آئن سٹائن کی زندگی کی سب سے بڑی غلطی-
ترجمہ: قدیر قریشی
ستمبر 9، 2018
کاسمالوجی کے مشاہدات سے ہمیں یہ اندازہ ہوا کہ کائنات میں کل مادہ اور توانائی نظر آنے والا مادہ سے کہیں زیادہ ہے- اس ضمن میں سب سے پہلے سوئٹزرلینڈ کے ایک ماہرِ فلکیات فرٹز زویکی نے 1933 میں یہ نوٹ کیا کہ دور دراز کی کہکشاؤں میں ستاروں کی حرکات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کل مادہ کی مقدار ستاروں کے کل ماس سے کہیں زیادہ ہے- زویکی نے سب سے پہلے یہ پیش گوئی کی کہ کہکشاؤں میں کوئی غیر مرئی مادہ موجود ہے جسے اس نے ڈارک میٹر کا نام دیا-
اس وقت یہ سمجھا جاتا تھا کہ یہ عام مادہ ہی ہے جو ہمیں صرف اس لیے نظر نہیں آ رہا کہ یہ نہ تو روشنی خارج کرتا ہے اور نہ ہی روشنی منعکس کرتا ہے- وقت کے ساتھ ساتھ بنیادی ذرات کے بارے میں ہماری سمجھ بہتر سے بہتر ہوتی چلی گئی اور ہمیں نہ صرف اس بات کا علم ہوا کہ بگ بینگ کے بعد مختلف عناصر کے ایٹمز کیسے وجود میں آئے، ستارے اور کہکشائیں کیسے تشکیل پائیں بلکہ ان بنیادی ذرات کی بھی سمجھ آئی جن سے تمام کائنات تشکیل پائی- چنانچہ ہم پر یہ واضح ہونے لگا کہ اگر ڈارک میٹر موجود ہے تو وہ ان ذرات سے نہیں بنا جو اس وقت کوانٹم فزکس کے سٹینڈرڈ ماڈل میں ڈیفائن کیے جا چکے ہیں- ڈارک میٹر ایسے ذرات پر مشتمل ہو سکتا ہے جو نہ تو عام مادہ سے کوئی تعاملات کرتے ہیں اور نہ ہی عام مادہ پر یا خود ایک دوسرے پر کوئی دباؤ ڈالتے ہیں-
کہکشاؤں کی حرکات کے مطابق اگر ڈارک میٹر کی موجودگی فرض کر لی جائے تو بھی یہ مادہ اس critical density کا صرف تیس فیصد بنتا ہے جو سپیس کو فیلٹ رکھنے کے لیے ضروری ہے- سپیس کے فلیٹ ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کائنات کاغذ کی طرح چپٹی یا دو جہتی ہے- کائنات کے فلیٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ دو متوازی لائنیں ہمیشہ متوازی رہیں گی خواہ آپ انہیں کتنا ہی لمبا کر لیں اور ان کا آپسی فاصلہ نہ تو کم ہو گا اور نہ ہی بڑھے گا- دوسرے الفاظ میں سپیس کی جیومیٹری یوکلیڈین ہے- لیکن بگ بینگ کے تقریباً چودہ ارب سال بعد سپیس کے بالکل فلیٹ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ بگ بینگ کے فوراً بعد کائنات کی ڈینسیٹی اس کریٹیکل ڈینسیٹی کے عین برابر تھی کیونکہ اگر اس میں ذرہ برابر بھی کمی بیشی ہوتی تو چودہ ارب سال بعد سپیس فلیٹ نہ رہ پاتی- اگر عام مادہ اور ڈارک میٹر مل کر اسی کریٹیکل ڈینسیٹی کا صرف 30 فیصد پورا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں کوئی اور توانائی بھی موجود ہے جو اس کی کل کثافت کو کریٹیکل ڈینسیٹٰ پر رکھے ہوئے ہے-
اس اضافی توانائی کو ہم ڈارک انرجی کہتے ہیں- ڈارک انرجی کے تصور کا آغاز اس وقت ہوا جب آئن سٹائن نے اپنے نظریہ اضافت میں ترمیم کرنے کے لیے اس میں ایک cosmological constant کا اضافہ کرنے کی تجویز پیش کی- آئن سٹائن کا نظریہِ اضافت واضح طور پر ایک پھیلتی ہوئی کائنات کی پیش گوئی کر رہا تھا- مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کائنات واقعی پھیل رہی ہے- افلاطون اور ارسطو کے زمانے سے تمام فلسفہ دان اور سائنس دان اس بات پر متفق تھے کہ کائنات جامد ہے یعنی یہ نہ تو پھیل رہی ہے اور نہ ہی سکڑ رہی ہے- آئن سٹائن کو بھی اس امر کا یقین تھا کہ کائنات جامد ہے- چنانچہ اس کا خیال تھا کہ اس کے نظریے کی پیش گوئی غلط ہے کہ کائنات پھیل رہی ہے- اس غلطی کو درست کرنے کے لیے آئن سٹائن نے اپنے نظریے کی مساوات میں cosmological constant کا اضافہ کیا تاکہ یہ مساوات جامد کائنات کی پیش گوئی کرے- تاہم اس نظریے کی اشاعت کے چند سال بعد ہی ایڈون ہبل نے اپنے مشاہدات سے یہ دریافت کیا کہ کائنات پھیل رہی ہے- اس خبر کے ملتے ہی آئن سٹائن نے اس مساوات سے cosmological constant کو نکال باہر کیا اور اسے اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا- اسے مساوات سے نکالنے کے بعد نظریہ اضافت کی مساوات پھیلتی ہوئی کائنات کی پیش گوئی کرنے لگی-
