ترکی میں انتخابات، نئی حکمرانی کی طرف
ترکی میں 24جون کو صدر اور اسمبلی کی چھے سوسیٹوں پر عام انتخابات ہوں گے۔ ترک صدر رجب طیب اردوآن نے یہ اعلان 18اپریل 2018ء کو کیا۔ اپنے وقت سے ایک سال قبل ہونے والے یہ انتخابات ترک حکمرانی کو ایک نئے دَور میں لے جائیں گے۔ گزشتہ ریفرنڈم جس میں صدر اردوآن ڈیڑھ فیصد ووٹوں کی اکثریت سے ترکی کو پارلیمانی نظام سے صدارتی نظام کی طرف لے جانے میں کامیاب ہوئے، آئندہ ہونے والے انتخابات ان آئینی ترامیم کے سبب ترکی کو نہ صرف صدارتی نظام کی طرف لے جائیں گے بلکہ صدر کو اختیارات کا مرکز کُل بنا دیں گے۔ طیب اردوآن نے سابق وزیراعظم نجم الدین اربکان کی رفاہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے سیاست کا آغاز کرتے ہوئے استنبول کے میئر کی حیثیت سے ترک سیاست میں اپنا نام بنایا۔ ایک عرصے بعد اپنے استاد نجم الدین اربکان کی پارٹی کو چھوڑ کر انہوں نے 2001ء میں عبداللہ گل کے ساتھ جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی کی بنیاد رکھی۔ 2002ء میں بائیں بازو کے رہنما جناب بلند ایجوت کی مخلوط حکومت پر تنگ نظر قوم پرست ملی پارٹی کے دولت بہچلے نے دبائو ڈال کر حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کردیا اور یوں 2002ء میں قبل ازانتخابات جنم لینے والی عبداللہ گل اور اردوآن کی نئی جماعت AKP یکدم ترک سیاست میں ایک مقبول پارٹی کے طور پر ابھر کر سامنے آگئی۔ اس وقت AKP عالمی شہرت یافتہ خودساختہ جلاوطن مذہبی سکالر فتح اللہ گُلین کے بھرپور اثر میں تھی جو 1997ء سے امریکہ میں قیام پذیر ہیں اور جن کو 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت سے کچھ عرصہ پہلے ترک حکومت نے باقاعدہ دہشت گرد قرار دے دیا اور انہی کے ساتھیوں FETO پر اس بغاوت کی سرپرستی کا الزام ہے۔
ترک صدر رجب طیب اردوآن نے رفاہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے استنبول کے میئر کی حیثیت سے آج تک جتنے بھی انتخابات میں حصہ لیا، ان میں کامیابی نے اُن کے قدم چومے۔ آج تک تمام انتخابات، قومی اسمبلی کے انتخابات، بلدیاتی انتخابات اور دو ریفرنڈم میں فتح اُن کا مقدر رہی۔ ایک فوجی بغاوت کی ناکامی بھی ترک سیاست میں اُن کی فتح یابی جانی جاتی ہے۔ فوجی بغاوت کے بعد مسلسل ایمرجینسی نے بحیثیت صدر اُن کو اقتدار کی کُلی طاقت سے ہمکنار کررکھا ہے اور اگر 24جون 2018ء کو وہ صدارتی انتخابات جیت جاتے ہیں تو ترکی طاقت کے مختلف حکومتی اور ریاستی اختیارات پر اُن کی گرفت کے ساتھ وہ ترکی کی تاریخ کے سب سے طاقتور حکمران بن کر ابھریں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ طیب اردوآن جن کی پارٹی کبھی فتح اللہ گُلین کے حامیوں کے سبب اسلامی رحجان رکھنے والی جماعت جانی گئی، 2016ء کی ناکام فوجی بغاوت کے بعد صدر طیب اردوآن اور اُن کی جماعت ایک ترک قوم پرست جماعت کے طور پر سیاست اور حکمرانی کررہی ہے۔ اپنی اس سیاسی حکمت عملی کو مزید طاقت بخشنے کے لیے تنگ نظر ملی حرکت پارٹی اور اُس کے رہنما دولت بہچلے، اُن کے سیاسی اتحادی ہیں۔ گزشتہ ریفرنڈم میں جس کے تحت وہ ترکی کو صدارتی نظام میں داخل کرنے میں صرف ڈیڑھ فیصد ووٹوں سے کامیاب ہوئے، اُن کو ملی حرکت پارٹی کے اتحاد نے ہی کامیابی سے ہمکنار کیا۔ ملی حرکت پارٹی کو تنگ نظر قوم پرستی کے حوالے سے ترکی اور بیرونِ ترکی ایک فاشسٹ قوم پرست جماعت قرار دیا جاتا ہے۔ وہ کمال ازم کو شاونسٹ قوم پرستی کے سانچے میں ڈھالتے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خود کمال اتاترک کی جماعت CHPجس کے اتاترک بانی رہنما ہیں اور جو اپوزیشن جماعت ہے، اتاترک کو اپنی جماعت کا بانی قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی اُن کا سیاسی نظریہ سوشل ڈیموکریٹک ہے۔ 24جون کو صدارتی ا نتخاب درحقیقت اسمبلی کی 600سیٹوں کے انتخابات سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ صدر طیب اردوآن اور ملی حرکت پارٹی کے بزرگ قوم پرست رہنما دولت بہچلے اِن انتخابات میں باقاعدہ اتحادی ہیں اور انہوں نے اپنے اتحاد کا نام پیپلز الائنس (People's Alliance) رکھا ہے۔
ملی حرکت پارٹی کی ایک اہم خاتون رہنما میرال اکشینر جو گزشتہ پانچ برسوں میں اپنی پارٹی کے قائد کی بڑی نقاد کے طور پر جانی جاتی رہیں، اِن سالوں میں ترکی میں ایک مقبول لیڈر کے طو رپر ابھر کر سامنے آئی ہیں۔ وہ AKPکے ساتھ اپنی جماعت ملی حرکت پارٹی کے اتحاد کی سخت مخالف تھیں، اس لیے اُن کو پارٹی سے بے دخل کردیا گیا۔ اُن کی بے دخلی نے ان کے مقبولیت میں کمی کی بجائے اضافہ کیا اور یوں انہوں نے گزشتہ سال اپنی نئی سیاسی پارٹی IYI بنائی۔ یہ جماعت ترک قوم پرستی، عثمانی تاریخ پر نازاں، کمال ازم پر یقین رکھنے والی اور AKP کی مخالف پارٹی قرار دی جاتی ہے۔ میرال اکشینر 24جون کے انتخابات میں صدارتی امیدوار کے طور پر بھی حصہ لے رہی ہیں۔ ریپبلکن پیپلزپارٹی CHP جس کی سیاسی تاریخ مصطفی کمال اتاترک، عصمت اِنونو اور بلند ایجوت جیسے مقبول رہنمائوں کے ہاتھوں میں رہی ہے، جناب رجب طیب اردوآن کے مقبول لیڈر کے طور پر ابھرنے کے بعد مسلسل اپوزیشن کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس جماعت کے چیئرمین کمال کلیچ درآلوایک نہایت معتدل اور دھیمے مزاج کے لیڈر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ 2002ء سے اُن کا مقابلہ کرشماتی لیڈر اور پُرجوش مقرر جناب طیب اردوآن سے چلا آرہا ہے۔ گزشتہ سال جب میں اُن سے ملنے اُن کے پارٹی ہیڈکوارٹر گیا تو ملاقات کا وقت دس سے پندرہ منٹ طے تھا۔ بلند ایجوت مرحوم سے میری دوستی کے قصوں کی بازگشت ابھی تلک ترکی کے مخصوص حلقوں میں سنی جاتی ہے۔ اس تعارف نے اس ملاقات کو دس پندرہ منٹ سے بڑھا کر ایک طویل ملاقات میں بدل دیا۔ جناب کمال کلیچ درآلو سے میں نے برملا کہا کہ آپ نے بحیثیت چیئرمین ریپبلکن پیپلزپارٹی ایک مقبول لیڈر طیب اردوآن کا جو سامنا کیا ہے، وہ کوئی آسان بات نہیں۔ آپ جیسے دھیمے مزاج اور معتدال شخص کے سامنے شعلہ بیان مقرر اور کرشماتی لیڈر طیب اردوآن۔ اور اہم بات یہ ہے کہ 2002ء سے میں نے آپ کو کبھی بھی جذباتی نہیں پایا۔ بحیثیت اپوزیشن لیڈر ایک مقبول حکمران سیاست دان کا مقابلہ کوئی معمولی بات نہیں۔ وہ میری اس بات سے متفق تھے۔ لیکن ایک اہم بات کہ بلند ایجوت کے بعد یہی پارٹی CHP ایک مقبول، کرشماتی اور شعلہ بیان لیڈر ڈنیز بایکال سے ایک پُراسرار سیکس سکینڈل کے منظرعام پر آنے سے محروم کردی گئی۔ کہا جاتا ہے کہ ڈنیز بایکال کے خلاف اس پُراسرار سکینڈل کی منصوبہ بندی فتح اللہ گُلین کے اُن لوگوں نے کی تھی جو Deep State میں مقام حاصل کرچکے تھے اور انہی لوگوں نے بعد میں طیب اردوآن کے خلاف فوجی بغاوت کی منصوبہ بندی کی۔ گزشتہ سال میری ڈنیز بایکال سے فون پر توبات ہوئی لیکن وقت کے تنگی کے باعث ملاقات سے محروم رہا۔
اگلے ماہ جون میں صدارتی اور قومی اسمبلی کے انتخابات کے موقع پر اپوزیشن جماعت CHP کے حوالے سے چند دلچسپ اور اہم تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ کمال کلیچ درآلو اپنی جماعت کے اندر ایک بار پھر چیئرمین پارٹی کا انتخاب جیت تو گئے، لیکن جناب صدر طیب اردوآن کے خلاف اُن کی پارٹی کے اندر صدارتی انتخاب میں حصہ لینے کے حوالے سے وہ ایک ابھرتے ہوئے کرشماتی لیڈر محرم انجی سے ہار گئے۔ اور یوں اب ترکی میں آئندہ صدارتی انتخاب میں صدر طیب اردوآن کا مقابلہ کمال کلیچ درآلو جیسے نہایت دھیمے مزاج کے لیڈر کی بجائے شعلہ بیان اور کرشماتی لیڈر محرم انجی سے ہوگا۔ محرم انجی نے بحیرۂ مارمرا کنارے اینے شہریالواہ میں صدارتی مہم کا آغاز کرتے ہوئے سارے ترکی کو متوجہ کرلیا ہے۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں عوامی توجہ حاصل کرنے کے لیے لاتعداد سوالات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے صدر ترکی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے، ’’آئو مردوں کی طرح الیکشن میں حصہ لیں اور چوتھی بڑی مقبول جماعت کے صدارتی رہنما صلاح الدین دیمرتاش اور اُن کے تمام ساتھیوں کو رِہا کرو۔‘‘ محرم انجی نے کہا ہے کہ 24جون کے انتخابات کھلی آزادی کے ساتھ ہونے چاہئیں۔ صلاح الدین دیمرتاش پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (HDP) کے نوجوان کرشماتی لیڈر ہیں۔ وہ ترکی کی سیاست میں کُردوں اور سوشلسٹوں کے لیڈر کے طور پر ابھرے ہیں۔ 