[ فلم میلنکولیا ( 2011 , Melancholia ) پر ایک یادداشتی نوٹ ]
آج کی نوجوان نسل میں جینیفر لارنس ( Jennifer Lawrence ) کا ویسے ہی چرچا ہے جیسے میرے بچپن میں صوفیہ لارین ، جینا لولو بریجیڈا اور الزبتھ ٹیلر کے بارے میں میرے والد ، ان کے دوست ، میرا بڑا بھائی اور ان کے دوست بات کرتے تھے اور انہیں مدھوبالا ، نرگس اور مسرت نذیر کے علاوہ برصغیر کی کوئی اداکارہ نہیں بھاتی تھی ۔ میں چونکہ اُس وقت سے دیسی و بدیسی فلمیں دیکھ رہا ہوں جب میں دوسری جماعت میں تھا تو مجھے بھی ان کی پسند اپنی پسند لگتی تھی ۔ جب میں نے جوانی میں قدم رکھا توصوفیہ لارین ، جینا لولو بریجیڈا اور الزبتھ ٹیلر کم کم اور جین فونڈا اور جوڈی گیسن جیسی اداکاراﺅں کی فلمیں زیادہ آنے لگیں اور ابھی میں او پی ایف بوائز کالج کا پرنسپل نہیں بنا تھا کہ جینیفر لارنس نے ’ گارڈن پارٹی ‘ ، 2008 ء میں ’ ٹِف ‘ ( Tiff ) کا کردار ادا کرکے اپنے فلمی کیرئیر کی شروعات کر دی تھی ؛ وہ اس وقت اٹھارہ برس کی ہو گی ؛ ’ ٹِف ‘ کوئی اہم رول نہ تھا ۔
جب 2009 ء میں ، میں او پی ایف بوائز کالج کا پرنسپل بنا تو میں نے وہاں ایک ڈیجیٹل لائبریری قائم کی اور اس کے ہال میں طلباء کو ہفتے میں ایک بار بدیسی فلمیں دکھانا شروع کیں ۔ میرا خیال تھا کہ یوں ان کی انگریزی بہتر ہو گی اور ان کا ویژن ( vision ) بھی وسیع ہو گا ۔ ہفتے کے روز آٹھویں جماعت تک کے بچوں کے لئے ایک شو ہوتا جبکہ میڑک/ او، انٹرمیڈیٹ/ اے لیول کے لئے دوسرا اتوار کو ۔ یہیں میں نے جینیفر لارنس کا نام ’ اے لیول ‘ کے طلباء سے سنا تھا کہ وہ بہت ’ اِن ‘ ( In ) ہے ۔ اُن کی فرمائش پر میں نے ’ ڈیبرا گرینک‘ ( Debra Granik ) کی فلم ’ ونٹر'ز بون ‘ ( Winter's Bone ) کی ڈی وی ڈی منگوائی اور اس کا شو چلایا ۔ جیسے ہی جینیفر لارنس ' اوزریکس ' ، مسوری کی ایک دیہاتی لڑکی کے رول میں سکرین پر سامنے آئی ، طلباء میں سرگوشیاں ہوئیں اور ایک دو نے تو سیٹیاں بھی ماریں اور مڑ کر میری طرف دیکھا ۔ مجھے سنجیدہ دیکھ کر وہ خاموش ہو کر فلم میں دیکھنے لگے ۔
بندے ، خصوصاً عورت کے چہرے یا گردن پر ایک آدھ تِل ہو تو یہ اس کے حسن میں اضافہ کر دیتا ہے لیکن یہ ایک سے زیادہ ہوں تو میری پیڑی کے لوگ اسے ’ تِلوں والے کلچے ‘ کا نام دیتے ہیں ۔ جینیفر لارنس کے چہرے پر تھوڈی کے دائیں طرف ایک جبکہ دائیں کان تلے دو تل اور اس کی گردن پر یہ کافی زیادہ ہیں ۔ ویسے پسند کا کیا ہے آخر لوگوں کو تِلوں والے کُلچے بھی تو پسند ہوتے ہیں ۔
فلم ختم ہوئی تو ضابطے کے مطابق اس پر بحث کا سیشن بھی ہوا اور میں نے اندازہ کیا کہ میرے اِن نوجوان طلباء نے فلم کو کم البتہ جینفر کی اداکاری ، اس کے جسم اور خوبصورتی پر زیادہ بات کی ۔ میں نے جب ’ تِلوں والے کلچے ‘ کی بات کی تو کئی کا ردِ عمل اتنا شدید تھا کہ مجھے فلم پر بات چیت جلد ’ وائنڈ اَپ ‘ کرنا پڑی ۔ میں نے جینیفر لارنس کی مزید فلمیں نہیں دیکھیں لیکن چند ماہ پہلے مجھے امریکی ہدایتکار فرانسس لارنس (Francis Lawrence ) کی فلم ’ لال چڑیا ‘ ( Red Sparrow ) دیکھنا پڑی کیونکہ یہ اسی نام کے ناول پر بنائی گئی ہے جسے ’ جیسن میتھیوز‘ نے 2013 ء میں لکھا تھا اور میں نے اسے پڑھ رکھا تھا ؛ ’ سرد جنگ ‘ میرے لئے ہمیشہ ایک دلچسپ موضوع رہا ہے ۔ یہ ناول بھی امریکہ اور سوویت یونین کی اس سرد جنگ کے تسلسل پر مبنی ہے جس میں روسی ’ ایس وی آر‘ ( کے جی بی کی موجودہ شکل ) ایک ایسی اکیڈیمی بناتی ہے جو ’ لال چڑیاں ‘ تیار کرتی ہے جن کا کام سی آئی اے کے ایجنٹوں کو جنسی طور پر ورغلا کر ڈبل ایجنٹوں کا پتہ چلانا ہوتا ہے ؛ ناول نگار نے ایسے ایجنٹوں کو ’ مول‘ ( mole ) کا نام دیا ہے ۔ جینفر ایسی ہی چڑیا ہے جس کا نام ’ ڈومینیکا ایگوروا ‘ ہے ۔ اس فلم کے ایک دو مناظر میں جینفر نے اپنے پورے جسم کو بھی دکھایا ہے یوں آپ اس کے چہرے ، گردن اور پورے جسم پر موجود سارے تِل دیکھ سکتے ہیں جو تاروں کی مانند کئی جھرمٹ ( constellation ) بناتے ہیں ۔ اس فلم کے بارے میں پھر کبھی بات ہو گی ۔
تاروں اور ان کے جھرمٹوں کی بات مجھے گزشتہ برس میں لے گئی ہے جب امریکی ہدایتکار اور رائٹر ’ ڈیرن ایرونوفسکی‘ ( Darren Aronofsky ) کی فلم ’ ماں! ‘ ( ! mother ) سامنے آئی اور میں نے اسے دیکھا تھا ۔ یہ امریکی فلم میکر اپنے ’ سریلسٹ‘ ( Surrealistic ) سٹائل ، فلم بین کو بے چین کرنے والی اور میلو ڈرامہ فلموں کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اس کی فلم ’ ماں! ‘ میں جینیفر اور جیوئیربارڈیم ( Javier Bardem)، مچل پفیفر( Michelle Pfeiffer ) اور ایڈ ہیرس ( Ed Harris ) نے مرکزی کردار ادا کئے ہیں ۔ میں اس فلم کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا ، صرف وہی کہنا چاہتا ہوں جو جینیفر لارنس نے اس فلم کی توجیح پیش کرتے ہوئے کہا تھا ؛
” یہ فلم ایک حکایت ، ایک تمثیل ہے ۔ ۔ ۔ جو دھرتی ماں کے ساتھ زنا بالجبر اور اسے تاراج کئے جانے کی کہانی بیان کرتی ہے ۔ میں ' دھرتی ماں ' کا کردار ادا کر رہی ہوں ۔ ۔ ۔ جیوئیر جو ایک شاعر کا کردار ادا کر رہا ہے ، خدا ہے یعنی تخلیق کار ۔ ۔ ۔ اس میں مچل پفیفر ’ حوا ‘ ہے اور ایڈ ہیرس ’ آدم ‘ ہے ۔ اس میں ہابیل اور قابیل بھی ہیں اور اس فلم کو ایک ایسی جگہ فلمایا گیا ہے جو باغ ِعدن سے مماثلت رکھتی ہے ۔ ۔ ۔ “
ہدایت کار’ ڈیرن ایرونوفسکی‘ اپنی فلم کے بارے میں کہتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ فلم کے نام پر غور کریں ۔ ۔ ۔ ماں کے آگے ’ ! ‘ کا نشان ہے ۔ ۔ ۔ اسی میں فلم کی اصل روح ہے اور فلم کا اختتام بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔۔۔’ ! ‘ کے نشان جیسا ۔ اس بات پر بھی غور کریں کہ ’ مدر‘ ( ماں ) کا m بڑا نہیں ہے اور اگر آپ فلم کے دیگر کریڈیس پر غور کریں تو سب نام چھوٹے پہلے حرف سے شروع ہوتے ہیں صرف ’ Him ‘ کا H بڑا ہے ۔
اس فلم کے اختتام میں سب کچھ جل جاتا ہے اور فقط ’ ماں‘ اور’ وہ‘ ( Him ) بچتے ہیں ۔’ ماں‘ بری طرح جھلسی ہوئی ہے جبکہ ’ Him ‘ کو خراش تک نہیں آتی ۔ وہ ’ ماں ‘ کے دل کو اس کے جسم سے نکالتا ہے اور اس سے ایک ویسی ہی ’ قلم ‘ ( crystal ) بناتا ہے جیسی فلم کے شروع میں اس کے پاس ہوتی ہے ۔ وہ اس کی مدد سے ایک بار پھر جھلسے و جلے ماحول کو خوبصورت بنا دیتا ہے جس میں ایک نئی ماں نیند سے جاگتی ہے اور متلاشی ہوتی ہے کہ ' وہ ' ( Him ) کہاں ہے ۔
