اِررئیل فِکشن ۔ 19
انگریزی افسانچہ
مائیکل بکینگھم گرے ( Michael Buckingham Gray )
وہ دھوپ کے چشموں والے سٹینڈ کے پاس کھڑی ہے اور اس کا بیٹا اس کی ٹانگ پکڑے اسے کھینچ رہا ہے ۔
” مت کرو“ ، وہ کہتی ہے ، ” مت کرو ، ورنہ ۔ ۔ ۔ “
وہ ایک خانے سے دھوپ کا ایک چشمہ اٹھاتی ہے ۔ اس کے کالے فریم کو سہلاتے ہوئے اسے پہن کر آئینے میں دیکھ کرمسکراتی ہے ۔ وہ اسے اتار کر اس کے ٹیگ پر قیمت پڑھتی ہے اور تیوری چڑھا کر اسے واپس رکھ دیتی ہے ۔
” آﺅ “ ، وہ کہتی ہے، ” چلو چلیں ۔“
وہ چلنا شروع کر دیتی ہے لیکن ابھی دو قدم ہی گئی ہوتی ہے کہ وہ مڑتی ہے ۔ اس کی آنکھیں پھیل جاتی ہیں اور وہ اپنے بیٹے کا نام لے کر چِلاتی ہے ۔
ایک شخص اس کے پاس آتا ہے جس نے کالی پتلون اور سفید قمیض پہن رکھی ہے ۔
” سب کچھ ٹھیک ہے نا ۔ ۔ ۔؟ “ ، وہ کہتا ہے ۔
” نہیں ، میرا بیٹا گم ہو گیا ہے ۔ “
وہ دونوں سٹورمیں اِدھر اُدھر چکر لگاتے ہیں ۔ پھر آدمی رک جاتا ہے اور ’ واکی ٹاکی‘ پر بات کرتا ہے ۔ ایک عورت سینے پر اپنے نام کا بیج لگائے ، نمودار ہوتی ہے ۔ وہ بچے کی ماں کے گرد بازو حمائل کرتی ہے ، اسے سٹور کے پیچھے کا راستہ دکھاتی ہے اوراسے وہاں بیٹھنے میں مدد دیتی ہے ۔
” ہم ’ سی سی ٹی وی‘ کی مدد سے تلاش شروع کرتے ہیں “ ، عورت کہتی ہے ، ” اور ہم نے پولیس سے بھی رابطہ کر لیا ہے ۔“
ماں کرسی پر آگے پیچھے جھولتی آنسو بہاتی ہے ؛ ایسے لگتا ہے جیسے اس پر دیواریں گر رہی ہوں ۔ عورت اسے ایک ٹشو پیپر دیتی ہے ۔
دھپ کی آواز آتی ہے اور دروازہ کھلتا ہے ۔ نیلے کپڑوں میں ملبوس ایک شخص اندر آتا ہے اس کے ساتھ ایک بچہ ہے ۔
” کیا یہ آپ کا بیٹا ہے؟ “
ماں مڑ کے دیکھتی ہے ۔ ۔ ۔ اور اس کا بیٹا دھوپ کا چشمہ اس کے ہاتھوں میں تھما دیتا ہے ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پرتھ ، آسٹریلیا کا مائیکل بکینگھم گرے ( Michael Buckingham Gray ) اپنی مائیکروفکشن کے لئے جانا جاتا ہے ۔ اس نے ’ کرٹن یونیورسٹی‘ سے ’ Creative Writing ‘ میں ماسڑز کر رکھا ہے ۔ اس کی ننھی فکشن ’ The Fortnightly Review ‘ جیسے رسالوں میں شائع ہوتی ہے ۔ وہ ’ یونیورسٹی آف ناٹراڈیم ‘ اور ’ ورکشاپ فریو ‘ میں تخلیقی تحریر کا استاد بھی رہا ہے ۔ اب فری لانسر استاد ہے اور انگریزی میں مائیکروفکشن ، فلیش فکشن وغیرہ کے کورسز پڑھاتا ہے ۔ اس کی پہلی کہانی ’ And Brings Up Loose Dirt ‘ تھی جو چھپتے ہی ماسڑ پیس قرارپائی تھی ۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...