اکثر لوگوں کو ملک معراج خالد کی باتیں مختلف سٹیجوں اور ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ مختلف سیمینارز اور شخصیت سازی کے حوالے سے لیکچرز میں اُن کے کردار کو ماڈل کے طور پر پیش ہوتے دیکھتا ہوں تو مجھے اس بات پر بے انتہا خوشی ہوتی ہے کہ میں نے عملی زندگی کا آغاز اس عمر میں کیا جب میری عمر کے نوجوان سکول یا کالج کے اوائل زمانے میں ہوتے ہیں۔ اسی باعث مجھے اپنی عمر سے بڑے لوگوں کی جدوجہد میں شامل ہونے کا موقع ملا۔
وقت کے ساتھ ان شریک کاروانِ جدوجہد نے مجھ پر بھروسا کرنا شروع کردیا اور یوں ملک معراج خالد جیسے عظیم انسان کو اپنا دوست قرار دینے کا موقع حاصل ہوسکا۔ مجھے زندہ انسانوں سے پیار ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ ہمارے ہاں لوگ کسی عظیم انسان کے مرنے کا انتظار کرتے ہیں۔ عظیم ہستی اس فانی دنیا سے رخصت کیا ہوئی، اس کی پوجا پاٹ کا اہتمام وآغاز ہوجاتا ہے۔ میں نے جن سے زندہ لوگوں سے پیار کا سبق سیکھا، اُن میں ملک معراج خالد سرفہرست ہیں۔ میں نے اُن کے لبوں سے ہزاروں مرتبہ محفلوں اور سٹیج پر ’’احترامِ آدمی‘‘ اور ’’احترامِ آدمیت‘‘ کا لفظ سنا۔ ’’لفظوں کی حرمت‘‘ کے حوالے سے بھی انہی کے ہونٹوں سے یہ فلسفۂ حیات سمجھا۔ جیساکہ میں نے اپنے پچھلے کالم میں لکھا تھا کہ بابائے سوشلزم شیخ محمد رشید، شاعر نہیں تھے کہ اپنے الفاظ، زبان وبیان سے لوگوں کے دلوں میں گھر کرلیتے تھے۔ اسی طرح ملک معراج خالد ’’سٹیج کے سکندر‘‘ ہی نہیں تھے، بلکہ انہوں نے اپنے الفاظ کو اپنی ذات سے عملی طور پر ثابت کیا۔
جس ذوالفقار علی بھٹو کو آج ایک زمانہ یاد کرتا ہے، وہ ان جیسے ساتھیوں کی بدولت ہی عظیم تھا۔ بڑے لوگ اپنے اردگرد ہمیشہ بڑے لوگوں کو اکٹھا کرتے ہیں۔ میں جب ملک معراج خالد کے دوستوں میں شامل ہوا تو وہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے وزیراعلیٰ بھی رہ چکے تھے اور وفاقی وزیر بھی۔ یہ انہی کی عظمت ہے کہ میرے جیسے چڑھتی جوانی کے نوعمر لوگ بھی ان کے دوستوں میں شمار ہونے لگے۔ سعادت حسن منٹو کے اس پڑوسی نے اپنی زندگی کا سیاسی عروج سادہ سے اپارٹمنٹ میں گزار دیا۔ جب وہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی پہلی گورنمنٹ میں سپیکر قومی اسمبلی بنے تو میں اُن کے ہاں بیڈن روڈ سے ان کے گھر جانے والی گلی میں داخل ہوا تو ایک سوٹ بوٹ میں ملبوس شخص حیرانی سے پوچھنے لگا، مجھے سپیکر قومی اسمبلی ملک معراج خالد کے ہاں جانا ہے، کیا واقعی وہ ادھر ہی رہتے ہیں۔ سوٹ بوٹ میں ملبوس اس شخص کو کیا معلوم کہ برصغیر کا سب سے بڑا افسانہ نگار سعادت حسن منٹو اور مایہ ناز ادیب مستنصر حسین تارڑ بھی یہیں کے رہنے والے ہیں۔ بڑے لوگ، گھروں اور گاڑیوں سے نہیں ناپے تولے جاتے۔
