وار فکشن
کیتھرین مینسفیلڈ
(Katherine Mansfield)
”واہ یہ تو بہت آرام دہ ہے “ ، بوڑھے ووڈی فیلڈ نے کہا اور اپنے دوست و باس کی میز کے پاس پڑی بڑی سبز رنگی ہتھیوں والی کرسی سے یوں اونچا ہوا جیسے بچہ اپنی پرام * سے سر نکالتا ہے ۔ اس کی باتیں ختم ہو گئی تھیں اور اب اس کے جانے کا وقت ہو گیا تھا لیکن وہ جانا نہیں چاہتا تھا ۔ جب سے وہ ریٹائر ہوا اور۔ ۔ ۔ اس پر فالج کا حملہ ہوا تھا اس کی بیوی اور بیٹیاں اسے گھر سے باہر نہ نکلنے دیتیں البتہ منگل وار کو اسے تیار ہونے اور بال بنانے کے بعد شہر جا کر گھومنے کی اجازت ہوتی ۔ اس کی بیوی اور بیٹیوں کو بالکل اندازہ نہ تھا وہ شہر جا کر کیا کرتا تھا ۔ انہوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ دوستوں سے مل کر خود کے لیے پریشانیاں گھیرتا ہو گا ۔ ۔ ۔ شاید ایسا ہی تھا ۔ اور جیسا کہ ہوتا ہے ہم سب اپنی پچھلی خوشیوں سے اسی طرح چمٹے رہتے ہیں ویسے ہی جیسے درخت اپنے آخری پتوں کو چمٹائے رکھتے ہیں ۔ تو ایسا ہی کچھ تھا کہ بوڑھا ' ووڈی فلیڈ ' وہاں بیٹھا سگار پی رہا تھا اور کچھ لالچی سی نظروں سے باس کو گھور رہا تھا جو اپنی دفتری کرسی میں بیٹھا اِدھر اُدھر ہل جُل رہا تھا ؛ وہ ہٹا کٹا تھا اور اس کے گالوں پر لالی تھی ۔ وہ اس سے پانچ سال بڑا ہونے کے باوجود توانا تھا اور ابھی تک کمان سنبھالے ہوئے تھا ۔ حسرت اور ستائش بھری بوڑھی آواز نے مزید کہا ؛ ”یہاں سب کچھ ہی آرام دہ ہے ۔ ۔ ۔ قسم سے ! “
” ہاں یہ کافی آرام دہ ہے ۔“ ، باس نے اتفاق کیا اور اس نے کاغذ کاٹنے والے چاقو سے ’ فنانشل ٹائمز کا ورقہ پلٹا ۔ اصل میں اسے اپنے کمرے پر ناز تھا ؛ اسے یہ بھی پسند تھا کہ اس کے کمرے کی تعریف کی جائے ، خاص کرکے بوڑھا ووڈی فیلڈ ایسا کرے ۔ اور جب مفلر پہنے اس بوڑھے نے ایسا کہا تو اس نے ووڈی فلیڈ پر بھرپور نظر ڈالتے ہوئے گہرا اور دبیز اطمینان محسوس کیا ۔
” میں نے حال ہی میں اس کی دوبارہ سے آرائش کی ہے ۔“ ، اس نے وضاحت کی ویسے ہی جیسے وہ پہلے بھی کرتا رہا تھا ۔ ۔ ۔ کتنی بار ؟ ۔ ۔ ۔ ہفتوں سے کئی بار ۔ ” نیا قالین “ ، اس نے شوخ سرخ قالین کی طرف اشارہ کیا جس پر بڑے سفید دائروں کا ڈئیزائن بنا تھا ۔ ” نیا فرنیچر “ ، اس نے کتابوں کی بڑی الماری اور میز کی طرف اشارہ کیا جس کی ٹانگیں بل دار راب کے گٹے کی مانند گہرے رنگ کی تھیں ۔” برقی حرارت کا نظام ! “ اس نے وفور مسرت سے اس خم دار تانبے کے کٹورے کی طرف ہاتھ لہرایا جس میں شفاف موتیوں اور ' ساسیج ' جیسے لمبوترے قمقمے مدھم انداز میں روشن تھے ۔
