ایک مچھر سالا ۔ ۔ ۔
( فلمساز و ہدایت کار’ یش چوپڑا ‘ پر ایک نوٹ )
قیصر نذیر خاورؔ
اندر کا منظر ؛ پرائیوٹ کمرہ ، لیلاوتی ہسپتال ، بندرہ ، ممبئی ۔
بستر پر ایک 80 سالہ بندے کا مردہ جسم پڑا ہے جسے سفید چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ اسے آٹھ روز قبل ایک ڈینگی مچھر نے کاٹا تھا ۔
سمے ؛ 21 ، اکتوبر 2012 ء اتوار کا دن ، گھڑی میں شام کے 5:30 بج رہے ہیں ۔
لوگوں کا کہنا ہے کہ مرنے والا اُن ڈھائی سو افراد میں سے ایک تھا جو اس ماہ ممبئی میں ڈینگی مچھر کے کاٹنے سے ہلاک ہوئے تھے ۔ ان میں کچھ اسے سلور سکرین کی دنیا سے جوڑتے ہوئے ’ شہنشاہ ِ رومانس ‘ کے نام سے یاد کر رہے تھے ۔ یہ یش چوپڑا تھا ۔
اندر کا منظر ؛ پی ڈبلیو ڈی کے سرکاری گھروں میں سے ایک ، لاہور ۔
اس میں ذات کا کھتری ولایاتی راج چوپڑا اور اس کا پریوار رہتا ہے ۔ اس کی بیوی نے اپنے آٹھویں بچے کو جنم دیا ہے ۔
سمے ؛ 27 ستمبر ، 1932ء ، منگل کے دن کا سورج نکلنے کو ہے ۔
پنڈت جنم پتری نکالتا ہے اور ولایاتی راج کو مشورہ دیتا ہے کہ اس نومولود کا نام ’ یش ‘ رکھا جائے؛ یش معانی کامیاب ، شان والا ، عظمت پانے والا ۔
یوں تو پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایسے بہت سے لوگ ہیں ، جنہوں نے ہند و پاک کی فلمی صنعت میں اپنی اپنی سطح پرخدمات سرانجام دیں لیکن دو خاندان ایسے ہیں جن کا تعلق لاہور سے براہ راست جڑا ہے؛ وکیل پشوری لال آنند سے جڑے آنند برادران ( چیتن آنند ، دیوآنند اور وجے آنند) اور دوسرا اکاﺅنٹنٹ ولایاتی راج چوپڑا سے جڑے چوپڑا برادران ( بلدیو راج چوپڑا ، دھرم راج چوپڑا ، راج چوپڑا اوریش چوپڑا ) ۔ یہ دونوں خاندان درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے گھرانے تھے ؛ چیتن آنند اپنی فلم ’ نیچا نگر ‘ ( 1946 ء) کے لئے پہچان رکھتا ہے جبکہ بلدیو راج چوپڑا کی پہچان فلم ’ نیا دور‘ (1957ء ) ہے ۔ دیوآنند اور یش چوپڑا بھی ان دونوں خاندانوں کے بڑے نام ہیں ۔ دونوں خاندانوں نے اپنی اپنی فلم کمپنیاں بھی بنائیں ؛ آنند برادران نے ’ نیوکیتن فلمز‘ جبکہ چوپڑا برادران نے ’ بی آر فلمز ' اور ’ یش راج فلمز‘ کے بینرکھڑے کیے ۔ ’ نیوکیتن فلمز‘ کو اب دیو آنند کا بیٹا سنیل آنند چلا رہا ہے جبکہ بی آر فلمز کا جھنڈا اب اس کے پوتوں ابھے چوپڑا اور جونو چوپڑا کے ہاتھوں میں ہے ؛ بی آر چوپڑا کا بیٹا روی چوپڑا اکتوبر 2014 ء میں کینسر کے ہاتھوں فوت ہو گیا تھا ۔ ’ یش راج فلمز‘ کا جھنڈا اب اس کے بیٹوں کے ہاتھ میں ہے ۔
بی آر چوپڑا نے 1944 ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہورسے انگریزی میں ایم اے کیا اور بطورفلمی صحافی اپنے کیرئیر کا آغاز کیا ؛ اس زمانے میں لاہور سے ایک ماہنامہ ’ سائن ہیرلڈ ‘ کے نام سے نکلتا تھا ۔ اس نے یہ رسالہ بعد میں نہ صرف خرید لیا بلکہ آئی ایس جوہر ( اِندر سین جوہر) کی لکھی کہانی ’ چاندنی چوک ‘ پر فلم بھی بنانا شروع کی لیکن لاہور میں تقسیم کے حوالے سے ہونے والے فسادات کی وجہ سے یہ فلم بن نہ سکی ؛ آئی ایس جوہر تلہ گنگ کا رہنے والا تھا لیکن اس کے طالب علمی کا زمانہ لاہور سے ہی منسلک رہا ۔ اس نے سیاسیات و اکنامکس میں ایم اے کرنے کے بعد ایل ایل بی بھی کیا تھا ۔
