وار فِکشن ۔ 1
ہنگیرین افسانہ
مُنکرِ خدا
شیندور یسبیرینائے
تحریر مُکرر ؛ قیصر نذیر خاورؔ
مئی ، 4 ، 1928 ء مصر کے چوتھے صدر حسنی مبارک کی پیدائش کا دن ہے جس نے اپنے بیٹوں کے ساتھ مل کر ملک کو تیس سال تک لوٹا ۔ مصری عوام نے اسے 11 فروری 2011 ء کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔ اس کے بعد مصر کے عوام کی تقدیر اگلے کچھ سالوں تک ملک کے چوکیداروں ( فوج ) ، بالواسطہ یا بلا واسطہ ، کے ہاتھوں میں رہی ۔ درج ذیل افسانہ حسنی مبارک کے اقتدار چھوڑنے کے وقت سے شروع ہوتا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب مبارک اقتدار سے ہٹا تو کیفے پھر سے کھل گئے ۔ میں نے سوچا کہ یہ ایک اچھا وقت ہے کہ میں بیئر کے چند گلاس پی کر آنسو گیس کے اثر اور ذائقے کو دھو ڈالوں ۔ میں فلاکی چوک پر ’ کورنش‘ کے اختتام پر حوریہ کیفے جانے کے لئے ٹیکسی پکڑ سکتا تھا ۔
ٹیکسی کی کھلی کھڑکی سے آتی ہوا سے میری قمیض پھڑپھڑا رہی تھی ۔ دریائے نیل تیز صحرائی سورج کی وجہ سے لال تھا اور کشتیاں ان پر ہلکورے کھارہی تھیں ۔ ان کی بتیاں بجھی ہوئی تھیں ۔
ریت رنگا ایک ' ابراہمس ' ٹینک چوراہے پر کھڑا تھا جس کی وجہ سے ٹریفک سست رفتاری سے چل رہی تھی ۔ ٹینک کی بیرل کا رخ شہر کے وسط کی جانب تھا ۔ توپ پر ایک مونچھوں والا سپاہی بے ہنگم انداز سے کھڑا جبکہ جبری بھرتی کیا گیا ایک نسبتاً جوان سپاہی ہماری والی رو میں کھڑا لوگوں کے کاغذات کی پڑتال کر رہا تھا ۔ اس کی ’ AK-47 ‘ رائفل اس وقت کندھے کے ساتھ کھڑکھڑائی جب وہ کھلی کھڑکی کی طرف جھکا ۔ اس کا جنگی لباس بھورا تھا جس پر جابجا پسینے کے داغ تھے ۔
” شام کے وقت کی سلامتی ہو “ ، وہ بولا اور میرے پاسپورٹ پر نظر ڈالی ۔ پھر اس نے یہ عندیہ دیا کہ ہم آگے جا سکتے تھے ۔ ٹیکسی ڈرائیور اور میں نے نظریں چار کیں ۔
” یہ آزادی ہے “ ، ڈرائیور نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ اس کا پولیس سے اس وقت اکثر واسطہ پڑتا تھا جب وہ غیر ملکیوں کو اپنی کار میں لے کر جاتا تھا ۔
” ابھی ہمیں اس کا جشن نہیں منانا چاہیے ۔“
ہم آگے بڑھتے گئے ۔ ہم نے تحریر چوک کا لمبا چکر کاٹا کیونکہ فوج نے اسے بند کر رکھا تھا ۔’ سید زغلل ‘ پر پہنچ کر میں نے ٹیکسی چھوڑنے اور کچھ راستہ پیدل چلنے کا فیصلہ کیا ۔ سڑکوں پر اِکا دُکا لوگ تھے ۔ ٹوٹے ہوئے کانچ کے ٹکڑے میرے سینڈل تلے پِس کر آواز پیدا کر رہے تھے ۔ سلگتے ہوئے کچرے کے ڈبوں ، جنہیں مورچوں کے طور پر برتا گیا تھا ، سے ابھی بھی دھواں اٹھ رہا تھا ۔ مجھے شہر کے وسط میں یوں پیدل چلنا اچھا لگ رہا تھا جہاں کوئی مجھے مارنے کے لئے موجود نہ تھا ۔ میں نے سارے انقلاب کی کوریج کی تھی ۔ مجھے آنسو گیس کا عادی ہونے میں کچھ دن تو لگے لیکن میں ’ مولوٹوف کاک ٹیل ' کے دھماکوں اور مشین گنوں کی فائرنگ کی آوازوں کا عادی نہیں ہو پایا تھا ۔ ہاں میں ، اپنی عمومی سہولتوں کے بغیر رہنے کا عادی ہو گیا تھا ۔ پہلے شراب ہاتھ سے گئی ، پھر میں نے سگریٹ چھوڑے اور پھر صورت حال اور بھی بگڑ گئی ؛ گرم پانی سے نہانا بھی چھوٹا یہاں تک کہ آرام دہ بستر بھی گیا ۔ اگر آپ ایک ایسے خون کے پیاسے ہجوم ، جو آپ کی گردن مارنا چاہتا ہو ، سے بچنے کے لئے کسی سبزیوں والی دکان میں چھپے ہوں تو یہ یقیناً ممکن ہے کہ آپ آلوﺅں کی بوری پر چوہوں کے درمیان بھی اچھی نیند لے سکتے ہیں ۔
بلاد ، شرابی’ اقباطی‘ ہیڈ ویٹر ، ’ حوریہ ‘ کے باہر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا ۔ میں نے اپنے سگریٹ کا ایک لمبا کش لیا ، بچے کھچے سگریٹ کو اپنے سینڈل کی ایک طرف پھینکا اور اسے ٹھوکر مار کر سڑک کے بیچ دھکیل دیا ۔
” میرا خیال تھا کہ اب تک انہوں نے ، تمہیں گرفتار کر لیا ہو گا “ ، جب اس نے مجھے دیکھا تو مسکراتے ہوئے بولا ۔
” انہوں نے ایسا تین بار کیا ۔“
” تو اب تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ “
” انہوں نے مجھے جانے دیا ۔ “
” خیر ، یہ ایک الگ کہانی ہے ۔ جاﺅ اور عقبی حصے میں جا کر بیٹھ جاﺅ ۔“
ہم نے ہاتھ ملایا اور میں کیفے کی عقبی حصے ، جسے باقی کیفے سے الگ کیا ہوا تھا ، کی جانب بڑھ گیا ۔ بلاد بیئرپینے والوں کو کھڑکی کے پاس بیٹھنے نہیں دیتا تھا مبادا باہر سے دیکھنے والے کٹر
مسلمان بھڑک نہ اٹھیں ۔ اگر کیفے بھرا نہ ہوتا ، تو وہ ہر ایسے گاہک کو عقبی حصے کی طرف ہی بھیجتا البتہ خود نشے میں دھت ہونے پر وہ اس کی پرواہ نہ کرتا کہ ایسا بھی کرنا ہے ۔ میں بیٹھ گیا اور اس نے مجھ سے پوچھے بغیر ہی ایک مصری ’ سٹیلا‘ میرے سامنے رکھ دی ۔ بیئر ٹھنڈی تھی اور بوتل کے منہ کے پاس جھاگ بلبلے بنا تے ہوئے باہر بہہ کر میری انگلیوں کو گیلا کر رہی تھی ۔ میں نے اسے اٹھایا ، منہ سے لگایا اور ایک لمبا گھونٹ بھرا ۔ میں نے منہ سے گلے میں اترتی جھاگ والی بئیر کا لطف لیا یہاں تک کہ ’ مالٹ ‘ کی باس میری ناک کو چڑھی ۔ میں نے خود کو ایک نیا آدمی پایا ۔
بیئر ختم کرنے کے بعد میں نے کیفے میں نظر دوڑائی کہ شاید کوئی جان پہچان والا وہاں موجود ہو ۔ اکیلے پینا کچھ اچھا نہیں ہوتا ۔ میں کسی بدیسی کی توقع نہیں کر رہا تھا کیونکہ وہ تو ہنگاموں کے پہلے آثار دیکھ کر ہی ملک چھوڑ کر جا چکے تھے جبکہ مغربی صحافی ’ ہلٹن ریمسس‘ یا ’ ایسٹورِل ‘ جیسی بھڑکیلی جگہوں پر، جہاں بدیسی بیئر ملنے کا امکان زیادہ تھا ، پی رہے ہوں گے ۔ وہاں کچھ ہم جنس پرست لڑکے اور گاہکوں کے منتظرسوڈانی دلال ، پلاسٹک کے میز پوشوں والی میزوں کے گرد بیٹھے تھے جن پر مکھیوں کا فضلہ جما ہوا تھا ۔ یہ وہاں کا معمول تھا ۔ میں نے بلاد کو ایک اور بئیر لانے کے لئے آواز دی ۔ کوئی بندہ اس روز کا ’ ال اہرام‘ اخبار مئے خانے میں ہی چھوڑ گیا تھا ۔ اس کی شہ سرخی انقلاب کے شکار لوگوں کی تعریف میں لکھی گئی تھی اور مارے گئے لوگوں کے چھوٹے چھوٹے ، ہاتھ سے بنائے گئے خاکے بھی چھپے ہوئے تھے ۔ شہ سرخی لال رنگ میں چھپی ہوئی تھی اور اس میں لکھا تھا ؛
پچھلے تین ہفتوں میں 840 ہلاک ۔
اس کے نیچے چھوٹی سرخی میں لکھا تھا ؛
زخمیوں کی تعداد 6000 سے بھی زیادہ ۔
میں نے نظر اٹھا کر تب دیکھا ، جب ایک نیا گاہک اندر داخل ہوا ۔ وہ لگ بھگ ساٹھ سال کا تھا ۔ وہ میرے نزدیک والی میز کے گرد بیٹھ گیا ۔ اس نے سفید ’ گلابیا ‘ پہن رکھا تھا اور اس کے سر پر سفید عمامہ تھا جیسے حاجی لوگ پہنتے ہیں ۔ اس کی داڑھی، سُنہ کے مطابق، خط شدہ اور رنگی ہوئی تھی ۔ اس کا ماتھا سخت اور رنگ میں گہرا تھا جیسا ایسے مسلمانوں کا ہوتا ہے جو پانچ وقت کی نماز پڑھتے ہیں اور جائے نماز پر ماتھا رگڑتے ہیں ۔
” ڈاکٹر! میں آپ کے لئے کیا لاﺅں؟ “
” ایک سٹیلا “
ہیڈ ویٹر نے اس آدمی کے سامنے بئیر رکھی جو اس نے غٹاغٹ پی لی اور کہا ، ” ایک اور “
” جیسے آپ کی مرضی ، ڈاکٹر“
میں مخمصے میں پڑ گیا ۔ آپ کو قاہرہ میں شرابی مسلمان کم کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں ۔ بلاد نے مجھے حیران کیا ، وہ میری میز کے پاس آیا اور سرگوشی کے سے انداز میں میرے کان میں بولا ، ” احمد سلیم پر دھیان مت دو ، میں سارا معاملہ بعد میں بیان کروں گا ۔“
میں اپنی بیئر کی طرف متوجہ ہو گیا اور اخبار میں مزید خبریں پڑھنے لگا ۔ سلیم اپنے سامنے کی طرف گھورتا رہا اور میکانکی انداز میں پیتا رہا ۔ آدھے گھنٹے میں سٹیلا کی سات خالی بوتلیں اس کے سامنے پڑی تھیں ۔ بئیر میرے سر کو چڑھ چکی تھی اور میں اخبار میں گم تھا ۔ مجھے یہ پڑھ کر مزہ آ رہا تھا کہ فوج اور عوام کیسے آپس میں دوست بن گئے تھے اور آنے والی جمہوری اصلاحات کیا تھیں اور وہ اپنے نئے راہنمائوں کے لئے کیسے جشن منانے والے تھے ۔ تبھی میں نے محسوس کیا کہ کوئی میری میز کے پاس کھڑا تھا ۔ یہ سوڈانی طوائفوں میں سے ایک تھی ۔ پھولدار لباس پہنے اپنے کولہے پر ہاتھ جمائے، وہ اپنے سفید دانتوں کی چمک دکھاتی وہاں کھڑی تھی۔
” مجھے معلوم ہے کہ تم یہاں کس لئے آئے ہو“ ، اس نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا ، ” مجھے بھی ایک بئیر لے دو؟ “
