خوبرو ’ استیبان ' ( 1968 , El ahogado más hermoso del mundo )
( The Handsomest Drowned Man in the World , 1972 )
گیبرئیل گارشیا مارکوئیز
اردو قالب؛ قیصر نذیر خاورؔ
سمندرسے آتے ہوئے اس کالے اور متحرک ابھار کو ، جب بچوں ، نے دیکھا تو پہلے وہ یہ سمجھے کہ یہ دشمن کا بحری جہاز ہے ۔ پھر جب انہیں اس پر کسی قسم کے جھنڈے اور بادبانی ستون نظر نہ آئے تو انہوں نے اسے وہیل مچھلی جانا ۔ لیکن جب وہ ساحل پر پہنچا اور انہوں نے اس سے سمندری جھاڑ جھنکار کو الگ کیا ، ’جیلی‘ مچھلیوں کے ریشوں کے شکنجے توڑے ، مری ہوئی مچھلیوں کے ڈھانچوں اور سمندر میں بہنے والے کاٹھ کباڑسے آزاد کیا ، تب انہوں نے دیکھا کہ وہ تو فقط ایک ڈوبا ہوا آدمی تھا ۔
وہ ساری دوپہر اس سے کھیلتے رہے ، کبھی اسے ریت میں دباتے اور کبھی پھر سے باہر نکال لیتے ۔ ایسے میں ہی کسی نے انہیں دیکھ لیا اور گاﺅں والوں میں اس کی اطلاع عام کر دی ۔ جو آدمی اسے اٹھا کر سب سے نزدیکی مکان میں لے کر گئے ، انہوں نے محسوس کیا کہ اس کا وزن ایک مرے ہوئے آدمی سے کہیں زیادہ تھا ؛ لگ بھگ ایک گھوڑے کے برابر، اور وہ ایک دوسرے کو کہتے رہے کہ شاید وہ بہت دیر تک سمندر میں تیرتا رہا تھا جس کی وجہ سے اس کی ہڈیوں میں پانی گھس گیا تھا ۔ جب انہوں نے اسے فرش پر لٹایا تو وہ پھر بولے کہ وہ عام آدمیوں سے کہیں زیادہ لمبا تھا کیونکہ مکان کا یہ کمرہ اس کے لئے ناکافی تھا ۔ اس پر انہوں نے سوچا کہ شاید کچھ ڈوبے ہوئے بندوں میں یہ خاصیت ہو کہ مرنے کے بعد بھی نشو و نما جاری رکھتے ہوں ۔ اس سے سمندری بو آ رہی تھی اور اس کی ہیت ہی اندازہ دے رہی تھی کہ یہ کسی انسان کا جسم ہے ورنہ اس کی جلد کیچڑ کی پرتوں سے ڈھکی ہوئی تھی جو سوکھ کر پپڑیاں بن چکی تھیں ۔
انہوں نے پہچان کے لئے اس کا چہرہ بھی صاف نہ کیا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ مرا ہوا بندہ اجنبی تھا ۔ یہ گاﺅں لگ بھگ بیس لکڑی کے مکانوں پر مشتمل تھا جن کے پتھریلے صحنوں میں کوئی پھول نہ تھے ۔ یہ اس ریگستانی خشکی کے اس حصے میں موجود تھے جو سمندر میں اندر تک گیا ہوا تھا ۔ یہ خشکی کی اتنی پتلی پٹی تھی کہ ماﺅں کو ہمیشہ ڈر رہتا تھا کہ ہوا ان کے بچوں اڑا نہ لے جائے اور سمندر میں پھینک نہ دے ۔ گزشتہ سالوں میں ان میں سے جن کی اموات ہوئی تھیں انہیں چٹان سے گرانا پڑا تھا ۔ لیکن اس وقت سمندر پر سکون تھا اور سارے آدمی سات کشتیوں میں باآسانی سوار ہو جاتے تھے چنانچہ جب انہیں ڈوبا ہوا بندہ ملا تو ان سب نے ایک دوسرے کو دیکھ کر تسلی کر لی تھی کہ وہ سب وہاں موجود تھے ۔
