تسخیر جنّات
حصّہ اول و دوم
مصنفہ۔۔۔۔۔۔ خاکپائے اولیاء فقیر جلال شاہ صاحب
ناشر۔۔۔۔۔۔ جنات پبلیکیشنز
صفحات۔۔۔ دوسو
متذکرہ بالا کتاب اردو ادب میں اپنی نوعیت کی منفرد تصنیف ہے اور ہمیں امید ہے کہ یہ ہمارے روحانی اور جناتی ادب میں ایک بڑے خلاء کو بطریق احسن پورا کرے گی۔ اہل ذوق اور جنات کے ستائے ہوئے تیرہ بختوں کے لواحقین ایک مدت سے ایسی ہی کتاب کی ضرورت محسوس کر رہے تھے۔ چنانچہ ہم نے ماہنامہ ’’چمگادڑ‘‘ میں ایسے حضرات کے متعدد خطوط بھی شائع کیے ہیں جن میں انہوں نے ہم سے یہ درخواست کی تھی کہ جنات کے رام کرنے کی کوئی معیاری کتاب ہماری نگاہ میں ہو تو انہیں مطلع کریں۔ ہم عدیم الفرصتی کی وجہ سے ان خطوط کا جواب نہ دے سکے۔ سچ یہ ہے کہ کوئی معیاری تصنیف اس موضوع پر ہماری نظر میں بھی نہ تھی۔ حالانکہ ’’چمگادڑ‘‘ کے ڈیکلریشن داخل کرنے کے وقت ہی سے ہم خود ایسی کتاب کی تلاش میں تھے۔ قارئین کے خطوط میں سے ایک خط ایک جن کا بھی تھا۔ اس نے اپنا پتا نہیں لکھا تھا۔ بعض باتیں جو اس نے ہمارے متعلق لکھی تھیں‘ غالباً غلط فہمی کی بنا پر تھیں ورنہ ہمیں اہل جنات سے کسی قسم کی ذاتی پرخاش نہیں۔
عرصہ ہوا کہ درگاہ بک ڈپو کی مطبوعہ ایک کتاب جنات کے پوشیدہ اور پُر اسرار حالات پر ایک کرمفرما کے پاس دیکھی تھی، لیکن وہ تصنیف کُچھ اس لحاظ سے ادھوری اور تشنہ تھی کہ کئی ایک مشہور جنوں کے نام اور سوانح عمریاں تک اس میں درج نہ تھیں۔ اس کے علاوہ اس میں ایک خامی یہ تھی کہ جنات کی تسخیر کے جو طریقے اور نسخے بتائے گئے تھے وہ بے حد مشکل اور پرانے تھے۔ مصنف یا خود جنات ہی ان پر عمل کر سکتے تھے۔ وہ کسی انسان کے بس کا روگ نہیں تھے۔ جلال شاہ صاحب کی تصنیف جامع تو نہیں کہی جا سکتی پھر بھی بڑی حد تک ان خامیوں سے مبرا ہے۔ اس میں تقریباً سب اہم جنات کی مکمل سوانح عمریاں موجود ہیں اور کتاب کے اخیر میں اشاریہ بھی ہے جس سے فوراً پتا چل سکتا ہے کہ کس جن کے حالات یا ذکر کتاب کے کس صفحے پر ہے۔ البتہ جنات کے نام معلوم ہونا ضروری ہیں۔ سب سے بڑی خوبی کتاب کی یہ ہے کہ جنات کی تسخیر کے طریقے سہل ماڈرن اور سائنٹیفک ہیں۔ مصنف کا طرزِ نگارش بھی کُھلتا ہوا ہے۔ ان کا اصل نام بتانے کی ہمیں اجازت نہیں ہے، لیکن وہ اُردو کے ایک مشہور و معروف تنقید نگار ہیں۔ ادبی جمود کے بعد تنقید نگاروں کے لیے کوئی کام نہیں رہا۔ اس لیے وہ ادب کی دوسری اصناف کی طرف توجہ دے رہے ہیں۔ یہ ادب کے لیے نیک فال ہے۔
شاہ صاحب کو جنات اور بھوت پریت کا خاصا علم ہے جو ہماری رائے میں معدودے چند اردو دان ادباء کو ہی نصیب ہو گا۔ چنانچہ صفحہ پچھتر پر خود رقم طراز ہیں ’’جنات کا بادشاہ ڈخداب والد صاحب قبلہ سے درس لینے آیا کرتا تھا، اور ان سے بعیت تھا۔ اس فقیر کا بھی دمخواہ اور دوست ہے۔‘‘
ان کے جنات کو تسخیر کرنے کے نسخے خود ان کے اپنے آزمودہ ہیں۔ شاہ صاحب کے سہل اور تیر بہدف نسخوں کو پرانے مشکل اور ناقابل عمل نسخوں سے وہی نسبت جو غالباً ہومیوپیتھی کو ایلوپیتھی سے ہے، گویا وہ جناتی امراض کے ہومیوپیتھ ہیں جو ایک چار آنے کی خوراک سے برسوں کی بیماری کو بیخ و بن سے اکھاڑ دیتے ہیں۔ مثال کے طور پر صحفہ اڑتالیس پر ہری سنگھ جن کو دور کرنے کا نسخہ یوں لکھا ہے۔ ’’سولا ہیٹ پر رکھو اور مصلے پر بیٹھ کر چار سگریٹ (بگے کے یا کسی اور بڑھیا برانڈ کے ہوں تو بہتر ہے) بیک وقت منہ میں لے کر سلگاؤ۔ دھوئیں کو نتھنوں کی راہ سے چھوڑو۔ انشاءاللہ ہری سنگھ نتھنوں سے دھوئیں میں تحلیل ہو کر خارج ہو جائیگا۔ میرا اپنا آزمودہ ہے‘‘۔
