اللہ تعالی کے ہاں سب سے زیادہ پسندیدہ عمل کھانا کھلانا ہے۔نبی آخرالزماں ﷺ کے توسط سے جو نظام زندگی بنی نوع انسان کو میسر آیا اس کی تعلیمات میں مرکزیت اسی نقطہ کو حاصل ہے۔خالق کائنات کی اپنی مخلوقات کے ساتھ تعلقات کی بے شمار شکلیں ہیں لیکن اللہ تعالی نے اپنی آخری کتاب میں سب سے اولین جواپناتعارف کرایا ہے وہ”رب،پالنے والا“(رب العالمین)ہے جس کا براہ راست تعلق کھانا کھلانے سے ہے۔قرآن مجید میں سب سے بزرگ عبادت نماز کے ساتھ زکوۃ کی تکرار اس کثرت کے ساتھ وارد ہوئی ہے کہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شاید زکوۃ کے لیے ہی نماز کی فرضیت عمل میں لائی گئی ہے تاکہ اجتماعی ماحول میں نماز کے ذریعے منعم اور گدا کے فاصلوں کو کم سے کم تر کیا جا سکے۔روزہ دوسری اہم عبادت ہے جو براہ راست بھوکے کے احساسات سے آگاہی دیتا ہے اور امیر کے اندر وہ احساس جگاتا ہے کہ بھوک کی حالت میں غریب آدمی پر کیا بیتتی ہے۔حج،زیارت بیت اللہ تعالی کے بے شمار اثرات ہیں جو فرد اور معاشرے سے لے کر عالمی اداروں اور بین الاقوامی معاملات تک پر اثر انداز ہوتے ہیں۔سیاست،مذہب،سماج،تعلیم اور تعلقات سمیت ان گنت پہلو ہیں جو اس عبادت سے عبارت ہیں لیکن یہ سب بوجوہ معطل بھی ہو جائیں تو معاشی پہلو،پیٹ بھرے جانے کا پہلو کبھی بھی معطل نہ ہوگا۔ایک حاجی کے حج پر جانے سے گلی محلے میں پھولوں کا ہار بنانے والیوں اور دیگوں کے پکانے والے سے لے کر بڑی بڑی حکومتوں اور ہوائی سفر کی کمپنیوں کا روزگار وابسطہ رہتا ہے،اورمکہ مکرمہ جیسی سرزمین جہاں درخت میں پھل تک نہیں اگتاوہاں دنیا بھر کی صنعتوں کا مال خریدنے کے لیے دنیا بھر کے اہل ثروت پہنچا دیے جاتے ہیں گویا ہزاروں یا لاکھوں نہیں کروڑوں خاندانوں کے پیٹ بھرے جانے کا انتظام اسی ایک سفر سعادت سے متعلق ہے۔اللہ تعالی نے اسی بات کو اہل مکہ پراپنا احسان کہ کر بتلایا کہ اس نے بھوک میں تمہیں کھانا کھلایا”الَّذِیْ اَطْعَمَہُمْ مِّنْ جُوْعٍ(۶۰۱:۴)“۔
قتال ایک اور فرض عبادت ہے جس تعلق بظاہر لڑنے اور توسیع دعوت اسلامی سے ہے لیکن اس میں بھی پیٹ بھرنے کا معاشی عنصر اس طرح موجود ہے کہ آپ ﷺ نے خود ارشاد فرمایا ہے کہ”میری امت کا رزق نیزے کی انی کے نیچے رکھ دیا گیا ہے“۔سیرت نبوی ﷺ سے یہ واضع ہے کہ مدنی زندگی کا آغازغربت، بھوک اور افلاس سے ہوا لیکن مسلسل جہاد اور قتال کی مہمات سے آہستہ آہستہ دفاع کے ساتھ ساتھ معاش کا پہلو بھی طاقتور ہوتا گیا تاآنکہ فتح خیبر کے بعد مدینہ طیبہ میں خوشحالی در آئی۔اور پھر طاقت اور معاش کو کبھی بھی علیحدہ نہیں کیا جا سکتا کہ طاقت معاش کا مقدمہ بنتی ہے اور معاش طاقت کا مقدمہ بنتا ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے اپنی آمدسعید کے بعد جن اچھے حالات کی نوید سنائی ان کا تعلق بھی معاشی خوشحالی ہی سے ہے مثلاٌ مکی زندگی میں ایک صحابی نے کافروں کے ظلم کی شکایت کی اور ان کے لیے بد دعا کرنے کو کہا،آپ ﷺ خانہ کعبہ سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے اور سیدھے ہو کر بیٹھ گئے اور فرمایا خدا کی قسم ایک وقت آئے گا کہ صنعا سے حضر موت تک سونے سے لدی پھندی ایک جوان عورت تن تنہا سفر کرے گی اور اسے سوائے خدا کے کسی کا خوف نہ ہو گا۔سفر ہجرت کے دوران سراقہ بن مالک کے ہاتھوں میں قیصروکسری کے کنگنوں کی بشارت دی اورغزوہ احزاب کے موقع پر جب غربت و افلاس اور بے سرومانی کے بادل پوری شدت سے گرج رہے تھے تو محسن انسانیت ﷺ نے روم و ایران کی فتح کی نوید سنائی۔