انہیں گاﺅں میں اتنا بڑا بستر نہیں مل رہا تھا جس پر اسے لٹایا جا سکے اور نہ ہی کوئی ایسی مضبوط میز تھی جو اس کا وزن سہار سکتی ۔ گاﺅں کے سب سے لمبے آدمی کی پتلون بھی اس کے لئے چھوٹی تھی اور موٹے ترین بندے کی اتوار کو پہننے والی قمیض بھی اسے پوری نہ آ سکتی تھی ، یہی حال سب سے بڑے پیروں والے کے جوتوں کا تھا ۔ اس کے غیر معمولی جثے اور خوبصورتی کو دیکھتے ہوئے عورتوں نے آپس میں فیصلہ کیا کہ بادبانی کپڑے سے اس کے لئے پتلون اور ’برابنٹ ‘ کے کسی عروسی نفیس کپڑے سے قمیض بنائی جائے تاکہ وہ اپنی موت کے اس سفر کو شان اور وقار سے جاری رکھ سکے ۔ جب وہ دائرے میں بیٹھی اس کے لئے یہ سی رہیں تھیں اور ٹانکے لگاتے ہوئے وقتاً فوقتاً میت کو دیکھ بھی رہی تھیں توایسا لگتا تھا کہ ہوا اس سے پہلے کبھی اتنی سبک رفتار نہ تھی اور سمندر بھی ایسا پر سکون نہ تھا ۔ انہوں نے سوچا کہ اگر یہ بندہ ان کے گاﺅں میں رہتا ہوتا تو اس کے گھر کے دروازے سب سے زیادہ کشادہ ، چھتیں سب سے اونچی ، فرش مضبوط ترین اور اس کی مسہری کا ڈھانچہ بحری جہاز کے درمیانی حصے جیسے آہنی قبضوں سے کسے جال سے بنا ہوتا اور ۔ ۔ ۔ اور اس کی بیوی سب سے زیادہ مسرور عورت ہوتی ۔ انہوں نے یہ تصور بھی کیا کہ وہ اتنا بااختیار ہوتا کہ وہ نام لیتا اور اس نام کی مچھلیاں خود ہی اچھل کر سمندر سے باہر آ جاتیں اور وہ اپنی زمین پر اتنا کام کرتا کہ چٹانوں میں سے چشمے پھوٹ پڑتے جس سے وہ چٹانوں پر پھول اگاتا ۔ انہوں نے چپکے چپکے اس کا مقابلہ اپنے اپنے آدمیوں سے کیا اور سوچا کہ وہ جو کام ساری زندگی نہ کر سکے وہ یہ اکیلا ایک رات میں کر لیتا ۔ ان کی ساری سوچوں کا اختتام اس بات پر ہوا کہ ان کے اپنے مرد ان کے دلوں میں دنیا کے کمزور ترین ، بیہودہ ترین اور بیکار مخلوق تھے ۔ جب وہ اپنے تصورات کی بھول بھلیوں میں غلطاں تھیں تو ان میں سے عمر رسیدہ ترین عورت نے جب جذبات کی بجائے رحم دلی سے ڈوب کر مرے آدمی کی طرف دیکھ کر آہ بھرتے ہوئے کہا؛
” اس کا چہرہ تو ایسا ہے جیسے یہ ’ استیبان ‘ ہو ۔
یہ کچھ غلط بھی نہ تھا ۔ ان میں سے کئی ایک کو اس پر صرف ایک نظر اور ڈالنی تھی کہ واقعی اس کا نام ’ استیبان‘ کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ نہیں ۔ ان میں سے وہ ، جو سب سے کم عمر تھیں کچھ زیادہ ہی ڈھیٹ تھیں اور وہ اپنے مغالطوں میں کچھ دیر اور رہنا چاہتی تھیں کہ جب وہ اسے کپڑے پہنائیں گی اور وہ پھولوں کے درمیان اصلی چمڑے کے جوتے پہنے لیٹا ہوگا تو کیا معلوم اس کا نام’ لاﺅتارو‘ ہو ۔ لیکن یہ ایک خام خیالی تھی ۔ کینوس کا کپڑا ناکافی تھا ، اس کی کٹائی و سلائی بھی ناقص تھی لہذٰا سلی پتلون بہت زیادہ تنگ تھی اور اس کی قمیض بھی کچھ ایسی ہی تھی کہ اس کے دل کی خفیہ طاقت کی وجہ سے اس کے بٹن ابلے پڑ رہے تھے ۔ نصف شب کے بعد ہوا کی گونج ختم ہو گئی اور سمندر بھی اپنی ’ بدھ ‘ والی غنودگی میں غرق ہو گیا ۔ اس خاموشی نے شبے کی آخری گنجائش کو بھی ختم کر دیا تھا ؛
