کسی زبان کو بنانا، یا اس کو فروغ دینا، یہ صوفیاء کا عین مشن نہیں ہوتا، صوفی اپنی زندگی میں صرف ایک مشن کے تحت کام کرتا ہے اور وہ ہے رضائے الٰہی، جتنی بھی تواریخ یا تذکرے صوفیاء کرام کے ہم تک پہنچے ہیں ہم اگر ان پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں علم ہو گا کہ صوفیاء نے رضائے الٰہی کے لیے دنیا کے ایسے کئی کام کیے ہیں جس کو صوفیاء کا عین مشن نہیں کہا جا سکتا، ایک صوفی اللہ کو یاد کرتا ہے، اس کا ذکر کرتا ہے اور اس کے تذکرے کو مخلوق کے درمیان عام کرتا ہے، صوفیاء کا یہ ہی عمل ان کو جزوی طور پر دنیا سے جوڑتا ہے، حالاں کہ وہ کلیتاً دنیا کے بر خلاف اپنے رب سے جڑے ہوتے ہیں، ان کے اعمال حق پر مبنی ہوتے ہیں کیوں کہ حق کی تکمیل کے لیے صوفیاء اپنی پوری زندگی وقف کرتے ہیں، صوفیاء کی تاریخ کے مطالعے سے اس بات کا علم ہوتا ہے کہ جن دنیاوی معاملات میں ہم صوفیاء کو گھرا ہوا دیکھتے ہیں، اس کی اساس اگر تلاش کی جائے تو ہم کو صوفیاء کرام کی اصل نیت سے واقفیت حاصل ہوگی، مثلا ً اگر صوفیاء کی کوئی جماعت سیاست یا حکومت کی پالیسیز کی بات کرتی ہے، اس میں عملا ً شریک رہتی ہے، تو اس میں ان کی نیت سیاست یا حکومت سے دنیا وی معاملات میں گھرنا نہیں ہوتا، بلکہ اس کے ذریعے اللہ کی رضا مقصود ہوتی ہے، اس کی زندہ مثال خلفائے راشدین کی ذات ہے، جنہوں نے حکومت کی، سیاست کی، لیکن ان کے اس عمل کی اساس بنیادی طور پر رضائے الٰہی تھی، اسی طرح اگر صوفیاء کسی ثقافتی عمل کو انجام دیتے ہیں تو بھی ان کی نیت عین ثقافتی عمل کی تعمیر و تشہیر نہیں ہوتی، بلکہ اس کے پیچھے بھی ان کا مقصد رضائے الٰہی ہی ہوتا ہے، صوفیاء کی اصل کمائی کسی عمرانی، سیاسی، ثقافتی اور لسانی پروگرام کی ترقی نہیں ہوتی، بلکہ ان کی اصل کمائی انسانی قلوب کو حق کی جانب مائل کرنے پر مبنی ہوتی ہے۔ اس لیے صوفیاء دنیا بھر کے کام کرتے ہیں مگر ان کی حقیقت ان کے ظاہر سے زیادہ ان کے باطن میں پوشیدہ ہوتی ہے، جو ہمیشہ اللہ کی خوشنودی کی خواہاں رہتی ہے۔
اردو زبان کس طرح بنی؟ اس کو کس کے ذریعے عروج ملا؟ یا یہ عروج کیوں ملا؟ ان تمام سوالوں پر ہم غور کریں تو ہم کو علم ہو گا کہ ہندوستان میں اس زبان کے بننے کی ابتدا آج سے کئی ہزار سال قبل ہو چکی تھی، آریاوں کی ہندوستان آمد، ان کا مدھیہ ہند میں قیام، دیگر آرائی اقوام کی ہند میں آمد، اس کے علاوہ دراوڑوں کی آریاوں سے ثقافتی جنگ، دیگر اقوام (جن میں کابل و قندھار میں رہنے والی خونخوار قوم پساچی وغیرہ شامل ہیں،) ان کی ہندوستان میں آمداور یہاں مختلف اقوام کی تہذیبوں کا تصادم – ایسی کئی ایک وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر اس زبان کو سرزمین ہند پر پنپنے کا موقع ملا، لیکن اردو کی صحیح معنی میں جو پر ورش ہونا شروع ہوئی اس کا سہرا مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد کے سر ہی بندھتا ہے۔ یہ ایک لمبی بحث ہے کہ کیوں کر ہم اس واقعے کواتنی اہمیت دیں ،لہٰذااس بحث سے قطع نظر ہم براہ راست اپنے موضوع کی طرف چلتے ہیں کہ ہندوستان میں گیارہویں صدی عیسوی سے مسلم صوفیاء نے جو اس ضمن میں کام کیا ہے اس سے اردو زبان ہندوستان میں کس طرح باقاعدہ زندہ ہوتی چلی گئی۔
اردو زبان کےتشکیلی عہد میں صوفیاء کی جو لسانی خدمات رہی ہیں اس سے ہر گزانکار نہیں کیا جا سکتا،اس ضمن میں جن صوفیاء کو سب سے زیادہ اعتبار حاصل ہے ان میں خواجہ بندہ نواز گیسو دراز:(متوفی 1422ء)برہان الدین قطب عالم: (متوفی 1453ء)سراج الدین ابوالبرکات شاہ عالم :(متوفی 1475ء)شاہ صدر الدین :(متوفی 1471ء)شاہ میراں جی شمس العشاق : (متوفی 1496ء)شیخ بہاو الدین باجن : (متوفی 1506ء)سید محمد جونپوری : (متوفی 1504ء)قاضی محمود دریائی : (متوفی 1534ء)شیخ عبدالقدوس گنگوہی : (متوفی 1538ء)شاہ جیو گام دھنی : (متوفی 1565ء)شیخ برہان الدین جانم : (متوفی 1582ء)شیخ خوب محمد چشتی : (متوفی 1614ء)کبیر داس: (متوفی 1518ء)گورو نانک : (متوفی 1538ء)شاہ حسین : (متوفی 1599ء)عبدالرحیم خان خاناں : (متوفی 1626ء)سلطان باہو : (متوفی 1690ء)بلھے شاہ : (متوفی 1787ء)وارث علی شاہ: (متوفی 1905ء) وغیرہ شامل ہیں۔ان تمام اکابر صوفیاء کی جو لسانی خدمات ہیں اس نے اردو کو ہندوستان میں بحیثیت زبان اس ملک کے کونے کونے تک پھیلا یا اور عوام کو اس زبان سے اتنا قریب کر دیا کہ یہ ایک بولی سے زبان کی صورت اختیار کرتی چلی گئی، بقول انور سدید:
درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔
“یہ لوگ حب دنیا، حب جاہ اور حب دولت سے آزاد تھے۔ دنیا پرستوں کو حق صداقت کی راہ دکھانا ان کا مقصد حیات تھا۔ چنانچہ درویشان ہند نے اپنے باطن کی روشنی کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے اردو الفاظ کا سہارا لیا اور قربت و اپنائیت کا وہ جذبہ پیدا کیا جو مسلمان بادشاہان ہند اپنی دولت و ثروت کے باوجود پیدا نہ کر سکے۔ ہم زبانی کے اس عمل نے اردو زبان کی ابتدائی نشو نما کو گراں قدر فائدہ پہنچایا۔”(1)
صوفیاء کا یہ لسانی عمل اردو کے لیے واقعی میں کار آمد ثابت ہوا، بہر کیف اس ضمن میں سب سے پہلے میں ان صوفیاء میں سے چند ایک کا اجمالی تعارف یہاں پیش کرتا ہو جن کا تذکرہ میں اوپر کر چکا ہوں تاکہ ان مشائخ نے کس طرح اس زبان کو تشکیل دیا ہے اس کو سمجھا جا سکے:
خواجہ معین الدین چشتی: (متوفی 1235ء) سلسلہ چشتیہ کے پیشوا خواجہ معین الدین چشتی پرتھوی راج پتھورا کے عہد میں تبلیغ حق کے لئے ہندوستان میں تشریف لائے۔ ملتان میں قیام کے دوران انھوں نےمقامی زبان میں مہارت حاصل کی اور اجمیر کو مرکز تبلیغ بنایا، ہندو اور مسلمان سب ان کے معتقد تھے اور وہ رشد و ہدایت کا درس مقامی ہندوی زبان میں دیتے تھے۔ ان کا کوئی معتبر قول زبان ہندی میں دستیاب نہیں۔ مولوی عبدالحق نے ان کی ہندی دانی کے ثبوت میں فاضل شارح اکھروتی (تصنیف ملک محمد جائسی ) کا مندجہ ذیل قول نقل کیا ہے :
” گمان نہ کنند کہ ہیچ اولیا ء اللہ بہ زبان ہندی تکلم نہ کردہ، زیر ا کہ اول از جمیع اولیا اللہ قطب الاقطاب خواجہ بزرگ معین الحق والمۃ والدین قدس اللہ سرہ بدیں زبان سخن فرمود ہ۔۔۔۔”
ادبی لحاظ سے خواجہ فرید کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے تخلیق شعر کے وہبی عمل سے کام لیا۔
اس سے حضرت خواجہ چشتی اجمیری کی ہندی دانی اور ہندی گوئی کا ثبوت مل جاتا ہے۔ چنانچہ یہ کہنا درست ہے کہ جن صوفیاء نے ہم خیالی کے لئے ہم زبانی کا طریقہ اختیار کیا ان میں خواجہ معین الدین چشتی کو اولیت حاصل ہے ۔
خواجہ فرید الدین گنج شکر : (متوفی 1265ء)حضرت خواجہ فرید کا مرکز رشد و ہدایت پنجاب کا شہر پٹن تھا،ان کے ملفوظات کے دو مجموعے “راحت القلوب” اور “اسرار الاولیاء” کے نام سے منظر عام پر آ چکے ہیں، جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت کا مطالعہ وسیع تھا اور ان کے دل میں علم کی بہت قدر تھی۔ ادبی لحاظ سے خواجہ فرید کی اہمیت یہ ہے کہ انھوں نے تخلیق شعر کے وہبی عمل سے کام لیا۔ ان کے نام سے جو اشعار منسوب ہیں ان میں سے چند ایک حسب ذیل ہیں :
تن دھونے سے دل جو ہو تا پوک
پیش رو اصفیا کے ہوتے غوک
خاک لانے سے گر خدا پائیں
گائے بیلاں بھی واصلاں ہو جائیں
یہ ریختہ بھی حضرت گنج شکر سے منسوب ہے :
وقت سحر وقت منا جات ہے
خیز در آں وقت کہ برکات ہے
ان کی زبان سے نکلے ہوئے مندجہ ذیل جملے بھی محققین نے دریافت کئے ہیں ۔
1- خواہ کھوہ کھاہ، خواہ دوہ کھاہ
2- سرسہ کبھی سرسہ کبھی نر سہ
3- مادر مومناں پونیوں کا چاند بھی بالا ہوتا ہے۔
چنانچہ حضرت خواجہ فرید مسعود شکر گنج کی عطایہ ہے کہ انھوں نے پنجاب کی سر زمین سے اردو میں تخلیق شعر کا عمل جاری کیا۔
شیخ شرف الدین بو علی قلند (متوفی 1323ء) بو علی قلند پانی پت کے بزرگ تھے۔ وہ کمال جذب کے ساتھ صاحب تصیف بھی تھے، ان کی فارسی مثنویات اور دیوان چھپ چکا ہے۔ مولوی عبدالحق نے لکھا کہ :
مبارز خاں نے ارادہ سفر کیا تو ان کی زبان مبارک سے یہ دوہا نکلا
سجن سکارے جائیں گے اور نین مریں گے روئے
بدھنا ایسی رین کو، بھور کدھی نہ ہوئے
اس دوہے سے محمد تغلق اور علاو الدین خلجی کے عہد میں پرورش پانے والی زبان اور اس کی تخلیقی شان کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
امیر خسرو نے ہندوی شاعری میں زبان کا وہ روپ پیش کیا جو عوام میں مقبول ہو چکا تھا۔ انھوں نے اس زبان کی تخلیقی قوتوں کو اجاگر کیا اور نئی نئی اختراعات پیدا کیں۔
امیر خسرو: (متوفی 1324ء) کو تیرہویں اور چودھویں صدی کے صوفیاء کرام میں یہ اہمیت حاصل ہے کہ انہوں نے ہندوستانی تہذیب کے ارضی عناصر کو شاعری میں سمویا اور اردو دانی کے ابتدائی دور میں اس زبان کو جذباتی گرمی، داخلی توانائی اور نیا انداز اظہار عطا کر دیا (الخ)۔ امیر خسرو نے ہندوی شاعری میں زبان کا وہ روپ پیش کیا جو عوام میں مقبول ہو چکا تھا۔ انھوں نے اس زبان کی تخلیقی قوتوں کو اجاگر کیا اور نئی نئی اختراعات پیدا کیں۔ دوہے، کہہ مکرنیاں، دو سخنے، پہلیاں، گیت کہاوت، ڈھکوسلے اور ریختہ وغیرہ اصناف میں خسرو کی تخلیقات بے حد معیاری ہیں۔ ان کی کتاب خالق باری ایک الگ نوعیت کی تصنیف ہے۔ ریختہ میں ایک مصرعہ فارسی کا اور دوسرا ہندی کا تخلیق کرنا بھی امیر خسرو کی اختراع شمار ہوتا ہے۔ اس کی ایک مثال حسب ذیل ہے:
