یک سِنگھے
چوتھا افسانہ ؛ جگنو
( Firefly , 1983 )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
اقتباسات
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ ۔ ۔ اصل میں ، کچھ پندرہ برس زیادہ پہلے کی بات ہے۔ ۔ ۔ ۔ میں ٹوکیو میں ، ایک نجی سطح پرقائم کی گئی ’مشترکہ رہائش گاہ ‘جو کالج کے طلباء کے لئے بنائی گئی تھی ، میں رہتا تھا ۔ میں تب فقط اٹھارہ برس کا تھا ، کالج کا نیا نیا طالب علم جسے شہر کا ، کچھ بھی علم نہ تھا ۔ میں پہلے کبھی اکیلا نہیں رہا تھا اور میرے والدین قدرتی طور پر اس بات پر متوحش تھے چنانچہ طلباء کی مشترکہ رہائش گاہ میں بھیجنا ہی ایک احسن حل نکلا تھا ۔ پیسوں کا بھی مسئلہ تھا اور ایسی ’مشترکہ رہائش گاہ‘ ہی سب سے سستی تھی ۔ میں نے عرصے سے اپنے ’ اپارٹمنٹ ‘ میں رہنے کا خواب دیکھا تھا ، کہ مزے کر سکوں لیکن کیا کیا جا سکتا تھا ؟ میرے والدین میرے کالج کا خرچہ اٹھا رہے تھے ۔ ۔ ۔ پڑھائی و دوسری فیسیں ، اور میرے لئے ایک ماہانہ وظیفہ ۔ ۔ ۔ چنانچہ ایسا ہی کچھ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس ’ مشترکہ رہائش گاہ ‘ کا صرف ایک مسئلہ تھا ( گو ہر کوئی اس سے متفق نہیں کہ یہ واقعی کوئی مسئلہ تھا ) کہ اسے چلاتا کون تھا ۔۔۔ ایک پراسرار فاﺅنڈیشن جس کا سربراہ ایک دائیں بازو کا جنونی تھا ۔اس رہائش گاہ کے کتابچہ پر ایک نظر ڈالتے ہی یہ بات وضاحت سے، سامنے آ جاتی تھی؛ اس رہائش گاہ کو بنانے کی اصل روح ” تعلیم کے مقاصد کا حصول اور ایسی ذہانت کا فروغ ہے جو ملک کے کام آ سکے “ اورلگتا تھا کہ بہت سے مالدار کاروباری حضرات ، جو اس فلسفے سے اتفاق کرتے ، اس کی مالی معاو نت کرکے مدد کرتے تھے ۔ کم از کم اس فاﺅنڈیشن کا اپنا موقف تو یہ تھا البتہ سطح کے نیچے کیا تھا ۔۔۔ یہ بہت سی باتیں تھیں جن پر قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں ۔ایک افواہ یہ تھی کہ یہ جگہ ٹیکس والوں کو دھوکہ دینے کے لئے بنائی گئی تھی یا کسی طرح کی زمین ہتھیانے والی فراڈ سکیم تھی۔ ان باتوں میں سے کسی ایک کا بھی اثر اس رہائش گاہ کے روزمرہ کے معمولات پر نہ تھا ۔عملی نظر سے دیکھا جائے تو ، میرا خیال ہے ، اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھاکہ اسے کون چلاتا تھا ۔۔۔ دائیں بازو کے لوگ ، بائیں بازو کے لوگ ، منافق یا پھر بدذات لوگ ۔کسی کو کیا ۔ اصل کہانی کیا تھی ، اس سے الگ ہو کر دیکھا جائے تو 1967 ء کے موسم بہار سے لے کر اگلے برس کے موسم خزاں تک یہی ’ مشترکہ رہائش گاہ ‘ میرا ٹھکانہ تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پرچم بلند کرنے کا کام مشرقی رہائش گاہ ، جس میں، میں بھی رہتا تھا ، کے سربراہ کے ذمہ تھا ۔ وہ اپنی عمر کی پچاسویں دہائی میں لیکن دیکھنے میں بہت تنومند اور سخت جان لگتا تھا ۔اس کے سرمئی مائل بال کانٹوں کی طرح سخت تھے اور اس کی دھوپ میں جلی گردن پر کسی زخم کا باقی رہ گیا ایک لمبانشان تھا۔