میں نے اپنی عینک پہنی تاکہ اس پر غور کر سکوں ۔ اس کی چھاتیوں کی چوچیاں اس کے لباس سے یوں باہر ابھری ہوئیں تھیں جیسے اس نے ، میرے پاس آنے سے پہلے انہیں چٹکی کاٹ کر ابھارا ہو ۔ اس کا جسم سڈول ہونے کے ساتھ ساتھ جوان اور مضبوط تھا ۔ اس کا ننگا جسم بجلی کی طرح میرے ذہن میں کوندا : اس کے گندمی پستان اور مکمل کالے سر ِ پستان ۔ میں ، گو ، مہینے بھر سے عورت سے دور رہا تھا لیکن پھر بھی میں نے اپنا سر انکار میں ہلا دیا ۔ میں پچھلے چند ہفتوں میں اتنے زیادہ پیسے خرچ کر چکا تھا کہ اب میں اس کے ساتھ سونے کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا ۔ اس کی مسکراہٹ غائب ہو گئی اورواش روم کی طرف جانے سے پہلے اس نے حقارت بھرے انداز میں زبان سے چٹخارہ لیا ۔ اس وقت تک احمد سلیم نویں بئیر ختم کر چکا تھا ۔ جب وہ عورت اس کی میز کے پاس سے گزری تو اس نے ہاتھ بڑھا کر اسے روکا ۔ اس نے اس سے سرگوشی میں کچھ کہا جسے میں نہ سن سکا ۔ پھر وہ اٹھا ، اپنے گلابیا کی جیب میں ہاتھ ڈالا ، سو پاﺅنڈ کا ایک نوٹ نکالا اور میز پر دھر دیا ۔ لڑکی اور وہ بوڑھا بانہوں میں بانہیں ڈالے لڑکھڑاتے ہوئے دروازے کی طرف بڑھے ۔ وہ واضح طور پر ایک ایسا جوڑا لگ رہے تھے جس کی میں کوئی تشریح نہیں کر سکتا ۔
” الوداع ، ڈاکٹر “ ، اس سے پہلے کہ وہ رات کے اندھیرے میں غائب ہوتے ، بلاد نے اونچی آواز میں کہا ۔ جب وہ چلتے جا رہے تھے تو میں ان کے ہیولوں کو دیکھتا رہا ۔
کرفیو کا وقت ہوا چاہتا تھا اور بہت سے گاہک پہلے ہی جا چکے تھے ۔ فرِج کی کھڑکھڑاہٹ سننے اور چھت میں لگے پنکھے کو رات کی ہوا گھماتے دیکھنے کے لئے ، اب ہم دو ہی رہ گئے تھے ۔ بلاد نے اپنے گندے جھاڑنوں میں سے ایک سے ایک مکھی کو مارا ، ایک گلاس پکڑا اور میرے پاس بیٹھ کر میری بئیر اس میں انڈیلی ۔
” اس انقلاب نے ہر ایک میں سے کچھ نہ کچھ مختلف نکال باہر کیا ہے “ ، وہ بولا ، ” یہ آدمی جسے تم نے ابھی دیکھا ، خدا کو چھوڑ چکا ہے ۔“ ، اس کے چہرے پر نہ تو اداسی تھی اور نہ ہی فتح کا اظہار ۔ وہ فقط حقائق بیان کر رہا تھا ۔ جیسے ہی اس نے بیئر حلق میں انڈیلی ، اس نے اس کے گلاس کے کنارے لگی گرد کو صاف کر دیا ۔
” کیا وہ تمہارا دوست ہے ؟“
” اسے احمد سلیم کہتے ہیں ۔ “
” کیا وہ اسلام پسندوں میں سے ہے؟ “
” نہیں ، سیاست سے اس کا کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔“
” اس نے حاجیوں والا لباس پہن رکھا تھا جیسے اسلام پسند پہنتے ہیں ۔“
” میرا خیال ہے کہ اسے کپڑے بدلنے کا موقع نہیں ملا ۔ ویسے یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے پاس ایسے کپڑوں کے علاوہ اور کچھ ہو بھی نہ ۔“