مجھے یاد ہے کہ مجھے اس فلم نے اداس کر دیا تھا ۔ مجھے لگا تھا کہ ہماری دھرتی ، زمین ، ہی کیوں ’ اس‘ کے ہتھے چڑھی جسے اس نے زندگی سے نوازا ، اسے کوئی اور سیارہ اور کوئی دوسرا نظام شمسی کیوں نہ بھایا ؟ اور۔ ۔ ۔ اور اگر اس نے ہماری دھرتی کے علاوہ اور سیاروں پر بھی زندگی پیدا کی ہے تو ہمیں اپنے ان ہمسایوں کا پتہ کیوں نہیں ہے ؟ کیا ہم اس کائنات میں اکیلے ہیں ؟ کیا زیست سے بھرے اس سیارے کے مقدر میں تنہائی ہی لکھی ہے ؟ ایسے میں فرد کی تنہائی کیا معانی رکھتی ہے جبکہ اس دھرتی پر اربوں کا ہجوم بھی تو کُرہ ِہوائی کے باہر کوئی دوست نہیں رکھتا ؟ کیا ' اس ' نے دھرتی کو متنوع زیست عطا کرکے اس سے بھلائی کی ہے یا دشمنی ؟ اسے آباد کرکے بار آور کیا ہے یا یہ احساس دلایا ہے کہ وہ اربوں کا ہجوم خود میں لئے تو ہے لیکن پھر بھی تنہا ہے ؟ وجوی خودکشی کیا ہے ؟ وجود کی جغرافیائی خودکشی کیا ہوتی ہے ؟ کیا یہ ایک خطے سے دوسرے میں ہجرت کا نام ہے ؟ کیا یہ ایک تہذیب سے دوسری اپنانے کا نام ہے ؟ کیا یہ ایک سیارے سے دوسرے ہر ہجرت کا نام ہے ؟ کیا یہ حیات سے موت میں جانے کا نام ہے ؟ کیا کبھی زمین بھی اپنی تنہائی کے ہاتھوں خودکشی پر مجبور ہو جائے گی ؛ جغرافیائی خودکشی ؟ اور۔ ۔ ۔ اور کیا انسان کے خلاء میں بھیجے ’ وائجر ۔ 1 اور 2 ‘ ( Voyager – 1 & 2 ) گولڈن ریکارڈ لئے یونہی ساتھ لیے خلاء میں بھٹکتے انہیں بجاتے رہیں گے جبکہ ان کی گزرگاہوں پر کوئی سامع نہیں ؛ گولڈن ریکارڈ جن پر سمندر ی لہروں ، آندھی ، طوفان اور جانوروں کی آوازیں ہیں ۔ جن میں وہیل ، ڈولفن اور پرندوں کے غنائیے ہیں ۔ مختلف تہذیبوں اور زمانوں کی موسیقی ہے اور دنیا کی تقریباً ساری زبانوں میں تہنیتی پیغام ہے ۔ جس کے ٹریک ۔ 2 پر اردو زبان میں بھی ” اسلام وعلیکم ، ہم زمین کے رہنے والوں کی طرف سے آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں ۔ “ بھی بجتا ہے ۔
یہ سوال مجھ پر اتنے حاوی ہوئے کہ میں ’ ایم ڈی ڈی‘ کی حالت میں چلا گیا اور مجھے یہ سمجھ میں آیا کہ سویڈش ہدایتکار ’ لارز وان ٹریر‘ نے کیونکر اپنی ’ ڈیپریشن ٹرائلوجی ‘ کی دوسری فلم ’ میلنکولیا ‘ ( Melancholia ) بنائی تھی ۔
لارز وان ٹریر جب 2006 ء میں ’ ایم ڈی ڈی‘ کا شکار رہا تو وہ حال سے ماضی میں گیا اور اس نے حال و ماضی کے امتزاج میں رہتے ہوئے ’ انٹی کرائسٹ ‘ بنائی تھی ۔ بعد ازاں ، جب اس پر ایک بار پھر ’ ایم ڈی ڈی ‘ کا دورہ پڑا تو اس کے شعور میں آئی تبدیلی اسے ماضی اور حال کے ساتھ ساتھ مستقبل میں بھی لے گئی ہو گی : شہابیے ؛ ان کی قسمیں ؛ سی ، ایس ، ایم اور وی ۔ میکسیکو میں ’ چکزولب ‘ ( Chicxulub) کے قریب گرا شہابیہ جس نے لگ بھگ 65 ملین سال پہلے دھرتی ہر موجود نباتات وحیوانات کی تین چوتھائی جن میں دائنوسار بھی شامل تھے ، صفحہ ہستی سے مٹا دئیے تھے ۔