کم سِن انّا (1887 , Lapsenpiika )
مِنا کینتھ (Minna Canth)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
” ایمی ۔ ۔ ۔ او ایمی ۔ ۔ ۔ اٹھ جاﺅ ، کیا تمہیں گھنٹی کی آواز سنائی نہیں دے رہی ۔ ۔ ۔ مالکن کو تمہاری ضرورت ہے ! ایمی ! خدا اس لڑکی پر رحم کرے ، اسے تو کوئی اٹھا ہی نہیں سکتا ؟ ایمی ۔ ۔ ۔ او ایمی ! “
اور بالآخر ، سِلجا کو اس کے جسم میں زندگی کے کچھ آثار نظر آئے ۔ ایمی منہ میں کچھ بُڑبُڑاتی اور آنکھیں ملتی اٹھ کر بیٹھ گئی ۔ اسے ابھی بھی زوروں کی نیند آ رہی تھی ۔
” کیا وقت ہوا ہے؟ “
” پانچ بجنے کو ہیں ۔ “
پانچ ؟ وہ تو صرف تین گھنٹے تک ہی بستر میں رہ پائی تھی ۔ رات کا ڈیڑھ بجا تھا جب وہ سب کام سمیٹ اورچیزیں دھو دھا کر لیٹی تھی ؛ شام میں حسب معمول ، مہمان آ گئے تھے اور پچھلی دو راتیں اس نے بچے کی وجہ سے جاگ کر گزاری تھیں ۔ مالکن ایک شادی میں گئی ہوئی تھیں اور بچی ، لِلی ، شیرہ لگی چوسنی سے مطمئن ہونے کو تیار نہ تھی ۔ اب اس میں اچنبھے کی کیا بات تھی کہ ایمی سونا چاہتی تھی ؟
وہ صرف تیرہ برس کی تھی اور صبح کے وقت اس کی ٹانگوں میں ہمیشہ اتنا درد ہوتا کہ کچھ دیر کے لئے تو اسے کھڑا ہونا بھی محال لگتا ۔ سِلجا ، جو کہ اِسی بستر میں سوتی تھی ، کا کہنا تھا کہ ایسا اس لئے تھا کہ وہ بڑی ہو رہی تھی ۔ سِلجا کا یہ خیال بھی تھا کہ اس کی ٹانگوں سے خون بہنا چاہیے تھا ، لیکن ایمی اس بات سے خوفزدہ تھی کہ اِس سے اُسے تکلیف ہو گی اور یہ کہ اس کی ٹانگیں پہلی ہی بہت پتلی تھیں کہ ان سے ذرا ساخون نکالا جائے ۔ یہ اس وقت بالکل درد نہ کرتیں جب وہ سو رہی ہوتی لیکن جیسے ہی وہ جاگتی ان میں درد بھی جاگ اٹھتا ۔ اگر وہ دوبارہ سو جاتی تو یہ درد بھی یک دم غائب ہو جاتا تھا ۔
اب ، جبکہ وہ بستر سے اٹھ چکی تھی ، ان میں گُھٹنوں سے لے کرنیچے ایڑیوں تک ہر جگہ درد ہو رہا تھا ۔ اس کا سر اتنا بھاری تھا کہ وہ اسے بستر کی طرف لڑھکائے جا رہا تھا اورکوشش کے باوجود وہ اسے اٹھا ہی نہیں پا رہی تھی ۔ کیا ، اسے ، زندگی میں کبھی ایک بار بھی اس کی اجازت مل سکتی تھی کہ وہ کسی ایک صبح ، اپنی مرضی سے اتنی دیر سو سکے جب تک اس کا دل چاہے؟
ایمی نے اپنی ٹانگوں کو ہاتھوں سے مَلا ۔ اس کا سر آگے کو گر گیا تھا اور اس کی تھوڈی اس کی چھاتی کو چھو رہی تھی ، اس کی آنکھیں کُھل نہیں رہی تھیں اور کچھ ہی لمحوں بعد وہ پھر سو گئی ۔
گھنٹی دوبارہ بجی ۔ سِلجا نے اس کی پسلیوں میں زور سے کہنی ماری ۔
مر جانی ، یہ چھوٹی ڈھڈو ویسا کیوں نہیں کرتی جیسا اسے کہا جائے؟ اٹھ جا اب ۔“
اس نے ایمی کی پسلیوں میں اپنی کہنی ایک بار اور اس زور سے چبھوئی کہ لڑکی تکلیف سے بلبلا اٹھی ۔
” تمہیں اور کتنی بار جھنجھوڑنا پڑے گا تاکہ تم اٹھ سکو؟ “
ایمی مشکل سے ہی بستر سے نکل پائی ۔ اسے چکر آئے اور اسے لگا کہ وہ گر جائے گی ۔
” جاﺅ اوراپنی آنکھوں پر ٹھنڈے پانی کے چھینٹے مارو ، اس سے تمہارا دماغ ٹھکانے آ جائے گا ۔ “ ، سِلجا نے اسے مشورہ دیا ۔
