تحریر ۔ 3
( Terra Incognita )
(چرنوبل سانحہ ، پریپیات ، شمالی یوکرائن ، سوویت یونین )
( Chernobyl Disaster , Pripyat, North Ukraine , Soviet Union )
میں اس سلسلے کی اپنی تحریر ۔ 2 میں چرنوبل ، پریپیات ، شمالی یوکرائن ، سوویت یونین کے حادثے کا ذکرکر چکا ہوں اس حادثے کے حوالے سے جو اعداد و شمار ریلیز کئے گئے وہ بھی بتا چکا ہوں لیکن چرنوبل اور اس کے گرد و نواح ، بیلارس ، سوویت یونین اور بدیسی دنیا میں اس کا کیا اثر ہوا یہ خود انہی کی زبان میں پڑھیئے جنہوں نے اسے ہوتے ہوئے دیکھا ، اس کے اثرات پر کام کیا اور اسے رپورٹ کیا ۔
٭ 27 ، اپریل 1996 ء کو بیلارس کے اخبار ’ نیروڈنایا گزیٹا ‘ نے لکھا ؛
بیلارس ۔ ۔ ۔ بیرونی دُنیا کے لئے ہم اب بھی ایک اجنبی خطہ ہیں ؛تاریک ، مبہم اور ایسا علاقہ جو نقشے پر موجود ہی نہ ہو ۔ انگریزی میں ہمارے ملک کا نام اندازے سے ’ سفید روس‘ کے طور پر لیا جاتا ہے ۔ ہر کوئی ’ چرنوبل ‘ کو جانتا ہے لیکن وہ اسے صرف یوکرائن اور روس کے حوالے سے جانتے ہیں ۔ ہماری کہانی اب بھی منتظر ہے کہ اسے بتایا جائے ۔
٭ مِنسک ؛ بیلارُسکیا انسائیکلوپیڈیا 1996 میں چرنوبل کے موضوع پر صفحات 7 ، 24 ، 49 ، 101 ، 149 میں لکھا ؛
26 ، اپریل 1986 ء کو01:23:58 بجے لگاتار ہونے والے دھماکوں نے چرنوبل کے ری ایکٹر نمبر 4 کو زمین بوس کر دیا ؛ چرنوبل جو بیلارس کی سرحد کے قریب شمالی یوکرائن کی آبادی پریتات کے قریب واقع ہے ۔ چرنوبل کا یہ حادثہ بیسویں صدی کی سب سے بڑی تکنیکی تباہی ہے ۔
بیلارس جیسے چھوٹے ملک ، جس کی آبادی فقط ایک کروڑ ہے اور جس کے پاس اپنا کوئی نیوکلیائی بجلی گھر نہیں ہے ، کے لئے یہ ایک قومی سانحہ ہے ۔ بیلارس اب بھی ایک زرعی سرزمین ہے اور اس کی زیادہ تر آبادی دیہاتی ہے ۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنوں نے اس کے 619 دیہات ان میں بسنے والوں سمیت صفحہ ہستی سے مِٹا دئیے تھے ۔ چرنوبل کے حادثے کے نتیجے میں یہ ملک ایک بار پھر اپنے 485 دیہات و قصبے کھو بیٹھا ہے ؛ ان میں 70 ایسے تھے جنہیں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زمین کے نیچے دفنا دیا گیا ؛ دوسری جنگ عظیم میں ہر چار میں سے ایک کو مار دیا گیا تھا ؛ آج اس حادثے کی وجہ سے ہر پانچ میں سے ایک بندہ تابکاری سے متاثرہ زون میں رہتا ہے ۔ یہ اکیس لاکھ لوگ بنتے ہیں جن میں سے ستر ہزار بچے ہیں ۔ تابکاری اس ملک کی گھٹتی آبادی کی سب سے بڑی وجہ ہے ۔ ’ گومل ‘ اور ’ موگیلیوف ‘ کے صوبے جو سب سے زیادہ متاثر ہوئے ، وہاں شرح اموات شرح پیدائش سے 20 فیصد سے بھی زیادہ ہو چکی ہے ۔