وہ شہابیہ جو’ گریٹ پَرمین ایکسٹنگشن ‘ ( Great Permian Extinction) کا باعث بنا ، جس نے 96 فیصد آبی حیات ، 70 فیصد زمینی حیات کا صفایا کر دیا تھا ۔ زمانہ حال میں بھی شہابیوں کا مسلسل زمین کا رخ کرنا اور سائنس دانوں کا یہ کہنا کہ شہابیوں کے ہاتھوں زمین کے تباہ ہونے کے بیس قوی امکانات موجود ہیں ۔ زمین کی تنہائی ، اس کی حیاتیات کی تنہائی اور فرد کی تنہائی جیسے سوالات نے بھی لارز وان ٹریر کے ذہن کو جھنجھوڑا ہو گا ۔
اس بار ، اس نے جو سکرپٹ لکھا وہ فلم ’ میلنکولیا ‘ کے نام سے2011 ء میں اس کی اپنی ہدایت کاری میں سامنے آیا ۔ یہ فلم پہلی بار ’ کان‘ ( Cannes ) کے عالمی فلمی میلے میں 18 مئی 2011 ء کو پیش کی گئی تھی ۔ یہ ایک سائنس فکشن ہونے کے ساتھ ساتھ سائیکو ڈرامہ بھی ہے ۔
ٹریر نے فلم کو تین حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ آغاز میں اس نے خلاء اور فلم کے مرکزی کرداروں کے’ وِرچویل‘ ( Virtual ) مناظر دکھاتے ہوئے فلم کے بنیادی عناصر کا تعارف کروایا ہے ؛ فلم کی ہیروئن جسٹین (Justine ) مالیخولیا کی حالت میں ہے اور اس کے پیچھے پرندے گر رہے ہیں ؛ وسیع ، مستطیل لان میں ایک بڑے پتھریلے پلیٹ فارم پر لگی آفتابی گھڑی پر ایک نہیں دو مختلف سائے ہیں اور اس لان میں دائیں بائیں قطاروں میں لگے مورپنکھ کے بوٹوں کے بھی دو دو سائے واضح ہیں ؛ لان کے دور والے حصے میں کھڑی ' جسٹین ' کے بھی دو سائے ہیں ؛ ڈچ و فلیمش نشاة الثانیہ کے زمانے کے مصور’ پیٹر بروگل ‘ کی پینٹنگ ’ ہنٹرز اِن سنو ‘ ( The Hunters in the Snow ) پتش سے جھلس رہی ہے ؛ خلائی منظر میں ایک بڑا سیارہ قریب میں تاریک ہے جبکہ دوسرا دور روشن ہے ، روشن والا تاریک سیارے کے پیچھے چھپ جاتا ہے ؛ ایک کالا گھوڑا ’ سلو موشن ‘ میں پیچھے کی جانب گر رہا ہے ؛ رات میں جسٹین (Kirsten Dunst ) ، کلیر ( Charlotte Gainsbourg) اور لیو (Cameron Spurr ) لان میں کھڑے ہیں اور ان کے پیچھے دو سیارے چمک رہے ہیں ۔ خلائی منظر میں دو سیارے حرکت میں ہیں ؛ جسٹین درختوں کی شاخوں کی جکڑ میں ہے ؛ دو سیارے ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں ؛ شادی کے جوڑے میں ملبوس جسٹین پانی میں بہے جا رہی ہے ؛ اس حصے کے آخری منظر میں لیو ( جسٹین کی بھانجا ) لکڑی چھیل رہا ہے اور جسٹین اس کی طرف بڑھ رہی ہے اور ادھر خلاء میں ایک بڑے حجم والا سیارہ زمین کی طرف بڑھتے ہوئے اس سے ٹکرا جاتا ہے ۔ فلم کا یہ حصہ کچھ ایسا ہی ہے جیسے اوپیراز میں ’ اوورچرز‘ ہوتا ہے ۔ ٹریر نے نہ صرف اس حصے میں انیسویں صدی کے جرمن موسیقار و سٹیج ہدایت کار رچرڈ ویگنر ( Richard Wagner ) کے اوپیرا ’ Tristan und Isolde ‘ کے پریلیوڈ (Prelude ) کو بیک گراﺅنڈ میں چلایا ہے بلکہ اس کا اثر ساری فلم پر چھایا نظر آتا ہے ، البتہ اس نے اس میں سے ’ بیٹ‘ ( beat ) کاٹ کر ایک نیا تجربہ بھی کیا ہے ۔ ٹریر نے اپنی فلم کی ہیروئن ’ جسٹین ‘ کا نام ’ Marquis de Sade ‘ کے ناول ’ Justine‘ سے لیا ہے ( میرا خیال ہے کہ جسٹین اور کلیئر ، دو بہنوں ، کا تصور فرانسیسی ادیب ’ ژاں جینٹ ‘ ( Jean Genet ) کے ڈرامے ’ The Maids ‘ سے بھی متاثر ہے جو اس نے 1947 ء میں لکھا تھا ۔ اس ڈرامے میں دو مرکزی کرداروں میں سے ایک کا نام کلیئر ہے ۔ ) ۔