یش کی زندگی کے ابتدائی سال لاہور میں ہی اپنے بھائی کے گھر میں گزرے ۔ وہ 1945 ء میں دوآبہ کالج ، جالندھر میں داخل ہوا : وہ انجینئر بننا چاہتا تھا ، یہی مقصد اسے لدھیانہ لے گیا ؛ اگر ایسا ہو جاتا تو ہندوستان کی فلمی صنعت ’ شہنشاہ ِ رومانس‘ سے محروم ہو جاتی ۔ ملک تقسیم ہوا تو اس کے بھائی پہلے دہلی اورپھربمبئی جا بسے ، جہاں بلدیو راج نے ’ بی آر فلمز‘ کے نام سے فلمیں بنانا شروع کیں ؛ دھرم راج نے کیمرہ سنبھالا جبکہ راج نے فلموں کی تقسیم کا کام شروع کیا ۔ ’ کروٹ ‘ بی آر چوپڑا کی پہلی فلم تھی جو اس نے 1948 ء میں بنائی تھی ۔ یہ ایک ناکام فلم تھی ۔ ادھر آئی ایس جوہر نے اپنے فلمی کیرئیر کا آغاز روپ کے شوری کی فلم ’ ایک تھی لڑکی‘ ( 1949 ء ) میں اداکاری سے شروع کیا ۔ اس فلم میں مینا شوری کے مدمقابل موتی لال ہیرو تھا ۔ آئی ایس جوہر نے اس فلم میں ’ سوہان ‘ کا کردار ادا کیا تھا ۔ اس فلم کا ایک گانا اب بھی خاصا مشہور ہے جسے لتا ، جی ایم درانی اور محمد رفیع نے گایا تھا ؛ ’ لارا لپا، لارا لپا لائی رکھدا ۔ ۔ ۔ ‘ ؛ جی ایم درانی ریڈیو سٹیشن لاہور کا مستقل گلوکار تھا اور محمد رفیع کا تعلق بھی لاہور سے ہی تھا ۔
یش چوپڑا انجینئر نہ بن پایا اور اپنے بڑے بھائیوں کے آسرے پربمبئی چلا گیا ۔ بی آر چوپڑا نے اسے آئی ایس جوہر کے حوالے کیا کیونکہ اس کے اپنے قدم ابھی بمبئی کی فلمی صنعت میں صحیح طور پر نہیں جمے تھے ۔ یش نے آئی ایس جوہر کے ساتھ کام کرنا شروع کیا اور اس سے ہدایت کاری کے گُر سیکھنے لگا ۔ یش ، جب تک ، خود ہدایت کاری کے قابل ہوا ، اس وقت تک آئی ایس جوہر ’ ناستک ‘ ( 1954 ء) سمیت چھ فلمیں بنا چکا تھا ؛ مس انڈیا ( 1957ء ) کے بننے تک یش اس کے ساتھ رہا اور پھر اپنے بھائی بی آر چوپڑا کے ساتھ آ ملا جو ، افسانہ (1951ء) ، چاندنی چوک (1954ء) اور ’ نیا دور‘ (1957ء) بنا کر نام کما چکا تھا ۔
یہاں سے یش کی زندگی کا ایک نیا دور شروع ہوا ۔ بی آر چوپڑا کی پروڈیوس کردہ فلم ’ دھول کا پھول ‘ ( 1959ء) وہ پہلی فلم تھی جس کی ہدایت کاری یش نے کی تھی : اسے’ مکھ رام شرما ‘ نے لکھا تھا ؛ یہ 1925 ء میں پیدا ہوئے ایک ایسے ہندو بچے کی کہانی ہے جو شادی کے بندھن میں بندھے بغیر مینا ( مالا سہنا ) اور مہیش ( راجندرکمار) کے پیار کا نتیجہ تھا ، مہیش مینا اور بچے کو قبول نہیں کرتا جس پر مینا بچے کو جنگل میں چھوڑ آتی ہے جسے ایک مسلمان ، رشید ، وہاں سے اٹھاتا اور پالتا ہے ۔ کہانی اپنے عمومی ’ ٹوئسٹس اینڈ ٹرنز ‘ کے ساتھ آگے بڑھتی ہے اور فلم کے آخر میں مینا اور مہیش رشید سے اپنا بچہ واپس لے لیتے ہیں ۔