لیکن اس نے بوڑھے ووڈی فلیڈ کی توجہ اس تصویر کی طرف مبذول نہ کرائی جو میز پر دھری تھی اور جس میں سوچ میں ڈوبا سرد مزاج ایک نوجوان ایک ایسے باغ میں کھڑا تھا جو اپنے گوتھک سٹائل کی وجہ سے فوٹوگرافروں کو پسند تھے اور اس کے پیچھے اسی طرح کے وہ طوفانی بادل تھے جو فوٹوگرافروں کے پسندیدہ تھے ۔ یہ نئی نہ تھی ۔ یہ وہاں چھ سال سے پڑی تھی ۔
” کچھ ایسا ہے جو میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں “ ، ووڈی فیلڈ نے کہا اور اس کی آنکھیں کچھ یوں سکڑیں جیسے وہ کچھ یاد کر رہا ہو ۔ ” یہ کیا تھا ؟ میں جب صبح گھر سے نکلا تو مجھے یہ یاد تھا ۔“ ، اس کے ہاتھ کانپنے لگے اور اس کی داڑھی سے اوپر جلد پر لال دھبے بھی ابھر آئے ۔
’ بیچارے بوڑھے کا آخیر آن پہنچا ہے ‘ ، باس نے سوچا اور ازراہ ہمدردی آنکھ مارتے ہوئے مزاحیہ انداز سے بولا ، ” میں تمہیں بتاتا ہوں ۔ میرے پاس ایک شے کے کچھ قطرے ہیں جو ، اس سے پہلے کہ تم سردی میں دوبارہ واپس جاﺅ ، تمہارے لیے بہتر ثابت ہوں گے ۔ یہ بہت ہی عمدہ مال ہے ۔ یہ تو کسی بچے کو بھی نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ “ ، اس نے اپنی گھڑی کی زنجیر سے بندھی ایک چابی الگ کی اور اپنی میز کے ایک دراز کا تالا کھولا اور ایک گہرے رنگ کی چھوٹی چپٹی اور موٹی بوتل نکالی ۔ ” یہ دوائی ہے ۔“ ، وہ بولا ، ” اور میں نے جس آدمی سے اسے لیا اس نے مجھے یہ بتایا کہ یہ کوالٹی کے سخت معیار کے ساتھ ’ وِنڈسر سیسل ‘ کے تہہ خانوں سے لائی گئی ہے ۔ “
بوڑھے ووڈی فیلڈ کا منہ اسے دیکھ کر کھلا کا کھلا رہ گیا ۔ وہ شاید اتنا متعجب نہ ہوتا اگر باس نے دراز سے ایک خرگوش نکالا ہوتا ۔
” یہ تو وہسکی ہے ، ہے نا ؟ ، اس نے دھیرے سے کہا ۔
باس نے بوتل گھمائی اور محبت بھرے انداز میں اسے اس کا لیبل دکھایا ۔ یہ وہسکی ہی تھی ۔
” آپ کو پتہ ہے “ ، وہ باس کو حیرت سے دیکھتے ہوئے بولا۔ ” وہ گھر میں مجھے اسے چھونے بھی نہ دیں ۔ “ ، ایسا لگتا تھا جیسے وہ رو دے گا ۔
” آہ ، یہی تو ہے جہاں ہم مرد عورتوں سے کچھ زیادہ جانتے ہیں ۔“ ، باس چلایا اور ان دو گلاسوں کی طرف جھپٹا جو میز پر پانی کی بوتل کے پاس پڑے تھے اور ان دونوں میں بڑی انگلی برابر شراب فراخدلی سے ڈالی ۔ ” پی جاﺅ ۔ یہ تمہارے لیے اچھی رہے گی ۔ اور اس میں پانی مت ڈالنا ۔ اس جیسی شے کو کسی دوسری شے سے ناخالص کرنا اس کی بے حرمتی ہے ۔ آہ ! “ اس نے ایک ہی گھونٹ میں اپنی شراب پی ، اپنا رومال نکالا اور تیزی سے اپنی مونچھیں صاف کیں اور بوڑھے ووڈی فیلڈ پر نظریں جما دیں جو اپنا گلاس اپنی پتلون کے ساتھ رگڑ رہا تھا ۔