اوورچر کے بعد فلم’ جسٹین‘ (Justine) نامی حصے سے شروع ہوتی ہے جس کے پہلے منظر میں وہ مائیکل (Alexander Skarsgård) کے ہمراہ اپنی ہمشیرہ کلیئرکی جاگیر پر منعقد ہونے والی اپنی شادی کی تقریب میں تنگ راستے اور لمبی ’ لیموزین‘ کی وجہ سے تاخیر سے پہنچتی ہے ۔ جسٹین کا خاندان ایک منتشر کنبہ ہے ؛ اس کا باپ ہر شے میں خوشی کی تلاش میں رہتا ہے جس نے اسے خود غرضی کی حد تک نرگسیت پسند بنا دیا ہے ، اس کی ماں شادی کے’ انسٹی ٹیوشن‘ پر یقین نہیں رکھتی اور جس نے اپنے خاوند کو گھر سے نکال دیا ہوتا ہے، اس کے بہنوئی کو یہ قلق ہے کہ اسے اس شادی کی تقریب کے سارے اخراجات برداشت کرنا پڑ رہے ہیں ۔ جسٹین سے کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ وہ کیا چاہتی ہے ۔ سارے انتظامات ’ اشرافیہ ‘ کے معیار کے مطابق پہلے سے طے شدہ ہیں اور اس کی بہن کلیئر نے ہر رسم کو طے کر رکھا ہے ۔ جسٹین ناخوش ہے ، اداس ہے لیکن کوئی اس کی ناخوشی اور اداسی کی پرواہ نہیں کرتا بس اس کی خوبصورتی کی تعریف کئے جاتا ہے ۔ کلیئر اسے یہ بھی سمجھاتی ہے کہ وہ اپنے ہونے والے خاوند کو اپنی ’ ناخوشی اور اداسی‘ کے بارے میں کچھ نہ بتائے ۔ وہ تقریب کی گہماگہمی سے اکتا کر گھر کے گردا گرد پھیلے اٹھارہ سوراخوں والے گالف کورس میں نکل جاتی ہے اور ایک سوراخ میں پیشاب کرتے ہوئے آسمان کو تکتی ہے جہاں’ عقربی ستاروں ' کا جھرمٹ ہے ۔ جسٹین کا باس ایک ظالم ، خود غرض اور لالچی شخص ہے جو اپنی تقریر میں جسٹین سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ وہ سہاگ رات منانے کی بجائے وہ کام ختم کرے جو اس نے جسٹین کو سونپا ہوتا ہے ۔ وہ بار بار اسے اس اشتہاری مہم کے بارے میں یاد دلاتا ہے جو ’ پیٹر بروگل ‘ کی پینٹنگ ’ The Land of Cockaigne ' کی ایک جدید نقل کے حوالے سے اس نے تیار کرنی تھی ۔ اس محفل میں جسٹین کے باس کا بھتیجا بھی شامل ہے جسے وہ جسٹین کے پیچھے لگاتا ہے کہ وہ اس سے ’ ٹیگ لائن ‘ بنانا سیکھے ۔ جسٹین سے یہ محفل مزید برداشت نہیں ہوتی اور وہ ایک بار پھر گالف کورس میں نکل جاتی ہے جہاں وہ اپنے باس کے بھتیجے کے ساتھ مباشرت کرتی ہے لیکن اسے ٹیگ لائن بنانا نہیں سکھاتی ۔ اس کا باس بھتیجے کو نوکری سے نکال دیتا ہے جبکہ جسٹین اپنے باس کی بے عزتی کرتے ہوئے خود نوکری چھوڑ دیتی ہے ۔ رات کے آخری حصے میں جسٹین اور مائیکل اس بات پر اتفاق کرتے ہیں کہ شادی منسوخ کر دی جائے ۔ مائیکل وہاں سے چلا جاتا ہے ۔ اگلی صبح جب جسٹین اپنی بہن کلیئر کے ساتھ گھڑ سواری کے لئے نکلتی ہے تو اسے احساس ہوتا ہے ' عقربی ستاروں ' کے وسط میں سب سے روشن اور لال ستارہ ’ Antares ‘ آسمان پرنظر نہیں آ رہا ۔