چرنوبل حادثے نے 50 ملین کیوریز (Ci ) تابکارمادہ ( Radionuclides ) فضا میں پھیلائے ، جس کا 70 فیصد ملبہ بیلارس پر گرا ۔ ملک کی 23 فیصد زمین ’ سیزیم ۔ 137 ( Cs کا ایک آئسوٹوپ) کی وجہ سے 1 کیوری فی مربع کلو میٹر تک تابکاری کا شکار ہوئی ( یہ تابکار آئیسوٹوپ ان میں سے ایک ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب یورنیم ۔ 235 ’ فشن ‘ کے عمل میں ہو ۔ یہ سب سے زیادہ مسائل کھڑا کرتا ہے کیونکہ یہ تیزی سے پھیلتا ہے اور پانی میں حل ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوئے دور تک مار کرتا ہے ۔) اگر موازنہ کیا جائے تو اس سے یوکرائن کے اپنے علاقے کا فقط 4.8 فیصد حصہ متاثر ہوا جبکہ روس کا صرف 0.5 فیصد جبکہ بیلارس میں 1.8 ملین ہیکٹر( ایک ہیکٹر= لگ بھگ 2.5 ایکڑ ) زرعی رقبہ تابکاری سے 1 کیوری فی مربع کلو میٹریا اس سے زیادہ متاثر ہوا ہے ۔ اسی طرح پانچ لاکھ ہیکٹر رقبہ ایسا ہے جو سٹرونشیم ۔ 90 ( Sr ) سے 0.3 کیوریز فی مربع کلو میٹر یا اس سے زیادہ متاثر ہے ( سٹرونشیم ۔ 90 بھی ایک ایسا تابکار آئیسوٹوپ ہے جو یورنیم ۔ 235 کی’ فشن‘ کے دوران نکلتا ہے ۔) 264 ہزار ہیکٹر رقبے میں کاشت کاری ختم کرنی پڑی ۔ بیلارس جنگلوں سے بھرا ایک ملک ہے لیکن اس کے ایک چوتھائی جنگل ، پریتات ، ڈنیپئر اور سوز دریاﺅں کے میدانوں میں واقع 50 فیصد مرغزار تابکاری سے متاثرہ زون میں ہیں ۔
ہلکی تابکار فضا اور ماحول میں مسلسل رہنے کے باعث بیلارس میں ہر سال کینسر ، بچوں کی دماغی معذوری ، دماغی و نفسیاتی بیماریوں اور جینیاتی تبدل میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے ۔
٭ مِنسک کے عالمی سخاروف کالج برائے تعلیم اعلٰی آف ریڈیو ایکولوجی نے اپنے مقالے ’ بیلارس پر چرنوبل حادثے کے اثرات ‘ 1992 ء کے صفحہ نمبر 82 پر لکھا ہے ؛
پیمائشی آلات نے جو تابکاری ناپی اس کے مطابق 29 اپریل 1986 ء کو یہ بات سامنے لائی گئی کہ تابکاری پولینڈ ، جرمنی ، آسٹریا اور رومانیہ کی فضاﺅں میں جا پہنچی تھی ؛ یہ 30 اپریل کو سوئزرلینڈ اور شمالی اٹلی میں پہنچی ؛ اور یکم اور دو مئی کو اس کے اثرات فرانس ،بیلجئیم ، نیدرلینڈز ، برطانیہ اور یونان تک جبکہ 3 مئی کو اسرائیل ، کویت اور ترکی میں بھی پرکھے گئے ۔
اس حادثے میں گیسیں اور کافوری صفت رکھنے والا مادہ جو آسمان تک جا پہنچا تھا ، نے پورے کرہ ہوائی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ؛ اس کی موجودگی 2 مئی کو جاپان میں بھی ریکارڈ کی گئی ؛ 4 مئی کو چین ، 5 مئی کو انڈیا جبکہ 5 اور 6 مئی کو شمالی امریکہ اور کینیڈا میں بھی اسے ناپا گیا ۔
ایک ہفتہ بھی نہ گزرا تھا کہ ’ چرنوبل ‘ ایک عالمی مسئلہ بن گیا ۔
٭ ’ اوگونایوک ‘ نامی میگزین کے شمارہ نمبر 17 ، شائع شدہ اپریل 1996 ء میں لکھا گیا ؛
ری ایکٹر نمبر 4 ، جسے اب ’ ڈھکا ہوا مواد ‘ کہا جاتا ہے ، سِکے ( Lead ) اور کنکریٹ کے اس پیٹ میں لگ بھگ 200 ٹن نیوکلیائی مادہ رکھا ہوا ہے ۔ اس ایندھن میں تابکار ’ گریفائٹ ‘ اور کنکریٹ بھی شامل ہے ۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس پیٹ میں اس وقت کیا چل رہا ہے ؟