محسن انسانیت ﷺ نے کبائر کے مرتکب افرادکے بارے میں بھی کھانا کھلانے پر مغفرت کی امثال پیش کیں مثلا ایک بدکار عورت کے بارے میں اطلاع دی کہ ایک کوئیں پرپانی پی چکنے کے بعداس نے ایک کتے کو دیکھا جوپیاس کے مارے کیچڑ چاٹ رہا تھا،اس بدکار عورت نے کوئیں سے پانی نکال کر اس جانور کو پلایا،اس (معاشی)عمل کے عوض اللہ تعالی نے اس اسکے سارے گناہ معاف کر دیے۔ایک عابد نے چار سوسال عبادت میں سرف کر دیے،ابلیس عورت کی شکل میں اس کے سامنے ظاہر ہوا تو وہ عابد اس سے لذت اندوز ہو چکا۔بعد از گناہ حصول طہارت کے لیے جھیل پر گیااور چار روٹیاں ساتھ لیتا گیا۔دوران غسل ایک مسافر کی درخواست پر اشارے سے اسے دو روٹیاں کھا لینے کی اجازت دے دی۔قیامت کے دن جب نامہ اعمال پیش ہوا تو چار سو سال کی عبادت چند لمحوں کی لذت کے برابر ٹہر گئی اور دو روٹیوں کا اشارہ ہی باعث مغفرت ثابت ہوا۔
شریعت محمدی ﷺ میں گناہوں کے کفارے کے اعمال عموماٌ تین طرح کے ہیں،پہلی قسم غلام آزاد کرناجبکہ محسن انسانیت ﷺ کی بعثت مبارکہ کرہ ارض سے غلامی کے خاتمے کا مقدمہ بنی،دوسری قسم روزے رکھناجن کی تعداد اور بعض شرائط ایسی ہیں کہ دشوار ترین تب محض تیسری قسم رہ جاتی ہے کہ کھانے کھلائے جائیں اور گناہوں کے کفارے ادا کیے جائیں مثلاٌ قسم توڑ دی تو دس مساکین کو کھانا کھلایا جائے۔جب کہ جو روزہ توڑ بیٹھے وہ ساٹھ مساکین کے کھانے کا اہتمام کرے۔حج کی ادائگی میں کوئی غلطی کوتاہی ہو جائے تو قربانی کرے اور احرام کی حالت میں شکار کر بیٹھے تو قربانی دے وغیرہ۔کھانا کھلانا اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کا اس قدر پسندیدہ عمل ہے کہ بعض مراسم عبودیت کے ساتھ اسے لازم قرار دے دیا گیا ہے بلکہ دیگر عبادات کی تکمیل اور شکرانے کے ساتھ اسے مشروط کر دیا گیا ہے مثلاٌرمضان میں سارا ماہ بھوکے پیاسے رہ کر گزارا لیکن جب تک فطرانہ ادا نہ ہو جائے روزے آسمان تک نہ پہنچ پائیں گے،حج کی تکمیل میں قربانی،سال کی تکمیل پر قربانی،فصل اترنے پر عشر کا وجوب،نصاب کے بقدر مال پر سال گزرنے سے زکوۃ کی فرضیت،حتی کہ جو محسن انسانیت ﷺ سے علیحدگی میں ملناچاہے وہ بھی پہلے صدقہ کر کے آئے،نکاح کیا ہے تو ولیمہ کرے،بچہ کی پیدائش پر عقیقہ کرے اور نومولود کے سر کے بالوں کے ہم وزن چاندی صدقہ کرے یہاں تک کہ جس کے گھر کوئی فوت ہو جائے تو اسکی تالیف قلب بھی اس طرح کی جائے تین دن تک اس کے ہاں کھانا بھیجا جائے۔اللہ تعالی نے اپنی محبت کا واسطہ دے کر مسکین،یتیم اور گرفتار کو کھانا کھلانے کا تقاضا کیا ہے،اپنے راستے میں مال خرچ کرنے کوسات سو گنا بڑھا کر لوٹانے کا وعدہ کیاہے،اوراسے اپنے ذمہ قرض قرار دیاہے۔محسن انسانیت ﷺ نے موقع بہ موقع کھانا کھلانے کا شوق بیدار کیا کہ جو خود پیٹ بھر کر سویااور اس کا پڑوسی بھوکا سو گیا وہ ہم میں سے نہیں،جس بستی میں کوئی بھوکا سو جائے اس بستی پر سے اللہ تعالی کی ذمہ داری ختم,اور محسن انسانیت ﷺ نے گھر آئے مہمان کو بغیر کھلائے پلائے رخصت کر دینے والے میزبان کو مردہ کہا۔بھوکے اور غریب کا استحصال کرنے والے سود خور کو اللہ تعالی اور اسکے رسول ﷺ کے خلاف اعلان جنگ کا عندیہ ہے،سونا چاندی سینت سینت کر رکھنے والے کو عذاب دوزخ کی وعید ہے،اور فضول خرچ کو شیطان کا بھائی گردانا گیا۔نبوی معاشرے کے تسلسل،دورخلافت راشدہ میں مانعین زکوۃ سے جنگ لڑی گئی۔دور فاروقی میں جب اسلامی انقلاب،نبوی پیشین گوئیوں کی منازل کو چھو رہا تھاتو سب انسان مسلمان نہیں ہو گئے تھے اور نہ ہی سب مسلمان متقی و پرہیزگارہو چکے تھے لیکن انسان کی بھوک شکم سیری میں ضرور بدل چکی تھی اور ہر پیدا ہونے والا بچہ شہری کی حیثیت سے حکومت وقت سے اپنا مشاہیر وصول کرتا تھااورمعاشی خوش حالی درآئی تھی۔