یہاں فلم کا پہلا حصہ ختم ہو تا ہے اور ’ کلیئر‘ کے نام سے دوسرا شروع ہوتا ہے ۔ جسٹین کا مالیخولیا اتنا شدید ہوجاتا ہے کہ اس کے اعصاب جواب دے جاتے ہیں اور اسے اپنی بہن کی نگہداشت میں آنا پڑتا ہے ۔ کلیئر بھی’ عقربی‘ لال ستارے کے غائب ہونے پریشان ہے ۔ اس کے خاوند جان ( Kiefer Sutherland) ، جو ایک ماہر علم فلکیات ہے ، کے پاس اس کی یہ دلیل ہے کہ ایک نئے دریافت ہوئے سیارے ’ میلنکولیا ‘ ( Melancholia ) نے اس کا راستہ روک رکھا ہے جو پہلے سورج کے پیچھے تھا اور اب سامنے آ کر’Antares ‘ کا راستہ روکے ہوئے زمین کے قریب آ رہا ہے اور گو کہ وہ ایک ’ آوارہ ‘ (rogue) سیارہ ہے لیکن وہ زمین سے نہیں ٹکرائے گا اور اس کے پاس سے ’ فلائی بائی‘ ( fly-by) کی طرح گزر جائے گا ۔ اس نے کلیئر کو منع کر رکھا ہے کہ وہ انٹرنیٹ سے دور رہے تاکہ اس سیارے کے بارے میں پھیلی افواہوں سے دور رہ سکے ۔ جسٹین ، جسے لیو ’ آنٹی سٹیل بریکر ‘ کہتا ہے کو کھانے کا ذائقہ راکھ جیسا لگتا ہے اور وہ جام و چٹنیاں وغیرہ کھا کر گزارہ کرتی ہے ۔ اس کے اعصاب قابو میں تو آ جاتے ہیں لیکن وجودی ’ اداسی‘ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی ۔ وہ اسی اداس کیفیت میں پاس بہتی ندی کے کنارے برہنہ حالت میں جا لیٹتی ہے اور ’ میلنکولیا ‘ کو تکتی رہتی ہے لیکن وہ اس بات سے خوفزدہ نہیں کہ وہ زمین سے آ ٹکرائے گا ، کلیئر البتہ اس بات سے خوفزدہ ہے اور جان سے چوری چوری انٹرنیٹ پرکھوج کرتی ہے اور ایک مقالے ’ زمین اور میلنکولیا ؛ موت کا رقص‘ کا پرنٹ لینا چاہتی ہے کہ بجلی چلی جاتی ہے ۔ جان اس کے پاس پیٹرومیکس لیمپ لئے آتا ہے اور اسے بتاتا ہے کہ میلنکولیا کی مقناطیسیت کی وجہ سے اگلے چند روز تک بجلی نہیں ہو گی ۔ اسے یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ کلیئر کیا کر رہی تھی ۔ وہ اسے پھر سے یقین دلاتا ہے کہ ’ میلنکولیا ‘ زمین سے نہیں ٹکرائے گا ۔ ’ میلنکولیا ' ایک بار تو زمین کے پاس سے گزر جاتا ہے لیکن نظام شمسی سے باہر نہیں نکلتا ۔ جان کو جب یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ زمین سے آ ٹکرائے گا تو وہ نیند کی گولیاں کھا کر خودکشی کر لیتا ہے ۔ کلیئر اس کی خودکشی کو چھپانے کے لئے ایک کالے گھوڑے’ ابراہام ‘ کو باڑے سے باہر نکال دیتی ہے اور جسٹین اور لیو کو بتاتی ہے کہ جان گاﺅں گیا ہوا ہے ۔ اس کے برعکس اس کا بیٹا لیو جب ابراہام کو جاگیر میں باپ کے بغیر ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھتا ہے تو ڈر جاتا ہے اور جسٹین کو بتاتا ہے کہ اس کے والد نے کہا تھا کہ کچھ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی کہیں چھپا جا سکتا ہے ۔ اس پر جسٹین اسے یقین دلاتی ہے کہ نہیں ، وہ ’ جادوئی غار ‘ جس کو بنانے کا وہ لیو سے کئی بار وعدہ کر چکی ہوتی ہے ، میں چھپ کر بچ سکتے ہیں ۔ فلم کا اختتام کچھ یوں ہوتا ہے کہ کلیئر ، لیو اور جسٹین ایک نامکمل تکونے خیمے ( ٹیپی) میں بیٹھے ہیں ۔ سیارہ ’ میلنکولیا ‘ آسمان پر چھا جاتا ہے اور دنیا ختم ہو جاتی ہے ۔