وہ واقعی’ استیبان‘ تھا ۔
وہ عورتیں ، جنہوں نے اسے کپڑے پہنائے تھے ، اس کے بالوں کو سنوارا تھا ، اس کے ناخن تراشے تھے اور اس کی داڑھی مونڈھی تھی ، اس وقت اپنے جسموں میں کپکپی کو نہ روک پائیں جب اسے زمین پر الٹایا پلٹایا اور گھسیٹا جا رہا تھا ۔ تب ہی انہیں یہ بھی سمجھ میں آیا تھا کہ وہ اپنے جسیم جثے پر کتنا ناخوش ہو گا جو موت کے بعد بھی اسے تنگ کر رہا تھا ۔ وہ اسے زندہ حالت میں دیکھ سکتی تھیں ، اپنا سر بالائی بالوں سے ٹکراتے ہوئے دروازوں سے مشکل کے ساتھ گزرتے ہوئے ، ملاقاتوں کے دوران ہمیشہ کھڑے رہتے ہوئے ، یہ نہ جانتے ہوئے کہ وہ اپنے نرم ، گلابی ’سگ ماہی‘ جیسے ہاتھوں سے کیا اشارہ کرے جب گھر کی مالکن اپنے گھر کی سب سے مضبوط کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس پر بیٹھنے کو کہے ؛
” استیبان ، یہاں بیٹھ جائیں ۔“ ، اور ساتھ ہی ساتھ ڈر بھی رہی ہو کہ وہ اس کے بوجھ سے ٹوٹ نہ جائے، اور وہ دیوار سے ٹیک لگائے مسکراتے ہوئے بس اتنا ہی کہہ پائے؛
” مادام ، آپ تردد نہ کریں ، میں یہیں ٹھیک ہوں ۔ “ ، کیونکہ اسے خود بھی معلوم تھا کہ کرسی اس کا وزن سہار نہ پائے گی لیکن اسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ سب بھی جو اسے یہ کہتیں تھیں کہ وہ اس وقت تک تو رکے جب تک کافی بن نہیں جاتی ، لیکن بعد میں سرگوشیاں کرتیں کہ بڑا گاﺅدی آخر چلا گیا ، اچھا ہوا ، خوش شکل احمق جا چکا تھا ۔ ایسا سب بھی عورتوں کے دماغ میں اس وقت آ رہا تھا ۔ جب صبح ہونے کو تھی تو انہوں نے اس کا چہرہ رومال سے ڈھانپ دیا تاکہ وہ روشنی سے تنگ نہ پڑے تو وہ ایسا لگنے لگا جیسے ازل سے مردہ ہو ، بے کس و بے اختیار، بالکل ان کے اپنے مردوں کی طرح ، یہ دیکھ کر ان کے دلوں میں آنسوﺅں کی ندیاں پھوٹ پڑیں ۔ جوان عورتوں میں سے ایک نے رونا شروع کر دیا ۔ دوسری خواتین نے بھی آہ و بکاہ شروع کر دی ۔ ان کی سسکیاں اور بین رونے میں بدل گئے کیونکہ ڈوبا ہوا آدمی ان کے لئے مزید ’ استیبان‘ بنتا جا رہا تھا ۔ وہ روتی چلیں گئیں جیسے ، بیچارے ’ استیبان‘ ، سے زیادہ حاجت مند ، پر امن اورخوش خلق مرد اس دنیا میں کوئی اور نہ ہو ۔ اور جب ان کے مرد نزدیکی بستیوں سے واپس لوٹے اور انہوں نے یہ خبر سنائی کہ ڈوبے آدمی کا تعلق ان بستیوں سے بھی نہ تھا تو عورتوں کو آہ و بکاہ کے دوران ایک خوشی کا احساس بھی ہوا ؛
” تعریف ہو ' اس ' کی“ ، انہوں نے آہ بھری ، ” وہ ہمارا ہے ۔ “