لیکن ایمی کے پاس یہ بھی کرنے کا وقت نہ تھا کیونکہ گھنٹی ایک بار اور بج رہی تھی ۔ اس نے جلدی سے اپنا پیٹی کوٹ اور سکرٹ چڑھایا ، دونوں ہاتھوں سے اپنے بال پیچھے کی طرف سیدھے کئے اور جلدی سے اندر گئی ۔
” میں تین بار گھنٹی بجا چکی ہوں ۔ “ ، مالکن نے کہا ۔
ایمی کچھ نہ بولی ، اس نے ، بس مالکن کے ساتھ لیٹی لِلی کوبازوﺅں میں اٹھا لیا ۔
” اس کے گیلا پوترے بدلو اور اسے جھولے میں ڈال دو ۔ اگر یہ میرے ساتھ دوبارہ بھی لیٹی تو یہ سو نہیں پائے گی ۔ “
مالکن نے دوسری طرف کروٹ لی اور آنکھیں بند کر لیں ۔ جھولا ساتھ والے کمرے میں تھا ، ایمی اب بچی کو وہاں لے آئی تھی ۔ اس نے اس کا نیپکن بدلا اور جھولے کو ہلاتے ہوئے گانے لگی ۔ کچھ کچھ دیر بعد اسے کوئی سوچ آتی جو ایسی بڑی یا پیچیدہ بھی نہ تھی ، لیکن ایسی ضرور تھی کہ اس کے گانے میں خلل ڈال سکے ۔
”شی، شی ، شی ، آ ، آ ، آ ۔ سو جا ننھی سو جا ۔ درخت پر چڑھے جھولے میں بچی جھولے ۔ جب ہوا چلے تو جھولے کو ہلائے ۔ اوہ خدایا مجھے کتنی نیند آ رہی ہے ۔ ننھی چڑیا جیسی بچی ، ڈیڈی شکار پر گئے ہیں ۔ تم بھی سو جاﺅ ۔ سِلجا ابھی بھی بستر میں سوئی پڑی ہے ، خوش قسمت شیطان کی چیلی نہ ہو تو ۔ ڈیڈی شکار پر گئے ہیں ۔ شا ، شا ، آ ، آ ۔ “
جیسے ہی لِلی سوئی ، ایمی بھی اس کے جھولے کے پاس فرش پر لیٹ گئی اور اپنا ایک ہاتھ سر تلے دئیے وہ بھی جلد ہی گہری نیند سو گئی ۔ وہ اس بات سے بے خبر تھی کہ لِلی کچھ دیر بعد ہی جاگ گئی تھی اور اپنا ناک رگڑتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھ رہی تھی اور الجھاﺅ کا شکار تھی کہ اس کے پاس کوئی اور کیوں نہیں تھا ۔ اس نے اٹھ کر بیٹھنے کی کوشش کی لیکن وہ ایسا نہ کر سکی البتہ وہ ایک طرف کو لڑھک گئی اور اس کا سر جھولے کے کنارے پر آ گیا ۔ ایمی کو دیکھ کر وہ خوشی سے ہنسی اور اسے چھونے کی کوشش کی ۔ جھولا اُلٹ گیا اور لِلی اس سے یوں باہر گری کہ اس کا ماتھا جھولے کے پیندے سے ٹکرا گیا ۔
کانوں میں چھید کر دینے والی ایک چیخ نے سب کو سیکنڈوں میں جگا دیا ۔
” اے مسیحا ، ہم پر رحم کر ! “
ایمی نے جب بچی کو اپنے پاس فرش پر گرا پایا تو اس کا رنگ ایسے سفید ہوا جیسے اجلی چادر ۔ اس نے جلدی سے اسے اٹھایا ، پیار سے گلے لگایا ، اسے آتش دان میں جلتی آگ دکھائی اور بازوﺅں میں جھولاتی رہی ، ساتھ میں وہ اس بات سے بھی ڈر رہی تھی کہ کہیں مالکن نے بچی کی آواز نہ سن لی ہو ۔ اسی گھبراہٹ میں اس نے یہ بھی نہ سوچا کہ دیکھے بچی کو چوٹ تو نہیں آئی یا یہ کہ وہ صرف گرنے کے صدمے سے رو رہی تھی ۔
مالکن نے دروازہ کھولا ۔ ایمی کو لگا جیسے وہ بےہوش ہونے والی تھی ، اس کی آنکھوں تلے ساری دنیا اندھیر ہو گئی تھی ۔
” بچی کو کیا ہوا ہے ؟“
” کچھ نہیں ۔ “
ایمی کو پتہ نہ تھا کہ اسے کیا جواب دینا تھا ۔ وہ جبلی طور پر ہکلاتی ہوئی کچھ بھی ایسا کہنا چاہتی تھی جو شاید اسے بچا سکتے ۔
