بارودی سرنگیں:اندھا اور خاموش قاتل
اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ”مِنْ اَجْلِ ذٰلِکَ کَتَبْنَا عَلٰی َبنِیْٓ اِسْرَآءِ یْلَ اَنَّہ‘ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَآ قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَ مَنْ اَحْیَاہَا فَکَاَنَّمَآ اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا وَ لَقَدْجَآءَ تْہُمْ رُسُلُنَا بِالْبَیِّنٰتِ ثُمَّ اِنَّ کَثِیْرًا مِّنْہُمْ بَعْدَ ذٰلِکَ فِی الْاَرْضِ لَمُسْرِفُوْنَ(۵:۲۳)“:ترجمہ”اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر یہ فرمان لکھ دیاتھاکہ جس نے کسی انسان کوخون کے بدلے یازمین میں فسادپھیلانے کے سواکسی اوروجہ سے قتل کیااس نے گویاتمام انسانوں کوقتل کردیااورجس نے کسی کی جان بچائی اس نے گویاتمام انسانوں کوزندگی بخش دی،مگران کاحال یہ ہے کہ ہمارے رسول پے درپے ان کے پاس کھلی کھلی ہدایات لے کر آئے پھربھی ان میں بکثرت لوگ زمین میں زیادتیاں کرنے والے ہیں“۔یہ قرآن مجید کی عظمت ہے کیونکہ قرآن نے ایک مسلمان کے قتل کی بجائے ایک انسان کے قتل کا ذکر کیا اور ساتھ یہ بھی فرمایاکہ ایک انسان کو بچانا گویا پوری انسانیت کو بچانا ہے۔بارودی سرنگیں وہ خاموش قاتل ہیں جو راستے میں پڑی اپنا پتہ دیے بغیر انسان کے درپے ہوجاتی ہیں اور تھوڑا سا چھونے سے ہی ان میں موجود بارود اس زور سے پھٹتاہے کہ ایک فاصلے تک ساتھ کھڑے سب جاندار لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔یہ انسان دشمنی ہے کہ راستوں کو اس قدر غیر محفوظ کر دیا جائے کہ وہاں سے گزرنے والے انسانوں کو موت کا آسیب نگل لے۔ظالم لوگ بارودی سرنگیں صرف خشکی کے راستوں میں ہی نہیں بلکہ دریائی اور سمندری راستوں میں بچھاتے ہیں اور اس طرح ان سے ٹکرانی والی آبدوزیں، کشتیاں اور بحری جہاز تباہ ہوکر ڈوب جاتے ہیں اور ان میں موجود انسان پانی کی قبر میں دفن ہو جاتے ہیں۔بارودی سرنگ ایک ایسا ہتھیار ہے جس سے انسان،فوجی ذرائع رسل اور بحری کشتیوں کوتباہ کیاجاتاہے۔دوسرے ہتھیاروں کی نسبت یہ ہتھیاراس لیے مختلف ہے کہ دوسرے ہتھیاردشمن کا پیچھاکرتے ہیں،اگر نشانے پر لگے تو دشمن ہلاک وگرنہ دشمن بچ جاتا ہے جبکہ بارودی سرنگ وہ ہتھیار ہے جس تک دشمن خود پہنچ جاتاہے اور تباہی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔جب دشمن کو نشانہ بنایا جائے تو دشمن ہی نشانہ بنے گالیکن دشمن کو بارودی سرنگ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیاجائے تو ممکن ہے وہ دشمن کی بجائے عام شہری کو ہی نگل لے۔میدانی بارودی سرنگ تو پہلی جنگ عظیم سے پہلے وجود میں آ گئی تھی لیکن دوسری جنگ عظیم کے بعد سے بحری بارودی سرنگیں بھی استعمال کی جانے لگیں۔
بحری بارودی سرنگیں خاص قسم کی کشتیوں سے یا بعض اوقات خاص قسم کے ہوائی جہازوں سے پانی میں گرائی جاتی ہیں،یہ پانی میں اتنا ڈوب جاتی ہیں کہ نظر نہ آئیں کیونکہ ان میں تھوڑی سی ہوا بھی بھری جاتی ہے تاکہ یہ بھاری بھرکم ہتھیار پانی کی تہ میں ہی جا کرنہ بیٹھ جائے اور انکا ایک حصہ اوپر تیرتارہتا ہے کیونکہ یہ ایسی چیز سے تیار کیاجاتا ہے جس میں تیرنے کی صلاحیت ہوتی ہے جو بظاہر دیکھنے سے نظر بھی نہیں آتا۔