تیسری دنیا کےممالک میں ہر شےمہنگی ملتی ہےسوائے جذبات کے۔تیسری دنیا کےلوگ سستےجذباتی نعروں پر جلدی ایمان لیتےہیں۔شایدحوصلہ ہی ان نعروں میں ملتا ہے۔عرب دنیا اسرائیل سےکوئی جنگ نہیں جیت سکی۔مگرسب یوم قتح مناتےہیں۔نہ جانےکس فتح کا دن۔؟یہی حال ہمارا ہے۔فریب کےسلسلے بہت دراز ہیں۔
جنگ ستمبر کی کہانی 26اپریل سے شروع ہوتی ہے۔جب پاک فوج نے بہار بیٹ کے علاقے پر قبضہ کیا۔جو رن آف کچھ کا حصہ تھا۔آپریشن کی کمانڈ برئگیڈیر افتخار جنجوعہ نے کی۔مگر بقول گل حسن کے حکومت نے اس خبر کی پذیرائی سے سب کو روک دیا تھا۔حکومت کس کی تھی؟یہ بتانا مقصود نہیں۔
ایک غلط فہمی عام ہے کہ آپریشن جبرالٹر اورگرینڈ سلام کے منصوبہ ساز بھٹو اور انکے مشیرتھے۔الطاف گوھر نے لکھا رن آف کچھ پرجنگ بندی سے پہلے ایوب کشمیر میں گوریلا منصوبے کا جائزہ لینے آئے۔اکھنور پر قبضے کی منظوری انہوں نے دی۔یہاں تک کہ اس کی خبر کسی کور کمانڈر کو بھی نہیں دی گئ تھی۔
اس وقت کے ڈی۔جی ملٹری آپریشن اور بعد کے آرمی چیف جنرل گل حسن بھی اسی بات کا زکر کرتے ہیں کہ جب جنرل ملک نے ان سے اجازت طلب کی تو انہوں کہا کہ اجازت کی ضرورت نہیں۔کہ صدر ایوب نے خود اس مہم کی منظوری دی ہے۔مگر انہوں نے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا۔جسے قہقہوں میں اڑا دیا گیا۔
رن آف کچھ پرجنگ بندی ہوئی تو جنرل ایوب بریفنگ لینےپہنچے۔ایوب نےگل حسن سے پوچھا کیا بھارت سرحد پار کرےگا؟تو گل کاجواب تھا نہیں۔کیونکہ رن آف کچھ کی شکست کوسکردو کی چوکیوں پر قبضہ کرکے برابرکیا جاچکاتھے۔یادرھےرن آف کچھ کا علاقہ بعدمیں بھارت کومل گیا۔مگرچوکیاں پاکستان کو نہیں ملیں۔
آپریشن جبرالٹر کی راز داری کا بے حد خیال رکھا گیا۔یہاں تک کہ پاک فضائیہ کو بھی اس معاملے میں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔مگر اس کے باوجود چوبیس گھنٹے بعد انکی ضرورت پڑی تو وہ تیار تھے۔ایسہ ایک فیصلہ مشرف نے کیا تھا۔مگر نتائج ایک سے رھے۔
آپریشن جبرالٹرکی زمہ داری کیلئےپانچ دستےبنائےگئے۔جو مسلم فاتحین سےمنسوب ہوئے۔ایک اضافی آپریشن کا منصوبہ تشکیل دیاگیا۔جسکا نام نصرت رکھاگیا۔کہاجاتا ہے ان گوریلوں کی تعدادچار سے پانچ ہزار کےقریب تھی۔ان میں آرمی کےسپیشل سروس کےدستے بھی شامل تھے۔مگر ان پر کیابیتی کسی نے نہیں بتایا۔
طارق،قاسم،خالداورصلاح الدین کوشکست کاسامناکرنا پڑا۔جبکہ غزنوی نے کامیاب کاروائی کی۔طارق کےجوان شھیدہوئے۔نامساعدہ حالات کیوجہ سےجانی نقصان ہوا۔اگ تاريح کودھرانےکی مثال ملے توپاکستان بہترین تجربہ گاہ ہے۔ایسافیصلہ مشرف نےکیا اورفوجی جوان شھیدہوئے۔مگر دونوں بارکسی نےانکوائری نہیں کی۔
نصرت بھی اپنی کاروائی میں ناکام رہا۔اگست کے تیسری ہفتے تک نصرت اور جبرالٹر دونوں ناکام ہوچکے تھے۔25اگست کو بھارتی فوج نے دانا کے مقام پر قبضہ کیا۔اب بھارتی فوج مظفرآباد کے قریب تھی۔مگر افسوس کہ یہ باتیں کسی نے عوام تک نہیں پہنچائیں۔نقصان کا سودا کون خریدتا ہے۔۔!
28 اگست کوبھارتی فوج نے درہ حاجی پیرپر قبضہ کیا۔اس وقت آرمی چیف جنرل موسی چیختےہوئےبھٹو کےپاس پہنچے کہ میرےجوانوں کےپاس لڑنے کیلئےپتھروں کےسواکچھ بھی نہیں۔بےتیغ سپاہی اشعارمیں اچھالگتا ہے۔کارگل آپریشن میں جوان یہی کہتےشھید ہوئےکہ کھانا لباس بیشک نہ دیں۔ہتھیارتودیں۔کبھی سنا آپ نے!