جب یہ فلم ’ کان‘ کے عالمی میلے میں دکھائی گئی تو ٹریر کی متنازع پریس کانفرنس نے اسے فلم فیسٹیول کے ایوان سے نکال باہر کروایا تھا ؛ اسے کہا گیا تھا کہ وہ اس ایوان سے سو گز کی دوری پر رہے ۔ اس پریس کانفرنس میں کیا تھا یہ ایک الگ قصہ ہے جو میں’ ٹریر‘ پر اپنے مضمون میں شامل کروں گا ۔ اس نے اپنے ایک انٹرویو میں فلم کے بارے کچھ یوں کہا تھا؛
” ۔ ۔ ۔ میرا خیال ہے کہ اس فلم میں’ جسٹین ‘ ہر طرح سے میں ہوں ۔ اس کے کردار میں ، میں وافر مقدار میں جھلک مارتا ہوں اوریہ قیامت کے بارے میں پیشین گوئیوں اور ڈیپریشن کے حوالے سے میرے تجربات اور مشاہدات پر مبنی کردار ہے جبکہ اس کی بہن کو میں نے ایک عام بندے کے طور دکھانا چاہا ہے ۔ ۔ ۔ “
لیکن مجھے لگتا ہے کہ ٹریر اس سے بھی کہیں اندر تک گہرائی میں جا کر فلم میں اپنے دو رُخی شعور کو جسٹین اور کلیئر کی شکل میں پیش کرتا ہے اور مزے کی بات یہ ہے کہ ’ بے یقینی‘ اور ’ نہ جاننے ‘ کی کیفیت دونوں صورتوں میں موجود ہے ؛ کلیئر بھی اور جسٹین بھی ؛ دونوں اپنے اپنے شعوری محل وقوع میں ’ انجان ‘ ہیں اور ’بے یقینی ‘ کا شکار ہیں ۔
ٹریر نے ’ کان فلم فیسٹیول کے لئے لکھے اپنے بیان میں اپنی اس فلم کے بارے میں کہا ؛
” ۔ ۔ ۔ میں نے یہ فلم جرمن رومان پسندی کے اثر تلے بنائی ہے ۔ ۔ ۔ جرمن رومان پسندی میں ’ میلنکولیا ‘ کسی دوسرے کے فراق میں بری طرح گھلنے کا دوسرا نام ہے ۔ یہ کسی کے پیار میں گرفتار ہونے کے میٹھے درد جیسا احساس ہے ۔ میں نے اسی لئے فلم میں ’ زمین ‘ اور ’ میلنکولیا ‘ کا ایک دوسرے کی طرف کچھائو ، ٹکراﺅ اور انہیں ایک دوسرے میں مدغم ہوتا دکھایا ہے ۔ ۔ ۔ “
وہ اپنے اسی بیان میں انجام کو آغاز میں دکھانے کے بارے میں یہ بھی کہتا ہے ؛
” ۔ ۔ ۔ ہم ، جیمز بانڈ کی فلموں میں یہ توقع کرتے ہیں کہ ہیرو بالآخر بچ جائے گا اور ہم اس بارے میں فلم کے اختتام تک تجسس میں ہی رہتے ہیں کہ ایسا کیسے ہو گا ۔ ’ میلنکولیا ‘ میں ، میں نے انجام سے آغاز کیا ہے اوریہ توقع کی ہے کہ فلم بین کرداروں کے اس ردِ عمل کو دیکھیں جنہیں یہ معلوم ہے کہ سیارہ زمین کی طرف آ رہا ہے اور اس نے اس سے ٹکرانا ہے ۔ ۔ ۔ ''
یہ فلم لگ بھگ دس ملین ڈالر کی لاگت سے بنی تھی اور اس نے باکس آفس پر لگ بھگ سولہ ملین ڈالر کا بزنس کیا تھا ۔ اس کے ’ وِژیول افیکٹس‘( visual effects ) پر لگ بھگ بیس ماہرین نے تین ماہ تک لگاتار کام کیا جبکہ سینماٹوگرافر ’ مینیئول البرٹو کلیرو‘ نے اس کی فلم بندی دو ماہ میں کی ۔ ہینڈ ہیلڈ ( Hand Held ) ڈیجیٹل کیمروں کا کمال اس فلم میں بھی اپنے عروج پر ہے جس پر مینیئول البرٹو کلیرو کو ' یورپین فلم ایوارڈ ' بھی ملا تھا ۔
نقادوں کے نزدیک یہ فلم ٹریر کی واحد فلم ہے جو ’ مین سٹریم ‘ سینما کے قریب ترین ہے اور ٹریر کو اسی بات کا دکھ ہے کہ وہ اسے ’ مین سٹریم ‘ سینما کی فلم ہونے سے نہ بچا سکا ۔ یہی دکھ اس بات کا موجب بنا کہ ٹریر نے اپنی اگلی فلم جو ’ ڈیپریشن ٹرائلوجی ‘ کی تیسری فلم ہے ’ Nymphomaniac ‘ کے نام سے 2013 ء میں بنائی جس میں وہ اپنے مخصوص سٹائل میں واپس آتے ہوئے ایک عورت کی بارہ سال کی عمر سے لے کر پچاس سال کی عمر تک کی جنسی زندگی کو موضوع بناتا ہے ؛ یہ ’ اَن کٹ ‘ فلم ساڑھے پانچ گھنٹے کی طوالت رکھتی ہے اور ٹریر نے اسے دو حصوں میں تقیسم کرکے پیش کیا ہے ( میں شاید اس فلم پر تبصرہ نہ لکھ پاﺅں کیونکہ اس کو اردو قارئین کے لئے ہضم کرنا مشکل تو کیا ناممکن ہو گا ۔ ) ۔