ملک معراج خالد کوئی مذہبی شخصیت نہیں تھے بلکہ وہ ایک ترقی پسند اور سکولر سیاسی رہنما تھے۔ لاہور کے ایک دیہہ ڈیرہ چاھل میں وہ ایک کسان کے ہاں پیدا ہوئے اور حصولِ تعلیم کے لیے انہوں نے لاہور کی کوٹھیوں میں دودھ بیچ علم وشعور کا سفر آگے بڑھایا۔ ڈیرہ چاھل پنجاب کی صدیوں پرانی روایات کا امین ایک گاؤں ہے اور اس گاؤں کا عظیم سپوت ملک معراج خالد، سرزمینِ پنجاب پر اور اپنے پنجابی ہونے پر بڑا فخر کیا کرتا تھا۔ 1986 میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی وطن آمد کے بعد ملک معراج خالد نے ’’پنجاب پرھیا‘‘ کے نام سے ایک تنظیم بنائی۔ اس تنظیم کی ایک تقریب تاریخ میں انمٹ نقوش چھوڑ گئی۔ یہ تقریب فلیٹیز ہوٹل میں منعقد ہوئی۔ ہم جب تقریب کے وقت سے پہلے وہاں پہنچے تو شاعرِ عوام حبیب جالب ٹھنڈے ہال کے ایک صوفے پر آرام کررہے تھے۔ مجھے اور میرے ساتھی خالد بٹ کو دیکھ کر حبیب جالب نے سوال پوچھا، کیا خبر ہے آج؟ میں نے کہا بے نظیر بھٹو چلی گئیں امریکہ دوست بنانے۔ ہمارے اصرار پر حبیب جالب نے اسی وقت پنجابی میں اپنی ایک مشہورِ زمانہ نظم لکھی، ’’نہ جا امریکہ نال کڑے‘‘۔ تقریب میں انہوں نے نظم کیا پڑھی، ہنگامہ برپا ہوگیا۔ سوشلزم اور جمہوریت کا مقابلہ شروع ہوا۔ تقریب دو دھڑوں میں بٹ گئی جبکہ ملک معراج خالد کے چہرے پر اطمینان دیدنی تھا۔
ڈیرہ چاھل کے اس سپوت کے ہزاروں واقعات ہیں جن کو سن کر اور یاد کرکے خدا کے ایسے بندوں کی تلاش کرنے کا اشتیاق مزید بڑھتا ہے۔ ملک معراج خالد نے اپنی زندگی کے آخری دنوں میں اپنی چند ایکڑ زمین بیچی اور اس کے تین حصے کردئیے۔ ایک حصہ ڈیرہ چاھل کی مسجد کا، دوسرا حصہ گوردوارہ بے بے نانکی کا اور تیسرے حصے سے گاؤں کے لوگوں کا کمیونٹی سینٹر بنا دیا۔ گوردوارہ بے بے نانکی 1947 کی تقسیم کے بعد ملک معراج خالد مرحوم کی خدمت کے سبب ہی آباد رہا۔ یہ گوردوارہ سکھ مت کے بانی بابا گورونانک کی بہن کے حوالے سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے۔ بھارت کے ایک سابق صدر آنجہانی گیانی ذیل سنگھ کی ملک معراج خالد سے دوستی کی داستانیں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں عام تھیں کہ گیانی ذیل سنگھ کی زمینیں ڈیرہ چاھل کے اعوانوں کی زمینوں سے متصل تھیں اور جب ذوالفقار علی بھٹو، اندرا گاندھی کے ساتھ شملہ معاہدہ کرنے گئے، اُن دنوں گیانی ذیل سنگھ، مشرقی پنجاب کے وزیر اعلیٰ تھے۔