یش کی یہ پہلی فلم ہی باکس آفس پر کامیاب رہی ۔ اس نے اسی کہانی کو الٹا کر اپنی دوسری فلم ’ دھرم پتر‘ 1961 ء میں بنائی ۔ اس میں ناجائز بچہ مسلمان ہے جبکہ اس کا پالن ہار ہندو ہے ۔ یہ ’آچاریہ چتروسین ‘ کے ناول سے ماخوذ تھی ؛ اس ناول میں تقسیم ہند اور ہندو بنیاد پرستی پر خاصی تنقید کی گئی تھی ۔ یہ فلم بھی 1925 ء کے زمانے میں دہلی کے دودوست خاندانوں کی کہانی ہے جن میں سے ایک مسلم گھرانہ ہے جبکہ دوسرا ہندو؛ مسلم گھرانے کی ’ حسن بانو‘ ( مالا سہنا ) جاوید ( رحمٰن ) کے ہاتھوں حاملہ ہو کر ہندو گھرانے کی مدد سے ایک لڑکے کو جنم دیتی ہے۔ یہ گھرانہ بچے کو گود لے لیتا ہے اور اس کا نام دلیپ ( ششی کپور) رکھتا ہے ، جو بڑا ہو کر کٹر ہندو خیالات رکھنے والا نوجوان ہے اور مسلمانوں سے سخت نفرت کرتا ہے اور بنیاد پرست ہندوﺅں کے ساتھ مل کر ان کی املاک کو جلاتا اور انہیں قتل کرتا ہے ۔
میں نے ان دو فلموں کا ذکر خصوصی طور پر اس لئے کیا ہے کہ چوپڑا خاندان کو لاہور میں ایک ایسے معاشرے میں رہنے کا تجربہ تھا جس میں ہندو ، مسلم ، سکھ مسیحی اور پارسی مل جل کر رہتے تھے اور مذہب کبھی بھی ان میں ، اس طرح ، تفریق کا باعث نہ بنا تھا جیسا کہ’ تقسیم ‘ نے انہیں پاٹ ڈالا تھا ۔ یہ دونوں فلمیں کسی طور بھی ’ نیچا نگر ‘ کی طرح ’ متوازی سنیما ‘ میں شمار نہیں ہوتیں لیکن عام کمرشل سنیما میں یہ ایک حساس موضوع پر بنی تھیں ۔ دھرم پُترکے ریلیز ہونے پر اسے لوگوں نے پسند نہ کیا اوریہ بری طرح ناکام ہوئی ( یا کر دی گئی تھی ) گو اسے بہترین فلم کے لئے نیشنل ایوارڈ دیا گیا تھا ؛ یہ ششی کپور کی پہلی فلم تھی جس میں اس نے بطور بالغ ایک بڑا کردار ادا کیا تھا ۔ اس فلم کا یہ حشر دیکھ کر فلمسازوں نے ہندو مسلم ، تقسیم اور مذہبی ہم آہنگی کے مسئلے پر فلمیں بنانے سے گریز کیا اور بارہ سال بعد ’ گرم ہوا‘ (1973ء) ہی سامنے آ سکی جسے ایم ایس ساہتیو نے بنایا تھا ؛ اس کی کہانی عصمت چغتائی کی تھی اور اس کا سکرپٹ شمع زیدی و کیفی اعظی نے لکھا تھا ۔ یہ بلراج ساہنی کی اہم فلموں میں شمار ہوتی ہے ؛ یہ فلم ’ متوازی سنیما ‘ کی بھی ایک اہم فلم ہے ۔
یش چوپڑا نے ’ دھرم پتر‘ کی ناکامی کے بعد اگلے تینتالیس برس تک اس موضوع کو ہاتھ نہیں لگایا اور پھرکہیں فلم ’ ویر۔ زارا ‘ (2004 ء ) کے نام سے مذہبی ہم آہنگی کے موضوع کو چھیڑا ؛ اس فلم کی کہانی اور سکرپٹ اس کے بیٹے ادِتیا چوپڑا نے لکھا تھا ۔ یہ فلم البتہ باکس آفس پر کامیاب رہی ۔
یش چوپڑا نے 1965ء میں ہندوستانی سنیما میں ایک نئے رجحان کی بنیاد ڈالی ؛ فلم ’ وقت ‘ میں اس نے اس وقت کے فلمی ستاروں کو یکجا کیا ؛ سنیل دت ، راج کمار ، ششی کپور ، بلراج ساہنی ، رحمٰن ، سادھنا ، شرمیلا ٹیگور ۔ اس فلم کی کہانی ’ بچھڑنا اور پھر سے ملنا ‘ کی اس تھیم کو ایک بار پھر واپس لائی جو چالیس کی دہائی میں فلموں کا موضوع رہی تھی ؛ ایسی فلموں میں اشوک کمار اور ممتاز شانتی کی فلم ’ قسمت‘ (1943ء ) اہم تھی ۔ اس فلم نے ایک اور رجحان کو بھی فروغ دیا ؛ یہ فلموں میں امارت اور سماج کی اوپرلی پرت کے ماحول کو دکھانے کا تھا ۔ ’ وقت ‘ کے بعد فلمی ستاروں کا ہجوم اکٹھا کرکے فلمیں بنانے کا رجحان 1970 کی دہائی میں فلمسازوں پر اس لئے بھی چھایا رہا کہ یش چوپڑا کی ’ وقت ‘ نہ صرف ہِٹ رہی تھی بلکہ اس نے اسے بہترین ہدایتکاری کے لئے پہلا فلم فئیر ایوارڈ بھی دلایا تھا ۔