” تو پھر یہ یوں کیوں رو رہی ہے ۔ اس کی کوئی تو وجہ ہو گی ۔ “
ایمی نے اپنے تئیں ، بچی کو چُپ کرانے کی بھرپور کوشش کی ۔
” اسے مجھے پکڑاﺅ “ ، مالکن نے کہا ، ” اوہو ، بیچاری بچی ، میری پیاری ، کیا بات ہے ؟ اوہو خدایا ، اس کے ماتھے پر تو ایک بڑی خرونچ ہے ۔ “
اس نے ایمی کی طرف دیکھا جو وہاں بے یارومددگار کھڑی تھی ۔
” اسے یہ خرونچ کیسے آئی؟ مجھے بتاﺅ ، میں جاننا چاہتی ہوں ۔ کیا تم بہری ہو ؟ “
” مجھے نہیں پتہ ۔ ۔ ۔ “
” یہ تم سے گری ہے ، یہ یقینی بات ہے ۔ کیا یہ جھولے سے باہر تھی؟ “
ایمی کی آنکھیں فرش پر جمی تھیں اور وہ کچھ نہ بولی ۔
” دیکھا ، تم اس بات کو زیادہ دیر تک نہیں جھٹلا سکتیں ۔ تم کتنی بیکار ، لاپرواہ لڑکی ہو ۔ پہلے تم نے بچی کو گرایا اور پھر مجھ سے جھوٹ بھی بول رہی ہو ۔ مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ میں نے تمہیں رکھا ہی کیوں تھا ۔ خیر ، میں اب تمہیں بتا رہی ہوں کہ تم اگلے سال یہاں نہیں رہو گی ۔ اپنے لئے کوئی اور نوکری ڈھونڈ لو ، اگر کوئی تمہیں دے تو۔ میں تمہیں کافی بھگت چکی ہوں ، مجھے آیا کے بغیر ہی گزارا کرنا چاہیے تھا ۔ ۔ ۔ سی ، سی ، میری پیاری ، ماں کی دلاری ، ہاں ۔ ۔ ۔ ماما اگلے برس ایک بہتر آیا کا بندوبست کرے گی ، مت روﺅ ، مت روﺅ ۔“
جیسے ہی لِلی کو ماں کا سرِپستان ملا اور اس نے دودھ پینا شروع کیا ، وہ چُپ ہو گئی اور کچھ دیر بعد آسودہ ہو کر مسکرانے لگی ، گو اس کی آنکھوں میں ابھی بھی آنسو کے قطرے چمک رہے تھے ۔
”ہاں ، ہاں ، میری پری ، کیا اب تم ماما کو اپنی پیاری سی مسکراہٹ دکھا رہی ہو ؟ یہ کتنی پیاری ہے ۔ اور یہ کیا بیہودہ اور خوفناک خرونچ آ گئی ہے اس کے ماتھے پر ! “
اس دن ، لِلی پھر بالکل بھی نہ روئی ؛ وہ خوش رہی جیسے پہلے خوش رہا کرتی تھی بلکہ شاید پہلے کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی خوش ۔ وہ ایمی کو دیکھ کر مسکراتی ، اس کے منہ میں انگلی ڈالتی اور اس کے بال کھینچتی ۔ ایمی ، بچی کو اپنے نازک ہاتھ سے ، اس کے گالوں ، جو آنسوﺅں کی وجہ سے گیلے تھے پر پھیرنے دیتی ۔ فالسے جتنے بڑے یہ آنسو سارا دن اس کی آنکھوں سے ٹپکتے رہے اور اس کے گال ان سے بار بار گیلے ہو جاتے تھے ۔ اور جب بھی اسے اس بات کا خیال آتا یا اسے محسوس ہوتا کہ وہ چھ ہفتوں بعد اس نرم وگداز بچی کو اپنے بازوﺅں میں نہ لے پائے گی بلکہ اسے دیکھ تک نہ سکے گی یا شاید کبھی کبھار جب وہ گلی میں وہاں سے گزرے تو اس کی ایک جھلک ہی دیکھ پائے ، وہ بھی ایک رَد کی گئی ، سماج سے نکالی ہوئی کم ذات کی طرح ، تو اس کے آنسو اتنی تیزی سے نکلتے کہ لگتا جیسے ندی بہہ رہی ہو اور میز پر ایک چھوٹا سا تالاب بن جاتا ۔
”میری پیاری، ذرا دیکھو تو سہی “ ، وہ لِلی کو کہتی ، اور لِلی فوراً ہی اپنے ہتھیلی سے اس تالاب کو صاف کرنے لگتی ۔
