آج بہت مصروف دن ہے۔ ابھی گوشت لینے نارتھ ایسٹ بنگلہ بازار جانا ہے ۔ ایک تو جب سے وہاں پارکنگ کا ایشو ہوا ہے میری تو جان ہی نکلتی ہے وہاں جانے کے خیال سے حلانکہ جلیل بڑا خیال کرتا ہے خود آ کے گاڑی کی ڈگی میں گوشت رکھتا ہے. ابھی دن کے دس بجے ہیں امید ہے کہرش نہیں ہو گا۔
اسلام علیکم جلیل کی کھوبر، بھالو نا کی۔(کیا حال ہے، سب خیریت ) ۔
آمی تو ایک دم بھالو آپا، اپنی کیمن اچھین(میں تو بلکل خیریت سے آپا، آپ کیسی ہیں )
سب بھالو،جلدی سے میرا آڈر دے دو۔ آج میرا لمبا دن ہے۔
ابھی لو آپا ۔آپ جب تک پان کھاو، آپ کا آڈر تیار ہو جاتا ہے۔ بچا لوک کیسا ہے۔
سب کشل ہے ، یہ کہتے ہوئے ہم نے کونے میں پڑے ہوئے اسٹینڈ سے پاکستانی اخبار اٹھا لیا ۔یونہی سرسری نظر ڈالتے ہوئے ایک خبر پر نظر جم گئی اور دل نے ایک بیٹ مس کی۔ نہیں! یہ نہیں ہو سکتا۔
میرے دل کی عجیب حالت تھی، جیسے تیسے پیمنٹ کی۔ جلیل نے گوشت گاڑی میں رکھا اور ہم باقی خریداری موقف کر کے گھر آ گئے۔ گوشت کو بیسمینٹ میں رکھے ہوئے فریزر میں ڈمپ کیا اور اوپر آ گئے۔ نہ پیکٹ بنایا نہ کچھ اور کیا ۔ دل کی عجب کیفیت تھی ۔ایک سناٹا چھا گیا تھا، سر میں داہنی طرف شدید درد۔ لیونگ روم میں صوفے پر بیٹھ کر دوبارہ کانپتے ہاتھوں سے اخبار کھولا اور دوبارہ اس خبر کو پڑھا۔
ریٹائرڈ ایر کموڈور احتشام صدیقی حرکت قلب بند ہونے باعث انتقال کر گئے ۔
ڈیٹ کیا تھی. او! 20 اپریل 2017۔
یا اللہ! پانچ دن گزر گئے اور مجھے کسی نے اطلاع بھی نہیں دی۔
اف! ہم تو اب تک آپ کے دل کے چلنے پر حیران تھے شامی بھیا ۔یہ آپ ہی کا حوصلہ تھا کہ کرچی کرچی دل لیکر حوصلے سے جیتے رہے۔
عجیب سی بات ہے کہ بعض اوقات کسی شخص سے آپ کا خونی تعلق نہیں ہوتا مگر اس کی پوری زندگی آپ کے سامنے ایک کھلی کتاب کی طرح ہوتی ہے ۔ میرا احتشام صدیقی سے کوئی رشتہ نہیں تھا محض محلے داری تھی ۔ ان کی چھوٹی بہن کشور ، میں اور اس کہانی کا بہت اہم کردار جواہر عرف جوہی محلے دار ہونے کے ساتھ ساتھ کلاس فیلو بھی تھے ۔
یہ قصہ نصف صدی سے بھی پرانا ہے۔ میرے ابا، احتشام بھیا کے ابا اور جوہی کے بابا، یہ تینوں ایک ہی محلے میں رہائش پذیر تھے ۔ پٹنہ میں سبزی باغ میں ۔میرے ابا محمد مزمل اور احتشام بھیا کے ابا امتیاز صدیقی کلاس فیلو تھے جبکہ اقتدار علی یعنی جوہی کے بابا ان دونوں سے دو کلاس جونئیر تھے ۔ یہ تینوں اسکول سے کالج تک ساتھ رہے۔ میرے اور شامی بھیا کے ابا تو ہم پیشہ بھی تھے، دونوں نے ہی وکالت پڑھی اور مختلف سینئیر وکلاء کے ساتھ بطور اسسٹنٹ لگ گئے پٹنہ بار کونسل میں ۔ جوہی کے بابا نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے معاشیات میں ڈگری لی۔ ان کی نوکری جہاں آباد میں تھی۔ ہفتہ وار چھٹی پر گھر آتے تھے ۔ اس زمانے میں جوائینٹ فیملی سسٹم تھا اور گھر کے بزرگ بچوں پر گہری نظر رکھتے تھے ۔مردان خانے اور زنان خانے الگ الگ ہوتے تھے ۔ محلے کا کوئی بھی بزرگ کسی کے بھی بچے کی کلاس لے لے تو کوئی پلٹ کے نہیں پوچھتا تھا کہ کیوں ڈانٹا۔ شرافت اور رواداری کا زمانہ تھا.
جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو بیشتر مسلمانوں کی طرح ان تینوں دوستوں نے بھی آگے پیچھے مشرقی پاکستان ہجرت کی۔ سب سے پہلے وکیل چچا(شامی بھیا لوگ) نے ہجرت کی۔ اس وقت ان کے چھ بچے تھے ۔ سب سے بڑے شامی بھیا، پھر مسعود بھائی، سائرہ آپا، محمود بھائی، شبانہ اور کشور ۔یہ لوگ اوائل 1948 میں ڈھاکہ آگئے تھے ۔پھر ابا نے کمر باندھی۔ زمین سے ناطہ توڑنا،پرکھوں کی قبر چھوڑنا آسان نہیں لیکن کسی نہ کسی طور اس تلخ گھونٹ کو پی ہی لیا۔ ابا میاں اور جلدی آ جاتے مگر دادی کسی قیمت پر ہندوستان چھوڑنے پر راضی نہ تھیں، وہ تو جب بلوے میں ابا کی آفس جل کر خاکستر ہوئی اور سہسرام میں چھوٹے چچا بری طرح زخمی ہوئے تو دادی ہجرت پر آماد ہوئیں ۔
وکیل چچا، ابا،چھوٹے چچا اور اقتدار چچا یہ سب لوگ کٹر مسلم لیگی تھے بلکہ خاکسار تنظیم کے رکن بھی ۔
وکیل چچا ڈھاکہ میں نواب پور میں آ کر بسے۔ پھر کوششوں سے انہوں نے ایک متروکہ دو منزلہ مکان اپنے نام الاٹ کر وا لیا۔ ہم لوگ اڑتالیس کے جون میں ڈھاکہ آ گئے ۔ امی بتاتیں ہیں کہ ابا نے ان کو ٹرین میں برقع پہنے نہیں دیا تھا اور ان کے ماتھے پہ بندیا بھی لگوا دی تھی۔ سارے راستے امی گھونگھٹ کاڑھے ہم کو گود میں لیئے ڈرتی کانپتی رہیں ۔ لمبا اور پر خطر سفر تھا۔ ہم تین ہی بھائی بہن تھے ۔ بھین، شامی بھیا سے ایک سال چھوٹے تھے، پھر کلثوم آپا تھیں اور پھر ہم یعنی ہاجرہ ۔ ڈھاکہ پہنچ کہ ہم لوگ، دادی جان اور چھوٹے چچا اور چچی(چھوٹے چچا کی نئی نئی شادی ہوئی تھی ) سارا قبیلہ وکیل چچا کے گھر ہی ٹھہرا ۔ وہ تو ابا خوش نصیب تھے کہ ابا اور چچا کی کوششوں سے جلدی ہی ہم لوگوں اسی محلے میں ایک گلی چھوڑ کے ایک گھر الاٹ ہو گیا۔ ہم لوگ اس اعتبار سے بہت خوش نصیب تھے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ ہندوستان سے جان اور عزت آبرو بچا کر پاکستان آ گئے تھے ورنہ امی ہم لوگوں کو ایسی ایسی لرزہ خیز کہانیاں سناتیں تھیں کہ رگوں میں خون جمنے لگتا تھا۔
سب سے آخر میں اقتدار چچا آئے ۔ وہ 49 میں آئے ۔ آئے بھی کیا نکالے گئے ۔ بڑی مشکلوں سے تن کے کپڑے کے ساتھ لٹے پٹے ڈھاکہ پہنچے۔ اقتدار چچا اور چچی کی ذہنی اور جذباتی کیفیت خاصی مخدوش تھی۔ یہ لوگ تقریبا ایک سال ہم لوگوں کے ساتھ رہے ۔ وکیل چچا اور ابا نے اقتدار چچا کا بہت ساتھ دیا اوران دونوں کی مدد اور ڈھارس سے اقتدار چچا اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے قابل ہوئے ۔اقتدار چچا بھی نواب پور میں ہماری گلی میں کرائے کے چھوٹے سے گھر میں منتقل ہو گئے ۔
