گوہر شیخ پوروی کا یومِ وفات
September 14, 2019
آج 14ستمبر 1917
ممتاز شاعروں میں شامل شاعر ونقاد گوہر شیخ پوروی کا یومِ وفات
اصل نام سید علی حسنین اور تخلص گوہر شیخ پوروی تھا۔آپ کی پیدائش21 اکتوبر1951،شیخ پورہ ضلع شیخ پورہ بہار میں ہویء۔آپ کے والد کا نام سید محمد عاشوری خان تھا۔آپ کی تعلیم،میٹرک اسلامیہ ہایء اسکول،شیخ پورہ سے B.A اے این کالج سے،M.A (اردو) کاشی ودیاپیٹھ یونیورسٹی بنارس سے کیا۔۔۔آپ محکمہء ریلوے چیف بکنگ سپرواءزر کے عہدے سے 31 اکتوبر 2011 کو سبکدوش ہونے کے بعد مستقل قیام دولی گھاٹ میں اپنے گھر "ساءبان"پٹنہ سٹی میں مقیم تھے۔اپنے نام کی نسبت سے سچ مچ گہر نایاب تھے۔
گوہر شیخ پوروی نے اپنی شاعری کا آغاز میٹرک سے شروع کی۔اور گوہر شیخ پوروی کے استاد محترم سحاب سخن،اماالقلم علامہ ابراحسنی گنوری (مرحوم) تھے۔گوہر شیخ پوروی کی مطبوعہ تصانیف کے نام یہ ہیں۔
حصارِ فکر(مجموعہ غزلیات) غبار فکر (مجموعہ غزلیات)
شاہ کارفکر (مناقب کا مجموعہ)
غمگسار فکر(نوحے اور سلام)
آبشار فکر (نظمیات)
گوہر عروض و بلاغت (عروضیات)
دیار فکر (مجموعہ غزلیات)
بار بار (مجوعہ غزلیات)
زرد پتوں کی دعا (مجموعہ غزلیات)
حدیثِ درد ( مجموعہ غزلیات)
گوہر شیخ پوروی انعامات و اعزازات و خطابات سے نوازے جاتے رہے۔۔
گوہر شیخ پوروی"کیسری کیاری"دہلی کی جانب سے،گوہر سخن ،انجمن "حی علیٰ خیرالعمل" بنارس کی جانب سے"رءیس الشعراء"کے خطابات دیےء گےء
معروف شاعر حضرت گوہر شیخ پوروی کے یوم وفات پر منتخب کلام بطور اظہار وعقیدت۔
گوہرخدا کے واسطے چپ چاپ بیٹھےء
سنتا ہے کون آپ کی بکواس بار بار
(اس غزل کی اشاعت کے چند گھنٹے کے اندر ہی حضرت گوہر شیخ پوروی ہمیشہ کے لےء خاموش ہوگیء)
آج چاہے حشر جیسا بھی ہوا اے گوہر میاں
قدر تو ہو گی یقیناً کل مرے اشعار کی
اٹھو گوہر کہ شب بھر بہت سو چکے
آرہی ہےصداےء اذاں،اے میاں
حقیقت یہ ہے کہ حضرت گوہر شیخ پوروی عہد حاضر کے ایسے کنہہ مشق شاعر تھے جن کی شاعری میں آفاقی پیغام ملتا ہے