زکوۃ و عشر:زکوۃ کا مطلب طہارت و پاکیزگی ہے،اور عشر کا مطلب دسواں حصہ ہے،اسلامی تعلیمات میں زکوۃ و عشر مالی عبادات کے لیے استعمال ہونے والی اصطلاحات ہیں۔زکوۃ پانچ ارکان اسلام میں سے تیسرا اہم رکن ہے، ”زکوۃکسی مالدار آدمی کا بالارادہ اپنے مال میں سے ایک متعین حصہ چند مخصوص مصارف میں خرچ کیے جانے کے لیے الگ کر دینا ہے“ یا”زکوۃ مال کا وہ مقرر حصہ ہے جس کا نیت زکوۃ کے ساتھ ادا کرنا صاحب نصاب پر واجب ہوتا ہے تاکہ اسے اسکے متعین مصارف میں خرچ کیا جا سکے“۔زکوۃ کی ادائگی کے لیے مال کی کم سے کم مقدارسونا 85گرام(ساڑھے سات تولہ) یا چاندی 234(ساڑھے باون تولہ)گرام کے برابر ہے،اصطلاح میں اسے نصاب زکوۃ کہتے ہیں، جو ایک قمری سال کی مدت تک کسی کے پاس رہے تو 2.5%کی شرح سے زکوۃ فرض ہو جاتی ہے کیونکہ حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ اگر تمہارے پاس دو سو درہم ایک سال تک رہیں تو ان میں سے پانچ درہم زکوۃ کے طور پر ادا کرو۔سونے چاندی کے علاوہ زمین،جائداد،مال تجارت اور مال مویشیوں پر بھی زکوۃ عائد ہوتی ہے۔ہر اس زرعی پیداوار پر بھی زکوۃ ہے جسے سکھا کر ذخیرہ کیا جاتا ہے اور پیمانوں سے ناپ کر فروخت کیا جاتا ہے،نیز ایسی زرعی پیداوار پر بھی زکوۃ ہے جس کو نچوڑ کر محفوظ کر لیا جاتا ہے،خشک کی جانے والی پیداوار کی مثال گندم،چاول،مکئی اور دالیں وغیرہ ہیں۔حضرت عمر فاروق ؓ کے نزدیک سبزیوں اور پھلوں پر زکوۃ نہیں مگر یہ کہ وہ مکیلات میں سے ہوں۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا کہ غلہ اور کھجور جب تک پانچ وسق(32من)سے زائد نہ ہوں ان پر زکوۃ واجب نہیں اور نہ پانچ اونٹوں سے کم پر اور نہ پانچ اوقیہ (52.5تولے(سے کم چاندی پر زکوۃ واجب ہے۔آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جو فصل بارش،دریا اور چشموں سے سیراب ہو یا زمین کی تری سے پیدا ہو اس پر دسواں حصہ (10%)لیا جائے گا اورجو مصنوعی آبپاشی سے سیراب کیا جائے اس سے بیسواں (5%)حصہ لیا جائے۔زکوۃ وعشر مالی عبادت ہے یعنی اللہ تعالی نے مسلمانوں کے مال کو پاک کرنے کے لیے ان پر زکوۃ فرض کی ہے۔زکوۃ امیروں سے لے کر غریبوں میں تقسیم کی جاتی ہے اس طرح دولت گردش کرتی ہے،معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کم ہوتے ہیں،بھوک افلاس اور غربت کا خاتمہ ہوتا ہے اور اللہ تعالی خوش ہوتا ہے۔
زکوۃ کی فرضیت کی تین شرائط ہیں:
1۔زکوۃ کی فرضیت کی پہلی شرط:۔نصاب:
نصاب سے مراد وہ کم سے کم مال ہے جس پر زکوۃ فرض ہو جاتی ہے۔زکوۃ کا نصاب 87.5گرام(7.5تولے) سونا یا234.4گرام(52تولے(چاندی ہے۔اتنے وزن کا سونا یا چاندی یا ان کی بازاری قیمت کے برابر یا اس سے زائد کازرو مال،جائداد یا سامان تجارت،دفینہ،خزانہ یامتاع نقدوغیرہ اگر ہو تو یہ فرضیت زکوۃ کی پہلی شرط مکمل ہو جائے گی۔
2۔زکوۃ کی فرضیت کی دوسری شرط:۔مد ت:
نصاب کے بقدر یا اس سے زائدزرومال و جائداد یا سامان تجارت پر ایک ہجری سال کی مدت گزر جانے سے زکوۃ کی فرضیت کی دوسری شرط بھی پوری ہو جاتی ہے۔یعنی مال نہیں تھا یا نصاب سے کم تھا اور یکم محرم کو مال آیا یا نصاب کے برابر یا اس سے زائد ہو گیا اور ایک سال تک وہ مال نصاب سے کم نہیں ہوا تاآنکہ اگلے سال کی یکم محرم کا چاند اس پر طلوع ہو گیا۔
3۔زکوۃ کی فرضیت کی تیسری شرط:۔عدم ذاتی استعمال:
شریعت اسلامیہ نے اس مال و جائداد اور سامان پر زکوۃ فرض کی ہے جو ذاتی استعمال میں نہ ہو۔صرف اس سامان،مال یا جائداد پر زکوۃ فرض ہے جو تجارتی یاکاروباری استعمال میں ہو یا مشکل وقت میں کام لانے کے لیے جمع کر کے سنبھال رکھا ہو،یہ زکوۃ کی فرضیت کی تیسری شرط ہے۔ایسا مکان جو برائے فروخت ہو اس پر زکوۃ فرض ہے لیکن وہ مکان جس میں ذاتی رہائش اختیار کی ہو اس پر زکوۃ نہیں ہے۔جو گاڑی ذاتی استعمال میں ہے اس پر زکوۃ عائد نہیں ہوتی۔جس چیزمیں گھسنے یافرسودگی کا عمل جاری ہو اس پر بھی زکوۃ عائد نہیں ہوتی،جیسے فیکٹری کی مشینری پر زکوۃ عائد نہیں ہو گی یا کرایہ پر چلنے والی کار پر بھی زکوۃ عائد نہیں ہو گی۔
شرح زکوۃ:
مال و اسباب اور جائداد پر مذکورہ بالا تینوں شرائط پوری ہونے پر1/40یعنی 2.5%کی شرح سے سالانہ زکوۃ ادا کرنی ہے۔
عشر:
فصلوں کی زکوۃ عشر کہلاتی ہے۔اسکی فرضیت کی کوئی شرط نہیں،جتنی بھی فصل اترے اور جتنی مدت کے بعد اترے اس پر عشر فرض ہے۔وہ فصل گھر کے پودے سے حاصل کی جائے یاکھیتوں سے اور چند ماہ بعد حاصل ہو یا سالوں بعد،جب بھی اور جتنی بھی فصل تیار ہو گی اس میں سے عشر نکالنا فرض ہے۔
عشر کی مقدار:
عشر کے اعتبار سے زمین کی دو قسمیں کی جاتی ہیں،ایک وہ زمین جس کی سیرابی کے لیے کاشتکار کو پانی کا معاوضہ دینا پڑے،وہ معاوضہ آبیانے کی شکل میں ہو،بجلی کے بل کی شکل میں ہو،ٹیوب ویل کے ایندھن کی شکل میں ہو یا پانی کھینچنے والے جانوروں کے چارے کی شکل میں ہو وغیرہ ان سب صورتوں میں عشر کی مقدار پانچ فیصد(5%) ہو گی یعنی کسی پودے پر بیس ٹماٹر اگے ہیں تو ان میں سے ایک ٹماٹر کے برابر عشر نکالا جائے۔
عشر کے اعتبار سے زمین کی دوسری قسم وہ ہے جس کی آبیاری کے لیے کاشتکار کو کسی طرح کی ادائگی نہیں کرنی پڑتی ایسی زمینیں بارش سے سیراب ہوتی ہیں اور بارانی زمینیں کہلاتی ہیں۔ان زمینوں سے حاصل ہونے والی فصلوں پر عشر کی مقدار دس فیصد(10%) ہے۔یعنی اگردس لیموں اگے ہیں تو ان میں سے ایک لیموں کے برابر عشر ادا کرنا ہو گا۔
خمس:
اتفاقی واقعے کے نتیجے میں دولت کی کثیر مقدار ہاتھ آ جانے پر جو زکوۃ فرض ہوتی ہے اسکو خمس کہتے ہیں۔ خمس کی ادائگی کے بعد ایسی دولت کا استعمال جائز ہو جاتا ہے۔خمس کی مقدار بیس فیصد(20%) ہے،لیکن شرط یہ ہے کہ ایسی دولت کو جائز طریقے سے میسر آئی ہو جیسے کسی کو اپنے گھر کی کھدائی کے دوران کوئی خزانہ مل گیا وغیرہ۔اگر سونے کی سو اشرفیاں ملی ہیں تو ان میں سے بیس کے برابر خمس ادا کرنا ہو گا۔
سورۃ توبہ کی آیت 60میں اللہ تعالی نے ان لوگوں کی ایک فہرست دی ہے جنہیں زکوۃ دی جا سکتی ہے” اِنَّمَا الصَّدَقٰتُ لِلْفُقَرَآءِ وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْعٰمِلِیْنَ عَلَیْہَا وَ الْمُؤَلَّفَۃِ قُلُوْبُہُمْ وَ فِی الرِّقَابَ وَ الْغَارِمِیْنَ وَ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ(۹:۰۶)“،اس آیت کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔فقرا
2۔مساکین
3۔محکمہ زکوۃ کے ملازمین
4۔تالیف قلب کے لیے
5۔غلاموں کی آزادی کے لیے
6۔قرض داروں کی مدد کے لیے
7۔اللہ تعالی کی راہ میں۔