زندگی کی ایک موہنی ادا یہ ہے کہ ہر حال میں چلتی ہے۔ ہم سب بھی زندگی کی چال سے ہم آہنگ تھے۔ بھین آٹھویں میں اور شامی بھیا میٹرک کی تیاری کر رہے تھے. اقتدار چچا کے تین بچے، الماس اور آپا ہم عمر تھیں، پھر جعفر اور سب سے چھوٹی جواہر میری ہم عمر ۔ اقتدار چچا نے بڑی مشکلوں سے صابن کا ایک چھوٹا سا کارخانہ لگایا ۔
گزرتے وقت کے ساتھ ہم سب دھیرے دھیرے زندگی کے دھارے میں شامل ہوتے گئے ۔ نئی نئی مملکت تھی مواقع ہزار تھے لیکن یہاں بھی انسانی جبلت کی روایتی کمینگی نے کام دکھایا ۔ اصل حقدار پیچھے رہ گئے اور جعل سازی کا بازار گرم ہوگیا۔ وہ گھر کا الاٹمنٹ ہو یا پرمٹ کا حصول دو نمبری لوگ ہر جگہ آگے آگے تھے ۔ سرحد پار کرتے ہی ذات اور اوقات سب بدل گئی تھی ۔ایک بہتی گنگا تھی جس سے سارے رزلیل اپنے آپ کو فیض یاب کر رہے تھے۔ اجتماعیت اور وحدت قصہ پارینہ ہوتے جا رہے تھے ۔ اپنی زات مقدم تھی۔ وطنیت کہیں بہت پیچھے رہ گئی تھی ۔ ترقی کی دوڑ تھی، پرانی روایات اور اقدار ڈھائی جا رہیں تھیں ۔
نواب پور میں زندگی اپنی پوری توانائی سے رواں دواں تھی۔ شامی بھیا نے شان دار نمبروں سے میٹرک پاس کیا ۔ وہ ہم سبھوں کے نہ صرف رول ماڈل تھے بلکہ ہم سبھوں کی پڑھائی اور مصروفیات پر بھی نظر رکھتے تھے ۔ سچ تو یہ ہے کہ ہم اپنے اپنے والدین سے کم شامی بھیا سے زیادہ ڈرتے تھے مگر اس ڈر میں احترام زیادہ تھا۔ ہم سبھوں کو اپنے ہر عمل پر یہ فکر دامن گیر رہتی تھی کہ شامی بھیا کا کیا ردعمل ہو گا۔ شامی بھیا کو جہازوں سے عشق تھا۔ اگر آسمان پر فائٹر جا رہا ہو تو وہ تو سب کچھ بھول کر بس اسی کے ہو جاتے تھے ۔ان کی ڈرائینگ بھی شاندار تھی مگر مجال ہے کہ ہوائی جہاز کے علاوہ کبھی کچھ اور بنایا ہو۔ غرض شامی بھیا ہم سب کے پسندیدہ تھے۔ بالآخر شامی بھیا کا جہازوں سے عشق ان کو PAF لے گیا ۔وہ سرگودھا کیا گئے پورا محلہ سنسان ہو گیا ۔کیا چھوٹے کیا بڑے سب نے ان کی کمی شدت سے محسوس کی۔ وہ واقعی اپنی زات میں انجمن تھے ۔
شامی بھیا کے بعد بھین نے بھی آرمی جوائن کر لی۔یہ کھاریاں میں پوسٹڈ تھے 50 پنجاب رجمنٹ میں ۔
کشور،جوہی اور میں پینسٹھ میں تازہ تازہ BSc میں آئے تھے ۔ہم لوگ اپنے مضمون کے چناؤ سے زیادہ خوش نہیں تھے(یہ چنائو بھی حسب معمول ) شامی بھیا کا تھا باقی سب تو ٹھیک تھا پر فزکس جان کو آ گئی تھی ۔ ہم تو سریسلی مضمون بدلنے کا سوچ رہے تھے، پر کشور اور جوہی کہ آگے کس کی چلتی تھی ۔ویسے بھی ان دنوں ہم لوگوں کا موٹو تھا
One for all, all for one.
