۵ ۔ ڈھلوانی چٹان ( Suberi iwa, 1925 )
( The Sliding Rock )
کاواباتا یاسوناری، اردو قالب؛ قیصر نذیر خاورؔ
۔ ۔ ۔ ۔ جب اردو میں شارٹ سٹوری ( افسانہ ) ابھی پائوں پائوں چلنے کی کوشش میں تھی ، دیگر زبانوں میں فلیش فکشن / ویری شارٹ سٹوری / ’ Tanagokoro No Shôsetsu‘ ( افسانچہ / بالشتی کہانی ) لکھی جا رہی تھی اور ان میں ’ پلاٹ ‘ اور ’ سٹوری لائن ‘ کا بیانیہ کم کم جب کہ ان لمحاتی تجربات و کیفیات ، جو زندگی پرر واضع طور پر اثر انداز ہوتی ہیں ، کا بیان زیادہ سامنے آنے لگا تھا ۔ اردو میں یہ رجحان تو ' بٹوارے ' کے بعد ہی پچھلی صدی کے وسط میں ہی سامنے آ پایا تھا وہ بھی واضع طور پر منٹو کے ' سیاہ حاشیے ' کی شکل میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس پہاڑی گرم چشمے پر اپنی بیوی اور بچے کے ساتھ آیا تھا ۔ یہ ایک مشہور گرم چشمہ تھا ، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ ’ زرخیزی‘ میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ۔ اس کا پانی غیر معمولی طور پر گرم تھا اور کوئی شک نہ تھا کہ یہ عورتوں کے لئے مفید تھا ۔ اس کے علاوہ یہ بھی مانا جاتا کہ اس کے پاس کی چٹان اور چیڑ کا درخت بھی اس چشمے میں نہانے والوں کو بچے عطا کرنے میں معاون تھے ۔
جب نائی ، جس کا چہرہ ’ سیک لیز ‘ میں دیر تک رکھے اچاری کھیرے کی طرح کا تھا، اس کی حجامت کررہا تھا تو اس نے چیڑ کے درخت کے بارے میں پوچھا ۔ ( یہ کہانی بیان کرتے وقت مجھے عورت کے نام کے بارے میں احتیاط کرنے کی ضرورت ہے )
” جب میں بچہ تھا تو ہم اکثر عورتوں کو دیکھنے جایا کرتے تھے ۔ ہم صبح ہونے سے پہلے اٹھا کر تے تھے تاکہ ان عورتوں کو چیڑ سے لپٹتے ہوئے دیکھ سکیں ۔ وہ عورتیں جنہیں اولاد کی اِچھا ہوتی تھی ، پاگل ہو جایا کرتی تھیں ۔ “
” کیا وہ اب بھی ایسا کرتی ہیں ؟ “
” نہیں ، اب تو اس درخت کو کٹے دس سال ہو گئے ہیں ۔ خیر یہ ایک بہت بڑا اور شاندار درخت تھا ۔ انہوں نے اس کی لکڑی سے دو گھر تعمیر کئے تھے ۔ “
” ہوں ، لیکن اس کو کاٹا کس نے تھا ؟ جس بندے نے بھی اسے کاٹا ، وہ کوئی جی دار ہی ہو گا ۔ “
” اصل میں اسے بلدیہ کے دفتر کے حکم پر کاٹا گیا تھا ۔ خیر پرانے اچھے دن اب ہمیشہ کے لئے جا چکے ہیں ۔ “
شام کے کھانے سے پہلے وہ اور اس کی بیوی اس نام نہاد شاندار چشمے ، جس میں سب لوگ مل جل کر ہی نہاتے تھے ، میں خوب نہائے، جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ عورتوں کے لئے بہت کار آمد تھا ، چنانچہ سرکار کے لئے ایک جوہر سے کم نہ تھا ۔ نہانے والوں میں رائج طریقہ یہ تھا کہ پہلے وہ چشمے کے پانی سے سرائے کے اندر خود اچھی طرح صاف کرتے تھے اور پھر پتھریلی سیڑھیاں اتر کر چشمے کے حوض میں داخل ہوتے تھے ۔ اس کی تین اطراف میں ’ باتھ ٹب ‘ کی شکل کے تختوں سے باڑ بنی ہوئی تھی ۔ نیچے تہہ البتہ قدرتی چٹانوں کی تھی ۔ جس طرف باڑ نہیں تھی وہاں ’ باتھ ٹب ‘ کی بگڑی ہوئی شکل کا ایک چٹانی تودہ ایک ہاتھی کی طرح ایستادہ تھا ۔ چشمے کے گرم پانی سے گیلی ، اس کی چمکدار کالی سطح ہموار اور پھسلن والی تھی ۔ مشہور یہ تھا کہ اولاد کی خاطر اس چٹان سے پھسلتے ہوئے چشمے کے حوض میں اترنا ہوتا تھا اور اسے چٹان سے ' گھیسی ' کرنے کا نام دیا جاتا تھا ۔
وہ جب بھی اس پھسلن والی چٹان کو دیکھتا ، تو سوچتا ، ” یہ عفریت انسانیت کا مذاق اڑا رہی ہے ۔ وہ لوگ جو سوچتے ہیں کہ ان کے ہاں بچے لازمی ہونے چاہئیں اور جو یہ سوچتے ہیں اس چٹان سے پھسل کر وہ انہیں پا لیں گے ، اس گھٹیا چٹانی تودے کے ہاتھوں مذاق بن رہے ہیں ۔ “
وہ کالے اور دیوار جیسے چہرے والی چٹان کو دیکھ کر تلخی سے مسکرایا ۔