اسی صبح بعد میں ، مالکن کے کچھ مہمان آئے ۔ یہ ڈاکٹر کی بیوی فرو ونٹر اور فرو سیون ، جن کا خاوند ہیڈ ماسٹر تھا ، تھیں ؛ وہ دونوں اچھی اور نفیس تھیں ، گو اتنی نہیں جتنی کہ ان کی مالکن ، سِلجا کا کہنا تھا اور ایمی بھی اس کی بات کو رَد نہ کر سکی ۔
جب سِلجا کافی لے کر اندر گئی تو مالکن نے اسے کہا کہ ایمی سے کہنا ، لِلی کو لے کر اندرلائے تاکہ مہمان اسے دیکھ سکیں ۔ ایمی نے لِلی کو سب سے اچھی لچھے دار ٹوپی اور ایک نئی بِب ، جس پر ہاتھ سے کشیدہ کاری ہوئی تھی ، پہنائی ۔ بچی اِن میں اتنی پیاری لگ رہی تھی کہ اس نے اندر جانے سے پہلے اسے سِلجا کو دکھایا ۔
جیسے ہی ایمی ، لِلی کو لئے دروازے میں نمودار ہوئی دونوں عورتوں نے کُو کُو کرتے ہوئے تعریف کی !
” او ، کتنی پیاری ہے ۔ “
اور پھر انہوں نے اشتیاق سے باری باری لِلی کو گود میں اٹھایا ، اس کے بوسے لیے، اسے بھینچ کر گلے سے لگایا اور خوشی سے ہنستے ہوئے کہا ۔؛
” پیاری بچی ۔ ۔ ۔ پیاری بچی ۔ “
ایمی پیچھے کھڑی خاموشی سے مسکراتی رہی ۔ اسے یہ تو سمجھ نہ آیا کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں لیکن اسے یہ ضرور معلوم تھا کہ وہ تعریفی کلمات ادا کر رہی تھیں ۔
لیکن اچانک وہ سنجیدہ ہو گئیں ۔ مالکن مہمانوں کو کچھ بتا رہی تھیں ۔ ایمی کو معلوم نہ تھا کہ وہ کیا کہہ رہی تھیں کیونکہ وہ سویڈش میں بات کر رہی تھیں ۔ لیکن اس نے ان کے چہروں پر خوف کے تاثرات سے یہ اندازہ لگا لیا کہ کیا بات ہو رہی تھی ۔
” اوہو ، خدایا ، نہیں ، ذرا سوچو تو ! بیچاری بچی ! “
تینوں کی آنکھیں ، جن میں بچی کے لئے رحم اور لگاﺅ جھلک رہا تھا ، پہلے لِلی کے ماتھے پر لگی خرونچ پر گئیں اور پھر انہوں نے جھٹکے سے ایمی کی طرف نِندا بھری نظروں سے دیکھا ۔
” کتنی نیچ ہے یہ ! “
ایمی فرش پر بچھے قالین کو گھورنے لگی اور اس نے خواہش کی کہ چھت سے ، اس کے سر پر ایسا کچھ گِرے جو اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے اور اسے زمین کی گہرائیوں میں دفن کر دے ۔ یقیناً اس سے زیادہ بد دنیا میں کوئی ہو ہی نہیں سکتا تھا ۔ اس نے اوپر دیکھنے کی جرا
ٔت نہ کی لیکن اسے اپنے پیروں کی انگلیوں تک سے یہ محسوس ہوا کہ ان کی نظریں اسی پر جمی تھیں ۔ وہ اچھی اور نفیس خواتین ، جن سے خود کبھی بھی کوئی کام غلط نہ ہوا تھا ۔ اور ہو بھی کیسے سکتا تھا کیونکہ وہ بہت ذہین اورہوشیار تھیں اور عام لوگوں کے مقابلے میں کہیں اونچا درجہ رکھتی تھیں؟
” اب تم لِلی کو لے جا سکتی ہو ۔“ ، اس کی مالکن نے کہا ۔
ایمی کو لگا جیسے اس کے بازوﺅں سے جان ہی نکل گئی ہو اور اگر اس نے بچی کو اٹھایا تو وہ کہیں اسے گِرا نہ دے ۔
” تم نے سنا نہیں کیا ؟ “
” دیکھیں تو سہی ، یہ کچھ ایسی ہی ہے ۔“
ایمی سر جھکائے ، کسی نہ کسی طرح قدم اٹھاتی وہاں تک پہنچی جہاں اس کی مالکن بیٹھی تھی ۔ ان کی نظروں سے اوجھل ہونے اور واپس ’ نرسری‘ میں جانے کی خواہش نے اس میں اتنی ہمت پیدا کر دی تھی کہ وہ اپنا فرض ادا کر سکے یا شاید یہ کچھ ایسا تھا کہ اس کے ہاتھ اب تک اتنے عادی ہو چکے تھے کہ اس کا حکم مانیں اور پہلے کی طرح ہی کام کریں ؟