سو بندی مرتی کیا نہ کرتی۔ پھر پینسٹھ کی جنگ چھڑ گئ۔ کیا جوش جذبے کا عالم تھا۔ ہم تینوں محلے کی اور لڑکیوں کے ساتھ گھر گھر جا کر سامان جمع کرتیں اور پھر پیکٹ بنا کر ڈونیشن سنٹر میں جمع کرا دیتیں۔حالانکہ ڈھاکہ میں جنگ کی شدت نہیں تھی پھر بھی پابندی سے بلیک اوٹ پر ہر شخص عمل پیرا تھا۔ جعفر اور خلیل ( رحمان انکل ہمارے بنگالی پڑوسی ) کا بیٹا تازہ تازہ بنگال رجمنٹ میں پوسٹ ہوئے تھے اور یہ دونوں چٹاگانگ میں تھے۔ ایک نواب پور نے پاکستان کو کتنے شجاع اور جری بیٹے دئیے تھے ۔ایک چراغ نے کتنے چراغ جلا دئے تھے ۔65 کی جنگ میں شامی بھیا نے جرت کو نیا آہنگ دیا ۔ دشمن کے چار ہنٹر اپنے سیبر سے گرا دئے ۔کیا خوشی کا عالم تھا۔ پورا شہر امنڈ آیا تھا وکیل چچا کے گھر ۔حلوائی کی دوکان پر میٹھائی ختم ہو گئی تھی اور پھول والے کے پاس پھولوں کا توڑا ہو گیا تھا۔
اس دن ہم کو ایک نیا احساس ہوا غور سے جوہی کو دیکھا وہ خوشی سے مدہوش تھی۔
ہیں! یہ کیا ماجرہ ہے بھئی؟ ہم نے جوہی کو ایک کونے میں لے جا کر پوچھا تو وہ گھبرا گئ ۔ معصومیت سے پوچھنے لگی کہ کیا واقعی تم نے ایسا محسوس کیا؟
جی جناب! اب بتاؤ کہ کیا قصہ ہے، کب سے یہ سلسلہ ہے؟ وہ گھبرا کر رونے لگی۔ ہاجرہ! ہم کو خود نہیں جانتے! بس شامی بھیا تو ہمیں بچپن سے ہی پسند تھے لیکن اب تو عجب معاملہ ہے۔ نہ ان کا خیال ذہن سے ہٹتا ہے اور نہ آنکھوں سے تصویر مٹتی ہے۔ ہمیں بہت ڈر لگ رہا ہے ہاجرہ میرا کیا بنے گا؟ سوچو اگر میرے اس فضول خیال کی بھنک بھی شامی بھیا کو پڑ گئی تو ہم کہاں منہ چھپائیں گے؟ سب لوگ، کشور وغیرہ کیا سوچیں گے ۔ ہم کس عذاب میں پھنس گئے ہیں ۔ نماز میں دعا مانگنا چاہتے ہیں کہ ان کا خیال میرے دل سے نکل جائے تو بجائے اس کے، ان کی صحت اور کامیابی کی دعا نکلتی ہے ۔ مجھے بچا لو ہاجرہ، مجھے بچا لو ۔ جوہی پھوٹ پھوٹ کر روتی رہی ۔ میری ساری شوخی اور طراری ہوا ہو گئی ۔ مجھے واقعہ کی سنگینی کا احساس ہوا، اس کی بے کسی پر ترس آیا ۔ وہ ایسے راستے کی راہی تھی جو کبھی منزل تک نہیں جاتا۔ میری بد نصیبی کہ میرے پاس دو لفظ بھی نہیں تھے اس کی تسلی کے لئے ۔ ہم نے گھبرا کر کشور سے ذکر کردیا ۔ وہ خود پریشان تھی کہ اس قصے کا انجام کیا ہو گا؟ بقول کشور چچی اور جعفر مان بھی گئے تو اقتدار چچا کبھی بھی اس رشتے کے لیے نہیں مانے گے۔ ہم لوگ اسی اڈھڑ بن میں تھے کہ سترہ روزہ جنگ ختم ہو گئی.