بوڑھے نے گھونٹ بھرا ، کچھ دیر خاموش رہا اور پھر ضعیف لہجے میں بولا، ” یہ پُرجوز ہے ۔ “
لیکن اس نے اسے گرما دیا اور جب یہ اس کے بوڑھے اور ٹھنڈے دماغ کو چڑھی ۔ ۔ ۔ تو اسے یاد آ گیا ۔
” یہی تو تھا “ ، اس نے کرسی سے اچھلتے ہوئے کہا ۔ ” میرا خیال تھا کہ تم یہ جان کر خوش ہو گے ۔ میری بیٹیاں پچھلے ہفتے بیلجئیم میں تھیں اور بیچارے ’ ریگی ‘ کی قبر پر گئیں تبھی وہ تمہارے بیٹے کی قبر کے پاس سے بھی گزریں ۔ یہ دونوں پاس پاس تھیں ۔
ووڈی فیلڈ رُکا ، لیکن باس نے کوئی جواب نہ دیا ، البتہ اس کی پلکوں کی جنبش اس بات کی مظہر تھی کہ اس نے بوڑھے کی بات سن لی تھی ۔
” لڑکیاں اس بات پر خوش تھیں کہ انہوں نے اس جگہ کو اچھی طرح سنبھالا ہوا تھا ۔“ ، اس کی بوڑھی آواز کمرے میں ابھری ۔ ” انہوں نے عمدہ دیکھ بھال کر رکھی تھی ۔ اگر یہ قبریں اپنے وطن میں ہوتیں تو شاید ان کی ایسی دیکھ بھال نہ ہوتی ۔ تم وہاں نہیں گئے ، یا گئے ہو ؟ “
” نہیں ، نہیں ! “ ، باس بوجوہ وہاں نہیں جا سکا تھا ۔
” یہ قبرستان میلوں تک پھیلا ہوا ہے ۔“ ، ووڈی فیلڈ کی آواز میں لرزش تھی ، ” اور یہ ایک باغ کی طرح صاف ستھرا ہے ۔ قبروں پر پھول کھلے ہوئے ہیں اور وہاں چوڑی راہداریاں بھی بنی ہیں ۔ “ ، اس کی آواز سے یہ تاثر صاف ظاہر تھا کہ اسے اچھے چوڑے راستے کتنے پسند تھے ۔
” آپ کو پتہ ہے کہ ہوٹل والوں نے جام کے ایک مرتبان کے لئے لڑکیوں سے کیا قیمت وصول کی ؟ “ ، وہ بولا ، ” دس فرانک ! میں اسے لوٹ مار کہتا ہوں ۔ یہ ایک چھوٹا مرتبان تھا ۔ اس لیے ’ گرٹروڈ ‘ کہتی ہے کہ اس کی قیمت آدھے کراﺅن سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے تھی ۔ اور اس نے اس میں سے ایک چمچ برابر ہی جام لیا تھا جس کے انہوں نے دس فرانک لے لیے ، گرٹروڈ انہیں سبق سکھانے کے لیے مرتبان ہی ساتھ لے آئی تھی ۔ اس کا ایسا کرنا بھی ٹھیک تھا ؛ وہ ہمارے جذبات اور احساسات کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں ۔ ان کا خیال ہے کہ ہم وہاں ہیں تاکہ اپنے پیاروں کی قبروں کو دیکھ سکیں ، تو ہم کچھ بھی ادا کرنے کے لیے تیار ہیں ۔ یہ سب کچھ ایسا ہی ہے ۔“ ، یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گیا ۔
” بالکل ٹھیک ، بالکل ٹھیک ! “ ، باس چلایا گو اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ ’ بالکل ٹھیک ‘ کیا تھا ۔ وہ اٹھا ، میز کے گرد گھومتا دبے قدموں چلتا دروازے تک آیا اوراپنے پرانے ساتھی کو الوداع کہا ۔ ووڈی فیلڈ چلا گیا ۔
