ترکی، جمہوریت اور انصاف کی جدوجہد
گزشتہ سال 15جولائی کو ترکی میں ناکام فوجی بغاوت نے ترکی میں بہت کچھ بدل ڈالا ہے۔ فتح اللہ گلین کے حمایتی جو حکمران جماعت کے تھے، اب دہشت گرد قرار دئیے جا چکے ہیں۔ ملک میں ہر تین ماہ بعد ایمرجینسی میں توسیع کی جارہی ہے۔ یہ فتح اللہ گلین کے حمایتی ہی تھے جو حکمران جماعت کی مذہبی شناخت بنانے میں فیصلہ کن انداز میں مددگار ہوئے۔ صدر جناب رجب طیب اردوآن فوجی بغاوت کے بعد ایمرجینسی کے بعد ملک کے اندر اب فتح اللہ گلین کے حمایتی مذہبی حلقوں کی بجائے نہایت قوم پرست حلقوں کی حمایت کے ساتھ قومی اور عالمی سیاست میں اپنا قائدانہ کردار ادا کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف لے جانے کے لیے ریفرنڈم کروایا جس میں 2فیصد سے کم اکثریتی ووٹوں سے وہ ملک کو صدارتی نظام میں لے جانے میں کامیاب ہوئے۔ اس کامیابی کے لیے بنیادی کردار، ترکی کی روایتی تنگ نظر قوم پرست پاٹی، ملی حرکت پارٹی نے کیا جو ترکی کی تیسری بڑی سیاسی پارٹی ہے۔ اگر ملی حرکت پارٹی صدارتی ریفرنڈم میں جناب صدر اردوآن کی حمایت نہ کرتی تو صدر طیب اردوآن کی صدارتی اصلاحات کی عمل پذیری ناممکن تھی۔ علیحدگی پسند کُردوں کے خلاف شدت کے ساتھ فوجی آپریشن جاری ہے۔ یہ ایک دلچسپ بات ہے کہ مسلم دنیا میں جناب طیب اردوآن ایک اسلامی لیڈر کے طور پر جانے جا رہے ہیں لیکن ملک کے اندر اُن کی سیاست کی تمام تر طاقت اور مظاہرہ قوم پرستی پر منحصر ہے۔ 15جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی کی دیگر تین سیاسی جماعتوں نے فوجی بغاوت کے خلاف کھل کر جمہوریت کی حمایت کی تھی۔ اس سلسلے میں ناکام بغاوت کے بعد استنبول میں صدر طیب اردوآن نے ایک بڑے سیاسی جلسے کا اعلان کیا جس میں مین اپوزیشن پارٹی، جمہور خلق پارٹی اور ملی حرکت پارٹی کی قیادت کو صدر طیب اردوآن کے ہمراہ خطاب کرنے کی دعوت دی گئی۔ یہ استنبول کی تاریخ کا بڑا اور تاریخی جلسہ تھا۔ اس جلسے میں سوشلسٹ رحجانات رکھنے والی نئی اور چوتھی پارٹی، پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کو جان بوجھ کر دعوت نہیں دی گئی تھی اور کہا گیا تھا کہ HDPعلیحدگی پسند کُردوں کی حمایت کرتی ہے بلکہ بغاوت کے بعد سے HDP کے سربراہ دیمرتاش اور اُن کی پارٹی کے گیارہ اراکین پارلیمنٹ علیحدگی پسند کُردوں کی حمایت میں جیلوں میں ہیں۔
15جولائی 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکمران جماعت کے بانی اور صدر ترکیہ جمہوریہ جناب طیب اردوآن کو پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ سے باہر سیاسی جماعتوں کی بھرپور حمایت ملی۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس کے بعد ترکی میں جمہوریت کے حوالے سے نئی بحث کا آغاز ہوا۔ ترکی کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں یہ یقین کیا جانے لگا کہ 15جولائی کی ناکام فوجی بغاوت اگر کامیاب ہوجاتی تو ملک میں دیر تک آمریت مسلط ہوجانا تھی۔ ایمرجینسی جو بغاوت کے پانچ روز بعد لگادی گئی اور پھر صدارتی نظام کے تحت اقتدار کی منقسم جمہوری طاقت جو پارلیمنٹ، مقننہ اور عدلیہ کے ہاں تھی، مرتکز ہوکر صدر کے دفتر تک محدود ہوچکی ہے۔ صدارتی اصلاحات کے بعد عدالتیں اور اقتدار کے تمام مراکز صدر کے ماتحت ہوچکے ہیں اور ملک میں سخت گیر حکمرانی بڑھتی جارہی ہے۔ اس سارے تناظر میں سیاسی اور صحافتی حلقے اپوزیشن پر الزام لگا رہے تھے، خصوصاً جمہور خلق پارٹی پر کہ وہ بزدلی اور خوف کا شکار ہے اور اس نے سخت گیری کے خلاف بھرپور آواز بلند نہیں کی۔ لیکن دو روز قبل 9جولائی کو استنبول کی اسی جلسہ گاہ جہاں گزشتہ سال حکومت کی دعوت پر صدر طیب اردوآن اور دونوں اپوزیشن پارٹیوں کے رہنما کمال کلیچ درآلو اور دولت بہچلے نے مشترکہ جلسہ کیا تھا، اس مقام پر سوشل ڈیموکریسی کی سیاست کی علمبردار مین اپوزیشن پارٹی جمہور خلق پارٹی سے سربراہ کمال کلیچ درآلونے گزشتہ سال کے مشترکہ جلسے سے بھی بڑے جلسے سے خطاب کرکے خوف کے سکوت کو توڑ دیا ہے۔ اس جلسے کا اہتمام اتاترک کی بنائی ہوئی روایتی پارٹی نے کیا جو ترکی میں سوشل ڈیموکریسی کی علمبردار ہے اور جلسے سے صرف پارٹی کے سربراہ نے خطاب کیا۔ جلسہ گاہ میں کسی کو پارٹی کا جھنڈا لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ساری جلسہ گاہ، ترکی جھنڈوں، اتاترک کی تصاویر اور ’’عدالت‘‘ (یعنی انصاف) کے بینروں سے لدی ہوئی تھی۔
جمہور خلق پارٹی نے ترکی کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا باب رقم کیا ہے۔ پارٹی کے سربراہ کمال کلیچ درآلو انتہائی امن پسند اور غیر متشدد سیاست کے حوالے سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُن کی پارٹی کے ایک رکن اسمبلی انیس بربراولو کو حکومت نے اس بنا پر پچیس سال قید کی سزا سنائی کہ انہوں نے اپنی ایک تقریر میں یہ الزام لگایا تھا کہ ترک حکومت کی انٹیلی جینس شام میں ٹرکوں میں اسلحہ لاد کر سپلائی کررہی ہے۔ اپنے پارٹی رکن کو سزا سنائے جانے کے بعد کمال کلیچ درآلو نے ترک تاریخ میں ایک طویل مارچ کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ہم انقرہ سے استنبول تک عدالت مارچ (انصاف مارچ) کریں گے۔ قارئین مارچ میں کوئی وہیکل نہیں بلکہ سب کو پیدل چلنا تھا۔ 15جون کو گرمی کی شدت میں ’’عدالت مارچ‘‘ کا آغاز ہوا۔ انقرہ سے استنبول 425کلومیٹر ہائی وے پر پیدل مارچ کمال کلیچ درآلو نے پارٹی اراکین کو سختی سے منع کیا کہ کوئی شخص پارٹی پرچم نہ لائے۔ 68سالہ کمال کلیچ درآلو پیدل چلتے ہوئے انقرہ سے استنبول کی طرف روانہ ہوئے۔ صدر طیب اردوآن نے عدالت مارچ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کرنے والے دہشت گردوں کی حمایت کررہے ہیں۔ مارچ کرنے والوں کے ساتھ ساتھ ہزاروں کی تعداد میں پولیس تعینات تھی جو گاڑیوں میں پیدل چلنے کی رفتار سے استنبول تک آئی اور اسی طرح ہر شہر اور قصبے میں پویس اور سیکیوریٹی والے سائے کی طرح ساتھ ساتھ رہے۔ مارچ کرنے والوں نے انقرہ سے استنبول تک ٹریفک کے نظام کو کسی جگہ بھی معطل نہیں ہونے دیا۔ جمہور خلق پارٹی کی بنیاد، ترکی کے بانی کمال اتاترک نے رکھی تھی اور اس کی قیادت عصمت اِنونو اور بلند ایجوت جیسے رہنما کرتے رہے ہیں۔ جمہور خلق پارٹی، ترکی میں سوشل ڈیموکریسی کی بنیاد ہے اور اسی پارٹی کے سر پر ترک ریاست تنگ نظر قوم پرستی سے ایک فلاحی ریاست کی جانب گامزن ہوئی۔ جمہور خلق پارٹی ، ترک سیاست، ریاست اور سماج کو عدم تشدد، عوامی فلاح اور حقیقی جمہوریت کی جانب لے جانے میں نوّے سالوں کی ایک تاریخ رکھتی ہے۔ 15جولائی کی ناکام بغاوت کی خبروں کے ساتھ ہی، ناکامی کی خبریں آنے سے پہلے، جمہور خلق پارٹی نے فوجی بغاوت کو مسترد کیا ۔ تب بغاوت ابھی برپا ہی ہوئی تھی۔ 15جولائی کے بعد یہ سوال بھی اٹھا کہ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ترکی میں جمہوریت نے طاقت پکڑی ہے کہ آمرانہ طرزِحکمرانی نے؟ اِن سوالوں کے جواب جمہور خلق پارٹی کے سربراہ نے 9جولائی کو استنبول کے عظیم الشان جلسے سے خطاب کرتے ہوئے دئیے۔ امن پسند رہنما نے ٹھاٹھیں مارتے جلسہ گاہ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا، ’’ہم نے خوف کی دیواریں توڑ دی ہیں۔ آج ہمارے انصاف مارچ کا آخری دن ہے، جس کا آغاز 15جون کو دارالحکومت انقرہ سے ہوا۔ مگر سنیں، یہ آخری دن اس انصاف مارچ کا ہے، درحقیقت یہ اب ہمارے اقدامات کا پہلا قدم ہے۔‘‘ اُن کی تقریر پر جلسہ گاہ میں چار نعرے بلند ہورہے تھے، انصاف، حقوق، قانون اور اتاترک زندہ باد۔ کمال کلیچ درآلو نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ ایمرجینسی فوری طور پر ہٹا دی جائے۔ جیلوں سے سینکڑوں صحافی، استاد، ادیب رِہا کیے جائیں اور عدالتیںآزاد کی جائیں۔ ترکی میں جمہوریت کی بانی پارٹی کے سربراہ نے اپنے خطاب میں کہا، ’’ہم ایک آمرانہ دَور میں رہ رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے صدر طیب اردوآن کے اس بیان کا جواب دیا جس میں صدر طیب اردوآن نے کہا تھا کہ انصاف، پارلیمنٹ اور عدالتوں سے لیں، سڑکوں پر انصاف کہاں، وہاں تو آپ دہشت گردوں کے حمایتیوں کے لیے نکلے ہیں۔ کمال کلیچ درآلو نے کہا کہ ’’اب انصاف کے لیے صرف سڑکیں اور گلیاں ہی رہ گئی ہیں، اسی لیے ہم اب انصاف انہی گلیوں میں ہی مانگیں گے۔‘‘ عدم تشدد کی سیاست کے پرچارک کمال کلیچ درآلو نے جلسہ گاہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ترکی کا مستقبل دائو پر لگ چکاہے۔ ہم اپنی مادرِوطن کی حفاظت کے لیے نکل آئے ہیں، انصاف، قانون، حقوق اور جمہوریت کے لیے۔ ناکام فوجی بغاوت کے بعد ساٹھ ہزار سے زائد لوگ جیلوںمیں ہیں۔ ڈیڑھ لاکھ سے زائدلوگ سرکاری ملازمتوں سے نکال دئیے گئے ہیں جن میں اراکین اسمبلی سے لے کر پروفیسرز، صحافی، ادیب، طلبا اور عام شہری شامل ہیں۔
انقرہ سے استنبول تک 425کلومیٹر پیدل مارچ کے وقت مظاہرین کے ہاتھوں میں ترک پرچم تھے۔ ذرا قوم کا اپنے ملک سے عشق دیکھیں کہ کہیں توڑ پھوڑ کا ایک واقعہ بھی نہیں رونما ہوا۔ ایک ہم جو اپنے جذباتی ہونے پر فخر کرتے ہیں۔ مظاہرین قومی گیت گاتے، رقص کرتے، ڈھولوں کی تھاپ پر ناچتے اور ٹریفک کے نظام کو معطل کیے بغیر یہ عظیم الشان مظاہرہ برپا کرگئے۔ مظاہرین نے 15جون سے 9جولائی تک مسلسل ایک کلومیٹر طویل ترکی کا سرخ پرچم اپنے ہاتھوں اور کندھوں پر اٹھائے رکھا۔ ترک قوم جمہوریت کے اس سفر میں مزید آگے بڑھنے کی طاقت رکھتی ہے۔ اپوزیشن پارٹی، جمہور خلق پارٹی کے اس ’’انصاف مارچ‘‘ کی حمایت کے لیے دیگر سیاسی جماعتیں بھی اب نکل کھڑی ہوئی ہیں۔ جیساکہ پارٹی کے قائد کمال کلیچ درآلو نے کہا ہے، 9جولائی اس جدوجہد کا پہلا دن ہے جو ہم نے انقرہ سے استنبول تک لانگ مارچ کرکے برپا کیا ہے۔