یہ پتھریلا تابوت ایک مخصوص ڈیزائن کے تحت عجلت میں بنایا گیا تھا جس نے سینٹ پیٹرزبرگ کے ڈیزائن انجینئروں کو یقیناً فخر کا احساس دلایا ہو گا ۔ توقع کی گئی تھی کہ یہ تیس سال تک کارآمد ثابت ہو گا لیکن اس کا ڈھانچہ ایک فرسودہ تکنیک سے کھڑا کیا گیا تھا اور اس کے مختلف حصے روبوٹوں اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے جوڑے گئے تھے ۔ اس وجہ سے ان حصوں کے درمیان درزیں موجود ہیں ۔ آج ، ڈیٹا غمازی کر رہا ہے کہ یہ درزیں اور دراڑیں 200 میٹر سے بھی زیادہ لمبی ہو چکی ہیں اوران سے تابکاری فضا میں لگاتار رِس رہی ہے ۔ جب ہوا شمال کی جانب سے چلتی ہے تو یورنیم ، پلوٹونیم اور سیزیم کے ذرات جنوب میں نمودار ہوتے ہیں ۔ کسی بھی صاف آسمان والے روز ، رات میں جب بتیاں بند ہوں ، اس ڈھکے ہوئے ری ایکٹرمیں روشنی کی پٹیاں اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر دیکھی جا سکتی ہیں ۔ یہ کیا ہیں ؟ بارش بھی اس تابوت میں دھنستی ہے اور نمی اس مادے تک پہنچتی ہے جو اپنے اندر ایندھن رکھتا ہے ؛ یوں ایک ’ چین ری ایکشن ( Chain Reaction ) کا احتمال رد نہیں کیا جا سکتا ۔
یہ تابوت ایک ایسی لاش ہے جو اب بھی سانس لے رہی ہے ۔ اس کا سانس لینا انسانوں کی موت کے مترادف ہے ۔ اس کا سانس لینا کب تک جاری رہے گا ؟ یہ کسی کو بھی نہیں معلوم ۔ اس ملبے تک رسائی ممکن نہیں اور نہ ہی اس پرکھڑے کیے گئے ڈھانچے کے کئی حصوں تک پہنچا جا سکتا ہے تاکہ یہ اندازہ لگایا جا سکے کہ یہ خول کتنا مضبوط ہے ؟ ہاں یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ اگر یہ ڈھانچہ اپنے مقصد میں ناکام رہا تو یہ ایسے حالات سامنے لائے گا جو 1986 ء میں پیدا ہوئے حالات سے بھی زیادہ خطرناک اور تباہ کن ہوں گے ۔
٭ بیلارس کے آن لائن اخباری مضامین ۔ 2002 ء تا 2005 ء سے اقتباسات ؛
< چرنوبل کے سانحے سے پہلے ، بیلارس میں ایک لاکھ میں سے صرف 82 افراد کینسر کا شکار تھے ۔ اب یہ تعداد لاکھ میں 6000 تک جا پہنچی ہے جو پہلے کے مقابلے میں 74 گنا زیادہ ہے ۔
< پچھلے دس سالوں میں شرح اموات میں 23.5 فیصد اضافہ ہوا ہے ۔ مرنے والے ہر 14 بندوں میں سے ایک بڑھاپے کے باعث مرتا ہے جبکہ باقیوں کی موت کام کے قابل عمر یعنی 46 اور 50 سال کی عمر کے درمیان ہی ہو رہی ہے ۔ زیادہ متاثرہ صوبوں میں طبی معائنوں میں یہ بات سامنے آ رہی ہے کہ ہر 10 میں سے 7 کی صحت خراب ہے ۔ سفر کے دوران آپ کو دیہاتوں اور قصبوں میں قبرستانوں کی تعداد میں واضح اضافہ نظر آئے گا ۔
< بہت سے اعداد و شمار ابھی تک منظر عام پر نہیں لائے گئے ۔ ان میں سے کچھ تو اتنے دہلا دینے والے ہیں کہ انہیں خفیہ رکھا جا رہا ہے ۔ سوویت یونین نے آٹھ لاکھ ریگولر فوجی و’ ریزرو‘ فوجی حادثے سے متاثرہ علاقوں میں بھیجے ۔ ہنرمند کارکنوں کی اوسط عمر 33 سال تھی جبکہ بیگار کے لئے گئے زیادہ تر وہ تھے جو اسی وقت درسگاہوں سے فارغ ہوئے تھے ۔
< صرف ، بیلارس میں ہی ، لگ بھگ ایک لاکھ پندرہ ہزار افراد آپریشن ’ کلین اَپ ‘ کے کارکن تھے ۔ بیلارس کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق 1990 ء اور 2003 ء کے درمیان 8552 ’ کلین اَپ ‘ کارکن اپنی جان سے گئے جس کا مطلب یہ ہوا کہ اموات کی شرح دو کس فی دن تھی ۔