شبان ہجراں دراز چوں زلف، بروز وصلش چوں عمر کوتاہ
سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
امیر خسرو کا لہجہ دھیما، مہین اور لطیف ہے اور مزاج میں ہندی اور موسیقی رچی ہوئی ہے۔
شیخ برہان الدین غریب: (متوفی1338ء)شیخ سراج الدین اخی سراج (متوفی 1365) اور شیخ شرف الدین یحیی منیری (متوفی 1370) چند ایسے بزر گ ہیں جن کی ہندی دانی نے آثار دیافت کئے جا چکے ہیں ۔ شیخ عین الدین گنج العلم (متوفی1393) کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے دکنی اردو میں تین رسالے لکھے تھے جو دستیاب نہیں اور اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ اس دور میں دکنی اردو کو دینی تعلیم کا ذریعہ بنا لیا گیا تھا، بنگال میں اردو کی ابتدائی نشو نما میں جن صوفیاء نے حصہ لیا ان میں ایک بزرگ خواجہ اشرف جہانگیر سمنانی (متوفی 1305) ہیں ، جنھوں نے اُچ شریف میں مخدوم جہانیاں جہاں گشت سے روحانی فیوض کے علاوہ ہندی زبان کی تعلیم بھی حاصل کی “لطائف اشرفی” میں ان کے ہندی آمیز منتر دستیاب ہیں ،وفا راشدی نے ایک ہندی جملہ “چھیری کے منہ کھنڈا سمائے” ان سے منسوب کیا ہے۔ حضرت شرف الدین یحیی منیری کے خلیفہ مولانا مظفر بلخی (متوفی 1400) کے مکاتیب کے تراجم میں ہندی دوہے اور جملے اور ان کی زبان میں بنگال، بہار اور پورب کے اثرات تلاش کئے گئے ہیں۔ حضرت نور قطب عالم پنڈوی (متوفی 1415)نہ صرف ہندی سے واقف تھے بلکہ اسے عربی رسم الخط میں لکھتے بھی تھے۔ ان کا ایک ہندی شعر جو ایک فارسی شعر کا ترجمہ ہے، یوں ہے :
رین سب آئی سویا سیج نلدھا تھانوں
پیو نہ پوچھے پاتری مجھ سہاگن نوں
ڈاکٹر شہید اللہ نے لکھا ہے کہ :
“اس مسلمان بھاشا سے پوتھی ادب پیدا ہوا تھا۔”(2)
یہ چند ایک صوفیاء کا تذکرہ تھا اسی طرح انور سدید نے اپنی تاریخ ادب اردو میں متذکرہ بالا مشائخ کا متاوتر اجمالی تعارف پیش کیا ہے۔
اردو کو بنانے میں اور اس کی لغت کو ہندوستان کی مختلف زبانوں اور ہندوستان کے باہر بولی جانے والے زبانوں کے سہارے از سر نو تیار کرنے میں ان مشائخ کا بنیادی کردار رہا ہے
مندجہ بالا صوفیاء کی خدمات کاایک نظر میں جائزہ لینے کے بعد اس بات کا بھی اعتراف کرنا پڑتاہے کہ جو شخصیات اس زبان کو اپنی تشکیلی دور میں ایک نعمت کی صورت میں نصیب ہوئیں ان میں یہ اہل صوف ہی شامل ہیں۔ اردو کو بنانے میں اور اس کی لغت کو ہندوستان کی مختلف زبانوں اور ہندوستان کے باہر بولی جانے والے زبانوں کے سہارے از سر نو تیار کرنے میں ان مشائخ کا بنیادی کردار رہا ہے، جس کی وجہ سے اردو کے ذخیرہ الفاظ میں بے شمار ایسے لفظ شامل ہو گئے ہیں جن کو ان صوفیاء کرام نے اپنے خاص مطالب کی ادائیگی کے لئے اردو میں رائج کیا تھا، صوفیاء کرام کے اس عمل سے اردو میں ایسی اصطلاحات اور ایسے استعارات جمع ہوتے چلے گئے جن کا ایک معنی خالص صوفیانہ ہوتا تھا، اسی لئے اردو شاعری کے ابتدائی دور میں ہمیں تصوف کی بھرمار نظر آتی ہے اور بعد کے عہد میں بھی کیوں کہ ان صوفیاء کے وضع کردہ الفاظ ایک اصطلاح کی صورت اختیار کر چکتے ہیں تصوف بصورت ابہام باقی رہتا ہے۔ ایک بات اور جو خاصی اہم ہے وہ یہ کہ ان مشائخ کی بولی میں ہمیں جہاں ایک طرف فارسی کے الفاظ اپنے قواعدی اصول استعمال کے ساتھ نظر آتے ہیں تو اس کے بالمقابل پراکرت اور بھاکا کے الفاظ بھی اپنے ایک خاص اصول اظہار کے ساتھ نمایاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں، سنسکرت اور عربی ان دو زبانوں کی قواعد اور اصول انشا ہمیں صوفیاء کے ابتدائی جملوں میں نظر آتا ہے۔ جس سے اس بات کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اردو زبان کی قوائد بھی ان صوفیاء کرام کے عہد میں ترتیب پانا شروع ہو چکی تھی۔ اردو سے متعلق تمام امور میں یہ صوفیاء ہی ہیں جن کو اس زبان کا بنیاد گزار کہا جا سکتا ہے، اس کے علاوہ آگے بھی ہم اردو کے دیگر جو اہم مراکز ہیں مثلاً شمالی ہند، دکن، گجرات، بنگال، بہار، سندھ اور پنجاب وغیرہ ان خطوں میں اردو زبان کی تشکیل میں مشائخ و صوفیاء کی جو خدمات رہی ہیں اس کا ذکر کریں گے،لہٰذا اپنی اگلی منزل میں میں خاص دکن کا اس حوالے سے جائزہ لیتے ہوئے “نصیرالدین ہاشمی” کی مشہور زمانہ کتاب “دکن میں اردو” سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں، جس سے دکن میں اردو کا تصوف سے کیا تعلق تھا اس بات کو تاریخی شواہد سے ظاہر کیا جا سکے۔ ملاحظہ ہو ،ہاشمی صاحب فرماتے ہیں :