اس نے لِلی کو جھولے میں ڈالا اور اس کے قریب ایک سٹول پر بیٹھ کر اسے ایک کھلونا دکھانے لگی لیکن لِلی نے اپنی دونوں ٹانگیں ہوا میں اٹھا رکھی تھیں اور انہیں اپنے ہاتھوں سے پکڑ رکھا تھا ۔ اس طرح کھیلنا اسے بہت اچھا لگتا تھا، وہ اونچی آواز میں کھکھلا کر ہنسی ۔ ایمی بھی اس کے ساتھ ہنسنا چاہتی تھی لیکن رنج نے اس کے گلے کو یوں جکڑا ہوا تھا کہ اس کے لئے ہنسنا ناممکن ہو گیا ۔
وہیں بیٹھے بیٹھے اسے خیال آیا اور اسے حیرانی ہوئی کہ اس صبح اس نے وہ طریقہ کیوں استعمال نہیں کیا تھا ، جو وہ ماضی میں اپنی نیند سے لڑنے کے لئے ، خود کو سوئی چبھو کر یا اس سے کھجا کر ، برتا کرتی تھی ۔ اور اسی وجہ سے یہ سب ہوا تھا ، ایک ایسی بڑی گھٹنا جس کا اب کوئی اُپائے نہ تھا ، اور جس نے اس کی زندگی تباہ کر دی تھی ۔
دیر شام میں ، جب سب سونے کے لئے جا چکے تو ایمی باہر صحن میں گئی ۔ مدہم ہوتی روشنی میں ہر شے سرمئی لگ رہی تھی لیکن آسمان پر تارے چمک رہے تھے ۔ وہ سیڑھیوں کے سب سے نچلے اڈے پر بیٹھ گئی اور اپنے حال اور مستقبل کی صورت حال پر غور کرنے لگی ۔ ایسا نہیں تھا کہ ایسا سوچنے سے اس پر کوئی شے واضح ہو رہی تھی ؛ یہ اتنی مدہم اور سرمئی تھی جتنی کے یہ شام خود تھی ۔
ایک لمحے کے لئے اس نے اپنے بارے میں خیال کو ایک طرف کیا اور سرمئی نیلے آسمان کی طرف دیکھا ، جہاں جنتی بتیاں پوری آب و تاب سے جگمگا رہی تھیں ۔ ستاروں کے ساتھ کیا ہی خوش روحیں تھیں؟ اس نے سوچا ۔ اور وہ لوگ جو ابھی زندہ تھے ، انہوں نے بھی تو وہیں جانا تھا ؟ کیا وہاں بھی کوئی بچوں کی آیا ہو گی ؟ اسے اپنی سوچ پر شبہ ہوا ۔ لیکن اشرافیہ ۔ ۔ ۔ وہ توساری کی ساری لازماً وہاں ہو گی ۔ سیدھی بات ہے کہ یہ لوگ یہاں بھی تو بہت بہتر ہیں ، اتنے بہتر کہ انہیں کسی پیمانے سے ناپا ہی نہیں جا سکتا ۔ اسے اس بات پر بھی حیرانی ہوئی کہ وہ کون ہے جو ہر شام ان بتیوں کو روشن کر دیتا تھا ، کیا یہ فرشتے تھے یا کہ بندے ؟ یا یہ کہ سارے لوگ ، جب وہاں جاتے تو فرشتوں میں بدل جاتے تھے ؟ اور ان بچوں کا کیا جو چھوٹی عمر میں مر جاتے تھے؟ ان کی دیکھ بھال اور پرورش کون کرتا تھا ؟ یا شاید جنت میں چلے جانے کے بعد انہیں دیکھ بھال کی ضرورت ہی نہ رہتی ہو ؟
سِلجا نے دروازہ کھولا اور اسے اندر کھینچا ۔
” تم اس ٹھنڈ میں باہر کیا کر رہی ہو ؟ “
جب وہ کپڑے اتار رہی تھی تو وہ سِلجا کی طرف مڑی اور بولی ؛ ” ایسا کیوں ہے کہ ہم نوکرانیاں ہی بد ہوتی ہیں ؟ “
” کیا تمہیں معلوم نہیں ؟ “
” نہیں ۔ “
” اچھا ، تو میں تمہیں بتاتی ہوں ، یہ اس لئے ہے کہ ہمیں زیادہ وقت جاگنا پڑتا ہے ۔ یوں ہم سے ، دوسروں کی نسبت دُگنی غلطیاں جسے وہ گناہ کہتے ہیں ، سرزد ہوتی ہیں ۔ اشرافیہ کو دیکھو وہ صبح نو یا دس بجے تک سوئی رہتی ہے اس لئے ان کے پاس غلطیاں کرنے یا بُرے اعمال کے لئے زیادہ وقت ہی نہیں ہوتا ۔ “