جیسے ہی کوئی آبدوز،جہاز یا کشتی اس تیرتے ہوئے حصے کی زد میں آتی ہے بارودی سرنگ میں موجود بارود کی بہت بڑی مقدار پھٹ اٹھتی ہے،یہ دھماکہ اتنا شدید ہوتا ہے اور چونکہ پانی کے نیچے سے ہوتا ہے اس لیے اسکا اولین نشانہ جہازیاکشتی کاپیندہ ہوتا جوتھوڑا سا تباہ ہو یازیادہ دونوں صورتوں میں پانی اتنی تیزی سے داخل ہوتا کہ جلد یابدیر پانی کاپیٹ اس جہاز یا کشتی کی آخری آماجگاہ بن جاتا ہے۔تب یہ ضروری نہیں کہ وہ دشمن کا فوجی جہاز ہی ہو،وہ کوئی تجارتی یا مسافری جہاز بھی ہوسکتا ہے جس میں موجود قیمتی تجارتی سامان یاانمول انسانی جانیں اس ہتھیارکاشکار ہوجائیں۔
جبکہ میدانی بارودی سرنگ خشکی کے راستوں پر بچھائی جاتی ہے۔اس بارودی سرنگ سے ایک بہت ہی باریک تار نکال کر راستے کے دونوں اطراف کے درمیان میں کھینچ دی جاتی ہے۔بحری بارودی سرنگ کے تیرتے ہوئے حصے کی طرح میدانی سرنگ کی یہ تار بھی بظاہر نظر نہیں آتی،لیکن گزرنے والا فرد یا گاڑی جب اس تار سے ٹکراتے ہیں تو اس تار کے ساتھ بندھاہوا بارودی مواد پوری قوت سے پھٹ پڑتا ہے اوراپنے زدمیں آئی ہوئی موجود ہر چیز کو تباہ کر دیتاہے۔میدانی بارودی سرنگ دو قسم کی ہوتی ہے۔پہلی قسم ٹینک کو تباہ کرنے والی ہے۔یہ بہت مضبوط اور بے پناہ قوت کی حامل ہوتی ہے،اس میں پانچ کلوگرام بارود اور اسکا کل وزن نو کلوگرام ہوتا ہے اور ایسی جگہ پر نصب کی جاتی ہے جہاں سے دشمن کے ٹینک گزرنے ہوں،اسکے پھٹنے سے ٹینک کاوہ آہنی پٹہ ٹوٹ جاتا ہے جس کے گھومنے پر ٹینک کے آگے بڑھنے کا انحصار ہوتا ہے۔پہلا ٹینک جب رک جاتا ہے تو پیچھے آنے والی فوج کی پیش قدمی ماند پڑ جاتی ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج جب حملہ کرتی ہے تو پیادے ٹینک کے عین پیچھے چل رہے ہوتے ہیں تاکہ بارودی سرنگ کی پہنچ سے بچے رہیں،اگر وہ ٹینک کے دائیں بائیں چلیں گے تو بارودی سرنگ انہیں آسانی سے شکار کر لے گی۔دوسری قسم کی میدانی بارودی سرنگ ایک فرد کو مارنے کے لیے بنائی جاتی ہے،اس میں آدھا کلو بارود ہوتا ہے۔اس قسم کی بارودی سرنگیں اپنے مورچوں کے اردگرد بچھائی جاتی ہیں تاکہ جاسوسی کے لیے آنے والے دشمن کے افراداسکا شکار ہوجائیں۔یہ لکھنے والے قلم کے حجم جتنی ہی ہوتی ہے اور انتہائی غیر محسوس طریقے سے مخصوص جگہوں پر رکھی گئی ہوتی ہے جہاں سے جاسوسی کا امکان موجود ہو۔جاسوسی کرنے والے کی پوری توجہ دشمن کے مورچے پر مرکوز ہوتی ہے اور بے دھیانی سے اس کا پاؤں جیسے ہی اس میدانی بارودی سرنگ پر پڑتا ہے تو یہ پوری قوت سے پھٹ پڑتی ہے اور اس جاسوس کو ہلاک کر دیتی ہے۔آج کل بعض بارودی سرنگوں میں بہت زہریلی قسم کی گیس بھی استعمال ہو رہی ہے اس گیس کی تاثیر سے ساتھ میں موجود انسان بس چند ثانیوں کا ہی مہمان رہ جاتا ہے اور یہ گیس پوری شدت سے اس طرح اسکے حواس جکڑتی ہے کہ انسان وہیں دم توڑ دیتا ہے، بعض مقناطیسی قوت کی حامل میدانی سرنگیں ایک قدم کے فاصلے سے انسان کو محسوس کر کے تو پھٹ پڑتی ہیں۔ایک فرد کو قتل کرنے والی میدانی بارودی سرنگوں کا استعمال دوسری جنگ عظیم کے بعد سے شروع ہوا۔