اس کے بارے مشہور تھا کہ وہ ’ ناکانو ملٹری اکیڈیمی ‘ کا پڑھا ہوا تھا ۔ اس کے ساتھ ایک طالب علم ہوتا جو اس کی معاونت کرتا ،یہ لڑکا ایک معمہ تھا ۔ اس کے بال ہمیشہ باریک تراش میں ہوتے تھے اور اس نے سکول کا یونیفارم پہنا ہوتا ۔ کسی کو اس کے نام کا پتہ نہ تھا اور یہ بھی نہیںکہ وہ کس کمرے میں رہتا تھا ۔ میرا اس سے کھانے کے کمرے یا سانجھے غسل خانے میں کبھی ٹاکرا نہیں ہوا تھا۔ مجھے یہ یقین بھی نہ تھا کہ وہ طالب علم تھا لیکن چونکہ اس نے سکول یونیفارم پہن رکھا ہوتا تو اس کے علاوہ وہ اور کیا ہو سکتا تھا؟ اکیڈیمی والے بندے کے برعکس وہ پست قد کا پھولا ہوا اورگول مٹول تھا۔ ہر روز صبح وہ دونوں چھ بجے چڑھتے سورج والا پرچم کھمبے پر چڑھاتے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ” اس کی پُر امن حکومت ہمیشہ سلامت رہے ۔ ۔ ۔ ۔ “ اور جھنڈا کھمبے پر بلند ہوتا جاتا ۔
جب ترانہ اس حصے پر پہنچتا ؛ ” جب تک یہ مُنے پتھر ۔۔۔“ ، جھنڈا کھمبے کے نصف تک پہنچ چکا ہوتا ۔ ادھر جھنڈا پوری اونچائی تک پہنچتا ادھر ترانہ ختم ہو جاتااوروہ دونوں، پاﺅں جوڑ کر سیدھے کھڑے ہو کر پرچم کو دیکھتے ۔ روپہلے دنوں میں جب ہوا چل رہی ہوتی تھی، یہ ایک خوش کن نظارہ ہوتا ۔
شام کی تقریب صبح جیسی ہی ہوتی لیکن پرچم چڑھانے، کی بجائے اسے اتارا جاتا اور، بکسے میں رکھ دیا جاتا ۔ پرچم رات میں نہیں لہرایا جاتا ۔
ایسا کیوں تھا کہ پرچم رات کو نہیں لہرایا جاتا ، مجھے کوئی اندازہ نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طلباء کی اس رہائش گاہ میں پہلے اور دوسرے سال کے طالب علم ایک ایک کمرے میں دو دو رہتے تھے جبکہ جونیئر اور سینئر اکیلے رہتے تھے ۔ میںدو لوگوںکے رہنے والے جس کمرے میں جا کر رہا تھا وہ تنگ اور گھٹا گھٹا سا تھا ۔دروازے سے سب سے دور والی دیوار میںایلومینیم والے چوکھٹے والی کھڑکی تھی ۔ فرنیچر سادہ لیکن مضبوط تھا ۔۔۔ دوڈیسک اور کرسیاں ، اوپر تلے دو کے لئے سونے والا پلنگ ، دو الماریاں جن میں خانے بنے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان کمروں چونکہ صرف مرد ہی رہتے تھے اس لئے یہ سارے ہی گندے تھے ۔کوڑاڈالنے والی ٹوکریوں کے تلوں پر موٹی نارنجی رنگ کی تہہ جمی ہوئی تھی اور خالی کین جو ایش ٹرے کا کام دیتے تھے ،سگریٹ کے بچے ٹکڑوں سے، چار چار انچ تک بھرے ہوتے تھے ۔ پیالوں کی تہہ میں کافی جمی ہوتی تھی ۔ فوری پک جانے والے نوڈلز کے سیلوفین کے لفافے ، خال بیئر کے کین سارے فرش پر بکھرے ہوتے ۔ جب بھی تیزہوا اند ر آتی فرش سے گرد کا ایک مرغولا اٹھ کر ہو میں پھیل جاتا تھا ۔ کمروں میں پھیلی بُو آسمان تک جاتی تھی کہ ہر کوئی اپنے گندے کپڑے اپنے اپنے پلنگ کے نیچے پھینکے رکھتا تھا ۔وہ اپنے گدوں کو ہوا بھی نہیں لگواتے تھے جس کی وجہ سے یہ پسینے کی بو اوراپنی سرانڈ سے بھرے ہوتے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