انسان اور آدمی ( 1969 ء) ایک بار پھر ’ ملٹی سٹار‘ فلم تھی ؛ دھرمیندر ، سائرہ بانو ، فیروز خان ، ممتاز ،کامنی کوشل ، جانی واکر ۔ یہ فلم اچھی موسیقی کے باوجود کچھ زیادہ بزنس نہ کر سکی ۔ اسی برس یش چوپڑا نے ایک اور تجربہ کیا ۔ یہ فلم ’ اتفاق ‘ تھی ؛ یہ1965 ء کی ایک امریکی فلم ’ Signpost to Murder ‘ کا ری ۔ میک تھی جسے پہلے ایک گجراتی ڈرامے میں بھی ڈھالا گیا تھا ۔ اسے غالباً ہندی سینما کی ابتدائی ’ سسپنس تھریلر‘ فلموں میں شمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس فلم میں کوئی گانا نہیں اور نہ ہی اس فلم میں وقفہ تھا ۔ اس کا بیک گراﺅنڈ میوزک سلیل چودھری نے ترتیب دیا تھا اور راجیش کھنہ نے اس میں مرکزی کردار (دلیپ رائے ) ادا کیا جبکہ نندا اور بِندو اس کے مقابل ریکھا اور رینو کے کردار میں ہیں ۔’ اتفاق ‘ دوسری فلم تھی جس نے یش چوپڑا کو بہترین ہدایت کاری کے لئے دوسرا فلم فیئر ایوارڈ دلایا تھا ۔ اداکاری کے اعتبار سے یہ فلم راجیش کھنہ کی بھی ایک کامیاب فلم سمجھی جاتی ہے ۔
1970 ء میں یش پوپڑا اور بی آر چوپڑا کے درمیان کچھ اختلافات ابھرے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ اپنے بھائی سے الگ ہو گیا ، گھر الگ کیا اور ’ یش راج فلمز‘ کے نام سے اپنی کمپنی بھی کھڑی کر لی ۔ اسی سال یش نے پامیلا سنگھ سے شادی بھی کی تھی ؛ پامیلا اپنے وقت کی ایک گلوکارہ تھی ۔ وہ سیمی اگروال کی فرسٹ کزن تھی ؛ پامیلا کے والد سیمی اگروال کے ماموں تھے ۔ وہ یش سے پہلی بار اس کی بھتیجی کی شادی میں ملی تھی جہاں وہ سیمی اگروال کے ہمراہ گئی تھی ؛ سیمی ا سے روایتی پنجابی گیت گانے کے لئے ہمراہ لے کر گئی تھی ۔
” ۔ ۔ ۔ جب میں گا رہی تھی تو یش جی میرے پاس آئے اور میرے گانے کی تعریف کی ۔ ۔ ۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ ایک فلم میکر ہیں لیکن میں ان کے مقابلے میں راج کپور کی فلموں کو زیادہ پسند کرتی تھی ۔ ۔ ۔ ہماری شادی رومیش شرما ( اداکارو پروڈیوسر) کی والدہ نے طے کروائی تھی ۔ ۔ ۔ یہ ایک روایتی شادی تھی ۔ ۔ ۔ شادی کے بعد مجھے جلد ہی یہ احساس ہو گیا تھا کہ اگر میں یش جی کے کام میں ا ن کے ساتھ کھڑی نہ ہوئی تو میں انہیں کبھی نہ پا سکوں گی اور وہ حسین اداکارﺅں میں ہی گم رہیں گے ۔ ۔ ۔ “ (پامیلا چوپڑا کا انٹرویو؛ فروری 2015 ء)
شادی کے اگلے سال ہی ادیتیا پیدا ہوا اور ’داغ ‘ کے ریلیز ہونے سے پہلے دوسرا بیٹا ’ اودھے ‘ بھی دنیا میں قدم رکھ چکا تھا ۔