علاءالدین خلجی اور ملک کافور کے فتوحات دکن کے پہلے کئی ایک صوفیاے کرام دکن کے مختلف حصوں میں سکونت کر کے اپنے اخلاق حسنہ کے باعث ہندووں میں ہر دل عزیز ہو گئے تھے، ان کی تبلیغ وہدایت جاری تھی، ان میں سے بعض صوفیاء یہ ہیں :
حاجی رومی (متوفی555ھ)سید شاہ مومن عارف اللہ (متوفی 597ھ)بابا مظہر طبل عالم (متوفی 662ھ)شاہ جلال الدین گنج رواں (متوفی 644ھ) سید احمد اکبر جہاں قلندر (متوفی659ھ)شاہ علی پہلوان (متوفی 672ھ)شاہ حسام الدین (680ھ)صوفی سرمست(متوفی 680ھ)بابا شرف الدین (متوفی 687ھ) بابا شہاب الدین (متوفی 691ھ) بابا فخر الدین (694ھ) سید اعزالدین حسینی(متوفی 699ھ)
اس کے علاوہ اور بیسیوں صوفیاء کے نام ہمدست ہوتے ہیں جنھوں نے دکن کے مختلف حصوں میں سکونت کر لی تھی اور وہیں انتقال فرمایا۔ (3)
جن صوفیاء نے دکن میں شہرت حاصل کی وہ امیران صدہ کی حکومت قائم ہونے کے بعد دن بدن بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ دکن میں ہمیں بعد تک ان پانچوں حکومتوں میں برابر نظر آتا ہے جو بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد وجود میں آئیں
ذہن نشین رہے کہ جس عہد سے جس عہد تک کے صوفیاء کا تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے کیا ہے، اس عہد میں شمال میں کبیر داس جنم لے چکے تھے، 699ھ کے بعد جن صوفیاء نے دکن میں شہرت حاصل کی وہ امیران صدہ کی حکومت قائم ہونے کے بعد دن بدن بڑھتی چلی گئی اور یہ سلسلہ دکن میں ہمیں بعد تک ان پانچوں حکومتوں میں برابر نظر آتا ہے جو بہمنی سلطنت کے زوال کے بعد وجود میں آئیں، بہر کیف 555ھ کے جن صوفیاء کا تذکرہ نصیر الدین ہاشمی نے کیا ہے اس عہد میں اردو زبان دکن میں پیدا ہو چکی تھی اور ان ہی صوفیاء کے زیرے سایہ پروان چڑھ رہی تھی، ان صوفیاء کی زبان کو ہی بنیاد بنا کر ہاشمی صاحب نے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ دکن میں اردو کی ابتدا شمال سے پہلے ہو چکی تھی۔ ہاشمی صاحب کا ایک اور اقتباس ملاحظہ ہو، فرماتے ہیں :
اب یہ امر خاص طور سے غور طلب ہے کہ جب مسلمانوں نے مدتوں دکن میں بود و باش کی اور حکومت قائم کی، تجارت کی، مذہب کی اشاعت کی، تعلیم دی۔ ان کا اٹھنا بیٹھنا یہاں کے ملکی اور دیسی باشندوں کے ساتھ تھا، ہر وقت کام کاج، خرید و فروخت میں ان سے سابقہ رہتا تھا تو ظاہر ہے کہ ایک خاص زبان کا پیدا ہونا ضروری تھا، جو دونوں غیر قوموں کے لیے تبادلہ خیالات کا ذریعہ ہوتی۔ اس لحاظ سے جو دعوی اردو کے دکن سے پیدا ہونے کا کیا جاتا ہے وہ بہت بڑی حد تک صحیح ہو سکتا ہے۔(4)
ہمیں یہاں اس بات سے کچھ علاقہ نہیں کہ اردو شمال میں پیدا ہوئی یا جنوب میں ،اس اقتباس کو پیش کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مدلل انداز میں اس بات کو ثابت کیا جا سکے کہ اردو زبان کو جنوب میں بھی ایک زبان کی صورت بخشنے میں صوفیاے کرام کی خدمات کتنی نمایاں رہی ہیں ، ساتھ ہی اس زبان میں جنوب ہو یا شمال ابتدا سے ہی تصوف کی تعلیمات نے اپنا اقتدار قائم رکھا ہے۔
دکن میں 700ھ کے بعد جن صوفیاء کی تعلیمات کا رواج عام ہونا شروع ہوا اور جن کی نثر و نظم کے ذریعے اردو زبان ایک نئی صورت میں مزید پختگی کے ساتھ عوام الناس میں پھیلنے لگی، ان میں بہت سے نام آتے ہیں، لیکن بالخصوص جن شعرا اور نثر نگاروں نے تصوف کی تعلیمات کے ذریعے اردو زبان کو عروج بخشا وہ بہت نمایاں اور کثیر تعداد میں پائے جاتے ہیں۔ ان سر بر آوردہ ادبا میں چند ایک نام مندجہ ذیل ہیں :
سید محمد اکبر حسینی، عبداللہ، حسینی ، شاہ میراں جی شمس العشاق، وجہی، شاہ راجو حسینی، برہان الدین جانم، شاہ امین الدین اعلی وغیرہ۔
اردو کے فروغ سے تصوف کا فروغ ہوتا نظر آتا ہے اور تصوف کی تعلیمات کے فروغ سے اردو کا
