پاکستان میں بائیس کروڑ سے زیادہ عوام اللہ توکل زندگی گزار رہی ہےجب تک کسی ناگہانی واقعہ سے بچے رہیں، شکر کا مقام اٹھانے والوں کا زندہ چھوڑ دینا اتنا باعثِ شکر کہ سب تکلیف بھول بھال اسے خوشگوار سیر وسیاحت سمجھنا چاہئیے ۔ سڑک پار کرتے ہوئے احتیاط کے ساتھ یہ حقیقت ملحوظ خاطر رکھنی چاہئیے کہ اگر کوئی گاڑی والا روند گیا، تو موت کسی نامعلوم کے ہاتھوں لکھی تھی ۔ بچے، بچیاں مدرسے بھیجیں، اگر مولوی زیادتی کا نشانہ نہ بنائے تو اسکی شرافت بچوں کیلئے خوش قسمتی کا باعث، ورنہ بہت سے بچوں کو زیادتی کا نشانہ بنانے والے کو ہوسکتا ہے ان کے والدین بھی مذہب کے احترام میں قرآن پڑھانے والا سمجھ کر معاف کردیں بدقسمتی سے کسی بھی طاقتور شخص کے ہاتھوں مارے جانے یا زیادتی کا نشانہ بننے پر، متاثرہ اور اس کے لواحقین کے لئے مزید بدقسمتی سے بچنے کے لئے صلح یا دیت کے علاوہ دیگر راستے بند ہوجاتے ہیں اگر کوئی جائیداد پر قبضہ کرلے تو سالہا سال چلنے والے مقدمے کا فیصلہ جائیداد کی واپسی کی بجائے باقی جمع پونجی کا مقدمے کی نظر ہونا ہوسکتا ہے ۔پاکستان میں کسی کے خون کے داغ چھپانے کے لئے تمام شہر کو دستانے پہننے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ‘کیونکہ تفتیش اور عدل وانصاف کے نظام کا معیار ایسا ہے کہ اس خون کو بآسانی سیاہی تو ثابت کیا جاسکتا ہے، مظلوم کا خون نہیں ۔
حقائق کی اس تصویر کشی سے اندازہ ہوتا ہے، کہ اگر ملک میں کوئی نظام بھی ٹھیک نہ ہو تو جنسی زیادتی کے چند گھناؤنے سے گھناؤنے واقعات کے مجرموں کو پھانسی کی سزا دینے سے کیا واقعات میں کمی ہوگی یا رک جائیں گے؟ موٹر وے پر ہوئے زیادتی کے واقعہ میں تو اعلیٰ پولیس افسر نے بے لاگ حقیقت بیان کردی، کہ خاتون نے کیا اس ملک کو بھی فرانس سمجھ رکھا تھا۔ یہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت تھا ۔ جس کے متعلق یہ حقائق بھی موجود ہیں، کہ مجرم نہ پکڑ پائیں یا نہ پکڑنا چاہیں تو کسی کو بھی پکڑ کر عوام اور میڈیا کی تسلی کے لئے جرم قبول کرنے پر مجبور کرلیتے ہیں۔ ویسے بھی اگر سزائے موت دینے لگے تو اس ملک میں طاقتور یا بااثر مجرم کے لئے تو ایسا کبھی بھی نہ ہو پائے گا۔ جہاں غداری کا مجرم بچا لیا جائے اور عدالت مع فیصلے کے ٹھکانے لگا دی جائے،اور تو اور ابھی تک کسی گھریلو ملازمہ کے قاتل تک کو سزا نہیں ملی۔
کچھ عرصہ سے یتیم خانہ کی بچیوں کے سیاستدانوں کی جنسی تسکین کے لئے فراہمی کا معاملہ منظر عام پر ہے جس کے سلسلے میں ایک خاتون کا قتل بھی ہوچکا، اس واقعہ کو غلط قرار دیکر جھٹلایا بھی نہیں گیا، لیکن اس پر کوئی واضع کاروائی یا احتجاج بھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔حالانکہ یہ واقعہ بھی گھناؤنے پن میں کم نہیں کہ جن بچیوں کے ماں باپ بھی نہیں، ان سے یہ کام لیا جارہا ہےان کے تو لباس کو بھی وجہ قرار نہیں دیا جاسکتا، لباس کو جنسی زیادتی کی وجہ قرار دینے والوں کے نزدیک لباس کا معیار جانے کیا ہوتا ہے کیونکہ پاکستان میں اکثریت خواتین جو لباس پہنتی ہیں، وہ قومی لباس کی مختلف انداز میں وضع کی گئی شکلیں ہوتی ہیں جس کا اسلام سے کوئی ایسا تعلق نہیں کہ جینز، شرٹ قسم کے جسم کو اتنا ہی ڈھانپتے یا نمایاں کرتے لباس ان کے مقابلے میں معیوب قرار پاسکیں ۔