ایک جملہ جو میں نے ملک معراج خالد سے سنا، اب میری زندگی کا اہم ترین موٹو ہے۔ ملک معراج خالد صبح نودس بجے تک اپنے ہاں معمولی سی کرسی پر براجمان آنے والے درجنوں لوگوں سے سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے ملتے اور ساتھ ساتھ چائے بھی سرو کرتے جو اکثر اُن کی بیگم بناتی تھیں۔ یہ محفل وہ شام کو بھی لگاتے۔ میں بھی اکثر اُن کے ہاں جاتا۔ وہ تجزیے کرتے اور کچھ نیا کرنے کے منصوبے بناتے۔ ایک روز میں نے انہیں فون کیا، حال چال پوچھنے کے بعد وہ بولے، ’’گوئندی تم آئے نہیں کتنے دنوں سے۔‘‘ میں نے بڑے اوکھے انداز میں جواب دیا، ’’پھر کیا ہوجانا تھا۔‘‘ انہوں نے کہا، ’’کچھ تو ہوجاتا ہے جب ملتے رہیں۔ ہم پچاس کی دہائی میں ملنا شروع ہوئے اور ساٹھ کی دہائی میں پی پی پی بن گئی۔‘‘ یہ اتنا بڑا فلسفۂ زندگی تھا جو وہ چند لفظوں میں بیان کرگئے۔ اور پھر اس پر میں نے مزید عمل ہی نہیں شروع کیا بلکہ ہروقت دوستوں کو کہتا ہوں کہ ملتے رہو کچھ نہ کچھ برپا ہوہی جاتا ہے۔ جیسے چی گویرا کہتا ہے کہ جس شہر میں دو انقلابی رہتے ہیں، اس کا علم اسی وقت ہو جاتا ہے جب آپ شہر میں داخل ہوتے ہی دیواروں پر لکھے اعلانات پڑھتے ہیں۔
مجھے ملک معراج خالد دن کو بھی یاد آتے ہیں اور خوابوں میں بھی آتے ہیں۔ رلا دیتی ہیں ان کی یادیں۔ وزیراعظم بنے تو خود فون کیا۔ کہا، ’’کب ملاقات کا وقت دو گے گوئندی۔‘‘ ایک روز ان سے ملنے اسلام آباد گیا تو وزیراعظم ملک معراج خالد مجھے اپنے گھر کے گیٹ تک چھوڑنے آئے۔ پہلے پرنسپل سیکریٹری نے بڑے شرمیلے انداز میں انہیں گیٹ تک جانے سے روکا کیوں کہ پروٹوکول میں وزیراعظم میرے جیسے کسی بے عہدہ شخص کو باہر گیٹ پر چھوڑنے نہیں جا سکتا، سوائے اپنے کسی ہم منصب کے۔ پھر ملٹری سیکریٹری نے روکا اور کہا، ’’سر، سردی بہت ہے، آپ باہر نہ جائیں۔‘‘ وزیراعظم ملک معراج خالد اپنے سینے پر ہاتھ رکھ کر بولے، ’’یہاں گرمی بہت ہے، گوئندی آیا ہے، اس کے ساتھ دوچار مزید باتیں کرلوں۔‘‘ پھر وہ دکھانے لگے اپنے پرنسپل سیکریٹری اور ملٹری سیکریٹری کی گاڑیاں کہ ’’وہ مجھے اس لیے وزیراعظم والی بڑی گاڑیاں استعمال کرنے کا کہتے رہے کہ وہ بھی اپنے رتبے کے مطابق گاڑیاں رکھ سکیں۔ بڑے جواز پیش کیے۔ آخرکار میں نے کہا میں تو اپنی ہی گاڑی رکھوں گا اور خود ہی چلاؤں گا۔ آپ رکھ لو بے شک۔ تب جا کر وہ شرماتے ہوئے اپنے اپنے رتبوں کی گاڑیاں لے آئے۔ ‘‘
زندگی کے آخری دنوں میں وہ ایفرو ایشین پیپلزسالیڈیریٹی آرگنائزیشن (APSO)کو دوبارہ منظم کرنے میں بڑے بے قرار رہتے تھے اور کہتے تھے کہ گوئندی یہ کام تم ہی کرسکتے ہو۔ عراق پر دوسرے حملے کے دوران ہم دوستوں نے لاہور اور پنجاب بھر میں جلوس اور مظاہرے منظم کیے۔ وہ اس میں ہمارے ساتھ شامل رہے۔ ملک معراج خالد مرحوم فرشتے نہیں، انسان تھے۔ اُن کے نزدیک سب سے اہم انسان ہونا تھا۔ وہ اس Political Generation کے رہنما تھے جو اب ناپید ہوگئی۔ اس جنریشن نے ذوالفقار علی بھٹو بھی پیدا کیا اور بابائے سوشلزم شیخ رشید، حنیف رامے اور راؤ رشید بھی۔ نظروں سے اوجھل ہوگئے میرے یہ چار دوست، دل سے اوجھل نہیں ہوئے۔
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