ان لوگوں نے اپنی تصنیفات و تالیفات کے ذریعے اردو زبان کو جتنا فروغ پہنچایا اتنا ہی تصوف کی تعلیمات کو بھی عام کیا، یہ دو کام بیک وقت ایک ساتھ اس لیے ہوتے نظر آتے ہیں کیوں کہ اردو اور تعلیمات تصوف کا مرجع ایک تھا، اردو کے فروغ سے تصوف کا فروغ ہوتا نظر آتا ہے اور تصوف کی تعلیمات کے فروغ سے اردو کا – مذکورہ بالا شخصیات جس دور میں جنوب میں اپنی لسانی و صوفیانہ خدمات انجام دے رہی تھیں اسی عہد میں شمال میں گرو نانک اور کبیر داس(کبیر(1440 لغایت 1518) بنارس (یوپی) میں پیدا ہوئے، مگھر (گورکھپور کے قریب) میں انتقال کیا۔اپنی تعلیمات سے اردو زبان کو فروغ پہنچانے کا کام انجام دے رہے تھے، ان دونوں شخصیات کے متعلق کلیتاً تو یہ فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ یہ اصلاً صوفی تھے ،لیکن اتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ان دونوں عظیم شخصیات نے جن خیالات کو عام کرنے کی کوشش کی اور جس انسانیت اور محبت و رواداری کے پیغام کو ارتقا بخشا وہ صوفیاء کی تعلیمات سے الگ نہیں۔ ان دونوں شخصیات کے عہد میں ملک محمد جائسی (مصنف: پدماوت (1542-1477) جائس، اتر پردیش) بھی شمالی ہند میں موجود تھے جن کو صوفی تسلیم کرنے میں کچھ تردد نہیں اور ان کی شخصیت ایسی ہے جس کو گرو نانک اور کبیر داس کی درمیانی کڑی قرار دیا جا سکتا ہے۔اس عہد میں گرو نانک کی مانند بابا تلسی داس (1532 لغایت 1623 راجاپور (باندہ) میں پیدا ہوئے، بنارس (یوپی) میں انتقال کیا۔) بھی ایک ایک عظیم شخصیت گزری ہے، جس نے ادو کے فروغ میں کار ہائے نمایاں انجام دیے ہیں ۔
دکن اور شمال میں چودھویں اورپندرویں صدی عیسوی میں جہاں اردو کو بنانے اور سنوارنے میں ان خطوں میں مقیم صوفیاء کا اہم کردار رہا ہے وہیں گجرات میں بھی یہ سلسلہ بعینہ جاری و ساری نظر آتا ہے، اس ضمن میں بابائے اردو مولوی عبدالحق کا ایک اقتباس ملا حظہ کیجیے، فرماتے ہیں :
یہ بات قابل غور ہے کہ دلی کی حکومت یا اہل دہلی نے جس جس خطے میں قدم رکھا خواہ وہ پنجاب ہو یا گجرات، دکن کے صوبے ہوں یا مدراس وہاں انھوں نے زبان پر اپنا نقش ضرور چھوڑا اور وہ نقش ایسا گہرا ہے کہ اب تک اجاگر نظر آتا ہے۔ اس بارے میں اہل اللہ اور صوفیاء کو نہیں بھولنا چاہیے،ان کے نام اس فہرست میں سب سے پہلے آتے ہیں۔ ان کی یہ خدمت دینی خدمت سے کچھ کم نہیں۔ گجرات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان بزرگوں نے اپنی تعلیم و تلقین کے لیے اس زبان سے کام لیا ہے جو عوام میں بولی یا سمجھی جاتی تھی۔چنانچہ حضرت قطب عالم (ولادت790ھ ،وفات 850ھ) حضرت شاہ عالم (ولادت 817ھ،وفات880ھ)شیخ بہاو الدین باجن (وفات 912ھ)سلطان شاہ غزنی (وفات 922ھ)کے اقوال جو ہندی اور ہندی آمیز اردو میں ہیں اب تک موجود ہیں۔ ان کے علاوہ شاہ علی جیو گام دھنی (وفات 972ھ)کا پورا دیوان موسوم بہ جواہر الاسرار ہندی زبان یعنی قدیم ہندی آمیز اردو میں اب بھی پایا جاتا ہے اور میاں خوب محمد چشتی (وفات 1023ھ)کی کتاب خوب ترنگ قدیم گجراتی اردو میں ہے۔ یہ حضرات اپنی زبان کو عربی ،عجمی آمیز گجراتی کہتے تھے، جس کے معنے قدیم گجراتی اردو کے ہیں۔ اسی طرح شاہ وجیہہ الدین علوی (وفات 998ھ)اور ان کے بھتیجے سید شاہ ہاشم علوی (وفات 1059ھ)کے اقوال بھی اسی زبان میں ان کے ملفوظات میں پائے جاتے ہیں۔ (5)
شمالی ہند ،دکن اور گجرات یہ تینوں خطے اردو زبان کی ابتدائی سرزمین کے طور پر جانے جاتے ہیں، حالاں کہ بعض محققین نے صوبہ سندھ اور پنجاب کو اردو کا اصل وطن قرار دیا ہے، لہذا ہم اپنے موضوع کی مطابقت کے لحاظ سےاگر ان علاقوں کی جانب بھی رجوع کریں تو ہمیں وہاں بھی اس زبان کا تصوف اور صوفیاء سے ایک گہرا تعلق نظر آتا ہے۔ مثلا ً صوبہ سندھ میں اردو کے ابتدائی نقوش کا قضیہ سب سے پہلے سید سلیمان ندوی نے چھیڑا اور سندھ کو اردو کا مولد و مسکن قرار دیا، ان کی اس بحث سے قطع نظر اردوزبان کا اس علاقے سے صوفیاء سے کیا تعلق تھا اس حوالے سے یہ اقتباس ملاحظہ کریں :
چونکہ مسلمانوں کی پہلی آمد سندھ اور ملتان کے علاقوں میں ہوئی، اس لئے نئی مشتر ک زبان (اردو )کا ہیولہ اسی علاقے میں تیار ہوا
چونکہ مسلمانوں کی پہلی آمد سندھ اور ملتان کے علاقوں میں ہوئی، اس لئے نئی مشتر ک زبان (اردو )کا ہیولہ اسی علاقے میں تیار ہوا۔ حسام الدین راشدی کے مطابق :یاد رہے کہ اردو ہندومسلمانوں کی وہ مشترکہ زبان ہے جو مسلمانوں کی ہندوستان میں آمد اور حکومت اور تمدنی روابط کی بدولت اس طرح وجود میں آئی کہ اسلامی زبانوں کے ہزارہا الفاظ ہندی میں شامل ہو گئے اور اہل ہند، ہندوہوں یا مسلمان انہیں سمجھنے اور بولنے لگے۔
وہ آگے چل کر لکھتے ہیں ،