باس کچھ دیر کے لئے وہیں کھڑا رہا اور خلاء میں گھورتا رہا ، دفتر کا سرمئی بالوں والا ہرکارہ اسے دیکھ رہا تھا اور اپنے چھوٹے سے کیبن سے یوں اندر باہر ہو رہا تھا جیسے ایک ایسا کتا ہو جس نے کچھ پکڑ کر دوڑ لگانی ہو ۔ پھر ؛ ” میسی ،میں آدھے گھنٹے کے لیے کسی سے نہیں ملناچاہتا “ ، باس نے کہا ، ” سمجھ گئے نا ؟ کسی سے بھی نہیں ۔ “
” بہت بہتر ، جناب ۔“
دروازہ بند ہوا ، بھاری جمے قدموں نے دوبارہ شوخ قالین کو پار کیا اور اس کا فربہ جسم سپرنگ والی کرسی میں ڈھیر ہو گیا ۔ باس آگے کی طرف جھکا اور اپنے چہرے کو ہاتھوں سے ڈھانپا ۔ وہ رونا چاہتا تھا اور اس نے رونے کے لیے خود کو تیار کر لیا تھا ۔ ۔ ۔
جب بوڑھے ووڈی فیلڈ نے اس کے بیٹے کی قبر کے بارے میں جملہ بولا تھا تو اسے شدید جھٹکا لگا تھا ۔ یہ بالکل ایسا ہی تھا جیسے زمین پھٹ گئی ہو اور وہ اپنے بیٹے کو قبر میں لیٹے دیکھ رہا ہو جسے ووڈی فیلڈ کی بیٹیاں ٹکٹکی باندھے دیکھ رہی ہوں ۔ یہ اس کے لیے عجیب تھا ۔ گو چھ سال گزر چکے تھے لیکن باس نے کبھی بھی نہیں سوچا تھا کہ اس کا بیٹا یوں اپنے یونیفارم میں ، بغیر کسی تبدیلی اور داغ دھبوں کے ہمیشہ کے لیے یوں سو رہا ہو گا ۔ ” میرا بیٹا ! “ ، باس نے آہ و زاری کی لیکن آنکھوں سے ایک آنسو بھی نہ نکلا ۔ ماضی میں ، بیٹے کے مرنے کے بعد ، پہلے مہینوں میں ، بلکہ سالوں میں وہ اپنے غم پر قابو پانے کے لیے یہی کہتا رہا تھا کہ جب تک وہ کھل کر روئے گا نہیں اس کا دکھ ختم نہیں ہو گا ۔ وقت ، اس نے سب کو کہا اور واضح کیا تھا کہ وقت گزر جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ دوسرے لوگ شاید صدمے سے باہر نکل آئیں ، اپنے ایسے ذاتی رنج و الم و نقصان کے باوجود جی لیں لیکن اس کے لیے ایسا ممکن نہیں تھا ۔ اور ایسا ممکن بھی کیسے تھا ؟ اس کا لڑکا اس کا اکلوتا بیٹا تھا ۔ جب سے وہ پیدا ہوا تھا ، اس نے یہ کاروبار اسی کے لیے کھڑا کرنا شروع کیا تھا ؛ اگر یہ کاروبار اس کے بیٹے کے لیے نہ تھا تو اس کا کوئی اور مقصد ہی نہ تھا ۔ زندگی کا اور کوئی مطلب ہی نہ تھا ۔ اس نے اس دھرتی پر خود کو اس کا غلام کس لیے بنایا تھا ، اپنی ذات کی نفی کی تھی اور سالوں ، بِنا کسی وعدے کے ، اسے بڑھوتی دی تھی کہ ایک دن اس کا بیٹا اس کی جگہ لے گا اور اسے وہاں سے آگے بڑھائے گا جہاں اس نے چھوڑنا تھا ۔