وارث کوزکوۃ نہیں دی جا سکتی مثلا والدین اور اولادایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے،میاں بیوی ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے وغیرہ۔ اسی طرح غیر مسلم کو بھی زکوۃ نہیں دی جا سکتی تاہم دیگر صدقات غیر مسلموں کو دیے جا سکتے ہیں۔جبکہ آل رسولﷺ کو بھی زکوۃ وصدقات کی ممانعت ہے اور جس کی کفالت شرعاََواجب ہو انکو بھی زکوۃ نہیں دی جا سکتی۔زکوۃ کی ادائگی کے لیے ایک شرط”تملیک“بھی ہے،یعنی زکوۃ اس کو دی جاسکتی ہے جووصول کرکے اس کامالک بن سکے۔چنانچہ زکوۃ کی رقم سے مردے کاکفن دفن نہیں ہو سکتاکیونکہ مردے میں تملیک عنقاہوتی ہے وغیرہ،اسی طرح مسجد میں بھی زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔البتہ قریب ترین غیروارث رشتہ دار زکوۃ کے اولین حق دارہیں۔کسی مستحق زکوۃ کو کسی اوربہانے سے زکوۃ دیناجائزہے۔چنانچہ مستحق زکوۃ رشتہ داروں یادیگر اقرباو احباب و پڑوسیوں کو ہدیہ،تحفہ،نذرانہ،شکرانہ،قرض یاکسی بھی اور بہانے سے زکوۃ دے دینی چاہیے تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔
نظام زکوۃ:
زکوۃ کی تقسیم ایک نظام کے تحت ہونی چاہیے کہ معاشرے کے امیر لوگ ایک جگہ زکوۃ جمع کرائیں اور غریب لوگوں میں تقسیم کر دی جائے اس طرح غربا اورسفیدپوش لوگوں کابھرم قائم رہے اورفرد فردکااحسان مندہونے کی بجائے معاشرے کااحسان مند رہے گا۔اللہ تعالی نے نیک لوگوں کی یہ صفت گنوائی ہے کہ جب ہم انہیں زمین میں اقتداردیتے ہیں تووہ نظام صلوۃ اور نظام زکوۃ قائم کرتے ہیں۔ضروری نہیں کہ اس نظام کے لیے حکومت یاریاست کے اداروں کی قانون سازی کاانتظارکیاجائے۔اپنے خاندان میں یہ نظام قائم کیاجاسکتاہے،ایک مسجدکے نمازی اپنے قرب و جوار کے لیے یہ نظام قائم کرسکتے ہیں یاایک بستی،ایک دفتریاایک کارخانے کے لوگ مل کر اس نظام کی داغ بیل ڈال سکتے ہیں وغیرہ۔اگر اجتماعی نظام موجود نہ ہو تو پھر انفرادی طور پر تقسیم کی جا سکتی ہے تاہم یہ شرط ہے کہ ایک جگہ سے اکٹھی کی گئی زکوۃ اسی جگہ ہی تقسیم کی جائے گی۔اور اس بستی میں مستحقین زکوۃ نہ ہوں یا دوسری بستیوں میں ہنگامی صورت حال ہوتو ایک بستی کی زکوۃ دوسری بستیوں میں بھی تقسیم کی جا سکتی ہے۔
آداب زکوۃ:
زکوۃ دیتے ہوئے درج ذیل امور کا خیال رہنا چاہیے:
1۔حلال مال میں سے زکوۃ دی جائے:
اللہ تعالی پاک ہے اور پاکیزہ مال کو پسند کرتا ہے،چنانچہ زکوۃ صرف حلال مال سے ہی ادا کی جا سکتی ہے،ظلم و جبر،زیادتی اور ناجائز و حرام ذرائع سے حاصل کیا گیا مال اور اس سے نکالی گئی زکوۃ اللہ تعالی قبول نہیں کرتا۔
2۔مال کا مالک ہو:
زکوۃ صرف مال کا مالک ہی ادا کرے گا وہ مال کسی اور کے پاس ہو تو اسکو زکوۃ ادا کرنے کا حکم نہیں ہے الا یہ کہ مالک اسے اجازت دے دے یعنی اپنے مال میں سے ہی زکوۃ ادا کی جا سکتی ہے۔
3۔صرف اللہ کی رضا و خوشنودی مطلوب ہو:
زکوۃ سمیت تمام نیک کام صرف اللہ تعالی کے لیے کرنے چاہیں،اللہ تعالی کو خوش کرنے کے علاوہ تھوڑا سا بھی کوئی اور مقصد ہو تو ایسا کام مشکوک ہو جاتا ہے اس لیے کہ اللہ تعالی اپنے ساتھ تھوڑا سا شرک بھی برداشت نہیں کرتا۔
4۔احسان نہ جتلایا جائے:
زکوۃ دے احسان نہیں جتلانا چاہیے اور نہ ہی کسی طرح کی کوئی تکلیف دینی چاہیے اور نہ ہی کوئی بدلہ مانگنا چاہیے،ایسا کرنے سے سارا اجر ضائع ہو جاتا ہے اور اللہ تعالی ناراض ہوتا ہے۔اللہ کے راستے میں اس طرح خرچ کرنا چاہیے کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے کو خبر بھی نہ ہو۔اجتماعی نظام سے زکوۃ کی تقسیم اس مقصد کوحاصل کرنے میں ممدومعاون ثابت ہوسکتی ہے۔