” ۔ ۔ ۔ مجھے اس بات پر حسد محسوس ہوتا تھا کہ یش جی ہر وقت حسیناﺅں میں گھرے رہتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ان کے بارے میں بہت سی افواہیں بھی گردش کرتی تھیں ۔ ۔ ۔ یہ شادی سے پہلے البتہ زیادہ تھیں ۔ ۔ ۔ 1969 ء میں فلم ’ انسان اور آدمی‘ کے حوالے سے ان کا ممتاز کے ساتھ سکینڈل بہت پھیلا تھا ۔ ۔ ۔ میں نے شادی سے پہلے رومیش شرما سے اس بارے میں پوچھا بھی تھا ۔ ۔ ۔ انہوں نے مجھے کہا کہ وہ آپس میں بس دوست ہیں ۔ ۔ ۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ سچ نہ تھا ۔ ۔ ۔ مجھے یش جی کی بعد میں بنائی فلموں میں سے چند ہی اچھی لگیں ۔ ۔ ۔ چوپڑا گھرانے کی پرم پرا ہے کہ اس کی بہو بیٹیاں اداکاری نہیں کرتیں ۔ ۔ ۔ پائل کھنہ اسی لئے اس سے دور رہی ۔ ۔ ۔ اب رانی مکھر جی ’ آدی ‘ کی بیوی ہے ، وہ فلموں میں کام کرتی ہے۔ ۔ ۔ اگر’ آدی‘ خوش ہے تو میں بھی خوش ہوں ۔ ۔ ۔ زمانہ بدل چکا ہے۔ ۔ ۔ میں یش جی کو بہت مِس کرتی ہوں۔ ۔ ۔“
( پامیلا چوپڑا کا انٹرویو؛ فروری 2015 ء)
’ یش راج فلمز‘ سے یش کے فلمی کیرئیر کا دوسرا دور شروع ہوتا ہے ۔ اسے اپنی پروڈکشن اور ہدایت کاری کے ساتھ فلم بنانے میں دو سال لگ گئے ۔ اس بار بھی اس نے کہانی کے لئے پہلے سے لکھے مواد کا سہارا لیا اور تھامس ہارڈی کے ناول ’ دی مئیر آف کیسٹربرج ‘ کو گلشن نندا اور اخترالایمان کے حوالے کیا کہ وہ اس پر فلمی سکرپٹ اور مکالمے لکھیں ۔ یہ فلم ’ داغ ؛ محبت کی ایک نظم ‘ کے نام سے اپریل 1973 ء میں سامنے آئی ۔ اس فلم میں راجیش کھنہ کے مدِمقابل شرمیلا ٹیگور اور راکھی تھیں جبکہ فلم میں ولن کا کردار پریم چوپڑا نے ادا کیا تھا ۔ تھامس ہارڈی کا ناول زیادہ پیچیدہ ہے جسے سادہ کہانی میں بدلتے ہوئے فلم کا اختتام وہ نہیں جو ناول کا ہے ۔ فلم کے اختتام پرمحبت کی تکون برقرار رکھی گئی اور سنیل ( راجیش کھنہ ) سونیا ( شرمیلا ٹیگور) اور چاندنی ( راکھی) اکٹھے ہی دکھائے گئے ہیں ۔ ہندوستان کی مسلم آبادی کے لئے فلم کا یہ اختتام کچھ زیادہ اچنبھے کا باعث نہ تھا کیونکہ ان کے مذہب میں چار بیویوں کی اجازت ہوتی ہے لیکن ان کے لئے ، جن میں ایک وقت میں ایک عورت سے شادی کی اجازت اور رواج ہے ، یہ اختتام چونکا دینے والا تھا ۔ فلم کا میوزک لکشمی کانت ۔ پیارے لال کا تھا اور گیت ساحر لدھیانوی کے لکھے تھے ۔ فلم میں عمدہ اداکاری ، ہِٹ میوزک اپنی جگہ لیکن میرا خیال ہے کہ حالات کے دھارے پر بہتے ایک انسان کی کہانی اور اس کے غیر روایتی اختتام نے اس فلم کو سپر ہِٹ بنایا ۔ ’ یش راج فلمز‘ کے بینر تلے بننے والی اس پہلی فلم نے ہی یش چوپڑا کے لئے نئے در وا کر دئیے اور ایک اور فلم فیئر ایوارڈ اس کی جھولی میں ڈال دیا ۔ دو برس بعد اس کی فلم ’ دیوار ‘ جس میں ششی کپور ، امیتا بھچن ، پروین بابی ، نیتو سنگھ اور نروپا رائے نے کام کیا ، سامنے آئی ۔ اس کا سکرپٹ سلیم ۔ جاوید نے لکھا تھا جو ’ اچھا بھائی اور برا بھائی‘ کی تھیم پر تھا ؛ یہ تھیم اس سے پہلے محبوب کی فلم ’ مدر انڈیا ‘ ( 1957 ء ) اور دلیپ کمار کی فلم ’ گنگا جمنا ‘ ( 1961 ء) میں استعمال ہوئی تھی ؛ سلیم ۔ جاوید نے اپنے ایک انٹرویو میں خود یہ بات تسلیم کی تھی کہ انہوں نے دلیپ کمار کی فلم سے بنیادی طور پر متاثر ہو کر ’ پولیس افسر بھائی اور ڈاکو بھائی ‘ کو 1970 ء کی دہائی میں نئے انداز میں پیش کیا اور بمبئی انڈر ورلڈ کے ’حاجی مستان‘ کو سامنے رکھ کر وجے ورما ( امیتابھچن ) کا کردار تخلیق کیا ۔ یہ بات اہم ہے کہ ہندوستانی فلموں میں ’ انٹی ہیرو ‘ غالباً سنیل دت ( بِرجو ) کے طور پر ' مدر انڈیا ' میں اور دلیپ کمار ( گنگو رام ) ایسے ہی کردار’ گنگا جمنا ‘ میں ادا کر چکے تھے لیکن ’ دیوار‘ میں امیتا بھچن کو ’ انٹی ہیرو ‘ اور ’ ناراض جوان ‘ کے طور پر دیکھا گیا اور فلم کو بھی ’ انٹی اسٹیبلشمنٹ ‘ قرار دیا گیا ؛ اصل میں یہ ’ انٹی ہیرو‘ کی ہی ایک نئی تعریف تھی ۔ ’دیوار‘ نہ صرف اس سال کے لئے فلم فیئر ایوارڈز کے لئے بہترین فلم قرار پائی بلکہ اس نے چھ اور بھی ایوارڈ حاصل کئے ۔ یہ باکس آفس پر بھی ہٹ رہی اور اس نے امیتا بھچن کو فلمی دنیا میں ایک ٹھوس زمین مہیا کی ۔ فلمی ناقدین نے اس فلم کو بہت بڑھا چڑھا کر پیش کیا ۔ اسے’ انٹی ہیرو‘ ، ’ انٹی اسٹیبلشمنٹ ‘ اور اسے نہ جانے کس کس طرح سے ’ لینڈ مارک ‘ کہا لیکن انہوں نے اس کے اس پہلو کی طرف کم ہی دھیان کیا کہ یہ فلم ایک ’ سیکولر ‘ ماحول کو پیش کرتی ہے ؛ ’سومترا دیوی‘ ( نروپا رائے ) اور پولیس افسر بھائی ’ روی‘ ( ششی کپور) پابند ہندو ، جبکہ’ وجے ورما ‘ ( امیتا بھچن ) خدا سے ناراض ایک نیم ناستک دکھایا گیا ہے ۔ اس فلم نے 75 ملین جبکہ ’سلیم ۔ جاوید ‘کی لکھی فلم ’ شعلے ‘ ، جو اسی سال ریلیز ہوئی تھی ، نے 150 ملین انڈین روپے کا بزنس کیا تھا ۔
یش چوپڑا نے 1976 ء میں رومانوی فلم ’ کبھی کبھی ‘ پیش کی ؛ بقول پامیلا چوپڑا کے یہ ایک انگریزی کا سے ماخوذ تھی جو انہوں نے پڑھی تھی اور یش چوپڑا کی توجہ اس طرف دلائی تھی ۔ اس میں بھی اس نے اس وقت کے سارے ستارے جمع کئے؛ امیتابھچن ، ششی کپور ، رشی کپور، راکھی ، وحیدہ رحمان ، نیتو سنگھ ، سیمی اگروال ۔ یہ ایک رومانوی فلم تھی ؛ ایک نسل میں محبتوں کی ناکامی اور جدائی جبکہ دوسری نسل میں محبتوں کے ذریعے ملاپ اس کا موضوع تھا ۔ امیتا بھچن جو’ دیوار‘ میں ایک ’ ناراض جوان‘ بن کر ابھرا تھا ، اس میں ایک رومانی ہیرو کے روپ میں سامنے آیا ۔ اس فلم کے گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے جبکہ اس کی موسیقی خیام اور محمد رفیع نے ترتیب دی تھی ۔ فلمی نقادوں کا کہنا تھا کہ اس بات کا تعین کرنا مشکل ہے کہ یہ فلم اپنی موسیقی اور گیتوں کی وجہ سے مشہور اور کامیاب رہی یا پھر کہانی کے بل بوتے پر ؛ کچھ اسے عمدہ اداکاری اور ہدایت کاری کی وجہ سے کامیاب ٹھہراتے تھے ۔ جب اسے فلم فیئر ایوارڈز کے لئے نامزد کیا گیا تو قرعہ موسیقی ، گیتوں اور گائیکی کے حق میں نکلا ؛ خیام ؛ بہترین موسیقی ، ساحر ؛ بہترین گیت اور مکیش ؛ بہترین گلوکار اورساغر سرحدی کوبہترین سکرپٹ کے لئے ایوارڈ ملے ۔
1978ء کی ’ ترشول‘ بھی یش چوپڑا کی ایک کامیاب فلم تھی ؛ اس میں بھی امیتا بھچن بطور ’انٹی ہیرو‘ سامنے آیا ۔ سلیم ۔ جاوید ، ساحر لدھیانوی اب یش چوپڑا کی ٹیم کا حصہ بن چکے تھے ۔ جب یش چوپڑا نے ’ کالا پتھر‘ شروع کی تو فلم کی کہانی ، سکرپٹ اور گیت بھی انہوں نے ہی لکھے تھے۔