جنگ کے اختتام پر شامی بھیا ڈھاکہ آئے ۔ ان کی پذیرائی سی پذیرائی تھی! ایک دفعہ پھر خلقت امنڈ آئی وکیل چچا کے گھر پر ۔ ایک ہفتے کی چھٹی پر آئے تھے ۔ آئے تو بہت خوش تھے پر جب گئے تو کچھ الجھے ہوئے تھے ۔
اگلے سال کی پہلی سہ ماہی میں وکیل چچا کے گھر قیامت ٹوٹ پڑی۔ رات کے سوئے وکیل چچا صبح اٹھے ہی نہیں ۔نہ جانے رات کے کس پہر دل کا شدید دورہ پڑا کہ ساتھ لیٹی چوالیس سال سے رفاقت نبھاتی ساتھی کو بھی آواز دینے کی مہلت نہیں ملی۔یہ غم پورے محلے کا سانجھا تھا۔ سائرہ آپا بھی اپنے سسرال سے آ گئ تھیں ۔اس موقعے پر جوہی نے کشور کی بہت دل داری کی، بلکہ عملی طور پر اس نے ہی چچی کا گھر سنبھالا ہوا تھا۔
وقت کی خوبی یہ ہے کہ زخم کا اندمال ہو ہی جاتا ہے۔ 67 میں ہم لوگوں کی ڈگری مکمل ہوئی اور Eden Mohila Azim Pur College
کو خیرباد کہنے کا وقت آ گیا ۔ ہم تینوں نے اگے کی کچھ منصوبہ بندی نہیں کی تھی مگر ہماری مائیں متفکر تھیں اور چاہتیں تھیں کہ اب وہ اس فرض سے سبکدوش ہو جائیں ۔ اسی دوران شامی بھیا کا مبارک باد کا خط آیا کشور کے نام، اس میں ہم سبھوں کو ماسٹرز کرنے کی نصیحت تھی۔ اس پر عمل صرف کشور نے کیا کیونکہ وکیل چچا کے بعد اب اس گھر کے کرتا دھرتا شامی بھیا تھے لہذا چچی کو کشور کو اجازت دیتے ہی بنی۔ کشور نے فزکس میں ڈھاکہ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ۔ ایک دم وہ بہت بڑی اور معتبر سی لگنے لگی ۔ مگر ہم دونوں کے گھروں میں آگے داخلے کی بات بگ نو نو تھی۔ ہم نہیں جانتے کہ شامی بھیا اور جوہی میں آپس میں کوئی رابطہ تھا یا نہیں ۔مگر ایک دم سے ایمرجنسی میں شامی بھیا کراچی سے ڈھاکہ آئے ۔ان دنوں وہ فیصل بیس میں تھے ۔ گھر آتے ہی انہوں نے چچی سے جوہی کے گھر رشتہ لے جانے کہا۔ ابا سے بھی بات کی پر ابا تذبذب میں تھے ۔سب مسلک کے فرق کی وجہ سے متفکر تھے ۔ اقتدار چچا مسلک کو لیکر بہت شدت پسند تھے ۔ وہ کبھی بھی جوہی کی شادی سنی گھرانے میں نہیں کرتے۔ خیر امی،ابا اور کشور کی امی یہ تینوں گئے ۔ اقتدار چچا نے خاموشی سے بات سنی،کوئی جواب دیا نہ جواب دینے کا وعدہ کیا ۔
تیسرے دن سہ پہر کی بات ہے کہ ہم الگنی سے سوکھے کپڑے اتار رہے تھے کہ ڈولی رحمان چچا کی بیٹی بھاگتی ہوئی آئی اور کہا کہ جوہی آپا کی شادی ہو رہی ہے۔
کیا؟ میرے ہاتھ سے سارے کپڑے گر گئے اور ہم بھاگتے ہوئے جوہی کے گھر گئے ۔ وہاں عجیب ہی منظر تھا۔ پورے گھر پر ایک اذیت ناک خاموشی تھی چچی بہت ضبط کا مظاہرہ کر رہیں تھیں اور جوہی ۔ اف! جوہی میری پیاری سہیلی ایک زندہ لاش کی طرح ساکت بیٹھی ہوئی تھی ۔ وہ شاید ہوش میں نہیں تھی ۔ بلکل بے حس و حرکت ۔ ہم نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا یہ کیا ہو رہا ہے جوہی؟ کیوں؟