لیکن شاید آئن سٹائن کی سب سے بڑی غلطی اس cosmological constant کو اس مساوات سے خارج کرنا تھا- پچھلے بیس سال میں حساس ترین آلات سے دور دراز کے سپر نووا کے مشاہدات سے اب یہ ثابت ہو چکا ہے کہ کائنات کے پھیلاؤ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے- اس کا مطلب یہ ہے کائنات میں کوئی ایسی توانائی موجود ہے جو کہکشاؤں کو ایک دوسرے سے پرے دھکیل رہی ہے- اگر نظریہ اضافت کی مساوات میں cosmological constant واپس ڈال دیا جائے اور محض اس کی ویلیو کو تبدیل کر دیا جائے تو یہ مساوات کائنات کے پھیلاؤ کی شرح میں اضافے کی پیش گوئی کرنے لگتی ہے- گویا یہ مساوات اب کسی ایسی چیز کی موجودگی کی پیش گوئی کرتی ہے جو کائنات میں منفی دباؤ پیدا کر رہی ہے جس سے کائنات کے پھیلاؤ کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے- یہ چیز کیا ہے؟ اس بارے میں ہم کچھ نہیں جانتے- اس وجہ سے اسے فی الحال ڈارک انرجی کا نام دیا گیا ہے- ممکن ہے کہ یہ توانائی کی ایک قسم ہو- یہ بھی ممکن ہے کہ یہ مادہ کی کوئی ایسی قسم ہو جس کے بارے میں ہم نہیں جانتے اور جو کششِ ثقل پیدا کرنے کے بجائے چیزوں کو پرے دھکیلتی ہے- یہ ایک سکیلر فیلڈ بھی ہو سکتا ہے جس کی مخفی توانائی یا پوٹینشل انرجی بہت زیادہ ہے- بہر حال یہ بات تو طے ہے کہ کائنات کا جو 70 فیصد حصہ پچھلی گئی دہائیوں سے 'گما ہوا' یعنی un-accounted for تھا اب اسے ڈارک انرجی کہتے ہیں-
چنانچہ اب تک کہ ہمارے بہترین نظریات کے مطابق نظر آنے والا مادہ کائنات کا 4 فیصد ہے، ڈارک میٹر تقریباً 26 فیصد اور ڈارک انرجی 70 فیصد- اس ماڈل کو کاسمالوجی کا concordance model کہا جاتا ہے- اگرچہ اس ماڈل کی پیش گوئیاں مشاہدات کی رو سے تصدیق شدہ ہیں لیکن یہ بات تشویش ناک ہے کہ ہم کائنات کے 96 فیصد حصے کے بارے میں کچھ نہیں جانتے- ڈارک میٹر کو ڈیٹیکٹ کرنے کے لیے بہت سے تجربات کیے جا رہے ہیں لیکن فی الحال ان میں سے کسی بھی تجربے میں ڈارک میٹر کو ڈیٹیکٹ کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی- چنانچہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مشاہدات کی توجیہہ کے لیے کوئی نیا ماڈل تشکیل دیا جائے جس میں ڈارک میٹر یا ڈارک انرجی کی ضرورت نہ ہو- کششِ ثقل کے موجودہ نظریات میں ترمیم کر کے نئے مفروضات تشکیل دینے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کی مدد سے موجودہ مشاہدات کی توجیہہ کی جا سکے- تاہم کششِ ثقل کے بارے میں کسی نئے مفروضے کو جنم دینا انتہائی مشکل کام ہے کیونکہ کائنات کے حوالے سے اربوں مشاہدات موجود ہیں اور اس نئے مفروضے کی رو سے ان تمام مشاہدات کی توجیہہ ممکن ہونی چاہیے- اس ان نئے مفروضات کی پیش گوئیاں موجودہ مشاہدات کے خلاف ہوئیں تو ایسے مفروضے کو فوراً رد کر دیا جائے گا-
آرٹیکل کا لنک
https://www.quora.com/How-did-astronomers…/…/Viktor-T-Toth-1
اردو زبان میں سائنس کے ویڈیوز دیکھنے کے لیے ہمارا یوٹیوب چینل وزٹ کیجیے
https://www.youtube.com/sciencekidunya
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