سوشل میڈیا سے انقلاب کی امیدیں
2002ء میں الیکٹرانک میڈیا سرکاری کنٹرول سے نکل کر پرائیویٹ سیکٹر تک پھیلا اور دہائیوں سے سرکار کا خبر نامہ سنتے کانوں نے پرائیویٹ چینلز پر ناقابل یقین بحثوں کو دیکھا اور سنا، تو لوگوں نے رائے بنا لی کہ میڈیا آزاد ہوگیا، اور یہ کہ اب قوم کی تقدیر بدل جائے گی۔عرصے سے ایک ہی طرز کی خبریں اور چند ایک سیاسی تجزیے سنتے کانوں کے لیے یہ ایک انقلاب تھا جو کچھ وہ سن اور دیکھ رہے تھے۔ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہی نہیں تھے کہ جسے وہ انقلاب یقین کیے بیٹھے ہیں، وہ ردِ انقلاب ہے، سرمایہ داری نظام کا کھیل ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ اس ’’آزاد میڈیا‘‘ نے عام لوگوں کی زندگی میں کیا انقلاب برپا کرنا تھا، بلکہ آج اس پر بڑی رائے یہ ہے کہ لوگوں کو نفسیاتی مریض اور ٹیلی ویژن سکرین کا غلام بنا ڈالا ہے۔ اس ’’آزاد میڈیا‘‘ کا سب سے بڑا Beneficiary ایک شخص ہوا، سابق چیف جسٹس جناب افتخار چودھری۔ اُن کی شکل میں پرائیویٹ ٹی وی چینل کو مسلسل تین سال ایک کہانی اور ہیرو مل گیا۔ تاریخ کا جبر دیکھیں، اس کہانی کا ولن وہی بنا جس نے اپنے اقتداری اختیارات استعمال کرتے ہوئے الیکٹرانک میڈیا کی اجازت دی، افتخار چودھری کی NO، جنرل مشرف کی آمریت، انصاف کی ندیاں بہ جانے کی امیدیں، کالے کوٹ، کالی پتلون و ٹائی والے اس کہانی کے سائیڈ ہیرو ٹھہرے۔ الیکٹرانک میڈیا کی اس کہانی نے میڈیا ہائوسز کو ایک شان دار فلم فراہم کردی اور پھر اسی کے بطن سے نئے’’بقراط‘‘ بھی جنم لے گئے۔ سکرینوں پر گفتگو، قوم کی قسمت کا حال، مستقبل کے خواب اور قوم کے ہر مسئلے کا حل اُن کے ہاں موجود نظر آنے لگا۔ پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا کے اینکرز، قوم و ملک کی ’’فکری رہنمائی‘‘ کے رہبر دکھائی دینے لگے۔ کروڑوں لوگوں کے دلوں کی دھڑکن، تحریر، تحقیق اور مطالعے کے کم کم آگاہی رکھنے والے ’’الیکٹرانک بقراط‘‘ حکومتوں کے بدلنے اور بنانے میں بھی حصہ ڈالتے دکھائی دئیے۔ ایک نیم پڑھے لکھے معاشرے میں یہ انہونی بات نہیں۔ لیکن افسوس قوم نے تقریباً دودہائیاں انہی فریبوں میں گزار دیں۔ چیف جسٹس بحال ہوئے، حکومتیں بنیں اور گریں، میڈیا ہائوسز پھلے پھولے اور اینکرز کے وارے نیارے ہوگئے۔ سوال یہ ہے کہ کیا قوم کی سیاسی، معاشی، فکری اور علمی زندگی میں کوئی انقلاب برپا ہوا ؟
سرمایہ داری نظام مال بیچنے کے گرد بُنا جاتا ہے۔ ’’الیکٹرانک میڈیا کی آزادی‘‘کے بیچوں بیچ اس دوران عوام کو ایک اور انقلاب کی آہٹ محسوس ہوئی۔ اب لوگ یہ سمجھنے لگے کہ لفظ، زبان، بیان اور رائے کی طاقت صرف ٹیلی ویژن کی سکرین پر بیٹھے ایک شخص (اینکر) ہی کے پاس نہیں، اب یہ اختیار ہم سب کے پاس بھی آگیا ہے۔ جدید صنعتی دنیا جو سائنس اور ایجادات کی بنیاد پر ترقی یافتہ بھی ہے اور عالمی اجارہ دار بھی، انہی کی ایجادکردہ Devices اب ہر شخص کے ہاتھوں میں آگئیں۔ چند ہزار روپوں میں ٹچ سکرین سمارٹ فون کے ذریعے سوشل میڈیا کی طاقت کے آلہ جات اس قدر جدید دنیا کے افراد کے ہاتھوں میں نہیں ، جس قدر ہم جیسے ترقی پذیر سماج کے لوگوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ اب ہر کوئی خود اینکربنا اور مفکر بھی۔ سیاست، عالمی سیاست، ثقافت، مذہب، فلسفہ، ہر موضوع اب اُن کے ہاں حتمی قرار پایا۔ لوگ اب یقین کرنے لگے کہ سوشل میڈیا انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ شاعروں کے پولٹری فارم کھل گئے، افسانہ نگاروں کے کارخانے، سیاست کا چس رکھنے والوں کے لیے دانش کدے اور مذہب کا پرچار کرنے والوں کے مدرسے، سب اب سوشل میڈیا پر کھل گئے۔ کفر، اسلام، جنگ، امن، درست اور غلط، سب کچھ اب اِن Devices کے ذریعے ہر شخص کے ہاتھ میں آگیا۔ لوگ یہ یقین کیے بیٹھے ہیں اُن کی برپا کردہ ’’سوشل میڈیائی تحریکیں‘‘ ملک کیا، عالم اسلام میں انقلاب برپا کر دیں گی۔جبکہ انہی گاہکوں سے سیلولر فون کی غیرملکی کمپنیاں اربوں ڈالر کما کر اپنے ملکوں میں پہنچا رہی ہیں اور ہم ان سیلولر فونز اور دیگر آلہ جات کے ذریعے سیاسی، مذہبی، سماجی، معاشی، فکری، نظریاتی انقلاب برپا کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ بلکہ ہمارے ہاں جہادی صفت انقلابی ان ڈیوائسز کے ذریعے مغرب کو زیر کرنے پر یقین کامل رکھتے ہیں اور دل وجان سے کوشاں نظر آتے ہیں۔ اُن کو یقین ہے کہ اُن کے الفاظ ، دعوے اور فیصلے جو وہ سوشل میڈیا پر پھیلا رہے ہیں، ایک دن اسی مغرب کو شکست فاش دے دیں گے جن کی ایجاد کردہ ایجادات کے وہ خریدار ہی نہیں بلکہ وہ اس کے ذریعے ڈھیروں اربوں ڈالرکمانے کے اُن کو مواقع فراہم کررہے ہیں جن کے خلاف وہ صف آراء ہیں۔ فیس بک، ٹویٹر اور دیگر سوشل میڈیا سائٹس اِن لوگوں کے ’’انقلابی افکار‘‘ سے بھری پڑی ہیں۔ کیا اُن کو معلوم ہے کہ ہمارے کروڑوں موبائل استعمال کرنے والوں کی منٹ منٹ سے آگاہ ہیں اس جدید دنیا کے سپر کمپیوٹرائزڈ کنٹرول روم؟ وہ فیس بک، ٹویٹر سمیت اِن سائٹس سے ہمارا نفسیاتی تجزیہ کرنے میں کس قدر مستفید ہورہے ہیں، اس سے ہمارے کروڑوں سیلولر فون اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں میں سے چند ہی افراد آگاہ ہوں گے۔
ادب، شاعری، سیاست، مذہب، فلسفہ اور دیگر موضوعات کو ہم سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرکے انڈوں سے چوزے برآمد کرنے کی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں۔ نتیجہ مایوسی نہیں بلکہ مزید سرابوں کے سفر کے سوا کچھ نہیں۔ کوئی سماج اس وقت تک ترقی ہی نہیں کرسکتا، جب تک تعلیم آج کے زمانے کے مطابق نہ حاصل کرے۔ ایک ہزار سال قبل دنیا علمی حوالے سے اگر کسی ایک خطے میں جس معراج پر تھی، کیا اس وقت دنیا کے تمام خطے ترقی یافتہ تھے؟ ہرگز نہیں! ہاں، مسلمانوں میں وہ ترقی یافتہ ہوگئے جنہوں نے اس معیار کو اپنا لیا، جیسے سپین کی مسلم تہذیب نے جدید علوم کو اپنی ترقی و کامیابی کا ہار بنا لیا۔ اسی طرح آج بھی وہی سماج ترقی کرے گا جو آج کے انتہائی ترقی یافتہ علمی معراج کو اپنائے گا۔ تعلیم کے بغیر اور نہایت ترقی یافتہ تعلیم کے بغیر ہمارا سماج ترقی کی منزل کیا، ترقی کی راہ پر پہلا قدم بھی نہیں رکھ سکتا۔ ترقی یافتہ علم کے بغیر، ہم سائنس، معیشت، اقتصادیت، ادب، سیاست، صحت اور زندگی کے کسی بھی شعبے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔ ہمارے سوشل میڈیا کی حقیقت بھی زندگی کی دیگر پسماندگیوں کے سوا کچھ نہیں۔ جہالت کو اگر ہم جدید ٹیکنالوجی میں منتقل کردیں تو وہ علم میں نہیں بدل سکتی۔ ہاں، جہالت مزید پھیلے اور تیزرفتار ہوجائے گی۔ اور یہی کچھ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں کروڑوں لوگوں کے ہاتھوں میں وہ ڈیوائسز ہیں جو اُن کی جہالت کو Enhance کررہی ہیں۔ سوشل میڈیا ایک Instrument ہے، جادو کی چھڑی نہیں کہ ڈالیں جہالت اور نکلے علم۔ سوشل میڈیا سے انقلابی امیدیں لگانے والے ایک ایسے سراب میں گھر چکے ہیں، جہاں وہ کسی نہ کسی انداز میں سرمایہ داری نظام کے گاہک ہیں، چیلنج نہیں۔ اُن کا تعلق سیاست سے ہو، ادب، مذہب یا کسی اور شعبے سے۔ اگر ہم علامہ اقبالؒ کو اپنا آئیڈیل قرار دیتے ہیں تو کیا ہم علامہ اقبالؒ کی طرح اپنے وقت کے جدیدی تقاضوں کے مطابق علم حاصل کرتے ہیں، جس کے لیے وہ پسماندہ ہندوستان سے جدید برطانیہ اور جرمنی گئے۔ علم کے حقیقی حصول کے بغیر الیکٹرانک میڈیا سے سوشل میڈیا تک تمام تاریک راہوں کا سفر ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