” اے چٹان اگر تم میری دقیانوسی بیوی کے دماغ پر سوار نہ ہو اور پھر اسے اس طریقے سے چشمے میں اترنے کے لئے کہو اور وہ اتر جائے تو مجھے حیرانی ہو گی ۔ “
گرم چشمے کے اس حصے میں جہاں شادی شدہ جوڑے اور ان کے بچے نہا رہے تھے ، اسے اپنی بیوی کچھ اجنبی سی لگی ۔ اسے یاد تھا کہ کئی بار تو وہ اسے بھول ہی گیا تھا ۔
ایک عورت جس کے بال جدید طرز میں ، صرف کانوں کو ڈھانپے ہوئے ، کٹے ہوئے تھے ، عریاں ، پتھر یلی سیڑھیوں پر اتری ، اس نے ہسپانوی سٹائل کی بالوں میں لگانے والی پِنیں اتاریں اور انہیں ایک طاق میں رکھا ۔
” واہ ، کیا دلکش جوان عورت ہے ۔ “ ، یہ کہتے ہوئے اس نے چشمے کے پانی میں غوطہ لگایا ۔ جب وہ پانی سے ابھری تو اس کے بال ایسا ’ پیونی ‘ کا بھول بن چکے تھے ، جس کی پتیاں جھڑ چکی تھیں اور صرف بقچہ گل باقی بچا تھا ۔
اسے اپنی بیوی کے علاوہ ایک اور عورت کو اپنے خاوند کے ہمراہ حوض میں دیکھ کربری طرح سے شرم محسوس ہوئی اور یہ سوچ کر اور بھی زیادہ کہ وہ ایک جوان عورت تھی ۔ اس نے اسے اپنی بیوی کا موازنہ اس جوان عورت سے کرنے پر مجبور کر دیا ، اس پر اسے خود سے نفرت محسوس ہوئی اور وہ احساسات سے عاری ندی میں ڈوب گیا ۔
” مجھے اس چیڑ کے درخت کو خود کاٹنا اور اس سے اپنے لئے گھر بنانا چاہیے تھا ۔ میری یہ بیوی اوریہ میرا بچہ ۔ ۔ ۔ ساری توہم پرستی کی نفی کے لئے یہ الفاظ کافی نہیں ہیں کیا ؟
پانی کی حدت سے لال ہوئی اس کی بیوی اس کے برابر ، آسودگی سے آنکھیں بند کئے موجود تھی ۔
زرد روشنی چشمے پر لہرائی ۔ بھاپ سفید دھند بن کر اوپر ابھری ۔
” اے بچے ! بتیاں جل اٹھیں ہیں ، اندر کتنے لوگ ہیں ؟ “
” دو “
” دو ، ہونہہ ، ایک اوپر اور ایک تہہ میں ، اے بچے ، یہ روشنی بہت تیز ہے ۔ میں نیچے تہہ میں جا رہی ہوں ، یہ خاصی تیز ہے ۔“
کانوں تک کے بالوں والی عورت نے اپنی بیٹی کی طرف آنکھیں جھپکا کر دیکھا ۔
” بچی تم کتنی چالاک ہو ! “
اس رات اس نے اپنی بیوی اور بچے کو سونے کے بھیج دیا اور خود بیٹھ کر خط لکھنے لگا ، اس نے دس یا اتنی ہی تعداد میں یہ لکھے ۔
چشمے کی سرائے کے ’ ڈریسنگ روم ‘ میں وہ فرش پر حیران کھڑا تھا ۔ اسے ایسا لگا جیسے ایک سفید مینڈکی پھسلن والی چٹان کے ساتھ چمٹی ہوئی تھی ۔ اس کا چہرہ نیچے کی طرف تھا اور اس نے بازو پھیلا رکھے تھے ۔ اس نے اپنے پیروں کا زور لگایا اور چٹان پر نیچے کی طرف رینگنے لگی ۔ چشمے کی سطح پر زرد مسکراہٹ پھیلی ۔ وہ چٹان پر واپس اوپر گئی اور اس سے چپک گئی ۔ یہ تو وہ عورت تھی ؛ کانوں تک بالوں والی عور ت جو سفید تولیے میں لپٹی ہوئی تھی ، جسے اس نے اس شام چشمے پر دیکھا تھا ۔
اپنے کمربند کو ہاتھ میں تھامے وہ سیڑھیاں پھلاگنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ دیر رات میں خاموش اور خزاں کی طرح اجاڑ سیڑھیاں ۔
” یہ عورت آج رات میرے بچے کو مارنے آ رہی ہے ۔ “
اس کی بیوی سو رہی تھی ، اس کے بال تکیے پر پھیلے ہوئے تھے اور اس کے بازو بچے کے گرد لپٹے ہوئے تھے ۔
” اوہ ، چٹان اور ایک ایسی عورت جو خود توہم پرستی کا شکار تھی مجھے اس حد تک خوفزدہ کر سکتی تھی ۔ شاید یہ میری اپنی توہم پرستی تھی ۔ ۔ ۔ کہ یہ میری بیوی ہے اور یہ میرا بچہ ہے ۔ ۔ ۔ یہ جانے بنِا کہ یہ سینکڑوں بلکہ ہزاروں لوگوں کو خوف کا شکار کر رہی تھی ۔ کہیں ایسا تو نہیں ہے ، اے چٹان ؟ “
اسے اپنی بیوی پر نئے سرے سے شدت بھرا پیار آیا ، اس نے اسے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اٹھاتے ہوئے بولا ؛
” جانو ، جاگ جاﺅ ! “
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’ سیک لیز ‘ = ( Sake Lees ، ( Sake kasu ایک طرح کا جاپانی محلول جس میں اچار بنایا جاتا ہے ۔
بلدیہ = Prefect ، جاپانی مترادف
' گھیسی ' = Slide کرنا
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