64 ویں’ کان عالمی فلم فیسٹیول‘ میں ٹیرینس میلک ( Terrence Malick) کی تجرباتی فلم ’ The Tree of Life ‘ نے ’Palme d'Or ‘ حاصل کیا جبکہ ٹریر کی ’ میلنکولیا ‘ کے حوالے سے کرِسٹین دونسٹ ( Kirsten Dunst ) کو بہترین اداکارہ قرار دیا گیا ۔
میرے نزدیک ' ٹریر' کی یہ فلم اس کی اپنی ذات کی ترجمان فلم ہے جس میں وہ اپنے ان احساسات کو سامنے لاتا ہے کہ وہ خود ’ تنہا ‘ ہے اور جس سیارے پر وہ رہ رہا ہے وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے’ تنہا ‘ ہی ہے اور یہی دو احساس جب کسی آرٹسسٹ کے ذہن میں یکجا ہوتے ہیں تو وہ ’ میلنکولیا ‘ جیسا فن پارہ ہی تخلیق کرتا ہے ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
>؛ ’ میلنکولیا ‘ ایک فرضی سیارہ ہے جبکہ ’عقربی تاروں کے جھرمٹ ‘ ( Constellation of Scorpius ) اور اس میں موجود ’ Antares ‘ ایک حقیقی ہیں ۔ ' قلب العقرب ' کو ’ الفا سکورپی ‘ بھی کہا جاتا ہے اور یہ رات میں سب سے زیادہ روشن نظر آنے والے پندرہ ستاروں میں شمار ہوتا ہے ۔ اس کی کمیت (mass ) سورج سے لگ بھگ ہارہ گنا زیادہ ہے ۔ اگر اسے نظام شمسی میں رکھ کر دیکھیں تو یہ اپنا مدار مریخ اور جیوپیٹر کے مداروں کے درمیان بنائے گا ۔
>؛ ’ آوارہ سیارہ ' (rogue planet ) ایسا سیارہ ہوتا ہے جو ہر طرح کی کشش ثقل سے آزاد ہوتا ہے اور کسی بھی نظام شمسی میں داخل ہو کر کسی بھی سیارے سے ٹکرا سکتا ہے ۔ ہماری کہکشاں ’ مِلکی وے ‘ میں ایسے ہزاروں آوارہ سیارے موجود ہیں جو کسی بھی کشش ثقل میں بندھے ہوئے نہیں ہیں اور ان کی حرکت کسی مدار کی قیدی نہیں ہے ۔
>؛ وائجر ۔ ۱ ( Voyager 1 ) ناسا کا تحقیقاتی سیارچہ ( سپیس پروب ) ہے جو ستمبر 1977 ء کو خلاء میں بھیجا گیا جبکہ وائجر ۔ ۲ ( Voyager 2 ) اس سے سولہ دن پہلے خلاء میں بھیجا گیا تھا ۔ یہ دونوں کو خلاء میں گئے 41 سال سے زیادہ ہو گئے ہیں اور توقع ہے یہ نظام شمسی سے باہر نکل کر خلاء میں ' ملکی وے ' کے اندرداخل ہو کر ۲۰۲۵ ء تک کام کرتے رہیں گے اور ہمیں کائنات کے بارے میں ہمیں مزید آگاہی دیتے رہے گے ۔ ان دونوں پر وہ ' گولڈن ریکارڈ ' ہیں جن کا ذکر میں نے اوپر اپنی تحریر میں کیا ہے جو لگاتار بجتے رہتے ہیں لیکن اب تک یہ بات سامنے نہیں آئی کہ کسی نے اسے سُن کر کوئی جواب بھی دیا ہے ۔ یہ دونوں اس پانچ سیارچوں میں سے دو ہیں جو ' escape velocity ' کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نظام شمسی سے باہر نکل پائیں گے ؛ باقی تین میں ' پائنئر 10 ' ، ' پائنیر 11 ' اور ' نیو ہورائزن ( New Horizons ) ہیں ۔ یہ پانچوں ایک ایسی دوڑ میں ہیں جن میں فی الحال وائجر ۔ ۱ سب سے آگے ہے ۔ ان میں سے کون کب کہاں پہنچے گا یہ آپ اور میری زندگی کے بعد کے معاملات ہیں ۔