ہاں شاید ایسا ہی تھا ، اگر وہ اس صبح کچھ دیر زیادہ سو سکتی تو شاید ، اس کی وجہ سے ، لِلی جھولے سے نہ گرتی ۔
اگلی اتوار ، نوکریوں پر لیے جانے کا تیسرا دن تھا ۔ ایمی کو اس کی ملازمت والی کاپی دی گئی اور اسے گرجا گھر بھیجا گیا ۔
گرجا گھر کے باہر بہت سے لوگ تھے ۔ ان میں وہ بھی تھے جنہوں نے نوکر رکھنے تھے اور وہ بھی جن کو ملازمت درکار تھی ۔ وہ بڑے گروہوں کی شکل میں کھڑے تھے ۔ وہاں سب کے دوست اور شناسا تھے اور وہ سب ایک دوسرے کے میل جول میں تھے ۔
ایمی کو تنہائی اور اداسی کا احساس ہوا ۔ ’مجھ جیسی چھوٹی کمزور سی لڑکی کو کون رکھے گا ؟ ‘ ، اس نے سوچا ۔
وہ ، اپنی ملازمت والی کاپی ہاتھ میں لیے ، گرجا گھر کے صحن کی دیوار کے ساتھ کھڑی انتظار کر رہی تھی ۔عورتیں اور مرد اس کے پاس سے آ جا رہے تھے لیکن کسی نے بھی اس کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا ۔
نوجوانوں کا ایک گروہ گرجا گھر کی سیڑھیوں پر بیٹھا تھا ۔
”اے لڑکی ، ادھر آﺅ۔“ ، ان میں سے ایک نے کہا ۔ دوسرے ہنسنے اور آپس میں کُھسر پُھسر کرنے لگے ۔
” آ جاﺅ ۔ ۔ ۔ ۔ آجاﺅ ۔ تم کس کا انتظار کر رہی ہو ؟ آﺅ اور آ کر ہمارے ساتھ بیٹھ جاﺅ ۔ “
ایمی شرما گئی اور مزید پرے ہٹ گئی ۔ اسی وقت ایک معزز جوڑا وہاں آیا جہاں وہ کھڑی تھی ۔ شاید وہ معزز نہیں تھے؛ عورت نے سر پر سکارف باندھ رکھا تھا اور آدمی کے کپڑے بھی معمولی تھے ۔
” اِس کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ “ ، آدمی نے اپنی چھڑی سے ایمی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ، ” کم از کم یہ ایسی تو نہیں لگتی جو زیادہ اُجرت طلب کرے ۔ کیا خیال ہے ؟ “
” آپ مجھے جو بھی دیں گے ۔ ۔ ۔ “ ، ایمی نے ہولے سے کہا ، ” میں اسی پر قناعت کر لوں گی ۔ “
اس کے دل میں ہلکی سی اُمید نے سر اٹھایا ۔
” یہ کس کام کے لئے اچھی ثابت ہو سکتی ہے ؟ یہ تو پانی بھرا ایک ٹب اٹھا کر تو چل نہیں سکتی ۔ “ ، عورت بولی ۔
” نہیں ایسا بھی نہیں ، میں اٹھا کر چل سکتی ہوں ۔“
” کیا تم کپڑے دھو سکتی ہو ؟ “
” میں یہ بھی کرتی رہی ہوں ۔“
” چلو اسے رکھ لیتے ہیں ۔ یہ کم گو اور صاف ستھری لگتی ہے “ ، آدمی نے کہا ۔
لیکن عورت ابھی بھی تذبذب میں تھی ۔
” یہ مجھے بیمار سی لگتی ہے ۔ دیکھو یہ کتنی دُبلی سی ہے ۔ “
ایمی کو اپنی ٹانگوں کا خیال آیا ، لیکن اس نے اس طرف توجہ دلانے کی کوشش نہ کی ۔ اگر وہ ایسا کرتی تو انہوں نے تو اسے بالکل بھی نہیں رکھنا تھا ۔
” کیا تم بیمار ہو؟ “ ، آدمی نے ، اس کی ملازمت والی کاپی ، اس سے لیتے اور اس پر نظر ڈالتے ہوئے پوچھا ۔
” نہیں ۔“ ، ایمی نے ہولے سے جواب دیا ۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا کہ اس کی ٹانگیں چاہے جتنا بھی درد کیوں نہ کریں ، وہ کبھی شکوہ نہیں کرے گی ۔