اور جب اس وعدے کے ایفاء ہونے کا وقت قریب آیا اور اس کے بیٹے نے دفتری کام کے گُر سیکھنے شروع کیے تو سال بعد ہی جنگ چھڑ گئی تھی ۔ وہ ہر روز اکٹھے کام کے لیے نکلتے ؛ اکٹھے ہی ایک ریل گاڑی پر واپس آتے ۔ اور ایسے بیٹے کا باپ ہونے پر اس نے کتنی مبارکبادیں وصول کی تھیں ! یہ پُر تعجب نہیں تھا کہ اس نے کام کو خوش اسلوبی سے سنبھالنا شروع کیا تھا ۔ وہ سارے عملے ، ہر آدمی یہاں تک جیک سے میسی تک ، میں بہت مقبول تھا ۔ اور اس میں ذرا سی بھی کوئی بری عادت یا بات نہ تھی ۔ بالکل بھی نہیں ۔ وہ فطرتی طور پر ذہین تھا اور اس کے پاس ہر بندے کے لیے کہنے کو مناسب الفاظ تھے ۔ وہ بچکانہ نظروں کے ساتھ ہر بات پر یہ کہنے کا عادی تھا ؛ ” بہت ہی زبردست ۔“
لیکن یہ سب ختم ہو گیا اور انجام پا گیا جیسے پہلے کبھی موجود ہی نہ تھا ۔ اور پھر وہ دن آ گیا جب میسی نے اسے وہ تار تھمائی جس نے اس کے ذہن میں ہر شے کو تہس نہس کر دیا تھا ۔ ” ہم آپ کو گہرے افسوس کے ساتھ اطلاع دیتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ “ اور وہ ایک ٹوٹے ہوئے بندے کی مانند اپنی کھنڈر ہوئی زندگی کے ساتھ دفتر سے باہر نکل گیا تھا ۔
چھ سال پہلے ، چھ سال ۔ ۔ ۔ وقت کتنی جلدی گزراتھا ! لگتا تھا جیسے یہ گزرے کل کا واقعہ ہو ۔ باس نے اپنے چہرے سے ہاتھ ہٹائے ؛ وہ تذبذب میں تھا ۔ اس کے اندر کچھ گڑبڑ ہو رہی تھی ۔ وہ ویسا محسوس نہیں کر پا رہا تھا جیسا کہ وہ چاہتا تھا ۔ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ اٹھے اور اپنے بیٹے کی تصویر کو ایک نظر دیکھے لیکن یہ اس کی پسندیدہ تصویروں میں سے نہیں تھی ؛ اس میں بیٹے کے چہرے پر تاثرات فطری نہیں تھے ۔ یہ سرد مہری والے تاثرات تھے ، بلکہ ایسے جیسے اس کا بیٹا لکڑی کا ایک تنا ہو ۔ اصلی زندگی میں اس بیٹا کبھی بھی ایسا دکھائی نہیں دیتا تھا ۔
اسی لمحے ، باس نے دیکھا کہ ایک مکھی اس کے کھلے منہ والے سیاہی دان میں گری ہوئی تھی اور نقاہت لیکن بےتابی سے باہر نکلنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ مدد ! مدد ! اس جدوجہد میں مصروف اس کی ٹانگیں پکار رہی تھیں ۔ لیکن سیاہی دان کی اطراف گیلی اور پھِسلویں تھیں ؛ وہ دوبارہ سیاہی میں گر جاتی اور اس میں تیرنے لگتی ۔ باس نے ایک پین اٹھایا ، سیاہی میں سے مکھی کو باہر نکالا اور سیاہی چوس کے ایک ٹکڑے پر رکھ دیا ۔ ایک لمحے کے لیے وہ اپنے اِرد گرد پھیلے سیاہی کے گہرے دھبے کے درمیان ساکت پڑی رہی ۔ پھر اس کی اگلی ٹانگیں ہلیں اور تن گئیں ، پھر اس نے اپنے چھوٹے سے تربتر جسم کواوپر اٹھایا اوراپنے پروں پر سے سیاہی جھٹکنے کا بھاری بھر کم کام کرنے لگی ۔ اوپر تلے ، اوپر تلے ایک ٹانگ ایک پر کے ساتھ ، یوں کہ جیسے پتھر ، تیز کرنے کے لیے ، درانتی کے اوپر اور نیچے پھرتا ہے ۔ اور پھر وقفہ ہوا ، لگتا تھا کہ مکھی اپنی ایڑیوں پر کھڑی ہو چکی تھی ، اس نے اپنے ایک پر کو پھیلایا اور پھر دوسرے کو ۔ وہ بالآخر اس میں کامیاب ہو گئی اور وہ ، ایک ننھی بلی کی مانند ، بیٹھی اپنا چہرہ صاف کرنے لگی ۔ اب بندہ یہ اخذ کر سکتا تھا کہ وہ اپنی اگلی چھوٹی ٹانگوں کو شادمانی کے ساتھ ہولے ہولے ایک دوسرے کے ساتھ رگڑ رہی تھی ۔ خوفناک خطرہ ٹل چکا تھا ؛ وہ بچ گئی تھی ؛ اور وہ ایک بار پھر اپنی حیات گزارنے کے لیے تیار تھی ۔
تبھی ، باس کو ایک خیال آیا ۔ اس نے اپنے پین کو سیاہی میں ڈبویا اور اپنی کلائی کو سیاہی چوس پر جھکایا اور جیسے ہی مکھی نے اپنے پر نیچے کیے اس پر سیاہی کا ایک موٹا قطرہ گرا ۔ وہ اب کیا کرے گی ؟ واقعی وہ کیا کر پائے گی ! لگتا تھا کہ بیچاری ، زندگی کی بھیک مانگنے والی ننھی جان دُبک گئی ، دنگ رہ گئی اور اتنی خوفزدہ ہوئی کہ حرکت کرنا بند کر دیا کہ نجانے اور کیا ہونے والا تھا ۔ لیکن پھر اس نے اذیت کے ساتھ خود کو آگے کی طرف بڑھایا ۔ اگلی ٹانگیں لڑکھڑائیں لیکن پھر جم گئیں اور ایک بار پھر، کام پھر سے شروع ہوگیا گو یہ پہلے کے مقابلے میں کافی سست تھا ۔
’ یہ ننھی شیطان تو نڈر ہے ۔‘ ، باس نے سوچا اور اسے مکھی کی ہمت دیکھ کر توصیف کا احساس ہوا ۔ ’ چیزوں کو اسی طریقے سے نمٹنا چاہیے ؛ یہی ٹھیک جذبہ ہے ۔ مت کہو کہ مرنا ہے ؛ یہ تو بس ایک سوال تھا ۔ ۔ ۔ لیکن مکھی نے تھکا دینے والا کام پھر سے کر لیا اور باس کو بھی اتنا وقت مل گیا تھا کہ اپنی پین کو سیاہی سے پھر سے بھر لے تاکہ منصفانہ مقابلے کے لیے پھر سے مکھی کے صاف جسم پر ایک اور تُبکا ڈال سکے ۔ اس بار کیا ہو گا ؟ ایک تکلیف بھرا لمحہ تجسس میں گزرا ۔ لیکن مکھی کی اگلی ٹانگیں بھر ڈول رہی تھیں ؛ باس کو ایک دم طمانیت کا احساس ہوا ۔ وہ مکھی پر جھکا اور نرمی سے اسے کہا ، ” تم ایک ننھی ہوشیار کُت۔ ۔ ۔ “ اور وہ سچ مچ چاہتا تھا کہ وہ اس پر اپنا سانس اس طرح چھوڑے کہ یہ اسے خشک ہونے میں مدد ملے ، لیکن اس بار مکھی نے بزدلی دکھائی اور اس کی کوشش بھی کمزور تھی ۔ باس نے قلم سیاہی میں ڈبوتے ہوئے فیصلہ کیا کہ بس ایک بار اور آخری بار ۔
اور یہ آخری بار ہی تھا ۔ گیلے سیاہی چوس پر یہ آخری دھبہ ہی ثابت ہوا ، سیاہی سے بھری مکھی اس میں پڑی رہی اور بالکل نہ ہلی ۔ اس کی پچھلی ٹانگیں جسم سے چپکی ہوئی تھیں اور اگلی تو نظر ہی نہیں آ رہی تھیں ۔