< کہانی یہاں سے شروع ہوتی ہے ؛
یہ 1986 ء کا سال ہے ۔ چرنوبل حادثے / سانحے کے مرتکب افراد کا مقدمہ سوویت یونین اور دیگر عالم کے اخباروں کے پہلے صفحوں پر سرخیاں بن ر ہا ہے ۔
اب ، آپ ایک پانچ منزلہ عمارتوں کے ایک سنسان بلاک کو ذہن میں لائیں ۔ اپارٹمنٹس والی ایک ایسی عمارت ، جس میں کوئی نہیں رہتا لیکن یہ فرنیچر ، کپڑوں اور دیگر اشیاء سے بھری پڑی ہے جن کو اس کے رہائشی دوبارہ استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ یہ عمارت چرنوبل میں ہے ۔ بہرحال اس مردہ شہر میں موجود یہ بلاک ایک چھوٹی سی پریس کانفرنس کا مقام تھا ۔ یہ اس لئے کی جا رہی تھی کہ نیوکلیائی سانحے کے مرتکب افراد یعنی ملزموں پر مقدمہ چلایا جائے ۔ کمیونسٹ پارٹی کی مرکزی کمیٹی نے اعلیٰ سطح پر یہ فیصلہ کیا تھا کہ مقدمہ جائے سا نحہ ، یعنی چرنوبل میں ہی سنا جائے ۔ یہ مقدمہ مقامی ثقافتی گھر میں سنا گیا ۔ چھ مدعاالہیان کٹہرے میں کھڑے تھے ؛ پلانٹ کا ڈائریکٹر’ وکٹربریوخانوف‘ ، چیف انجینئر’ نکولائی فومِن‘ ، ڈپٹی چیف انجینئر’ اناطولی ڈایاٹلوف ‘ ، شفٹ چیف ’ بورس رگوزکِن ‘ ، چیف آف ری ایکٹر’ ایلکساندر کووالینکو‘ اور انسپکٹر’ یوری لوشکن ‘جس کا تعلق ’نیوکلیائی سیفٹی ‘ کے ریاستی ادارے سے تھا ۔
عوامی نشستیں خالی تھیں ؛ صرف صحافی ہی بلائے گئے تھے ۔ اس وقت تک اس بند کیے گئے شہر سے تمام لوگوں کا انخلاء مکمل کیا جا چکا تھا ؛ انتہائی شدید تابکاری والے اس زون میں باقی ہربندے کا داخلہ ممنوع تھا ۔ مقدمے کی کاروائی کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیا ہی اس لئے کیا گیا تھا کہ کم لوگ ہوں مطلب تشہیر کم ہو ؟ وہاں نہ تو کیمروں والے تھے اور نہ ہی بدیسی نامہ نگار ۔ ظاہری بات ہے کہ ہر کوئی دیکھنا چاہتا تھا کہ کٹہرے میں درجنوں ملزم ہوں جن میں ماسکو سے بھی لوگ شامل ہوں ۔’ جدید سائنس ‘ کو بھی وہاں بلایا جانا چاہیے تھا تاکہ وہ بھی موردِالزام ٹھہرائی جاتی ۔ اس کے برعکس انہوں نے بَلی کے بکرے چُنے ۔
فیصلہ سنایا گیا ؛ نکولائی فومِن اور اناطولی ڈایاٹلوف کو دس دس سال قید کی سزا دی گئی ۔ دوسروں کو کم قید کی سزائیں ہوئیں ۔ اناطولی ڈایاٹلوف اور یوری لوشکن شدید تابکاری کا سامنا کرنے کے اثرات کے باعث قید میں ہی ہلاک ہو گئے ۔ چیف انجینئر نکولائی فومِن پاگل ہو گیا ۔ پاور پلانٹ کے ڈائریکٹر وکٹربریوخانوف نے ساری سزا کاٹی ۔ جب وہ رہا ہوا تو جیل کے دروازے پر اس کے استقبال کرنے کے لئے اس کا خاندان اورچند صحافی موجود تھے ۔ باقی کسی نے بھی اس کی رہائی پر کوئی توجہ نہ دی ۔ یہ سابقہ ڈائریکٹر ’ کیو ( Kiev )‘ میں رہتا ہے اور کسی نجی کمپنی میں عام دفتری کارندہ ہے ۔
کہانی کا بس یہی انجام ہے ۔