مردوں نے اس سب کوایک بیکار زنانہ مذاق گردانا ۔ وہ رات بھر پوچھ تاچھ کرتے کرتے تھک چکے تھے اور چاہتے تھے کہ اس سے پہلے کہ سورج اس خشک اور بِن ہوا والے دن کو مزید پُر تپش بنائے ، اس نئی ’ آمد ‘ سے جلد از جلد اور ہمیشہ کے لئے چھٹکارا حاصل کر لیا جائے ۔ انہوں نے بادبانی کپڑے کے ٹکڑوں اور مچھلیوں کا شکار کرنے والے برچھوں کو بادبانی رسوں سے باندھ کر ایک ایسی ڈولی تیار کی جو اس وقت تک لاش کا بوجھ اٹھا سکے جب تک وہ چٹان کی چوٹی تک نہ پہنچ جائیں ۔ وہ اس کے ساتھ ایک مال بردار جہاز کا لنگر بھی باندھنا چاہتے تھے تاکہ وہ آسانی کے ساتھ سمندر کی ان گہری لہروں میں چلا جائے جہاں مچھلیاں اندھی ہوتیں ہیں اور غوطہ خور ’ یاد ماضی ‘ سے مر جاتے ہیں اور یہ کہ بُری موجیں اسے واپس ساحل پر نہ لا پھینکیں ۔ لیکن وہ جتنی جلدی یہ سب کرنا چاہتے تھے ، عورتیں کچھ نہ کچھ ایسا راستہ نکال لیتیں کہ وقت مزید لگے ۔ وہ کڑکڑاتی مرغیوں کی طرح اپنے سینوں کو پھلائے ادھر ادھر گھوم رہی تھیں ۔ کچھ ڈوبے ہوئے بندے کے ایک شانے پر’ اچھی ہواﺅں‘ کا تعویذ رکھ رہی تھیں تو باقی کلائی قطب نما دوسرے پر رکھ رہی تھیں ۔
’ ارے ، وہاں سے ہٹو ، راستہ مت روکو ، دیکھو، تم نے تو مجھے میت پر گرا ہی ڈالا تھا ‘ ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور جب یہ سب کچھ زیادہ ہی ہو گیا تو مردوں نے اپنی عورتوں کو شک کی نظر سے دیکھنا اور بُڑبُڑانا شروع کر دیا کہ وہ کیوں ایک اجنبی کی میت کو ایک اہم قربانی کی طرح سجا رہی تھیں کیونکہ مقدس پانی کے چاہے جتنے مرضی مرتبان اس پر رکھ دئیے جاتے اور اسے ’ کیل کانٹوں‘ سے لیس کر دیا جاتا ، شارک مچھلیوں نے تو اسے چبا ہی ڈالنا تھا لیکن عورتیں تھیں کہ آگے پیچھے بھاگتی ، لڑکھڑاتی ، روتی اور ٹھنڈی آہیں بھرتیں اس پر اپنی نشانیوں کے ڈھیر لگائے جا رہی تھیں ۔ بالآخر مردوں سے نہ رہا گیا اور وہ پھٹ پڑے ؛
’۔ ۔ ۔ بھلا پہلے کبھی ایسا ہوا ہے کہ ایک بہہ کر آئی لاش پر اتنا ہنگامہ کھڑا کیا گیا ہو ، ایک ڈوبا بندہ جس کا کوئی اتہ پتہ نہیں ، بدھ کے روز کے ٹھنڈے گوشت کا ٹکڑا ۔ ۔ ۔ ‘ مردوں کی اس لاپرواہی اور نفس کُشی پر عورتوں میں سے ایک نے مرے بندے کے چہرے سے رومال ہٹا دیا ۔ اس کا چہرہ دیکھ کر مردوں کا سانس بھی رک سا گیا ۔
وہ استیبان تھا ۔ یہ ضروری نہ تھا کہ اس بات کو دہرایا جاتا کہ وہ اسے پہچان لیتے ۔ اگر انہیں یہ بھی کہہ دیا جاتا کہ وہ ’ سر والٹر ریلے‘ تھا ۔ وہ بھلے اس کے ’ گرینگو ‘ لہجے ، اس کے کندھے پر میکاﺅ طوطے ، اس کے قتلامِ آدم خوروں کے اور اس کی بڑے منہ والی بندوق سے متاثر بھی ہوتے لیکن دنیا میں تو بس ایک ہی ’ استیبان ‘ تھا جو وہاں بِنا جوتوں کے ، ایک بچے کی چھوٹی پتلون پہنے اور پتھریلے ناخنوں ، جنہیں چاقو سے تراشنا پڑا تھا ، کے ساتھ بڑے دانتوں والی وہیل کی طرح پڑا تھا ۔ منہ سے رومال اٹھانے کی دیر تھی کہ یہ دیکھا جا سکتا تھا کہ وہ شرمندہ تھا ، باوجود اس کے ، کہ یہ اس کو قصور نہ تھا کہ وہ اتنا جسیم ، وزنی اور خوش شکل کیوں تھا ۔ اور اگر اسے یہ معلوم ہوتا کہ اس کے ساتھ وہاں یہ سلوک ہونا تھا تو وہ ڈوبنے کے لئے زیادہ بہتر جگہ تلاش کرتا ، سنجیدگی سے ، کسی ہسپانوی جنگجو جہاز کے لنگر کو اپنی گردن کے گرد باندھتا اور خود کو ، ایک ایسے بندے ، جو اشیاء میں ترتیب نہ چاہتا ہو ، کی طرح چٹان سے نیچے پھینک دیتا تاکہ ان لوگوں کو، بدھ کے روز اس کا کریا کرم کرنے لئے پریشان نہ ہونا پڑتا جن کے لئے وہ فقط ٹھنڈے گوشت کا ایک غلیظ ٹکڑا تھا اور جن سے اس کا کوئی تعلق واسطہ بھی نہ تھا ۔ اس کے انداز میں اتنی سچائی تھی کہ سب سے زیادہ بد گمان مردوں ، جنہوں نے سمندر میں کئی ختم نہ ہونے والی راتوں کی تلخی جھیلی تھی ، بھی یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ ان کی عورتیں ان کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیں گی اور اس ڈوب کر مرے بندے کے خواب دیکھنا شروع کر دیں گی ۔ یہ سوچ اور استیبان کے چہرے پر اخلاص کو دیکھ کر وہ اور دیگر سخت دل بھی اپنی ہڈیوں کے گودے میں کپکپی محسوس کرنے لگے ۔
تب ایسا ہوا کہ انہوں نے ایک متروکہ ڈوبے ہوئے بندے کے ایسے شاندار، جہاں تک ان کی عقل کام کر سکتی تھی ، کریاکرم کا بندوبست کیا ۔ کچھ عورتیں جو دوسرے دیہاتوں میں پھول لینے گئی تھیں وہاں کی عورتوں کے ہمراہ لوٹیں ، جنہیں اس پر یقین نہیں آ رہا تھا جو انہیں بتایا گیا تھا ۔ مرے بندے کو دیکھ کر یہ عورتیں واپس گئیں اور اپنے ہمراہ مزید پھول لائیں ۔ لوگ وہاں آتے رہے اور اپنے ہمراہ پھول لاتے رہے، یہاں تک کہ وہاں اتنے پھول اور لوگ جمع ہو گئے کہ تل رکھنے کو جگہ نہ بچی ۔ آخری لمحات میں انہیں اس بات سے بھی تکلیف ہوئی کہ اسے لاوارث پانیوں میں دھکیل دیا جائے ۔ انہوں نے وہاں پرموجود بہترین لوگوں میں سے اس کے لئے خالاﺅں ، چچاﺅں ماموﺅں کے علاوہ ممیرے اور چچیرے بھی چنے اور سب سے اہم کو اس کے والدین بھی بنایا ۔ یوں اس گاﺅں کے سارے باسی اس کے وارث ٹہرے ۔ کئی ملاح ، جنہوں نے فاصلے سے رونے کی آوازیں سنیں تھیں ، اپنے راستوں سے بھٹک گئے اور ان میں سے ایک ، جو مرکزی بادبان پر چپکا کھڑا تھا ، کو ان دیومالائی حکایات کی یاد آنے لگی جن میں ایسی خطرناک مخلوق کا ذکر تھا جو ملاحوں کو لبھاتی تھی اور وہ لوبھ میں آ کر اپنے جہاز چٹانوں سے پاش پاش کروا بیٹھتے تھے ۔ اور جب وہ استیبان کی میت کو اپنے کندھوں پراٹھانے کی سعادت حاصل کرنے کی کوشش میں ایک دوسرے سے لڑتے چٹان کے ڈھلوانی راستے پر جا رہے تھے تو مردوں اور عورتوں کو پہلی بار اپنی تباہ حال گلیوں ، اپنے اجڑے صحنوں اور ڈوبے بندے کی خوبصورتی و درخشانی کے مقابلے میں اپنے خوابوں کی تنگ نظری کا بھی ادراک ہوا ۔ انہوں نے اسے بِنا لنگر جانے دیا تاکہ وہ ، اگر، چاہے اور جب چاہے واپس آ سکے۔ ۔ ۔ اور جب وہ اسے پاتال کے حوالے کر رہے تھے تو انہوں نے اپنی سانسیں روک لیں جیسے وقت صدیوں کے ایک جزو کی طرح رک گیا ہو ۔ انہوں نے ایک دوسرے کو دیکھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ تسلی کریں کہ وہ سب وہاں موجود تھے کیونکہ انہوں نے جان لیا تھا کہ وہ کبھی بھی سب یکساں ساتھ نہیں رہ سکتے تھے ۔ اور وہ یہ بھی جان گئے تھے کہ چیزیں اب ویسی نہ رہ پائیں گی جیسی وہ پہلے تھیں ؛ ان کے گھروں کے دروازے کشادہ ہوں گے ، چھتیں اونچی اور فرش مضبوط ہوں گے تاکہ استیبان کی یاد شہتیروں سے ٹکرائے بغیر ہر جگہ آسانی سے جا سکے اور یہ بھی کہ مستقبل میں کوئی بھی یہ سرگوشی نہ کر سکے کہ ’ بڑا ‘ احمق بالآخر مر گیا ، بہت برا ہوا کہ خوش شکل بیوقوف آخر مر گیا ۔ اب وہ اپنے گھروں کے ماتھے بھڑکیلے رنگوں سے رنگنے جا رہے تھے تاکہ استیبان کی یاد کو لافانی بنا سکیں ، وہ اپنی کمریں دوہری کرکے پتھروں کو توڑنے جا رہے تھے کہ ان میں سے چشمے پھوٹیں اور وہ چٹانوں پر پھول اگا سکیں ۔ اور جب مستقبل میں صبح کے وقت بڑے بحری جہاز ان کے گاﺅں کے پاس سے گزریں تو مسافرسمندر کی فضاﺅں میں پھیلی ان کے باغوں کی مہک سے جاگ جائیں اور کپتان اپنے یونیفارم میں ملبوس ، سینے پر جنگوں میں حاصل کئے تمغے سجائے ، اپنا ’ اصطرلاب ‘ لئے قطبی ستارے کو دیکھتا عرشے پر آئے اور افق پر نظر آتی سمندر میں اندر تک گئی اور گلابوں سے لدی اس ' راسِ زمین ' کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ، چودہ زبانوں میں کہے؛ ” ادھر دیکھو ، جہاں ہوا اب ایسی پرسکون ہے جیسے چٹانوں کی تہہوں میں سو رہی ہو ، ادھر دیکھو ، جہاں سورج اتنا چمکیلا ہے اور اس کی روشنی چاروں اور پھیلی ہوئی ہے کہ سورج مکھی کے پھولوں کو بھی سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ اپنا رخ کس طرف کریں ، ہاں ، ادھر دیکھو، وہ استیبان کا گاﺅں ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
’ سر والٹر ریلے‘ = Sir Walter Raleigh انگریز جاگیردار ، شاعر و ادیب ، اور مہم جُو ( 1554ء تا 1618ء ) جس نےجنوبی امریکہ میں ' El Dorado ' ( سونے کا شہر ) کھوجنے کے لئے دو مہمات سر انجام دی تھیں ۔
’ اصطرلاب ‘ = Astrolabe ، ايک آلہ جسے کبھی سورج اور ستاروں کا سمندر سے ارتفاع معلوم کرنے کے ليے استعمال کيا جاتا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