24جون کے صدارتی انتخابات میں صدر طیب اردوآن، محرم انجی، میرال اکشینر، صلاح الدین دیمرتاش کے علاوہ مرحوم نجم الدین اربکان کی سعادت پارٹی کی طرف ٹیمل کاراصلی آلو بھی انتخابات میں امیدوار ہیں۔ تنقید کے حوالے سے وہ AKP اور صدر ترکی کے سخت مخالف جانے جاتے ہیں۔ حکمران جماعت کے صدارتی انتخاب میں جس کا نام پیپلز الائنس ہے، اس کے مقابلے میں درج بالا سیاسی جماعتوں نے بھی اتحاد کا اعلان کیا ہے جس کا نام نیشنل الائنس قرار دیا گیا ہے۔
24جون کو ترکی اپنی جمہوری سیاسی تاریخ کے اہم موڑ میں داخل ہوجائے گا۔ ترک سیاست پر گہری نظر رکھنے والے جانتے ہیں کہ وہاں سیاسی جماعتیں کیسے وقت کے ساتھ غیرمقبول اور پھر یکایک مقبول ہو جاتی ہیں۔ اس تناظر میں 24جون کے انتخابات میں حتمی رائے قائم کرنا بہت مشکل ہے۔ مگر ایک بات طے ہے کہ اگر صدارتی انتخابات میں صدر طیب اردوآن اور قومی اسمبلی میں AKPواضح اکثریت حاصل کرگئی تو ترکی کا جمہوری ڈھانچا جناب طیب اردوآن کے خوابوں کے عین مطابق ظہورپذیر ہوگا اور یوں وہ جدید ترک تاریخ میں ایک مردِ آہن کے طور پر جانے جائیں گے۔ ترک معیشت، ترکی کا خطے میں کردار اور اس کے خلاف ابھرتے ممکنہ خطرات بھی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوں گے۔ آئندہ انتخابات عملاً ترکی کے علاقائی کردار کے لیے اہم فیصلوں کی راہیں متعین کریں گے۔ عراق اور شام میں برپا دہشت گردی کے اس پر اثرات اور کُردوں کے لیے ایک علیحدہ ریاست کا خواب جو ترکی کے لیے درحقیقت کسی بڑے خطرے سے کم نہیں۔ اس کے حوالے سے پیش رفت، امریکہ کا خطے میں جغرافیائی تبدیلیاں برپا کرنے کا منصوبہ، جس میں مذہب اور فرقہ پرستی کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، اسی کے ساتھ تنگ نظر قوم پرست تحریکوں کے ذریعے Balkanization۔ راقم اِن نکات کے تناظر میں ترکی کی سیاست کو دیکھتا ہے تو معاملات اس قدر سادہ نہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ترکی میں طاقتور سیاسی جماعتوں کا وجود ترکی کی سلامتی کا اہم ترین ستون ہے۔ اندرونی اور بیرونی سلامتی، ترک سیاست میں سیاسی قیادتوں کا ظہور ایک سیاسی عمل سے ہونا اور اس میں شخصیت پرستی، موروثیت کا نہ ہونا اہم ترین ہے۔ یہی وہ شان دار حقیقت ہے کہ جس کے سبب بائیں بازو کے مقبول اور شان دار لیڈر بلند ایجوت کے بعد یکایک طیب اردوآن ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھرے۔ وہاں سیاسی وارث خاندانوں سے نہیں، سیاسی عمل اور سیاسی نظریات سے پیدا ہوتے ہیں۔ کل کا مقبول انتخابی لیڈر آج کا غیرمقبول لیڈر بن جاتا ہے، جیسے عصمت اِنونو، بلند ایجوت،تانسو چِلر، مسعود یلماز، نجم الدین اربکان، سلیمان ڈیمرل، ترگت اوزال۔۔۔ ترک سیاست ایک شان دار بہتا دھارا ہے۔ اِس میں ترک قوم پرستی اس کا بنیادی ستون۔