ایک طرف فوجی جوانوں کی شھادت ہورہی تھی۔دوسری طرف ایوب خان سوات روانہ ہوگئے۔یعنی اہم موقع پر دارالحکومت انتظامی سربراہ سے خالی تھا۔مسئلے کی صورت وہاں کا رخ کرنا پڑتا۔اس طرح ایوب منصوبوں کو چھپاتے تھے۔سیاسی مخالفین کے بقول اپنے پیر کی ہدایت پر وہ پہاڑی علاقے میں گئے۔واللّہ العلم۔۔
چھ ستمبر کو بھارت نے لاھور پر حملہ کیا۔ایوب خان کو یہ اطلاع صبح چار بجے کے قریب پاک فضائیہ کے آفسر ایئر کماڈور اختر نے دی تھی۔ایوب خان نے جنرل موسی کو فون کیا۔خبر کی تصدیق کرنے کا کہا۔جنرل موسی حملے کی خبر جانتے ہوئے بھی تصدیق کا انتظار کرنے لگے۔۔جنرل موسی نے ایسا کیوں کیا۔؟
8ستمبرکوپاکستان نےبھارتی کے سرحدی گاؤں کھیم کرن پرقبضہ کیا۔پاک فوج امرتسر جانےکےمنصوبے بنانے لگی۔9ستمبر کوقبائلیوں کا لشکرمددکیلئے بلایا۔لشکر نے محازکےراستےمیں آنے والی دکانوں کو لوٹا۔بعدمیں یہی لوگ جنرل حمیدکیلئے درد سر بنے۔کیونکہ انکوکھلے میدانوں میں جنگ کا تجربہ نہیں تھا۔
جنگ ستمبر میں اہم موڑ 11ستمبر کو آیا۔جب بھارت نے کھیم کرن پر جوابی حملہ کیا۔جنرل ہربخش سنگھ نے حملے کو لیڈ کیا۔کھیم کرن ک مقام پر ٹینکوں کی بڑی جنگ لڑی گئ۔11تاریخ کو بھارت نے مادھوپور کابیراج توڑ دیا۔پاکستانی ٹینک دلدل میں دھنس گئے۔یوں پاکستان کی لڑائی 11ستمبر کو ختم ہوچکی تھی۔
11ستمبر1965 کو سیکرٹری دفاع نذیراحمد نےجنرل ایوب کو بتایا کہ ترکی اورایران نے اسلحہ دینے سے انکار کردیاہے۔ایوب سن کر مزید گھبرا گئے۔اسی دن یہ انکشاف بھی ہواکہ فوجی حکام غلط قسم کاگولہ بارود درآمد کرتے رھے تھے۔دھماکہ آور گولوں کا ڈھیر جو پٹاخوں میں استعمال ہوتا ہے۔کوئی تحقیق ہوئی؟
15ستمبر کو صدر ایوب نے غیر ملکی صحافیوں سے خطاب کا فیصلہ کیا۔پہلےطے ہوا کہ صدر ایوب سخت موقف اختیار کرینگے۔مگر جب پریس کانفرنس شروع ہوئی۔صدر ایوب نے آغاز ہی امریکی صدر جانس سے امن کی ایپل سے کیا۔اس پر سب حیران رہ گئے۔صرف نو دن بعد ہی ایوب نے امن کی اپیل کرکے اہل وطن کو مایوس کیا۔
20ستمبر کو ایوب نے چین کا خفیہ دورہ کیا۔چو این لائی اور مارشل چن ژی سے ملاقات کی۔چو این نے جنگ بندی نہ قبول کرنے کا مشورہ دیا۔چاھے لاھور اور دیگر شہر بھارتی قبضے میں چلے جائیں۔عوامی مزاحمت ہی بھارت کو سبق سکھائے گی۔ایوب نے تجویز نہیں مانی۔واپس آکر جنگ بندی قبول کرلی۔
22ستمبر کواقوام متجدہ نے بندی کی قرارداد منظور کی۔جنگ کا اختتام ہوا۔6مارچ کو ایوب خان وزیر خارجہ بھٹو کیساتھ تاشقند پہنچے۔بھٹو نے ایوب کو مشورہ دیا کہ کشمیر میں استصواب رائے کی شرط کے بغیر معاہدہ قبول نہ کیا جائے۔پہلے ایوب اس تجویز سے متفق تھے۔مگر بعد میں انہوں نے دستخط کر دیئے۔
تاشقند معاہدے سے اہل وطن کو شدید دھچکا پہنچا۔اہل وطن اس انتظار میں تھے کہ ایوب اس معاہدے پر دستخط نہیں کرینگے اور واپس آجائیں گے۔انکے شاندار استقبال کی تیاریاں تھیں۔مگر ایسا نہ ہوسکا۔ایوب نے تاشقند کے زلت آمیز معاہدے پر دستخط کرکے اپنے اقتدار کے دن طے کر دیيئے تھے۔