5۔زکوۃ اچھے مال میں دی جائے:
آپ ﷺ جب عامل زکوۃ کو بھیجتے تو اسے نصیحت فرماتے کہ نہ ہی تو بہت اچھا مال لینا اور نہ ہی بہت برا چنانچہ عامل زکوۃ مالک کے تمام جانوروں میں سے درمیانے درجے کے جانور زکوۃ کے طور پر وصول کرتا تھا۔پس یہ آداب زکوۃ میں سے ہے کہ اللہ کے راستے میں ایسا مال دیا جائے جو قابل قبول ہو اور ایسا مال ہر گز نہ دیا جائے جو اگر خود کو ملے تو لینے سے انکار کر دے سوائے مجبوری کے۔آج کل کرنسی نوٹ کارواج ہے چنانچہ اللہ تعالی کوخوش کرنے کے لیے نوٹوں میں سے سب سے نئے اورچمکتے ہوئے کرنسی نوٹ اللہ تعالی کے راستے میں دیے جائیں۔
زکوۃ کے نتائج و ثمرات
1۔مال کی پاکیزگی:
زکوۃ کی ادائگی سے مال و دولت پاک صاف ہو جاتے ہیں۔ہر مسلمان کی کوشش ہونی چاہیے کہ رزق حلال ہی کمایا جائے،تاہم رزق حلال کے حصول میں بھی بعض اوقات مجبوراٌ یا رواجاٌ بہت مشکل ہو جا تا ہے کہ ناپسندیدہ امور سے بچ جایا جائے،اس صورت میں اگر مشکوک رزق شامل مال ہو جائے تو زکوۃ اس سارے مال کی پاکیزگی باعث بن جاتی ہے۔
2۔دولت کی محبت میں کمی اور صالح سوسائٹی کا قیام:
فطری طور پر انسان مال کی محبت میں گرفتار ہے اور یہ محبت بعض اوقات بہت زیادہ قباحتیں پیدا کرتی ہے اور انسان کو ہوس نفس کا پجاری اور لالچی و خود غرض بنا دیتی ہے،زکوۃ کی ادائیگی سے انسان ایسی قربانی دیتا ہے کہ اس کے دل سے دولت کی محبت کم ہو جاتی ہے اور وہ دولت کی محبت کی قباحتوں سے بچ جاتا ہے۔
مولانا مودودیؒلکھتے ہیں:”قرآن پاک میں اللہ تعالی دو قسم کے کرداروں کو پیش کرتا ہے،ایک کردار خود غرض،زرپرست اور شائلاک قسم کے انسان کا ہے جو خدا اور خلق کے حقوق سے بے پروا ہو کرروپیہ گننے اور گن گن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے اسکو بڑھانے اور اسکی بڑھوتری کا حساب لگانے میں منہمک ہو۔دوسرا کردار ایک خدا پرست،فیاض اور ہمدرد انسان کاکردار ہے جو خدا اور خلق خدا دونوں کا خیال رکھتاہو،اپنی قوت بازو سے کما کر خود کھائے اور دوسرے بندگان خدا کو بھی کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔پہلی قسم کا کردار خدا کو سخت ناپسند ہے،دنیا میں اس کردار پر کوئی صالح سوسائٹی نہیں بن سکتی اور آخرت میں ایسے کردار کے لیے غم و اندوہ اورکلفت و مصیبت کے سوا کچھ نہیں،بخلاف اس کے اللہ تعالی کو دوسری قسم کا کردار پسند ہے اس سے دنیا میں صالح سوسائٹی بنتی ہے اور وہی آخرت میں انسان کے لیے موجب فلاح ہے“۔
3۔گردش دولت:
زکوۃ کی ادائیگی سے معاشرے میں گردش دولت جنم لیتی ہے اور پیسہ چند ہاتھوں میں سمٹ آنے کی بجائے بہت سارے ہاتھوں میں گردش کرتا ہے اور جب پیسہ بہت سارے ہاتھوں میں گردش کرے گا تو بہت سارے لوگوں کے وہ مسائل ختم ہو جائیں گے جو رقم نہ ہونے کے باعث پیدا ہوتے ہیں۔”سرمایا دارانہ نظام کا پورا ڈھانچہ ایسی نہج پر کھڑا کیا گیا ہے کہ قدرتی طور پر اس میں دولت کی گردش ناہموار رہتی ہے،پورے سماج کی دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میں مرکوز ہو جاتی ہے اور دیگر افراد معاشرہ غریب سے غریب تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔اسلام گردش دولت کی اس ناہمواری کا شدت سے سدباب کرتا ہے،سود کی حرمت اور نظان زکوۃ کے نفاذ کے ذریعے اس بات کا اہتمام کرتا ہے کہ دولت چند ہاتھوں میں سمٹنے کی بجائے پورے معاشرے میں گردش کرتی رہے“(محمدنعیم عثمانی)۔