جو حضرات سندھ کی اسلامی فتح اور بعد کی تاریخ سے واقف ہیں وہ مولانا سید سلیمان صاحب ندوی کے اس قول کوماننے میں ذرا بھی تامل نہ کریں گے کہ ہندو مسلمانوں کی متحد ہ زبان کا پہلا گہوارہ سندھ ہے۔ (6)
اس بحث کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے مصنفہ نے اردو زبان کی تشکیل کے عمل میں سندھ و ملتان کے مسلم صوفیاء کے کردار پر بہت کچھ کہا ہے ، یہاں اس باب کا آخری اقتباس ملاحظہ کریں :
الغرض صوفیائے کرام کی ہندوستان میں آمد سے پہلے مسلمان نہ صرف اپنی تہذیب و معاشرت اور زبان و ادب کے اثرات مقامی باشندوں پر مرتب کر رہے تھے بلکہ سیاحوں، مورخین کے بیانات سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خود مسلمان بھی ہندوستانی رسم و رواج اور زبان سے متاثر ہورہے تھے۔ اس طرح گویا نہ صرف ایک محفوظ زبان کی بنیاد پڑ رہی تھی بلکہ ایک مشترک تہذیب بھی وجود میں آرہی تھی، محمود غزنوی کے حملے کے بعد صوفیاے کرام کا ورود مسعود سر زمین پاک و ہند میں ہوا تو انہوں نے نہ صرف لاکھوں افراد کو مسلمان بنایا بلکہ مسلمانوں کے تشخص کو قائم رکھنے کی سعی بھی کی۔ اردو زبان کو ترویج دینے میں ان کا جتنا حصہ ہے اور کسی کا نہیں، بقول ابو اللیث صدیقی : اردو کو جو ان ہونے اور پروان چڑھنے کے لئے صوفیوں کی خانقاہیں، مبلغین کی مجلسیں اور اللہ والوں کی محفلیں تلاش کر نا پڑیں۔ ان کے بھی دربار تھے مگر شاہی دربار نہ تھے۔ یہ عوام کے لئے کھلتے تھے، یہاں شرافت کی زبان، ثقافت کی زبان اور تہذیب کی زبان کا سکہ نہیں چلتا تھا۔ یہاں عوام کے دلوں میں اترنے کے لیے عوام کی بولی کا رواج تھا۔ چنانچہ اردو کی ابتدائی نشو و نما میں سب سے زیادہ صوفیاے کرام ہی نے کا م کیا۔ (7)
ہندوستان کےالگ الگ خطوں میں اردو زبان کی ابتدا کا جو نقشہ محققین نے کھینچاہےاس سے اس بات کا کلیتاً فیصلہ ہو یہ نا ہو کہ اس زبان کےابتدا ئی نقوش کہاں مرتب ہوئے لیکن یہ بات بہت واضح اور مستند ہے کہ جس خطے کو بھی اس زبان کا مولد و مسکن قرار دیا جائے وہاں کے صوفیاء نے ہی نے اس زبان کو بنانے اور سنوارنے کی شروعات کی۔ سندھ میں اس زبان کے ابتدائی معاملات کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں بھی صوفیاء کرام کی خدمات اردو کی لسانی ترتیب میں نمایاں نظر آتی ہیں۔
ریختہ کی طرز کی نظموں میں سب سے قدیم ریختہ شیخ فرید الدین گنج شکر کی طرف منسوب ہے۔
بہر کیف اب پنجاب کو بھی ایک نظر دیکھ لیا جائے تاکہ اردو کو جس زمین سے گزشتہ ایک ہزار سال سے وابستہ کیا جا رہا ہے اس خطے میں اس زبان کا صوفیاء سے کیا تعلق رہا ہے اس کی دلیل فراہم ہو سکے۔ اس سلسلے میں محمود شیرانی کا حوالہ سب سے مستند ہے جنہوں باقاعدہ پنجاب میں اردو کے عنوان سے ایک مستقل کتاب تصنیف کی ہے۔ محمود صاحب اردو کی پنجاب میں ابتدا اور صوفیاء کرام کے اس ضمن میں خدمات کے متعلق کیا فرماتے ہیں ملاحظہ کیجیے:
ریختہ کی طرز کی نظموں میں سب سے قدیم ریختہ شیخ فرید الدین گنج شکر متوفی 664ھ کی طرف منسوب ہے۔ علاوہ بریں بعض اردو فقرے بھی ملتے ہیں، ان کے بعد شیخ عثمان اور شیخ جنیدی اور منشی ولی رام کے ریختو ں کی باری آتی ہے جو گیارویں صدی ہجری سے تعلق رکھتے ہیں ،بارہویں صدی ہجری کی متفرق نظموں میں زیادہ تر صوفیانہ نظمیں داخل ہیں، جن میں سے اکثر حضرت غوث الاعظم کی شان میں ہیں۔ ایسی نظمیں چونکہ کثیر تعداد میں ملتی ہیں اس لیے نے میں صرف چند ایک منتخب کر لی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے ۔وجہ ظاہر ہے کہ ان بزرگوں کا تعلق زیادہ تر عوام سے تھا، دیسی اور پردیسی اس سے فیض کے طالب تھے۔ لوگ دور دور سے اپنی مرادیں لے کر ان کے پاس جاتےتھے ، اس لیے ملکی زبان کا جاننا،اس میں بات چیت کرنا ان کے لیے ضروری تھا ،دوسرے صوفی پیشہ لوگ اکثر سیاح اور جہاں گرد ہوا کرتے ہیں اور اردو ان ایام میں ہندوستان کے گوشے گوشے میں بولی جاتی تھی، اس لیے سیاحوں، صوفیوں اور سپاہیوں کے لیے اس زبان کا جاننا از بس ضروری تھا۔(8)
