ہسپانوی افسانچہ
سوگِ ڈیل روسو (La Tristeza Del Ruso )
(The Mourning of the Russian)
اَگستن کیڈنا ( Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ ، لاہور ، پاکستان
وہ ، یقیناً ، روسی نہیں تھا ، لیکن سب اسے یہی کہتے تھے کیونکہ اس کے بال ویسے ہی سفید بلونڈ تھے جیسے کہ ’ ایوان ڈریگو ‘ * کے ؛ وہ روسی دیو جس نے ’ روکی ‘ * سے فلم میں مقابلہ کیا تھا ۔ بارہ برسوں کی’ ویٹ لفٹنگ ‘ نے اسے یہ اثر انگیز شخصیت عطا کی تھی ۔
اسے یہ ’ نِک نیم ‘ * پسند تھا ۔ اصل میں بات یہ تھی کہ وہ اپنے نام کے مقابلے میں کسی بھی چھوٹے نام کو ترجیح دیتا ۔ اس کا نام فلورینٹینو تھا ۔ اسے اپنے اس نام سے کوئی اور مسئلہ نہ تھا ، بس یہ کمی محسوس ہوتی تھی کہ یہ یقینی طور پر ایک مردانہ نام نہ تھا ۔ سکول میں اسے ، اُن کا کچومر بنانا پڑتا تھا جو اسے ’ فلور‘ کہہ کر بلاتے تھے ۔ یوں اس نے لڑنا سیکھا تھا ۔’ پھول‘ ۔ وہ اس نام سے نفرت کرتا ، چاہے یہ کسی عورت کا نام ہی کیوں نہ ہوتا ۔ وہ ، چنانچہ ، خود کو یوں متعارف کرواتا ؛ ” لوگ مجھے ڈیل روسو کہتے ہیں ۔“
علاقے میں سب کو پتہ تھا کہ وہ خفیہ پولیس کے لئے کام کرتا تھا ۔ ایک چھوٹی کمیونٹی میں ایسا ہی کچھ ہوتا ہے ؛ ایک بندے کے راز سب کے راز ہوتے ہیں ۔ کسی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی کہ وہ اس سے بے وفائی کرتا ؛ وہ ایک خاموش طبع ، تنہا رہنے والا ایسا ہمسایہ تھا جس سے سب راضی تھے ۔ لوگ اسے اُن عورتوں کی مدد کرتے دیکھتے ، جوکھانے پینے کا ڈھیروں سامان لادے ہوتیں اور وہ یہ بھی دیکھتے کہ وہ اُن بچوں کو بھی ڈانٹ دیتا تھا جو گاڑیوں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے سڑک پر کھیلتے تھے ۔ وہ ، جب سٹور میں خریداری کے لئے جاتا تو وہاں کام کرنے والی لڑکی اسے التفات بھری نظروں سے دیکھتی، کیونکہ ڈیل روسو کی کوئی گرل فرینڈ نہیں تھی ( اس کے پاس بس ایک بِلی تھی اور کسی کو پتہ نہ تھا کہ اس کا نام کیا تھا ) ، وہ ہر شے ایک ہی لیتا ؛ ایک ڈبل روٹی ، ایک ٹماٹر ، ایک بیئر ، ایک سیب اور ہاں وہ دودھ اور اپنی بلی کے لئے چھیچھڑوں کا ایک چھوٹا پیکٹ لازمی لیتا تھا ۔ یہ حیرانی کی بات تھی ، اسے کبھی خیال نہ آیا کہ وہ اکٹھا سامان خریدے ، یہ سستا بھی پڑنا تھا اوراس میں بار بار خریداری کا جھنجھٹ بھی نہ تھا ۔ وہ خریداری کرکے لڑکی کو پیسے دیتے ہوئے اس کا ہمیشہ شکریہ ادا کرتا لیکن وہ کبھی مسکراتا نہیں تھا ۔ شاید وہ یہ بات چھپانا چاہتا تھا کہ وہ اسے پسند کرتا تھا ، جبکہ وہ دوسرے ہمسائیوں سے ذرا زیادہ کھل کر بات کرتا ۔
وہ اپنے کام میں ، البتہ ، مختلف تھا ؛ اس میں وہ شرافت نہیں برت سکتا تھا ۔ اسے معلوم تھا کہ دوسرے افسروں نے اس کے تنو مند جسم کی وجہ سے اسے ایک دہشت بھری شخصیت بنا رکھا تھا ۔ وہ اس کا نام لے کر زیر حراست لوگوں کو ڈرایا کرتے ، وہ وہاں موجود ہوتا یا نہیں لیکن وہ ایسا ہی کرتے ۔
” چھوڑ ، بس کرو “ ، جب وہ کسی مشتبہ بندے کو مار پیٹ کر تھک جاتے تو کہتے، ” یہ اگر نہیں اُگلتا تو نہ سہی ، ہم اسے تفتیش کے لئے روسی کے حوالے کر دیتے ہیں ۔ “
اس کا یہ رعب داب کچھ ایسا ہی تھا ۔ لیکن یہ کہانی اس کے بارے میں نہیں ہے یہ اس بارے میں ہے جب اس کی بلی مری ۔ کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ کیا ہوا ۔ شاید وہ بلی بہت بوڑھی تھی ، بس اسی لئے مر گئی تھی ۔ ہوا کچھ یوں تھا ۔ ایک روز روسی سٹور میں آیا ، وہ ایک ایسے بچے کی مانند لگ رہا تھا جسے کسی غلطی پر بھاری سرزنش کی گئی ہو ۔ اس روز اس نے اشیاء تو خریدیں لیکن ایک ، ایک نہیں بلکہ بہت زیادہ تعداد اور میں مقدار میں ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ مہینے بھر کا سامان گھر لے جانا چاہتا ہو، لیکن ان میں بلی کے لئے چھیچھڑے نہیں تھے ۔