اس سہل نسخے کے برعکس ہری سنگھ جن کو دور کرنے کا نسخہ پرانے عاملوں اور حکمائے روحانی کی بیاضوں میں درج ہے اس میں باقی ریاضتیں اور ورزشیں تو ایک طرف صرف بیس روز کا چلہ (بکری کے دودھ پر) ہی خود عمل کرنے والے کو جن بنانے کے لیے کافی ہے۔
اس نسخے سے کتاب کی افادیت کا اندازہ ہو جانا چاہیے۔ شاہ صاحب کے نزدیک کئی انسانی امراض کا سبب جنات ہیں۔ دق کی بیماری کا ذمہ دار انہوں نے ایک جن ہوچا موچی کو بتایا ہے۔ ایسا ہی ہو گا۔ ہم نے تو ہوچا موچی کا نام بھی پہلے نہ سُنا تھا۔ اسی طرح انہوں نے ہماری کئی معاشی خرابیوں کو بھی جنات سے منسوب کیا ہے اور فرمایا ہے کہ رشوت خوری، ذخیرہ اندوزی، خودنمائی، غزل گوئی، یہ سب امراض جنات کی پیدا کردہ ہیں۔
انہوں نے ایک دوست کا ذکر کیا ہے، جو پہلے بھلا چنگا تھا۔ یک لخت غزل گوئی کرنے لگ گیا۔ پانچ پانچ غزلیں روزانہ نظم معرا میں لکھتا تھا اور انہیں ڈاک میں بھیج کر ٹھنڈی آہیں بھرتا تھا۔ شاہ صاحب تاڑ گئے کہ اس پر سلطانہ نامی کوئی جن سوار ہے۔ اس شخص کے والدین سخت پریشان تھے۔ شاہ صاحب نے اس کا علاج کیا اور ’سُلطانہ‘ جن کو نکالا۔ آج کل بقول مصنف وہ شخص بالکل صحت یاب ہے اور بر سر روزگار ہے۔ الفنسٹن اسٹریٹ کے ایک ہوٹل میں ہیڈ بیرا ہے ’’سلطانہ‘‘ کے جانے کے بعد اس نے معرا چھوڑ مقفٰے غزل تک نہیں لکھی۔ حقیقتاً شاہ صاحب نے یہ کتاب لکھ کر جنات کی ریشہ دانیوں اور فتنہ پر دازیوں کو بے نقاب کر کے ملک و قوم کی ایک خدمت سر انجام دی ہے۔ ادارۂ ’چمگادڑ‘ نے اس تصنیفِ گراں پایہ کو اول درجے کا انعام دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ چنانچہ اس ماہ سے ’چمگادڑ‘ جلال شاہ صاحب کے نام ایک سال کے لیے بالکل مفت جاری کر دیا گیا ہے۔
کتاب صوری و معنوی محاسن سے بھی آراستہ ہے۔ اندر جنات کی دس تصاویر اور خاکے شامل ہیں۔ مصنف کی اپنی تصویر بھی انہی تصاویر میں آ گئی ہے۔ جس سے بعض اصحاب کو غلط فہمی ہو جانے کا احتمال ہے۔ ہرج تو کوئی نہیں‘ لیکن ان کی تصویر کتاب کے شروع میں ہوتی تو زیادہ موزوں تھا۔ گرد پوش پر ہری سنگھ کی سہ رنگی تصویر ہے حالانکہ نام نیچے مصنف کا لکھا ہے۔
ہمیں مجلد ایڈیشن کی دس جلدیں برائے تبصرہ موصول ہوئی ہیں۔ دوسرے ناشرین کو بھی چاہیے کہ اس معاملے میں خسّت سے کام نہ لیا کریں۔
یہ کتاب مصنف سے پوری قیمت پر یا مکتبہ چمگادڑ سے نصف قیمت پر حاصل کی جا سکتی ہے۔
مندرجہ ذیل موصول شدہ کتب پر تبصرہ آئیندہ کے ’چمگادڑ‘ میں ہو گا۔
- درد نامہ یک جرس کارواں (طویل ترین تمثیلی نظموں کا مجموعہ) از حضرت ادریس الکلامی۔
- نورالدین پاشا عرف ترکی حرم کے راز۔ اسلامی تاریخی ناول۔ از نمکین خلد آبادی۔
- آسمانی سفرنامہ از مولانا عندالقدیر فانوس۔
- تفہیم التنقید (بہت ٹھوس تنقیدی مقالے) اس پروفیسر ڈاکٹر کرم الٰہی نقاد۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