بلاد نے میرے پیکٹ سے ایک سگریٹ نکالا ، منہ میں دبایا اور اپنی جیب میں لائٹر تلاش کرنے لگا ۔ جب اسے یہ نہ ملا تو اس نے میز پر پڑے میرے گیس لائٹر کو اٹھایا اور سگریٹ سلگا لیا ۔
” تم اسے کتنی اچھی طرح جانتے ہو۔“ ، میں نے پوچھا اور خود بھی ایک سگریٹ سلگایا ۔
وہ ' قضرال عینی ' گلی میں میرا ہمسایہ ہے ۔ وہ ایک ڈاکٹر ہے ۔ میں اس کے پاس چھوٹے موٹے کاموں کے لئے جاتا رہا ہوں ۔“
” تمہیں کیسے پتہ ہے کہ اس نے خدا سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے ؟ “
” مجھے ایک بیئر کی دعوت دو تو میں تمہیں بتاﺅں گا ۔ “
بلاد کی ایک عادت بہت بُری تھی ۔ وہ گاہکوں کی بیئر اور سگریٹوں کی مفت خوری کرتا اور خود ہی آ کر ان کی میزوں پر بیٹھ جاتا ۔ وہ ہیڈ ویٹر تھا لہذٰا اس پوزیشن میں تھا کہ میرے جیسے بندے کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ کھڑا کر سکے چنانچہ میرے لئے مناسب نہ تھا کہ میں اسے انکار کروں ۔ میں نے ہاں میں سر ہلا دیا ۔ وہ اٹھا ، فرِج سے بیئر کی دو بوتلیں نکالیں ، واپس آیا اور میز پر رکھ دیں ۔
” بات کچھ یوں ہے ۔ سلیم پکا مذہبی اور ایک اچھا مسلمان تھا ۔ اسے یقین تھا کہ خدا ہر جگہ موجود ہے اور اس نے خود کو مکمل طور پر دین کے حوالے کر رکھا تھا ۔ “
بلاد نے سامنے رکھی بئیر کا ایک بڑا گھونٹ بھرا ۔
” میں ہمیشہ سے رجائیت پسندوں سے خار کھاتا ہوں ۔ “ ، میں نے خشک لہجے میں کہا ۔
” میں بھی ، بہرحال ، وہ اپنے عقیدے کا پکا تھا اور اس وقت بھی شک میں مبتلا نہ ہوتا جب ایسا کرنے کی کوئی معقول وجہ بھی ہوتی ۔ مثال کے طور پر، لگتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ وہ اپنے پیشے میں آگے نہیں بڑھ سکتا کیونکہ ہسپتال کا انچارج اس سے ، کٹر مذہبی ہونے کی وجہ سے ، بہت خوف زدہ تھا ۔ اس کی بیوی بچہ جَنتے ہوئے مر گئی اور اسے اپنی بیٹی کو اکیلے ہی پالنا پڑا ۔ پھر بھی اس نے اپنا رویہ مثبت رکھا ۔ وہ ہر بھیک مانگنے والے کو اس کے نام سے جانتا تھا اور غریبوں سے فیس بھی نہ لیتا ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ ایسے لوگ ہوتے ہیں ، کم کم سہی لیکن سچ میں ہوتے ہیں ۔ “
” اور؟ “
” جب فوج نے خود ہسپتال کے چکر لگانا شروع کئے تو اس نے سوچا کہ وہ اپنے ’ ڈاکٹر ی حلف‘ کی پاسداری کرے گا ۔ فوجی ہسپتال سے زخمی مظاہرین کو گرفتار کر رہے تھے ۔ “
” میں نے اس بارے میں سنا تھا ۔“
” ایسا ہوا ۔’ مخابرات ‘ مظاہرین کو آپریشن کی میزوں سے گھسیٹ کر لے جاتے تھے ۔“
” اس سب کا ، اس کے خدا کو تیاگنے سے کیا لینا دینا ؟ “