آدمی نے اس کی کاپی جیب میں رکھتے ہوئے ، نوکر رکھے جانے کے طور پر، اسے دو مارک دئیے اور معاملہ طے پا گیا ۔
” جب ’ سارے سینٹس کا دن ‘ آئے تو ’ کروونن فارم ‘ پر آ جانا اور کسی سے بھی مسڑاور مسز ہارٹونن کے بارے میں پوچھ لینا ۔ “ ، عورت نے کہا ، ” سارے سینٹس کے دن ، یاد رکھنا ۔ “
ایمی گھر لوٹ گئی ۔
” جہاں تم جا رہی ہو ، وہ کوئی اچھی جگہ نہیں ہے ۔“ ، سِلجا نے کہا ، وہ ہارٹوننز کو جانتی تھی ، ” وہاں رہنے کا ماحول گھٹیا ہے اور صاف ستھرا بھی نہیں ۔ وہاں کی مالکن بد مزاج اور تند خُو ہے اور یہ بھی کہ کوئی بھی نوکر وہاں سال بھر بھی نہیں ٹِکتا ۔ ۔ ۔ اور جہاں تک کھانے کا تعلق ہے تو وہ بھی بس قلیل مقدار میں گزارے کے لئے ہی ملتا ہے ۔ “
ایمی یہ سن کر پریشان تو ہوئی لیکن اس نے جلدی ہی خود پر قابو پایا اور بولی ؛ ” خیر ، اچھی نوکریاں تو اب ملنے سے رہیں ، اور یہ اتنی زیادہ ہیں بھی نہیں کہ ہر ایک کو مل سکیں ۔ کچھ لوگوں کو بُری نوکریوں پر ہی صبر شکر کرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ اور انہیں شکر کرنا بھی چاہیے کہ وہ باہر سڑکوں پر بھیک نہیں مانگ رہے ہوتے ۔“
اس نے لِلی کو اپنے بازوﺅں میں اٹھایا اور اپنا چہرہ بچی کے گرم جسم کے ساتھ لگا لیا ۔ لِلی نے دونوں ہاتھوں سے اس کے بال پکڑ لیے اور کھِکھِلاتے ہوئے ٹا ، ٹا ، ٹا کہنے لگی ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِنا کینتھ ( پورا نام ؛ Ulrika Vilhelmina Canth) 19 ، مارچ 1844 ء کو ٹیمپری (Tampere) جو اس وقت فن لینڈ کے اس حصے میں تھا جس پر روسی عملداری میں تھی ، میں پیدا ہوئی ۔ وہ نہ صرف ایک فینش ادیبہ ہے بلکہ اپنے زمانے میں سماجی طور پر ایک متحرک و سرگرم خاتون رہی ۔
اس نے مختلف سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے 1863ء میں ایک مسیحی درسگاہ میں داخلہ لیا ۔ دو سال بعد ہی اس نے اپنے ، طبعی سائنسی علوم کے استاد جوہان فرڈیننڈ کینتھ سے شادی کی ۔ یوں ان دونوں کو یہ درسگاہ چھوڑنی پڑی ۔ 1880ء تک اس نے سات بچوں کو جنم دیا اور ساتھ ساتھ ’ Keski-Suomi ‘ اخبار میں لکھتی بھی رہی ۔ اس کا ساتواں بچہ ابھی دنیا میں نہیں آیا تھا کہ اس کا خاوند 1879ء میں انتقال کر گیا ۔ اس سے قبل 1876ء میں میاں بیوی ، دونوں کواخبار سے اس لئے الگ کر دیا گیا تھا کیونکہ مِنا کی تحاریراس وقت کے فِن لینڈ میں منفی اثرات مرتب کر رہی تھیں ؛ یہ وہ زمانہ تھا جب ’ چرچ ‘ کے مضبوط اثر کی وجہ سے عورتوں کے حقوق کی بات کرنا ایک طرح سے ’ چرچ ‘ کی مخالفت گردانا جاتا تھا ۔ مِنا کی تحاریر میں اس کے برعکس نہ صرف عورتوں کے حقوق کی بات ہوتی بلکہ اس وقت کے سماج کی برائیوں پر تنقید بھی ہوتی ۔ اس کی شروع کی کہانیاں ناروے کے ادیب ’ B.M. Bjørnson‘ سے متاثر تھیں جو دیہاتی زندگی کو ’ عینیت پسندی ‘ سے بیان کرتا تھا لیکن بعدازاں اس نے ’ حقیقت پسندی‘ سے فینش سماج کو دیکھنا شروع کیا اور وہاں کے شہری سماجی مسائل کو قلم کی زبان دینا شروع کی ۔ اب اس نے ہنرک اِبسن کا سا انداز اختیار کیا ۔
