جنرل ایوب خان جنہوں نے جسٹس منیر کی مدد سے ملک میں آمرانہ حکومت آغاز کیا ان کا عفریت 60 سالوں سے دیش کے ساتھ جن کے سائے کی طرح چمٹا ہوا ہے جمہوری عاملوں کی ہزار کوششوں کے باوجود یہ جن ابھی تک نہیں گیا
پاکستان کی تاریخ کی پہلی فوج عدالت لگانے والے جنرل ایوب نے جبر کاآغاز 1951میں نام نہا پنڈی سازش کیس میں ہیرو بن کر کیا اس سازش کی کہانی انجام سب دھند میں ہی ہے نہ مجرموں کو سزا ملی نہ کچھ تفصیل سامنے آئی مگر ایوب ہیرو بن گئے
ایوب خان نےحکومت سنبھالنے کےبعد پہلا کام سیاست دانوں کو نااہل کرنےکاکیا پہلے پوڈو اییٹ نکالا سیاست دان 15سال کے لئےنااہل قرار پائے چین نہ آیا تو ایبڈو نکالا جس میں عدالتی نااہلی کا طریقہ آزمایاگیا اس کےتحت تمام منتخب قکادت نااہل قرار پائی آج کل کیاہورہاہے ؟
ایوب آمریت کا دوسرا ہدف صحافی تھے نیشنل پریس ٹرسٹ کےقانون کےتحت اخبارات پرقبضہ کیا جو صحافی اخبار حکومت کے خلاف لکھتا ملکی سالمیت کا کہہ کرکے اس کوبندکردیا جاتا پروگریسو پیپر پر رات کے تکن بجے فوجی دستے بھیج کر قبضہ کیا گیا آج کیا ہورہا ہے ؟
ایوب آمریت کا ایک اہم تحقہ جبری نظربندیاں ہیں اندھے قتل حسن ناصرسے شروع ہونے والی بربریت آج تک جاری و ساری ہے اورنہ جانے کتنے لوگ نواب کالاباغ کے ظلم کی بھینٹ چڑھے کیمونسٹ پارٹی پر پابندی کےبعد اسکےکارکنان.. اسی طرح لاپتہ ہوتے جیسے آج متحدہ لندن کے بدلا کیا ہے۔؟
1960میں سندھ طاس کے معاہدے کے زریعے پاکستان نے اپنے حصے کا پانی خود ہی بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔اس معاہدے نے کشمیر پر ہمارا مقدمہ بھی کمزور کیا اس معاہدے کے بعد فوڈ باسکٹ کہلانا والا پنجاب بنجر ہونا شروع ہوا پنجاب کے ساتھ ہوئے اس ظلم کا مداوا نہیں ہوسکتا
1965میں ایوب صاحب نے صدارتی انتخاب لڑنے کی ٹھانی مقابل فاطمہ جناح تھیں ایوب نے فاطمہ جناح کو غدار قرار دیا دھاندلی کرکے جیتنے کے بعد کراچی کے مہاجروں بنگالیوں پر ایک قکامت ٹوٹی ہزاروں افراد کا قتل ہوا وجہ صرف یہ کہ انہوں نے ایوب کوووٹ نہیں دیا
فاطمہ جناح سے جیتنے اور گرتی ساکھ کو بچانے کےلئے ایوب نے بھارت کے ساتھ محاز کھولنے کی ٹھانی آپریشن جبرالٹر شروع کیا جو ناکام ہوا بھارت حملے میں پاکستان کی آرمڈ ڈویژن کو وہ نقصان پہنچا کہ آج تک مداوا نہیں ہوسکا اسکے بعد تاشقندمیں ایک معاہدہ کرکے سے واپسی ہوئی
ایوب صاحب ہر آمر کی طرح خود کومدبر سمجھتے تھے ان کی فکر کاشاہکار 1962کاآئین ہے جس کومرتب ایک کمیٹی نے کیا اس کی منظوری کسی اسمبلی نے نہیں دی بلکہ خود جنرل صاحب نے ہی دی اس آئین میں ہر شق ہر دفعہ کا تعلق انکی زات سے تھا
کامیاب طلبہ تحریک کے نتیجے میں اس آمر نے 25مارچ کو ملک کی جان چھوڑی 50 سال پہلے وردی پوش آمریت تھی آج کی آمریت کے نہ آنکھیں ہیں نہ چہرہ نہ ہاتھ ہم ابھی تک عہد ایوب میں ہی زندہ ہیں منزل کہاں ہے ؟