” جب سلیم پر یہ انکشاف ہوا کہ مظاہرین ہسپتال میں آنے کی بجائے سڑکوں پر مرنے کو ترجیح دے رہے ہیں تو اس نے کچھ اور ڈاکٹروں اور نرسوں کے ساتھ مل کر ’ ابو بکر مسجد ‘ میں ان زخمیوں کا علاج شروع کر دیا ۔ یہ ایک کونے میں واقع تھی ۔ وہ جائے نمازوں پر ان کے آپریشن کرتے ۔ میں وہاں تصویریں اتارنے گیا تھا ۔“
” وہ انہی پر سوتے بھی تھے ۔ “
یہ کہتے ہوئے بلاد اٹھا ، کیفے کا دروازہ بند کیا اور کرسیاں اٹھا کر میزوں پر رکھنے لگا ۔ پلاسٹک کے میز پوشوں پر کرسیاں رکھنے سے جو آوازیں پیدا ہوئیں ان سے وہ کیڑے مکوڑے جو میزوں کی ٹانگوں کے ادرگرد جمع تھے، بھی جاگ گئے اور ادھر ادھر پھرنے لگے۔
” وہ ایک دن میں چھ سو لوگوں کو دیکھتے تھے ۔“
” تمہیں یہ کیسے معلوم ہے ؟ “
” اس نے میرے سامنے کپڑے بدلے تھے اور جب اس نے ٹانگوں سے پتلون اتاری تو میں نے دیکھا کہ اس کے ٹخنے سوجے ہوئے اور اودے رنگ کے تھے ۔ اس کی ٹانگوں پر کالی دھاریاں تھیں جو گھٹنوں تک جا رہی تھیں ۔
” یہ ٹوٹی تو نہیں ، لیکن میرا ان پر کھڑا رہنا محال ہے ، اس نے کہا تھا ۔ مجھے یہ دیکھنے میں بہت بھدی لگیں ۔ پھر انہوں نے میری ڈیوٹی اس طرف لگا دی جہاں ٹوٹی ہڈیوں والے اور آگ میں جھلسے لوگ تھے ۔ ڈاکٹر اکیس گھنٹے کام کرتے ۔ سلیم کی انگلیاں صرف اس وقت رکتیں جب نماز کا وقت ہوتا ۔ جہاں وہ نماز پڑھتے ، وہیں ایک کونے میں لاشوں کا ڈھیر بھی تھا ، لیکن وہ پھر بھی نمازیں پڑھتے رہے ۔“
” وہ یقیناً ایک مذہبی آدمی تھا۔ “
” یقیناً ، لیکن مریض اس سے خوفزدہ رہتے ۔“
” کیونکہ وہ لاشوں کے پاس نماز پڑھتا تھا ؟ “
” نہیں ، بطور سرجن وہ اُسی زخمی کو دیکھتا تھا جس کی حالت زیادہ خراب ہوتی ۔ وہاں کوئی دوایاں نہ تھیں ، کوئی آلات نہ تھے ۔ ایسا لگتا تھا جیسے وہ قرون وسطیٰ کے زمانے میں کام کر رہے ہوں ۔ اس کے ہاتھوں میں ساٹھ لوگوں کی اموات ہوئیں ۔ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ جن پر بھی ہاتھ رکھتا ہے وہ مر جاتے ہیں ۔“
” کیا وہ اسی لئے پیتا ہے ؟ “
”بسا اوقات زخمی چِلاتے اور اسے دور رہنے کو کہتے ۔ کئی تصوراتی دھوکے کا شکار ہو کر خدا سے التجا کرتے کہ وہ موت کے اس فرشتے کو ان سے دور رکھے ۔ میرا خیال ہے کہ ایسا سن کر اسے ملال ہوتا تھا کیونکہ ایسی باتیں بندے کو رنجیدہ کرتی ہیں ۔ لیکن یہ وجہ نہ تھی کہ وہ خدا کا مُنکر ہو گیا تھا ۔“
” تو پھر کیوں؟ “
”انقلاب کے چوتھے روز، پولیس نے ’ طلعت ہاربون ‘ میں مظاہرین پر گولی چلائی ۔ وہ زخمیوں کو کمبلوں میں لادے وہاں لائے ۔ اس وقت تک یہ کام سلیم کے لئے روزمرہ کا معمول بن چکا تھا ۔ اس نے سب زخمیوں کو قطار میں لٹایا اور ان پر کام کرنے لگا جو زیادہ زخمی تھے اور اس کا خیال تھا کہ وہ انہیں بچا سکتا تھا ۔ ۔ ۔ لیکن اس روز ان میں سے ایک اس کی اپنی بیٹی بھی تھی ۔“