4۔ارتکاز دولت کا خاتمہ:
گردش دولت کا لازمی نتیجہ ارتکاز دولت کا خاتمہ ہے،ارتکاز دولت کے خاتمے سے معاشرے میں کاروبار چمکتے ہیں،روزگار کھلتے ہیں اور خوشحالی آتی ہے جس سے انسانی معاشرہ ترقی کرتا ہے اور غربت و جہالت میں کمی ہوتی ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”تین اشیا میں سب انسان برابر کے شریک ہیں آگ،سبزا اور پانی“۔آگ سے مراد وہ سب ایندھن جن سے توانائی حاصل کی جاتی ہے،سبزہ سے مراد جنگلات اور ان میں پلنے والا شکار اور پانی سے مراد تمام آبی اور زیر زمین وسائل ہیں،حکومت ان وسائل سے حاصل ہونے والی آمدنی تمام آبادی میں برابر تقسیم کر دے تو معاشی مسئلہ پیدا ہی نہ ہو اور ارتکاز دولت کا خاتمہ ہو جائے۔
5۔طبقاتی کشمکش کا خاتمہ:
جب دولت چند ہاتھوں میں ہو تو وسائل سے محروم طبقوں میں اہل دولت کے خلاف نفرت و حقارت پرورش پاتی ہے اور معاشرتی طبقوں کے درمیان فاصلے بڑھتے ہیں اور بعض اوقات اتنے بڑھ جاتے ہیں ایک دوسرے کو برداشت بھی نہیں کرتے۔سوشلزم اور کیمونزم کی شکل میں انسانیت نے جو تباہ کن تجربات کیے وہ اسی طبقاتی کشمکش کا نتیجہ تھے۔اسکے برعکس زکوۃ امیر اور غریب کے درمیان فاصلے کم کر کے کشمکش کی بجائے پیار و محبت کو پروان چڑھاتی ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”جن کے پاس قور یا طاقت(سواری)کا سامان اپنی حاجت سے زیادہ ہو اسے چاہیے کہ کہ وہ فاضل سامان اس محتاج کو دے دے جس کے پاس کچھ نہیں،جس شخص کے پاس اشیائے خودرونوشت ضرورت سے زائد ہوں وہ اپنا فاضل سامان محتاج کو دے دے،حضرت ابو سعید خدری فرماتے ہیں اس طرح محسن انسانیت ﷺ مختلف انواع مال کا ذکر کرتے رہے حتی کہ ہم نے گمان کر لیا کہ ہم میں سے کسی شخص کو اپنے فاضل مال پر کسی قسم کا کوئی حق نہیں“۔
7۔غربت جہالت اور جرائم میں کمی اور اقتصادی توازن:
پیٹ بھرجائے تو بچہ آرام کی نیند سوتا ہے اور پیٹ خالی ہو تو وہ معصوم بھی سارا گھر سر پر اٹھا لیتا ہے اسی طرح جس معاشرے میں بنیادی ضروریات جن میں خوراک،صحت اور تعلیم شامل ہیں پوری ہوتی رہیں تو وہاں امن و امان رہتا ہے اور جہاں ایک طرف توامیر لوگوں کے جانور بھی عیش و آرام اور سکون کی نیند سوئیں اور دوسری طرف انسانوں کی بنیادی ضروریات بھی پوری نہ ہوں پھر وہاں غربت جہالت اور انکے نتیجے میں جرائم بڑھ جاتے ہیں جبکہ زکوۃ کا فریضہ انسانی معاشرے کو اس برے انجام سے محفوظ رکھتا ہے۔محسن انسانیت ﷺ نے فرمایا ”ایک علاقے کے امرا سے زکوۃ وصول کر کے اسی علاقے کے غرباء میں تقسیم کرو“۔
ماہر القادری لکھتے ہیں:”اس حکم پر عمل کرنے سے ایک بستی میں اقتصادی توازن پیدا ہو گا اور امیروں کی زکوۃ پر غربا اپنی روزمرہ زندگی کی بنیاد رکھیں گے اور اپمی ہمت و توانائیوں سے محنت و مزدوری کر کے تو اس قابل ہو سکیں گے کہ زکوۃ دینے کے قابل ہو سکیں چنانچہ معاشی عدم توازن سے پیدا ہونے والی طبقاتی کشمکش کا سدباب ہو سکے گا۔یہ نکتہ کارل مارکس اور اینجلز کی سمجھ میں آ جاتا تو وہ ایک غیر فطری فلسفہ اقتصادیات میں اپنی توانائیاں ضائع نہ کرتے“۔
8۔ زکوۃ ادا کرنے سے مال بڑھتا ہے:
قرآن میں اللہ تعالی کا وعدہ ہے کہ جو اسکے راستے میں خرچ کرے گا اللہ تعالی اسے بڑھا چڑھا کر اس دنیا میں بھی دے گا اور آخرت میں بھی دے گا اور اللہ تعالی سے بڑھ کر اور کون اپنا وعدہ پورا کرنے والا ہے؟ قرآن نے یہ بھی بتایا کہ صدقات سے بظاہر دولت کم ہوتی نظر آتی ہے لیکن اصل میں بڑھ رہی ہوتی ہے اور سود سے بظاہر دولت بڑھتی ہوئی نظر آتی ہے جبکہ حقیقت میں کم ہو رہی ہوتی ہے اور قرآن سے زیادہ سچی کتاب اس زمین کے سینے پر موجود نہیں۔محسن انسانیت ﷺ کے ہاں ایک بار بکری ذبح ہوئی،گھر تشریف لائے تو پوچھا (بکری میں سے)کیا بچا ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنھا نے فرمایا ایک دستی بچی ہے(باقی غریبوں میں تقسیم کر دیا تھا)آپ ﷺ نے فرمایا یوں کہو کہ ایک دستی خرچ ہو گئی ہے جو(غریبوں میں)تقسیم کر دیا ہے وہ بچ گیا ہے۔اسی طرح ایک بار اپنے مقدس و محترم ساتھیوں سے پوچھا کس کو اپنا مال پسند ہے اور کس کو اپنے وارث کا مال پسند ہے؟سب نے جواب دیا کہ ظاہر ہے ہر کسی کو اپنا مال ہی پسند ہے بھلا وارث کا مال کسے پسند ہو؟ آپ ﷺ نے فرمایا جو اللہ تعالی کے راست میں دے دو گے وہ تمہارا ہے اور جو بچا کے رکھ چھوڑو گے وہ تمہارے وارث کا ہے۔
9۔اجتماعی فکر:
محسن انسانیت ﷺ نے زکوۃ کو ایک سرکاری ادارے کی حیثیت سے متعارف کرایا اور اسکی تقسیم کا اجتماعی انتظام کیا تاکہ فرد،فرد کا احسان مند ہو کر اپنی عزت نفس ختم کرنے کی بجائے فرد معاشرے کا احسان مند ہو۔
ابوالکلام آزاد لکھتے ہیں ”اسلامی نظم معیشیت میں بلاشبہ زیادہ کمانے والے موجود ہوں گے کیونکہ سعی و کسب کے بغیر کوئی مومن زندہ نہیں رہ سکتا،لیکن جو فرد جتنا زیادہ کمائے گا اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مجبور ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی اتنا ہی زیادہ انفاق پر بھی مجبور ہوگا اور اس لیے افراد کی کمائی جتنی بڑھتی جائے گی جماعت بحیثیت جماعت کے خوشحال ہوتی جائے گی“۔
ایک مسلمان جب اپنے مال میں سے زکوۃ کی رقم لے کر باہر نکلتا ہے تاکہ کسی غریب کی ضرورت کو پورا کرے تو اس وقت وہ اللہ تعالی سے جتنا قریب ہوتا ہے اسکا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔وہ غریبوں کی دعائیں لیتا ہے،انکی ہمدردیاں سمیٹتا ہے،انکی عزت و احترام کا مستحق ٹہرتا ہے اور معاشرے سے جتنی محبتیں اسے میسر آتی ہیں اس کو ناپنے کا کوئی پیمانہ موجود نہیں ہے چنانچہ اس شخص سے اللہ تعالی اپنا وعدہ پورا کرتا ہے اور اسکے مال خرچ کرنے کے نتیجے میں اسکے گناہ معاف کر دیتا ہے۔
10۔رضائے الہی:
یہ سب سے بڑا فائدہ ہے جو زکوۃ ادا کرنے والے کو حاصل ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اس سے خوش ہو جاتا ہے،اسے اپنا قرب عطا کرتا ہے،اسکے درجات بلند کرتا ہے،اسے گناہوں سے پاک صاف کر دیتا ہے،اسکے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے،اسکی سرپرستی و دست گیری فرماتا ہے،مشکل وقت میں اسکو اکیلا نہیں چھوڑتا،اسکے دوستوں کو اپنا دوست بناتا ہے اور اسکے دشمنوں کو سخت سزا دیتا ہے،خوف اور غم سے اسکی حفاظت کرتا ہے اسے اپنے اولیا میں شامل کرتا ہے اس پر اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے اس پر اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتا ہے اور اسے مزید توفیق عطا کرتا ہے کہ وہ انسان اللہ تعالی کے راستے میں خرچ کرتا چلا جائے۔یہاں تک کہ وہ زکوۃ ادا کرنے والا اپنے رب کے حضور پیش ہو تا ہے توحیران رہ جاتا ہے کہ اس کے رب نے اس کے لیے کیسی عالیشان جنت تیار کر رکھی ہے۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...