بیسویں صدی کے اختتام تک افغانستان میں شروع ہونے والی جنگ نے کم و بیش پوری دنیاکو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہواتھا اور مجاہدین آزادی ہر جگہ عام طور پر اور ایشیائی ممالک میں خاص طور پر برسرپیکار تھے۔چنانچہ ایک اندازے کے مطابق بیسویں صدی کے آخر تک ساٹھ ملین سے سو ملین تک میدانی بارودی سرنگین بچھائی گئی تھیں اور جن ملکوں میں یہ بچھائی گئیں انکی تعدا د ستر تک پہنچتی ہے اور کم و بیش پچیس ہزار افراد ان میدانی بارودی سرنگین کے ہا تھوں لقمہ اجل بنے جن میں فوجی اور غیرفوجی سب افراد شامل ہیں۔1997میں دنیا کے ایک سو بیس سے زائدملکوں نے باہمی معاہدہ کیا کہ اب کے بعد سے میدانی بارودی سرنگین بنانے،بیچنے اور نصب کرنے سے احتراز کریں گے اور چار سے دس سال کی مدت مقرر کی جس کے دوران پہلے سے بچھائی ہوئی میدانی بارودی سرنگین صاف کر لی جائیں گی۔ایک بات قابل ذکر ہے کہ دنیا میں دہشت گردی کا شور مچانے والے اور انسانیت کے سب سے بڑے ٹھیکیدار امریکہ نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
یہ مغربی تہذیب کے شاخصانوں میں سے ایک ہے کہ انسانیت کاراگ الاپتے الاپتے جس کی مالا کے منکے ختم نہیں ہوتے وہیں سے انسانیت کواس طرح کے غیرمحسوس قسم کے آلات قتل میسر آئے ہیں۔میدان جنگ میں توبجا کہ دشمن کے فوجیوں کو شکار کرنا گویا اپنے تحفظ کاسامان کرنا ہے لیکن مغربی تہذیب نے تو بارودی سرنگیں بناکر یہ درس بھی دے دیاکہ بری و بحری راستوں کو بھی غیرمحفوظ کر دو۔اب ظاہر ہے جب راستوں میں بارودی سرنگیں بچھی ہوں گی تو فوجی تو اپنا پورا انتظام کر کے چلیں گے اور انکا کم سے کم نقصان ہوگا یا بالکل ہی نہیں ہوگا کیونکہ انکے پاس اپنے تحفظ کے آلات بھی ہوں گے،اور بارودی سرنگ کے پھٹ جانے کے خدشے کے پیش نظر ان کا لباس بھی انہیں بہت کچھ تحفظ فراہم کر دے گا اور بارودی سرنگوں کو ناکارہ کرنے کا انتظام بھی انکے پاس بہرحال موجود ہوگا تب آخر کون ان بارودی سرنگوں کا شانہ بنیں گے؟؟ ظاہر ہے کہ عام شہری اور مسافرہی ان بارودی سرنگوں کے دھماکے کاشکار ہوں گے۔اب جب کہ جنگل بیابان میں کوئی مسافر اس بارودی سرنگ کا شکار ہوکر مر گیایازخمی ہوگیا تو کون اسکی جان بچانے آئے گا اور کون اسکی لاش اٹھا نے آئے گا،کیونکہ افواج کے پاس اس طرح کا سارا انتظام ہوتا ہے عام شہری جس کے خواب و خیال میں بھی یہ حملہ نہ تھا وہ بے چارہ کیا کرے گا؟؟۔
خشکی کے راستے تو پھر بھی ویرانوں میں اس طرح کی بارودی سرنگیں بچھائی جاتی ہیں تاکہ گوریلاجنگ کرنے والے اسکی زد میں آجائیں لیکن سمندری راستوں پر توکل جہازوں کا پانچ فیصد بھی فوجی جہاز نہیں آتے ہوں گے،وہاں تو بہت زیادہ تعدادتجارتی،سیاحتی اورمسافری جہازوں کی ہی گزرتی ہے اور پھر خشکی میں تو چند فٹ کا ہی راستہ ہوتا ہے جبکہ سمندر میں میلوں تک پھیلا ہواپانی ایک ہی منزل کی طرف راہنمائی کرتا ہے،ایسے میں کون ذمہ دار ہے ان معصوم جانوں کے ضیا کا؟؟حقیقت یہ ہے بارودی سرنگیں پانی اور خشکی میں ایسی ایسی جگہوں پرپھٹتی ہیں کہ انکی اطلاع بھی خبر رساں اداروں تک نہیں پہنچ پاتی،بس بارودی سرنگ لگانے والے ہی جان پاتے ہیں کہ کتنے کتنے اور کون کون مرااور باقی دنیا بے خبر ہی رہتی ہے۔بارودی سرنگوں سمیت کتنی ہی قسم کے ہتھیاراس سیکولرمغربی تہذیب کے مکروہ تحفے ہیں جنہیں ”انسانیت“ کے نام پر ہی انسان کے سر پر تھونپا گیاہے۔تاریخ نے بہت مشاہدہ اور تجربہ کر لیااور اب تاریخ ہی گواہ ہے کہ انسان ہمیشہ نقصان میں رہا ہے سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے،نیک عمل کیے،حق کی تلقین کی اورصبر کی تاکید کی۔جب تک اس کردار کے لوگ انسان کی قیادت نہیں کریں گے تباہی انسان کا مقدر رہے گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...