” کیا وہ بھی تحریر چوک میں مظاہرہ کر رہی تھی ؟ “
” نہیں ، بالکل نہیں ، وہ گھر واپس جا رہی تھی کہ ایک آوارہ گولی اسے آ کر لگی ۔ یہ اس کے پھیپھڑے میں پیوست ہوئی اور پار نکل گئی ۔ اس کے باپ نے اس کے زخم کو اپنی انگلیوں سے بند کرنا چاہا تاکہ خون کو مزید بہنے سے روک سکے اور اس کا آپریشن شروع کیا ۔ اس دوران ہر کوئی اس کی آواز سن رہا تھا وہ خدا سے مخاطب تھا ، وہ کہہ رہا تھا ، ” صرف یہ ۔ ۔ ۔ صرف یہ ۔ ۔ ۔ مجھ سے یہ مت چھینو ۔ میں ہمیشہ پاک باز رہا ہوں ۔ ۔ ۔ میں نے ہر اصول کی پاسداری کی ، میں نے کبھی کچھ نہیں مانگا ۔ ۔ ۔ میں التجا کرتا ہوں ۔ ۔ ۔ بس، اِسے۔ ۔ ۔ مجھ سے مت چھینو ۔ “
” اور پھر کیا ہوا ؟ “ ، میں اٹھا تاکہ فرِج سے بیئر کی دو اور بوتلیں لا سکوں ۔ بلاد نے ایک اور سگریٹ سلگایا اورکرسی پر بیٹھ کر ٹیک لگا لی ۔
” وہ اپنی بیٹی کو نہ بچا سکا ۔ سب کچھ آدھ گھنٹے میں ہی ختم ہو گیا ۔ “
” کیا وہ اسی لئے پیتا ہے اور خدا سے باغی ہو گیا ہے ؟ “
میں نے بوتلیں میز پر رکھیں اور اپنے ’بِل‘ میں دو اور کا اضافہ لکھ دیا ۔
” یا پھریہ کہ اس پر آشکار ہوا کہ خدا تو موجود ہی نہیں ہے ۔“ ، بلاد نے کہا ۔
اس نے منہ سے دھوئیں کا مرغولہ نکالا اور بیئرکی بوتلیں کھول دیں ۔ اس رات ہم نے بیئر کی مزید دس بوتلیں چڑھائیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیندور یسبیرینائے ( Sándor Jászberényi) 1980 ء میں سوپرون ، ہنگری میں پیدا ہوا ۔ وہ ہنگری کے کئی اخباروں کے لئے ان علاقوں کا نامہ نگار ہے جو ’ conflict Zones ‘ کہلاتے ہیں ۔ اس نے 2006 ء میں افسانے لکھنے شروع کئے ۔ اس کے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’ شیطان کالا کُتا ہے ‘ ( Az ördög egy fekete kutya) 2013 ء میں سامنے آیا ۔ اگلے برس ہی اس کا اطالوی اور انگریزی ترجمہ شائع ہوا ۔ اس مجموعے کا انگریزی ترجمہ انڈیا میں بھی شائع ہو چکا ہے ۔ وہ تاحال قاہرہ میں مقیم ہے اور اس کے افسانوں کا مدار لیبیا تا شام سے گزرتا مصر اور سوڈان تک جاتا ہے ۔ البتہ اس کے افسانوں کی جڑیں ہمیشہ ’ دین وعقیدے‘ ، ’ اخلاص ‘ اور’ انسان کی ذاتی ذمہ داری ‘ پر ہی مبنی ہوتی ہیں ۔
نوٹ ؛ اس افسانے میں کچھ الفاظ اردو کے قاری کے لئے اجنبی ہوں گے ۔ ان کے بارے میں میرے وضاحتی نوٹ اس کتاب میں شامل ہوں گے جس کا حصہ یہ افسانہ بنے گا ؛ جیسے ' کورنش ' عرب اور ملحقہ افریقہ کے ممالک میں اس علاقے کو کہتے ہیں جو ساحل سمندر یا کسی دریا کے کنارے واقع ہو ؛ جیسے جدہ کورنش ' ، اس افسانے میں کورنش سے مراد وہ ساحلی علاقہ ہے جو دریائے نیل کے ساتھ ساتھ واقع ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