’کالا پتھر ‘ کی کہانی اور سکرپٹ ایک طرف تو’ چسنالہ ، جھاڑکنڈ ، کوئلے کی کان کے سانحہ‘ ( دسمبر 1975 ء ) کو سامنے رکھ کر لکھی گئی تھی جس میں 372 ، اموات ہوئی تھیں جبکہ ’ وجے پال سنگھ ‘ (امیتابھچن) کے کردار کو جوزف کونریڈ کے ناول ’ لارڈ جِم ‘ سے اٹھایا گیا تھا ؛ مرچنٹ نیوی کے ایک جہاز کا ایک ایسا کپتان جو اپنے جہاز اور تین سو مسافروں کو ڈوبتے سمے میں چھوڑ کر خود سمندر میں کود کر اپنی جان بچا لیتا ہے ۔ جہاز نہیں ڈبتا اور یہ کپتان اپنی بزدلی کے احساس جرم کے تحت معاشرے کی نظروں سے بچتا بچاتا کوئلے کی ایک کان میں نوکری کر لیتا ہے ( ناول میں البتہ کپتان مختلف نوکریاں کرتا کاشت کار مالے لوگوں میں جا بستا ہے ) جہاں پھر ویسا ہی کچھ ہوتا ہے جو چسنالہ کے سانحہ میں ہوا تھا ۔
لوگ ، اب ، شاید یش چوپڑا کی فلموں میں یکسانیت ’ monotony ‘ محسوس کرنے لگے تھے ؛ بڑی کاسٹ ، سلیم ۔ جاوید کے سکرپٹ ، فلمی چاٹ مصالحہ ، کشمیر اور بدیسوں میں فلم کی عکاسی اور ایسا سب کچھ جو وہ دیگرکمرشل فلموں میں بھی دیکھ رہے تھے ۔ یہ فلم باکس آفس پر کچھ زیادہ کامیاب نہ ہوئی ۔
1980 کی دہائی شروع ہوئی تو یش چوپڑا نے فلمی دنیا میں پھیلے اس رومانوی سکینڈل پر فلم بنانا چاہی جو امیتا بھچن اور ریکھا کے درمیان چل رہا تھا ؛ جیا بہادری 1973ء میں امیتا بھچن کی بیوی بن چکی تھی ۔ یش اس محبتی تکون پر بننے والی فلم میں پروین بابی اور سمیتا پاٹل کو لینا چاہتا تھا لیکن وقت نے کچھ ایسا کیا کہ امیتا بھچن کے ساتھ جیا اور ریکھا نے ہی فلم ’ سلسلہ‘ میں کام کیا ۔ اس فلم کو یش چوپڑا نے ساغر سرحدی ، پریتی بیدی اور رومیش شرما کے ساتھ مل کر خود ہی لکھا تھا ۔ اس کے گیت جاوید اختر نے لکھے اور موسیقی ’ شیو ۔ ہری ‘ نے ترتیب دی ۔ یہ فلم بھی باکس آفس پر ناکام رہی ۔ اس نے ریکھا اور امیتا بھچن کی جوڑی تو توڑی ہی ، ساتھ میں اگلے بیس سال تک جیا بھچن نے بھی امیتابھچن کے ساتھ کسی فلم میں کام نہ کیا ۔
’سلسلہ‘ سے یش چوپڑا کی فلموں نے ناکام ہونا شروع ہوا اور 1980 کی دہائی میں ’چاندنی‘ ( 1989 ء) کے ریلیز ہونے تک اس کی بنائی سب فلمیں فلاپ رہیں جن میں دلیپ کمار کے ساتھ بنائی فلم ’ مشعال‘ ( 1984 ء) بھی شامل تھی ۔
سری دیوی اور انیل کپور کی ’ لمحے‘ (1991ء) نے یش چوپڑا کے لئے پھر سے کامیابی کی امید پیدا کی ؛ یہ ناول ’ Daddy Long-legs ‘ سے ماخوذ تھی ؛ یہ ناول امریکی مصنف ' جین میکس ویبسڑ نے 1912 ء میں لکھا تھا اور اس پر ملیالم میں پہلے ہی ایک فلم 1984ء میں بن چکی تھی ؛ یہ بھی یش کی بیوی نے پڑھا تھا ( اور شاید ملیالم میں بنی فلم کو بھی دیکھا ہو ) اور اسے یش کو فلم میں ڈھالنے کے لئے کہا تھا ۔ اگلے برس ہی اس کی ’ ملٹی سٹار ‘ فلم ’ پرم پرا ‘ نے فلاپ ہو کر یش چوپڑا کے لئے مشکلات پیدا کر دیں جو فلم ’ ڈر‘ ( 1993 ء ) کے کامیاب ہونے پر دور ہوئیں ؛ اس فلم میں یش چوپڑا نے جوہی چاولہ کے ساتھ شاہ رخ خان اور سنی دیول کو کاسٹ کیا تھا ؛ یہ ایک ' سائیکو تھریلر ڈرامہ ' فلم تھی جو امریکی فلم ' Cape Fear ' ( 1991 ء ) سے ماخوذ تھی ۔ اسے عوام نے پسند کیا ۔ اسے اگلی کامیابی فلم ’ دل تو پاگل ہے ‘ ( 1997ء ) سے ملی جو اس کی پروڈکشن ، ہدایت کاری اور لکھت پر مبنی تھی ۔ ’ ڈر‘ اور’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ ( اس کا ہدایت کار یش کا بیٹا ادیتیا تھا ) بعد یش چوپڑا نے شاہ رخ خان کو تیسری بار اپنی فلم میں مادھوری ڈکشٹ اور کرشمہ کپور کے ساتھ کاسٹ کیا تھا ؛ یہ فلم بھی ' My Guardian Angel ' کی ایک کہانی سے ماخوذ ہے ۔ اب ' یش راج چوپڑا فلمز' اتنے پیسے کما چکی تھی کہ اپنے بینر تلے اپنا سٹوڈیو ، ہوم انٹرٹینمنٹ کمپنی اور موسیقی کمپنی بھی کھڑی کر سکے ۔ 2004 ء میں اس کی فلم ’ ویر ۔ زارا ‘ بھی کامیاب رہی ؛ اس میں شاہ رخ خان کے مد مقابل پریتی زِنٹا اور رانی مُکرجی تھی ۔’ جب تک ہے جان ‘ ( 2012 ء ) یش چوپڑا کی زندگی کی آخری فلم تھی ؛ اس میں اس نے شاہ رخ خان کے مد مقابل کترینا کیف کو ہیروئن لیا تھا ؛ یہ فلم موسیقار اے آر رحمان کی یش چو پڑا کے ساتھ پہلی فلم تھی ؛ یہ فلم اس کی موت کے بعد نومبر 2012 ء میں ریلیز ہوئی ۔
' یش چوپڑا فلمز ' کا جو بینر اس لاہورئیے نے 1971 ء میں بالی ووڈ کے آسمان پر تانا تھا وہ یش چوپڑا کے فوت ہونے تک پچاس سے زائد فلمیں پروڈیوس اور یش چوپڑا کی اپنی ہدایت کاری میں لگ بھگ بیس فلمیں بنا چکا تھا ۔
اس کے دونوں بیٹوں نے اس بینر کو ابھی تک ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے ، جو اب فلم ، میڈیا اور تفریحی میدان میں ایک بڑی ملٹی نیشنل کمپنی ہے ؛ اس کا اپنا جدید آلات و سامان سے لیس فلم سٹوڈیو ہے ۔ ہوم انٹرٹینمنٹ کا شعبہ ہے اور موسیقی کا شعبہ ان سے الگ ہے ۔ یش چوپڑا کا بڑا بیٹا ادتیا چوپڑا اس کمپنی کا چیئرمین ہے جبکہ چھوٹا ایک طرح سے وائس چئیرمین ہے ۔ ادتیا چوپڑا نے ' رب نے بنا دی جوڑی ' کے آٹھ سال بعد 2016 ء میں بطور ہدایت کار فلم ’ بے فکری ‘ سے فلمی دنیا میں واپسی کی ہے ؛ اس میں رَنویر سنگھ اور وانی کپور نے کام کیا ہے ؛ یہ فلم باکس آفس پر درمیانی سظح کا بزنس ہی کر سکی ۔ یاد رہے کہ اس نے اس سے پہلے 2000 ء میں کامیاب فلم ’ محبتیں ‘ لکھنے کے علاوہ اس کی ہدایت کاری بھی کی تھی ۔ وہ اس سے پہلے 1995ء میں ’ دل والے دلہنیا لے جائیں گے‘ کی ہدایت کاری کر چکا تھا ۔ وہ باپ کی وفات کے بعد اگلے چار برس فلمی دنیا میں بطور ' بزنس ٹائکون ' جُتا رہا اور اب بھی وہ اشتراک کے ساتھ فلمیں پروڈیوس کرنے میں لگا ہوا ہے اور ورثے میں ملے سٹوڈیو کو کرائے پر دے کر دولت کمانے میں مصروف ہے ؛ شاید ، باپ سے ورثے میں ملی ' ہدایت کاری ' اسے کچھ زیادہ محنت طلب دکھائی دیتی ہے ۔
یش چوپڑا کی بیوہ پامیلا اس وقت لگ بھگ 80 برس کی ہے ۔
یش چوپڑا کو 2013 ء میں فلمی دنیا میں اس کی خدمات کے اعتراف میں ’Lifetime Achievement Award‘ فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا ۔’ دادا صاحب پھالکے ایوارڈ اُسے 2001 ء میں جبکہ ’ پدما بھوشن ‘ یوارڈ 2005 ء میں پہلے ہی مل چکا تھا ۔ اس کی کامیابی کی زنبیل میں چھ نیشنل فلم ایوارڈز کے علاوہ گیارہ فلم فیئر ایوارڈ ز بھی شامل ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