” اٹھو ، ہمت کرو “ ، باس نے کہا ، ” اپنی تیزی دکھاﺅ !“ اور اس نے پین کی نب کی نوک سے اسے ہلایا بھی ۔ ۔ ۔ یہ کوشش بھی ناکام گئی ۔ کچھ نہ ہوا اور کچھ ہونے والا بھی نہیں تھا ۔ مکھی مر چکی تھی ۔
باس نے مردہ مکھی کو کاغذ کاٹنے والے چاقو کی نوک سے اٹھایا اور اسے رَدی کی ٹوکری میں پھینک دیا ۔ لیکن اس پر بیچارگی کی ، پیس کر رکھ دینے والی کیفیت ایسے طاری ہوئی کہ وہ حقیقی طور پر خوفزدہ ہو گیا ۔ وہ آگے بڑھا اور میسی کو بلانے کے لیے گھنٹی دبائی ۔
” میرے لیے کچھ نئے سیاہی چوس لاﺅ “ ، اس نے سخت لہجے میں کہا ، ” اور انہیں لانے میں تیز ی دکھاﺅ ۔“ اور جب بوڑھا میسی وہاں سے چلا گیا تو وہ بیٹھا یہ سوچتا رہا کہ اس وقوعے سے پہلے وہ کیا سوچ رہا تھا ۔ کیا تھا وہ ؟ یہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے اپنا رومال نکالا اور اس کی تہہ اپنی قمیض کے کالر میں لگائی ۔ اسے یہ زندگی بھر یاد نہ آیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* پرام = Pram
1922 ء میں شائع شدہ اس کہانی کو کیتھرین مینسفیلڈ کی بہترین کہانیوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اس کی تحریروں میں پہلی جنگ عظیم کا اثرات کا اثر اس وقت پڑا جب اس کا بھائی 1915 ء میں دستی بم ہاتھ میں ہی پھٹ جانے سے ہلاک ہو گیا تھا ۔ اُس کے اس ذاتی صدمے اور جنگ کی تباہ کاریوں کو اُس کی کہانیوں ’ گارڈن پارٹی ' ( The Garden Party ) ، ’ تمہید ‘ (Prelude ) ، ’خلیج پر‘ (At the Bay) ،’ سفر لاشعور ( An Indiscreet Journey) اور’ مرحوم کرنل کی بیٹی‘ ( The Daughters of the Late Colonel ) میں بھی دیکھا جا سکتا ہے ۔
کیتھرین مینسفیلڈ کا افسانہ ’ مکھی ‘ ان ابتدائی افسانوں میں سے ایک ہے جو ’ جدید ادب‘ کا حصہ ہیں ۔ ' افسانہ ' ( شارٹ سٹوری ) نے جب بیسویں صدی کے آغاز میں اپنا روایتی چولا اتارا تو یہ محض ایک گیت کی شکل اختیار کر گیا جو ’ نفسیاتی کیفیت‘ کی نظم کے قریب ترین تھا ۔ کیتھرین مینسفیلڈ کا درج بالا افسانہ ' وار فکشن ' میں شامل ہوتے ہوئے بھی کچھ اسی قسم کا ہے ۔ اس میں کہانی کم کم ہے اور اسے جس انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ روایتی افسانے سے بہت زیادہ مختلف ہے ۔ اس میں کئی چیزوں کو وضاحت سے بیان نہیں کیا گیا اور ان کی منطق بھی نہیں بتائی گئی ۔ یہ صرف ایک انسان کے اندر جھانک کر ایک ہمدردانہ آگاہی دیتا ہے ، اس انسان کے بارے میں جو صدمے سے گزر کر ماحول کے رحم و کرم پر ہے کہ وہ ویسا ہی کرے جیسا کہ اس کے اردگرد کی گرم سرد فضاء اسے مشورہ دیتی ہے ۔ اس افسانے میں نہ تو روایتی پلاٹ ہے اور نہ ہی روایتی تکنیک بلکہ اس میں ’ شعور کے بہاﺅ ‘ والا طریقہ برتتے ہوئے ایک جدید افسانہ تخلیق کیا گیا ہے ۔