’Kauppa-Lopo‘ اس کی بہترین کہانیوں میں شمار ہوتی ہے ؛ یہ اس نے 1889ء میں لکھی تھی ، جبکہ اس کا ڈرامہ’ اینا ۔ لیزا ‘ ( Anna-Liisa) شاہکار گردانا جاتا ہے ۔ 1895ء میں لکھے گئے اس ڈرامے پر ٹالسٹائی کا اثر بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔ اس نے فینش کے علاوہ سویڈش زبان میں بھی لکھا اور عوامی زبان کو اپنی تحریروں میں رواج دیا ۔
اخبار سے الگ کئے جانے کے بعد اس نے اپنے خاندانی درزی خانے کو بھی چلایا ، بیوگی کی زندگی میں بچوں کی پرورش کرتے ہوئے لکھنا بھی جاری رکھا ۔ اس کا لکھا 1885 ء کا ڈرامہ ، ’ محنت کش کی بیوی‘ ( Työmiehen vaimo) پہلا تھا جس نے اسے فِن لینڈ میں شہرت دلائی ۔
یہ جوہانا نامی عورت کی داستان ہے جو ایک شرابی ، رِسٹو، سے شادی کرتی ہے ۔ رِسٹو اس کی ساری دولت اجاڑ دیتا ہے اور جوہانا اسے اس لئے روک نہیں پاتی کہ قانون کی نظر میں ، اس کی دولت ، اس کی نہیں بلکہ رِسٹو کی ہے ۔ اس ڈرامے کے سٹیج ہونے پر خاصا شور مچا اور چند ماہ میں ہی حکومت کو نیا قانون منظور کرنا پڑا جس کے تحت میاں بیوی کی منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کو الگ الگ حیثیت دے دی گئی ۔
’ اینا ۔ لیزا ‘ ایک ایسی پندرہ سالہ لڑکی کی کہانی ہے جو شادی کے بغیر ہی حاملہ ہو جاتی ہے ۔ وہ اپنی یہ حالت چھپاتی رہتی ہے اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو گھبراہٹ میں اس کا گلا گھونٹ دیتی ہے ۔ یہ بچہ میکو کا ہوتا ہے ، میکو کی ماں کی مدد سے وہ اسے جنگل میں جا کر دفنا دیتی ہے ۔ چند سال بعد جب وہ جوہینز نامی بندے سے شادی کرنے لگتی ہے تو میکواور اس کی ماں اسے بلیک میل کرتے ہیں لیکن وہ ان کے ہتھے نہیں چڑھتی اور اقرار کر لیتی ہے کہ اس نے اپنے بچے کا مارا تھا ۔ اسے سزا ہوتی ہے لیکن وہ اس بات پر مطمئن ہے کہ اس نے اپنے کیے کو قبول کرکے مُکتی اور شانتی پا لی ہے ۔
فِن لینڈ میں سرکاری طور پر آٹھ دن ایسے ہیں جب ملک کا جھنڈا لہرایا جاتا ہے جبکہ چودہ دن ایسے بھی ہیں جب یہ جھنڈا روایتی طور لہرایا جاتا ہے ۔ ان چودہ میں سے ایک ، مِنا کینتھ کی سالگرہ ، کا دن بھی ہے ۔ یہ دن فِن لینڈ میں سماجی برابری کے دن سے بھی منسوب کیا جاتا ہے ۔
وہ 53 سال کی عمر میں ، ’ کیوپیو ‘ میں 12 مئی 1897 ء کوحرکت قلب بند ہو جانے کی وجہ سے فوت ہوئی ۔ وہ فِن لینڈ میں ادیب و ڈرامہ نگار' Aleksis Kivi ‘ کے بعد دوسری ڈرامہ نگار اور ادیب جبکہ پہلی خاتون ادیبہ اور ڈرامہ نگار مانی جاتی ہے ۔ اس کی تحریروں کے سارے مرکزی کردار عورتیں ہی ہیں ؛ یہ چاہے ' ایمی ' ہو ، ' ہانا ' ہو یا ' اینا ۔ لیزا ' ، سب ایک قیدی پرندے کے دماغ کے عکاس ہیں جو آزادی ، محبت کا خواہاں ہو اور اپنے کمتر ہونے کے غم کا شکار بھی ہو ۔