اسی شام شھداء کے لواحقین نے احتجاج کیا۔انہوں نے کہا کہ اگر صلح ہی کرنی تھی تو ہمارے سہاگ،باپ اور بیٹے واپس کرو۔اسی رات کو احتجاج شدید ہوا۔پولیس نے گولی چلائی۔اور چار افراد شھید ہوگئے۔اس مظاھرے کی قیادت لاھور میں برئگیڈیر شامی کی اہلیہ کررہی تھیں۔جو کھیم کرن میں شھید ہوئے تھے۔
آپریشن جبرالٹر کی بابت یہی کہا جاتا ہے کہ ایوب خان کو فوج نے گمراہ کیا۔انکی بھیجی ہوئی رپورٹیں حد درجہ مبالغہ آمیز ہوتی تھیں۔اصل رپورٹوں سے سچ نکال دیا جاتا اور مرچ مصالحہ لگا کر آگے پیش کیا جاتا۔اسی لئے آج تک جنگ کی اصل صورتحال واضح نہیں ہوسکی۔اصل رپورٹیں ضائع کر دی جاتی تھیں۔
فوج کےپاس انفنٹری کی بھی کمی تھی۔جولوگ تھے۔وہ دفاعی پوزیشن پر تھے۔انفنٹری کودھچکا کھیم کرن اور چونڈہ میں لگا۔مگر حیت کی بات یہ ہےسچ صرف چند اعلی فوجی اور سرکاری افسران جانتےتھے۔اسکےعلاوہ کسی کوکوئی خبر نہیں تھی۔سب فتح کےشادیانےبجا رھےتھے۔ہاں مشرقی پاکستان والوں کواسکی امیدکم تھی۔
جنگ ستمبر میں پاکستان کا بڑا نقصان آرمڈ ڈویژن کی مکمل تباہی تھی۔کھیم کرن میں اس ڈویژن کے سربراہ میجر جنرل ناصر احمد بھی شھید ہوئے تھے۔اس ڈویژن کو سپر پاکستان کہتے تھے۔دوسری طرف جنرل موسی اور ایئر مارشل نور خان جنگی نقصان سے پریشان تھے۔انہی احباب نے ایوب کو جنگ بندی کا مشورہ دیا۔
جنگ ستمبرمیں ایک دلچسپ کردارآئی۔ایس۔پی۔آرکاتھا۔یہ ادارہ انتہائی مبالغہ آمیز خبریں ریڈیوپاکستان کو بھیجتاتھا۔ریڈیو پاکستان نے خبروں کی تصدیق کیلئےایک طریقہ کارطے کیا۔ادارےکے نزدیک ایسی خبرجسکےچھپنے سےدشمن کی تسلی ہوملک دشمنی ہے۔یہ1965والےآئی۔ایس۔پی۔آر کازکرہے۔آج والےکانہیں!
جنگ ستمبر کے دوران جب ہر طرف ہلچل تھی اس وقت بھی صدر ایوب کو اپنے کاروبار کی فکر تھی۔تمام ریٹائر فوجیوں کو واپس بلایا گیا۔سوائے صدر ایوب کے فرزندوں کے جو اس وقت اپنے کاروبار میں مصروف تھے اور مصروف رھے۔اس بات نے بھی ایوب کی مقبولیت کو متاثر کیا۔یہ نئ صنعتی ایمپائر کی بنیاد تھی۔
آپریشن جبرالٹراورجنگ ستمبر کےبعد خامیوں کےجائزے کیلئے کمیشن تشکیل پایا۔رپورٹ کے ایک حصےکےمطابق ایس۔ایس۔جی کو ختم کرنے کی سفارش کی گئ۔وجہ یہی تھی کہ تنظیم نےجنگ ستمبر کےدوران کسی مشن میں کامیابی حاصل نہیں کی۔اس وقت اسکےبانی جنرل مٹھا نے اس بات کومستردکیا۔اسے قائم رکھنےپر زوردیا۔
جنگ ستمبرکانتیجہ یہی تھابھارت نےپاکستان پرحملہ کرنےمیں دیرنہیں کی۔جنگ کا رخ سیالکوٹ،لاھورکوموڑ دیا۔پاکستانی فوج کوکشمیر سےہٹا کرشہروں کےدفاع کی طرف لگایا۔نقصان دونوں ممالک کابہت ہوا۔مگر پاکستان کانقصان بہت ہوا۔بہت سےٹینک طیاروں کونقصان پہنچاجنکی مرمت ممکن نہیں تھی۔
تحریرکی پوچھل:جنگ کی شروعات رن آف کچھ کی جھڑپ سےہوئی تھی۔1968 میں پاکستان نےبرطانوی وزیراعظم ہارلڈ ولسن کی ثالثی میں ہونےوالےفیصلےکو قبول کیا۔علاقے کانوےفیصد حصہ بھارت کو دیا اور دس فیصد پرراضی ہوگئے۔بہار بیٹ کاعلاقہ جس پرقبضہ کیا وہ بھی بھارت کےحوالے کیا گیا۔سو چھتر سو پیاز۔!