کیتھرین مینسفیلڈ ( اصل نام ؛Kathleen Mansfield Beauchamp ) نیوزی لینڈ کی جدیدیت پسند ادیبہ تھی اور اس کے حلقہ ِ احباب میں دیگر کے علاوہ ’ ورجینیا وولف ‘ اور ’ ڈی ایچ لارنس‘ بھی شامل تھے ۔ وہ 14 اکتوبر 1888ء کو ولینگٹن ، نیوزی لینڈ کے سماجی طور پر مقبول ایک گورے خاندان میں پیدا ہوئی ۔ سکول کی تعلیم کے دوران اس کی تحاریر وہیں سکول کے رسالے اور ’ ہائی سکول رپورٹر ‘ میں شائع ہوتی رہیں ۔ وہ 1903 ء میں لندن گئی اور کوئنز کالج سے میٹرک کا امتحان پاس کیا ۔ اسے ’ چیلو ‘ ساز بجانے کا شوق تھا اوروہ اسے ہی بطور پیشہ اپنانا چاہتی تھی ۔ کالج میں اس نے اس کے اخبار میں لکھنا بھی شروع کیا اور پھر اس کی ایڈیٹر بھی بن گئی ۔ اس نے یورپ کی سیر کی اور پھر واپس نیوزی لینڈ چلی گئی اور افسانے لکھنے شروع کر دئیے ۔ وہ جلد ہی نیوزی لینڈ کی قصباتی اورمشترکہ خاندانی زندگی سے اچاٹ ہوئی اور دو سال بعد ہی لندن آ گئی ۔ اس کے والد نے اس کے نام سو پاﺅنڈ سالانہ وظیفہ تا حیات لگا دیا ۔ اس کی زندگی میں مردوں کے علاوہ عروتیں بھی تھیں جن میں دو زیادہ اہم تھیں ؛ مارتھا گریس اور ایڈتھ کیتھلین بینڈل ۔ اس نے دو شادیاں بھی کیں ؛ پہلی نو سال برقراررہی جبکہ دوسری اس کی موت تک قائم رہی ؛ اس کا دوسرا خاوند ' جان مڈلٹن مورے ' بعد ازاں 1957ء میں فوت ہوا ؛ وہ خود بھی ادیب تھا اور پچاس سے زائد کتابوں کا مصنف بھی تھا ۔
لندن میں اس کا رہنے کا سٹائل ’ بوہیمین ‘ بھی رہا ۔ جب طبیعت خراب رہنے لگی تو 1917ء میں یہ تشخیص ہوا کہ اسے ٹی بی ( تپ دِق ) تھی ۔ 1922 ء میں وہ فرانس کے ’ Georges Gurdjieff's Institute ‘ میں داخل ہوئی تاکہ اپنی ذات میں ہم آہنگی کو’ Georges Gurdjieff ‘ کے وضع کردہ ’ چار اصولوں ‘ کے مطابق ڈھال سکے ۔ جنوری 1923ء کے پہلے ہفتے میں وہ سیڑھیوں سے ایسے گری کہ اس کے پھپھڑے پھٹ گئے اور وہ 9 جنوری کو فوت ہو گئی ۔ وہ فرانس میں ہی دفن ہے ۔
اس کی تحاریر کے لگ بھگ پچیس مجموعے ہیں جن میں شاعری ، افسانے ، ناولٹ اور نان فکشن کے علاوہ خطوط بھی شامل ہیں ۔ اب تک اس کی سوانح پر چھ کتابیں لکھی جا چکی ہیں جبکہ پانچ فلمیں/ ٹی وی سیریل بھی بن چکے ہیں ۔ اس پر چار ناول بھی لکھے گئے اور وہ کئی ڈراموں میں بھی ان کا موضوع رہی ۔ اس کی کئی تحاریر ماخذ کے طور پر بھی برتی گئیں ۔