محمود شیرانی کا یہ اعتراف بالکل بجا ہے کہ اردو زبان زیادہ تر خانقاہ نشینوں کی گود میں پلی ہے، لیکن میں اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ محسوس کرتا ہوں کہ ہندوستان کی جدید تہذیب جس کو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد کی تہذیب کہنا چاہئے اس کو ایک نئی زبان کے ذریعے گھر گھر پہنچانے میں اس ہندوستان کے صوفیاء کرام کی بڑی خدمات رہی ہیں، جس نے اسلام کو سر زمین ہند پر استحکام تو بخشا ہی ساتھ ہی اخلاقیات کی نئی دنیا یہاں وضع کی۔ قدیم رسومات سے ہندوستان کو چھٹکارا دلاتے ہوئے نئی فکر سے یہاں کے باشندگان کارشتہ جوڑا اور فرسودہ روایات کا خاتمہ کرتے ہوئے پیار اور محبت سے ہندی عوام کو علم کی نئی روشنی سے متعارف کروایا، اس لے لیے جس زبان کی ان کو ضرورت پیش آئی وہ ایک درمیانی زبان ہی ہو سکتی تھی جس میں بیرون ملک سے آئے صوفیاء اور ہندی عوام کے خیالات کا تبادلہ آسانی سے ہوسکے، ظاہر ہے کہ اس صورت حال کے تحت اردو کا وجود ابھر کر سامنے آنے لگا۔ پنجاب کا اس سلسلے میں اہم اور نمایا کردار اس لئے بھی سمجھا جاتا ہے کہ ہندوستان میں مسلم حکمراں ہوں یا صوفیاء سب سے پہلے اسی سر زمین سے داخل ہوئے اور یہاں اپنے اثرات مرتب کرتے ہوئے ہندوستان کے دیگر علاقوں کی طرف بڑھے۔، لہٰذا ردو کی تشکیل میں وہ تمام صوفیاء پنجاب بہت نمایاں مقام رکھتے ہیں جن کا تذکرہ محمود شیرانی نے اپنی کتاب پنجاب میں اردو میں تفصیلی اور اجمالی انداز میں پیش کیا ہے۔
شاہجہاں کے عہد میں جب پراکرت کی بیٹی بھاشا نے اردو کا روپ دھارا تو اس زبان کے پرستار دہلی یا شمالی ہند تک محدود نہ تھے
میں اوپر بھی اس جانب اشارہ کر آیا ہوں کہ اردو کو مختلف صوبوں کے محققین نے اپنے علاقوں سے منسوب کر نے کے لیے الگ الگ انداز میں تاریخی شواہد پیش کئے ہیں، ہم نے اب تک اردو کو دکن، گجرات، پنجاب، سندھ، شمال اور شمال کے مختلف علاقوں کے حوالے سے دیکھا اور ان علاقوں میں اردو کی تشکیل میں صوفیاء کا جو کردار کیا رہا ہے اس پر اجمالاً گفتگو کی، لیکن اس کے علاوہ بنگال بھی ایک ایسا خطہ ہے جس نے اردو زبان کو اپنی زمین سے منسوب کرتے ہوئے یہاں سے اردو کی ابتدا کا دعوی کیا ہے، اس ضمن میں ایک اقتبا س ملا حظہ کیجیے تاکہ بنگال میں اردو کی ابتدا کے متعلق یہاں کے ایک محقق کا کیا خیال ہے اس سے آشنائی ہو سکے، اس سلسلے میں وفا راشدی اپنی کتاب بنگال میں اردو میں عرض گذار ہیں :
اردو کی ابتدا کے متعلق مختلف صوبوں کے مصنفوں اور ادیبوں نے عموماً اپنے اپنے صوبے میں اردو کی ابتدا بتلائی ہے۔ کسی نے اس کی ابتدا پنجاب سے کسی نے سندھ اور دکن سے اور کسی نے دو آبہ گنگا، جمنا سے، صوبائی جذبات نے حقیقت پر کچھ اس طرح نقاب ڈال رکھا ہے کہ ابتک کسی غیر جانبدار مورخ نے صحیح طور پر اس کی مولد بتلانے میں حق و انصاف سے کام نہیں لیا، جہاں تک میری نظر نے کام کیا ہے، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اردو کی ابتدا کو کسی خاص صوبے سے منسوب کرنا ہر گز قرین انصاف نہیں۔ شاہجہاں کے عہد میں جب پراکرت کی بیٹی بھاشا نے اردو کا روپ دھارا تو اس زبان کے پرستار دہلی یا شمالی ہند تک محدود نہ تھے، بلکہ وہاں کے باشندوں کو شمال و جنوب کے مختلف مقامات میں آمد و رفت کا موقع ملتا رہا اس طرح جہاں وہ لوگ گیے نئی بولی اپنے ہمراہ لیتے گئے اور وہاں اردو زبان پھیلتی گئی۔
اس کی وضاحت میں ناطق لکھنوی کی حسب ذیل عبارت بطور سند کافی ہے: اردو کو ایک ایسا سر چشمہ تصور فرمائیے جو شمالی ہند کے پہاڑوں سے جاری ہوا، دہلی میں آکر دریا بنا، اس دریا سے بیسیوں شاخیں نکلیں ایک بنگال کو گئی، ایک بہار کو، ایک اودھ کو اور ایک گجرات کو یہاں یہ شاخ تمام دکن میں پھیل کر ایک سمند ر بن گئی۔ اودھ میں جو شاخ پہنچی اس کے پانی کو تمام ہندوستان خصوصا آگرہ اور دہلی کے ادیبوں اور شاعروں نے جمع ہو کر لکھنو میں صاف کیا اور صاف کر کے تمام ملک میں نہریں دوڑا دیں۔ (نظم اردو ص،15)
اردو کا تعلق واقعتاً کئی ایک خطوں سے بیک وقت نظر آتا ہے، بنگال میں بھی اس کی ابتدا کے نقوش ملتے ہیں
آپ نے دیکھا کہ دریا ئ ےدہلی کی شاخیں بیک وقت بنگال، بہار، اودھ ،گجرات میں پھیل گئیں۔ یہ اور بات ہے کہ دکن میں اس شاخ نے سمندر کی سی حیثیت اختیار کر لی۔ اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بنگال کو بھی اردو کی آماجگاہ ہونے کا شرف اسی وقت سے حاصل ہوا جب اردو کی ابتدا ہوئی۔(9)
اردو کا تعلق واقعتاً کئی ایک خطوں سے بیک وقت نظر آتا ہے، بنگال میں بھی اس کی ابتدا کے نقوش ملتے ہیں، وفا راشدی نے اپنی کتاب میں اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کی ہے، بہر کیف اردو کی ابتدا کی بحث سے قطع نظر بنگال میں کس طرح صوفیاء نے اس ضمن میں کام کیا ہے، اس کا وفا راشدی نے ذکر کیا ہے، اس حوالے سے وفا راشدی کیا فرماتے ہیں ملاحظہ کیجیے:
