہیں ۔ اس کی فرانسیسی فلم ’ À bout de souffle‘ (Breathless) جو 1960ء میں بنی تھی اُن پہلی فلموں میں سے ایک گردانی جاتی ہے جس نے فرانسیسی سینما میں ’ نئی لہر‘ کو جنم دیا تھا ۔
جین کے دوسرے سابقہ خاوند ’ رومین گیری ‘ نے اس کی موت کی خبر سن کر ایک پریس کانفرنس میں ایف بی آئی کو اس کی موت کا ذمہ دار ٹہرایا جس کے منفی پروپیگنڈے کی وجہ سے جین نفسیاتی مریضہ بنی تھی اور اس میں خودکشی کے رجحانات پیدا ہوئے تھے ۔ احمد حسنی نے بھی جین کے بارے میں کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا تھا ۔
پیرس کی پولیس نے پہلے تو اس کی موت کو ’ آتما ہتھیا ‘ قرار دیا لیکن نو ماہ تک تفتیش بھی جاری رکھی بالآخر جون 1980 ء میں اس نے ’ نامعلوم افراد‘ کے خلاف پرچہ کاٹا ۔ وہ اس نتیجے پر پہنچی تھی کہ خودکشی کرنے والا خود کو کمبل میں لپیٹ کر کار میں نہیں رکھ سکتا ، جین کی موت کے وقت اس کے پاس ایک یا ایک سے زیادہ افراد موجود رہے ہوں گے ۔
2 دسمبر 1980 ء کو ’ رومین گیری ‘ نے خود کو گولی مار کرآتما ہتھیا کر لی لیکن اس نے اپنے پیچھے چھوڑے رقعے میں یہ لکھا تھا کہ اس کی ’آپ ہتھیا ‘کا تعلق جین سیبرگ کی موت سے نہیں ہے ۔
جین کی موت کا معمہ تا حال حل نہیں ہو سکا ہے ویسے ہی جیسے دنیا میں بیشتر ’ ہائی پروفائل‘ اموات کی پر اسراریت قائم ہے ۔
سیبرگ کی موت کے بعد ایف بی آئی کی طرف سے جو دستاویزات منظر عام پر لائی گئیں ان سے صاف واضع ہوتا تھا کہ امریکہ کی یہ خفیہ ایجنسی جین سیبرگ کی شہرت کو نقصان پہنچانے میں ملوث تھی اور اس نے ایسے اقدامات کئے تھے کہ اسے ہالی ووڈ ، امریکی ٹی وی اور سٹیج پر کام نہ مل سکے ۔ اس نے تو جین کے بار ے میں یہ تک کہا تھا ؛
”۔ ۔ ۔ the alleged promiscuous and 'sex-perverted white actress' ۔ ۔ ۔ “
’ آٹو پرینگر‘ کی ’ سینٹ جون ‘ کی ہیروئن نے اِس فلم کی پذیرائی نہ ہونے پر ایک بار کہا تھا ؛
”۔ ۔ ۔ میرے ذہن میں ’ سینٹ جون‘ کی دو یادیں ہیں ؛ ایک ، جب میں فلم میں نذر آتش کی گئی تھی اور دوسرے جب نقادوں نے مجھے الفاظ کے انگاروں سے داغا تھا ۔ ۔ ۔ “ یاد رہے کہ اس پر تنقید کرنے والوں نے اسے ’ Pygmalion Experiment ‘ قرار دیا تھا ۔
جین سیبرگ نہ تو سینٹ جون بن کر آگ میں جلی تھی اور نہ ہی نقادوں کے الفاظ اس کا کچھ بگاڑ سکے تھے ۔ اس کو تو ایف بی آئی کی اس دروغ گوئی نے زندہ درگور کیا تھا جو 1960 کی دہائی کے اولین سالوں سے ہی سال ہا سال اس کی کردار کشی کرتی رہی تھی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ڈرامہ’ Pygmalion‘ = جارج برناڈ شا کا 1913 ء کا ایک ڈرامہ ہے جو صوتیات کے ایک ماہر ’ ہنری ہیگنز‘ اور پھول بیچنے والی ایک غریب اور cockeny انگریزی بولنے والی لڑکی ’ الیزا ڈولٹل ‘ کے گرد بُنا گیا ہے ۔ جارج برناڈ شا نے اس ڈرامے کا نام ایک یونانی اساطیری کردار سے لیا تھا ۔
**اس نوٹ کاعنوان جین سیبرگ کی فلم ’ Lilith,1964 ‘ کے ٹائیٹل سٹلز (Title Stills) سے ماخوذ ہے ۔
https://www.facebook.com/qaisar.khawar/posts/10153809744611895