” کیا تم بلی کے لئے کچھ نہیں لینا چاہتے ؟ “ ، لڑکی نے اس سے پوچھا ۔
” بلی مر گئی ہے ۔ “ ، اس نے جواب دیا ، کاﺅنٹر پر پیسے رکھے اور بقایا واپس لینے کا انتظار کئے بغیر ہی باہر نکل گیا ۔
وہ سارا دن گھر سے باہر نہ نکلا ۔ لڑکی نے اُن سب ہمسایوں کو بلی کے مرنے والی بات بتائی جو سٹور میں کچھ خریدنے کے لئے آئے ۔ رات پڑ گئی اور روسی کا اکیلے ہی غم میں رہنا سب کی بات چیت کا موضوع بنا رہا ۔ شور شرابا کرنے اور دخل در معقولات کرنے والے سبھی اس کے اپارٹمنٹ کے دروازے پر جمع ہوئے اور رات میں اس کی کھڑکی سے اند ر جلتی بتی کو دیکھتے رہے لیکن روسی باہر نہ نکلا ۔ وہ اگلے روز بھی باہر نہ آیا ۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ اس نے مردہ بلی کا کیا تھا ؛ شاید وہ اس کے مرنے کا سوگ منا رہا تھا ۔ کوڑا اٹھانے والوں نے بتایا کہ مردہ بلی ان کے پاس نہیں آئی تھی ۔
تیسرے دن لوگوں کا تجسس ایک مبہم اور بظاہر نظر نہ آنے والی اذیت میں بدل گیا ۔ ہمسایوں نے اپنے محافظ کے بغیر خود کو غیر محفوظ سمجھنا شروع کر دیا ۔ کسی نے کہا کہ انہیں دروازے پر دستک دے کر پوچھنا چاہیے کہ وہ خیریت سے تھا ، لیکن کسی میں یہ جرا
ت نہ تھی کہ وہ اسے ناراض کرنے کا خطرہ مول لیتے ۔ انہوں نے قرعہ نکلا ۔ یہ ’ ڈرائی کلینر‘ کے نام نکلا جو سب سے زیادہ بزدل تھا ۔ اس کا ہمت کرنا بھی کام نہ آیا ؛ روسی نے دروازہ نہ کھولا ۔ آخر کار سکول کے ایک بچے نے دماغ لڑایا ؛ اس نے گلی میں زور زور سے چِلانا شروع کیا ؛
” فلور! ۔ ۔ ۔ فلورسیٹا !۔ ۔ ۔ “
تب روسی باہر نکلا ۔ وہ غصے میں بھرا ہوا تھا اور وہ اس گستاخ بیوقوف ، وہ جو کوئی بھی تھا ، کو مارنا چاہتا تھا ۔ اس نے دیکھا کہ پردوں کی اوٹ سے بہت ہی آنکھیں دیکھ رہی تھیں لیکن اسے وہ بچہ نہ مل سکا جس نے اس کے سوگ منانے میں مداخلت کی تھی ۔ ۔ ۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کا سوگ ختم ہو گیا ۔ ۔ ۔ اور یوں اس علاقے کی زندگی معمول پر آ گئی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
*’ ایوان ڈریگو ‘ = Ivan Drago ، روکی ۔ IV میں روسی باکسر کا کردار جو روکی سے مقابلہ کرتا ہے ۔ یہ 1985 ء کی فلم ہے ۔ فلم میں یہ کردار ڈولف لُنڈگرین (Dolph Lundgren) نے ادا کیا تھا ۔
* ’ روکی ‘ = Rocky ، سِلویسٹر سٹیلون (Sylvester Stallone) کی مشہور فلم سیریز جس کا پہلا حصہ 1976ء جبکہ چھٹا 2006 ء میں ریلیز ہوا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَگستن کیڈنا ( Agustín Cadena) 1963 ء میں ہیڈالگو، میکسیکو میں پیدا ہوا ۔ وہ شاعر ، ادیب ہے ۔ وہ مترجم اورایک عمدہ صداکار بھی ہے ۔ اس کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے دو ناول’ Cadaver alone ‘ اور ’ So dark Mexico ‘ اور بچوں کے لئے دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ نوجوانوں کے لئے اس کا ناول 2011 ء میں ’ Giant wings ‘ کے نام سے سامنے آیا ۔ اس کی شاعری کی کتاب ’ The due offering ‘ بھی اسی برس سامنے آئی تھی جس نے ’ Efrén Rebolledo ‘ انعام حاصل کیا ۔ اس کی کئی کہانیاں بھی انعام حاصل کر چکی ہیں ۔ تاحال اس کی کتابوں کی تعداد پچیس سے زائد ہے ۔ تازہ کتاب ’ Fieras adentro‘ 2015 ء میں سامنے آئی ۔ آج کل وہ ہنگری میں ’ University of Debrecen‘ میں پڑھاتا ہے ۔
افسانچہ ’ سوگ ِ ڈیل روسو‘ مصنف کی اجازت سے اردو میں ڈھالا گیا ہے ۔