اس نے ایک نظر ہمیں دیکھا۔ اس کی وہ مضروب نظر ۔وہ سرخ انگارہ آنکھیں ان میں کیا نہیں تھا؟ قربان ہوتے ہوئے جانور کی بے بسی ، ایک فرمابردار بیٹی کی مجبوری اور ایک زندگی سے بھرپور مرتے ہوئے شخص کی بجھتی ہوئی جوت ۔
یہ مت کرو جوہی، یہ مت کرو۔ اللہ کے لئے یہ مت کرو ۔تم یہ سہار نہیں سکو گی۔اس نے میرے ہونٹوں پر ہاتھ رکھا دیا۔ پھر اٹھ کر اپنی کتابوں کے شلف سے ایک کتاب نکالی اور میرے حوالے کرتے ہوئے کہا کہ اب تم گھر جاو، ویسے بھی کنواری لڑکیاں جنازے کے پاس نہیں رہتیں ۔ تم کیا کہ رہی ہو؟پلیز اپنے پہ رحم کرو جوہی۔
ہاجرہ پلیز چلی جاو۔ میرے اپنوں نے ہم پر رحم نہیں کیا ۔انہوں نے سزائے موت عمر قید کی شکل میں دی ہے زندگی کا تاوان مانگا ہے ۔ ہم نے بیٹی ہونے کا بھرم رکھا۔ بس اب پلیز تم جاو اور کوشش کرنا کہ رخصتی سے پہلے یہ خبر کشور کے گھر تک نہ جائے۔ میرا بھرم رہنے دینا۔ ہم دروازے سے نکل رہے تھے تو اقتدار چچا نے کہا ہاجرہ دھیان رہے تم اس گھر کی بھی بیٹی ہو۔ بس یہ کہانی یہی ختم ہو گئی ۔جوہی کی شادی سبطین سے ہو گئی ۔ سبطین برا نہیں تھا، جوہی کا پھوپھی زاد بھائی تھا پر جوہی کے جوڑ کا نہیں تھا۔ یہ کیا کر دیا اقتدرار چچا نے۔ جوہی تو واقعی چمبیلی جیسی نازک اور کومل تھیی۔ اتنی سادہ اور معصوم کے دشمن کو بھی پیار آ جائے ۔اسی شام جوہی رخصت ہو کر کھلنا چلی گئی ۔
دوسرے ہی دن صبح شامی بھیا کراچی روانہ ہوگئے ۔اس کتاب میں جوہی نے شامی بھیا کے لئے خط دیا تھا،جو بعد میں ہم نے کشور سے شامی بھیا کا پتہ لیکر پوسٹ کر دیا۔
پھر سب کچھ بدل گیا ۔ جوہی پھر ڈھاکہ نہیں آئی ۔ میری شادی پر بھی نہیں، میرے بہت خط لکھنے اور ٹرنک کال پر بھی نہیں ۔ بس کہا کہ ہاجرہ مردہ دفن ہوتے ہیں سفر نہیں کرتے۔ ہم شادی کے بعد کراچی آ گئے ۔ شامی بھیا مبارک باد دینے میرے سسرال آئے مگر وہ ،وہ شامی بھیا نہیں تھے۔شاید ان کی پرچھائی تھی۔ شامی بھیا کھبی بھی بہت صحت مند یا لمبے چوڑے نہیں تھے۔ شامی بھیا درمیانے قد بت کے حامل تھے ۔ ان کی شخصیت کا سب سے مضبوط پہلو ان کا اعتماد اور ان کی روشن چمکدار آنکھیں تھیں ۔ آنکھیں جو اندر تک اتر کر سارا بھید پا لیتی تھیں ۔ شاید جوہی کو بھی کچھ کہنے کی ضرورت پیش نہیں آئی ہو گی۔ ویسے بھی وہ الھڑ ناداں محبت کے بوجھ کی متحمل کہاں تھی۔ شامی بھیا کے مزاج میں ہم کو ایک غیر محسوس سی سختی اور بے زاری محسوس ہوئی ۔ بس وہ انکا پہلا اور آخری دورہ تھا میرے گھر ۔ ہم ہی کبھی کبھار ان سے ملنے بیس چلے جاتے ۔ مگر اب وہ ،وہ شامی بھیا نہیں تھے جن سے ہم لوگ مانوس تھے ۔