بنگال میں شیخ نور الحق پنڈوی متوفی (813ھ)کے اردو جملے اور اقوال برابر ملتے ہیں۔ تقریبا اس زمانے میں قطبینی شاعر پنجاب سے یہاں آیا کٹک میں ایک نہایت نامعلوم مدت سے نہایت عمدہ اردو بنگال (مرشد آباد) کے ذریعے پہنچی ، حضرت مخدوم اشرف جہانگیر کی اردو سے بنگال، بہار اور اودھ کو شرف حاصل ہوا۔ شیخ شرف الدین یحیی منیر ی بنگال میں بھی رہے۔ (الخ) بنگال میں اردو کی ابتدائی دور کے چند شعرا کی تصنیفات و ملفوظات کا اقتباس ملاحظہ ہو :
مخدوم اشرف جہانگیر۔ مولد سمنان، مسکن بنگال سن وفات 798ھ
چھپری کے منہ کھنڈا سمائے۔
چھپری یعنی بکری اور کھنڈ کے معنی چاول کا چورا۔
ان کے ایک منتر میں ہے ۔
سوا لاکھ سپاری بندھوں ،یعنی باندھوں،
شیخ نور الحق پنڈوی۔ مولد لاہور۔ مسکن بنگال، سن وفات 813ھ
پیوند پوچھے پاتری مجھ سہاگن ماوں ۔(10)
لہٰذا اس اقتباس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بنگال میں بھی اسی عہد میں اردو کی ابتدا صوفیاء کرام کے ذریعے ہو چکی تھی جس زمانے میں شمال میں اکابر صوفیاء اس زبان کو تشکیل دے رہے تھے۔
ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں اردو بولی جا رہی ہے ہم اس بات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جگہ صوفیاء کرام کی خدمات اس ضمن میں نمایاں نظر آتی ہیں
ان تمام علاقوں میں جہاں جہاں اردو بولی جا رہی ہے ہم اس بات کو بخوبی دیکھ سکتے ہیں کہ ہر جگہ صوفیاء کرام کی خدمات اس ضمن میں نمایاں نظر آتی ہیں، خواہ وہ شمال ہو یا جنوب ،مشرق ہو یا مغرب ہر طرف صوفیاء کرام پھیلے ہوئے ہیں اور اردو کو جسے ہندوستان کی عوامی زبان کے طور پر بارہویں صدی عیسوی سے متعارف کرنے کا سلسلہ شروع ہوا مستقل فروغ و ارتقا بخشتے چلے جا رہے ہیں۔اردو کے اور بھی دو ایک مرکزقرار دیے گیے ہیں اور وہاں بھی یہ ہی صورت حال نظر آتی ہے، اردو کی تاریخ صوفیاء کی لسانی خدمات سے شروع ہوتی ہے اور یہ سلسلہ جیسے جیسے آگے کی طرف بڑھتا ہے ہمیں ایک عجیب و غریب صورت حال یہ بھی نظر آتی ہے کہ صوفیاء کی ذات سے یہ عمل تصوف کی تعلیمات میں منتقل ہوتا چلا جاتاہے، یعنی ان اکابر صوفیاء نے جہاں جہاں اس زبان کو رائج کیا واہاں بعد کے عہد میں صوفیاء تو اٹھتے چلے گئے لیکن تصوف اس زبان کی بنیاد وں میں بیٹھ کرمسلسل مترشح ہوتا نظر آتا ہے، اپنی اس گفتگو کے اختتام پر میں ایک نکتہ یہ بھی بیان کرنا چاہتا ہوں کہ صوفیاء کی اتنی بڑی لسانی و ادبی خدمت کے با وجود ہمیں صوفیاء کرام کی اس پوری جماعت میں کہیں کسی صوفی کے ذریعے کیا ہوا یہ وعوی نظر نہیں آتا کہ ہم اردو زبان یا ہندوستان کی ایک عوامی زبان کے معمار ہیں اور وہ بھی ایسی عوامی زبان جس کو ہندوستان کی سب سے بڑی اور مقبول زبان کہا جا سکتا ہے۔ اس ضمن میں خواجہ معین الدین چشتی علیہ رحمہ سے وارث علی شاہ تک کے تمام صوفیاء کا جائزہ لے لیا جائے تو بھی کہیں کسی صوفی کے متعلق یہ بات نہیں کہی جا سکتی کہ وہ کسی زبان کے بنانے کا مدعی ٹھہرتا ہو۔ اس کی سب سے بڑی وجہ وہی ہے جو میں اوپر بیان کر آیا ہوں کہ صوفیاء کا مقصد کسی طرح کی کوئی لسانی یا ثقافتی خدمت انجام دینا ہر گز نہیں ہوتا، ان کے عمل کی بنیاد رضائے الٰہی ہوتی ہے۔ پھر اس رضائے الٰہی کے حصول میں جو بھی کام صوفیاء انجام دیتے ہیں اس فعل کے حق میں وہ کتنے ہی معاون کیوں نہ ثابت ہوئے ہوں اس کے مدعی وہ ہر گز نہیں ہوتے۔بہرحال پھر بھی یہ ایک حقیقت ہے کہ اردو کی تشکیل میں صوفیاء کرام کی عملی خدمات رہی ہیں۔
حوالے
(1) صفحہ نمبر68، اردو ادب کی مختصر تاریخ، انور سدید، مطبع نایئس پرینٹنگ پریس، صاحب آباد، یوپی ۔
(2) صفحہ نمبر68تا 80، اردو ادب کی مختصر تاریخ، انور سدید، مطبع نایئس پرینٹنگ پریس، صاحب آباد، یوپی ۔
(3) صفحہ نمبر34،35 دکن میں اردو،نصیر الدین ہاشمی، ریختہ .آرگ
(4) صفحہ نمبر35،دکن میں اردو،نصیر الدین ہاشمی، ریختہ .آرگ
(5) صفحہ نمبر 3،4،مقدمہ مخزن شعرا : تذکرہ شعرائے گجرات، مولوی عبدالحق، ریختہ .آرگ
(6) صفحہ نمبر 81، ملتان کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا حصہ، ڈاکٹر روبینہ ترین
(7) صفحہ نمبر86،87، ملتان کی ادبی و تہذیبی زندگی میں صوفیائے کرام کا حصہ، ڈاکٹر روبینہ ترین
(8) صفحہ نمبر232،پنجاب میں اردو،حافظ محمود شیرانی، ریختہ .آرگ
(9) صفحہ نمبر 4،5 ، بنگال میں اردو، وفا راشدی، ریختہ . آرگ
(10) صفحہ نمبر 6،بنگال میں اردو ،وفا راشدی،ریختہ .آرگ