لیکن پاکستانی کچھ امور میں ثابت قدم ہیں مثلاً اسلام پر چاہے بالکل عمل پیرا نہ ہوں، اس کی ناموس کے لئے جذباتی ہوکر بغیر واضح شواہد کے کسی کو قتل کرسکتے ہیں ۔عورت اور اس کا لباس نام نہاد مذہبیوں کے لئے اپنے لحاظ اور لبرلز اور فیمنسٹوں کے لئے اپنے لحاظ سے زندگی کے سب سے بڑے مسائل سے سرفہرست ہیں ۔بلکہ نفسیاتی کیفیت کا اندازہ اس سے کیجئے کہ کوئی غیر ملکی ڈرامہ دیکھنے پر ہی، اس کی اداکارہ پر اتنا حق سمجھنے لگتے ہیں، کہ اس کے اصل زندگی میں پہنے جانے والے لباس پر بھی معترض ہونے لگتے ہیں ۔ کیونکہ پاکستانیوں کی اکثریت تو ابھی تک یہ قبول کرنے کے قابل نہیں ہوئی کہ دوسرے کے انداز سے پکا کھانا، اگر رنگ اور وضع میں انکے گھر کے کھانے سے مختلف ہے تو ٹھیک ہوسکتا ہے
جنسی زیادتی کے واقعات میں عرصہ دراز سے اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے جس کی سب سے بڑی وجہ نظام قانون وانصاف کی کمزوری، اسکے علاوہ معاشرتی، گھریلو اور دیگر وجوہات بھی شامل ہیں ۔فحاشی کو اتنا معیوب نہیں سمجھا جاتا جتنا جنسی تعلیم کو ۔گھروں سے باہر تو جو درندے موقع کی تلاش میں ہوتے ہیں، پچھلے دنوں سوشل میڈیا کے ایک معروف ڈاکٹر کی ٹویٹ نظر سے گزری ،کہ بھائیوں سے حاملہ ہوئی لڑکیوں کے والدین کی حالت ناگفتہ بہ ہوتی ہے ۔ یہ اس اسلامی اقدار کے حامل معاشرے میں ہوتا ہے، جہاں ماں باپ کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ بچے یہ سمجھیں کہ انہیں پری یا فرشتہ زمین پر لائے ہیں ۔
واقعہ ہوتا ہے، تو آواز اٹھانے والوں میں جہاں معقول آوازیں بھی ہوتی ہیں، وہاں اپنے اپنے نظریات کو درست ثابت کرنے کی کوششوں میں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے برسر پیکار نظر آنے والوں کی بھی بہتات ہوتی ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ عورتوں کی حمایت میں دوسروں کو غلط اور خود کو اچھا ثابت کرتے لوگ کبھی کبھی مافیا کی شکل اختیار کرتے نظر آتے ہیں ۔جبکہ معاشرے میں جنسی ہراسانی اور زیادتی کے واقعات میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔
کیونکہ ملک کے کرتا دھرتا جانتے ہیں، کہ انہوں نے اپنے مقاصد کے لئے ملک کو کتنا غیر محفوظ بنا دیا ہے اس لئے وہ اپنی اولاد اور جائیداد کو باہر منتقل کرلیتے ہیں ۔اور ایسی حکومت قائم ہونے یا رہنے نہیں دی جاتی کہ عوام اس سے ووٹوں کے بدلے کارکردگی کا حساب مانگے ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...