< یوکرائن جلد ہی ایک بڑے تعمیراتی منصوبے پر کام شروع کرنے جا رہا ہے ۔ یہ ایک نیا ڈھانچہ ہے جسے ’ آرک ‘ ( Arch ) کا نام دیا گیا ہے ۔ یہ اس پتھریلے تابوت کو ڈھانپے گا جو 1986 ء میں چرنوبل کے نیوکلیائی پاور پلانٹ کے تباہ شدہ ری ایکٹر ۔ 4 کو ڈھانپنے کے لئے بنایا گیا تھا ۔ اٹھائیس ملکوں نے اس پراجیکٹ کے لئے ابتدائی طور پر 768 ملین ڈالر مختص کیے ہیں ۔ اس نئے ڈھانچے کی عمر تیس نہیں سو سال متعین کی گئی ہے ۔ یہ اپنے سائز کے اعتبار سے اتنا بڑا ہے کہ یہ نیوکلیائی فضلہ کی بڑی مقدار خود میں سمیٹ لے گا ۔ اس ڈھانچے کی بنیادیں انتہائی مضبوط ہوں گی ؛ کنکریٹ کے ستون اور تختے اس مصنوعی چٹان کی بنیاد بنانے کے لئے کھڑے کئے جائیں گے ۔ پھر وہ پرانے تابوت کے تابکار فضلے کو اس میں محفوظ کریں گے ۔ یہ نیا ڈھانچہ عمدہ معیار کے سٹیل سے بنایا جائے گا جو ’ گیما ‘ ( Gamma ) تابکاری بھی جذب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو گا ؛ دیگر تعمیراتی سامان کے علاوہ اس کے لئے 18000 ٹن مختلف انواع کی دھاتیں بھی درکار ہوں گی ۔
یہ ’ آرک ‘ انسانی تاریخ میں اپنی نوعیت کی واحد اور پہلی ایسی تعمیر ہو گی جیسی پہلے کبھی نہیں بنی تھی ؛ اس کا دوہرا خول اس کے مینار کے ساتھ 150 میٹر اونچا ہو گا ۔ جمالیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس کا مقابلہ اگر کسی سے کیا جا سکتا ہے تو وہ ایفل ٹاور ہے ۔
تتمہ
< اس آرک ، جسے کرہء ارض پرتاحال بنی سب سے بڑی ’ تابکار مادے کی قبر‘ بھی کہا جا سکتا ہے ، پر 2010 ء میں کام شروع ہوا اور یہ 2016 ء میں مکمل ہوا ۔ مکمل ہونے پر اسے 29 نومبر2016 ء کو پرانے تابوت پر چڑھا دیا گیا ۔ دھات کی یہ آرک 108 میٹر اونچی ہے اور اس کا پھیلاﺅ 257 میٹر ہے جبکہ لمبائی 162 میٹر ہے۔ اس پر لگ بھگ2.1 بلین یورو خرچ ہوئے ۔ مکمل ہونے پر یہ آرک جسے NSC ( New Safe Confinement ) بھی کہا جاتا ہے ، فٹ بال کی دو گراﺅنڈوں جتنی جگہ گھیرے ہوئے ہے۔ یہ امریکہ کے مجسمہ آزادی سے بھی اونچا ہے اور اس کا کُل وزن 31000 ٹن ہے جس میں 25000 ٹن دھاتیں بھی استعمال ہوئی ہیں جو ایفل ٹاور میں برتی جانے والی دھاتوں کے مقابلے میں تین گنا زیادہ ہیں ۔ اس کی بنیادیں 20000 کیوبک میٹر کنکریٹ سے تیار ہوئیں ۔ اسے ’ Novarka ‘ نامی کنسورشیم نے یورپین یونین کے بنک EBRD کے مہیا کردہ فنڈ سے بنایا جن میں فرانس کی دو بڑی کمپنیوں کے ساتھ دیگر بھی شامل تھیں ۔ ' کلین اپ ' یعنی صفائی کا کام اس آرک کے بنانے سے ختم نہیں ہوا ؛ یوکرائن کے اُس ریاستی ادارے ، جو ’ Alienation ‘ زون کے حوالے سے بنایا گیا تھا ، کا کہنا ہے کہ چرنوبل کے سارے ’ سٹیشن سسٹم ‘ کو توڑنے اور اسے ری سائیکل ( recycle ) کرنے کا کام 2065 ء میں ختم ہو گا ۔
( اس مضمون کا بنیادی مواد بیلارس کی نوبل انعام یافتہ صحافی و ادیبہ ’ سویٹلانا ایلکسیوچ ‘ کی کتاب ’ Chernobylskaya molitva: khronika budushchego ‘ سے لیا گیا ہے ۔ آغاز کا پیراگراف ، بریکٹوں میں دئیے گئے جملے اور تتمہ اس ماخذ سے الگ ہیں ۔ )
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...