میری کشور سے خط و کتابت تھی سو ڈھاکہ کے حالات سے آگاہی رہتی۔ کشور کی ایم. اس. سی مکمل ہو گئی تھی اور سب سے اچھی بات یہ تھی کہ دسمبر میں بیاہ کہ وہ بھی کراچی آ رہی تھی ۔ جوہی سے میری خط و کتابت یکطرفہ تھی۔ اس نے کبھی جواب نہیں دیا ۔ کشور سے پتہ چلا کہ اس کے یہاں بیٹا ہوا ہے۔ وہ زچگی کے لئے بھی ڈھاکہ نہیں آئی بلکہ چچی اس کے پاس کھلنا چلی گئی تھیں ۔
چچی کے گھر میں موت جیسا سناٹا تھا۔ اقتدار چچا اندر ہی اندر گھل رہے تھے ۔ جعفر کی پوسٹینگ گو چٹاگانگ میں ہی تھی مگر وہ چھٹی میں بھی گھر نہیں آتا تھا ۔الماس آپا سلہٹ میں تھیں ۔ بس امی تھیں جو چچی کی اشک شوئی کرتیں تھیں ۔ کشور کے خطوط سے مشرقی پاکستان کے حالات کے تناؤ کا پتہ چلتا تھا۔
پچیس مارچ 1971سے پہلے حالات بہت ناگفتہ بہ تھے ۔اندرون بنگال سے لوگ ہجرت کر کے ڈھاکہ آ رہے تھے ۔ سلہٹ سے الماس آپا آ چکی تھیں ۔ کلثوم آپا کراچی آ گئی تھیں ۔ بہت زور زبردستی کے بعد جوہی ڈھاکہ آئی مگر باپ کی دہلیز پر قدم نہیں رکھا۔ ان ہی دنوں بھین کی پوسٹینگ کھاریاں سے جیسور ہو گئی تھی ۔ ان دنوں دل بلا وجہ اداس رہتا تھا ،ہم اس کیفیت کو آپنی پریگنسی سے مربوط کر دیتے تھے ۔ کشور 1970 چودہ دسمبر کو کراچی آئی اور سب سے پہلے ہم سے ملنے ائی۔ مدثر میرے بیٹے کو بہت پیار کیا۔اس کی پیدائش کی مبارک باد دی۔ ادھر ادھر کی باتوں کے بعد ہم نے جوہی کی خیریت پوچھی تو بلکل خاموش ہوگئی ۔ کافی دیر کے بعد بولی کہ اس سے تو اچھا تھا کہ وہ مر جاتی۔ اس کی زندگی بہت تلخ ہے۔ اب سبطین کا صبر بھی جواب دے چکا تھا۔ کوئی بھی جیتا جاگتا شخص لاش کے ساتھ کیسے رہ سکتا تھا۔ اب چچی سبطین کے لیے دوسری دلہن تلاش کرتی پھر رہیں ہیں ۔
مشرقی پاکستان کے حالات بہت خراب تھے، بھین کے خطوط میں بھی ڈھکے چھپے لفظوں میں اس کا اظہار ہوتا تھا۔ امی اور ابا بھی اب کراچی آ گئے تھے ۔اقتدار چچا کو بہت کہا کہ صورت حال صحیح نہیں ہے یہاں سے نکل چلو ۔ مگر ان کا ایک ہی جواب تھا کہ اب بھاگتے بھاگتے تھک گئے ہیں جو ہو گا دیکھا جائے گا۔ الماس آپا البتہ آبا کے ساتھ کراچی آ گئی، پھر ان کی فیملی پنڈی چلی گئی ۔
اپریل کے پہلے ہفتے کی بات ہے کہ شامی بھیا صبح صبح میرے گھر آئے جو کہ بہت حیران کن بات تھی ۔ وہ بہت پژمردہ اور نڈھال تھے ۔میرا تو جی ہی بیٹھ گیا ان کو اس حال میں دیکھ کر۔ انہوں جو دلخراش خبر دی اس کو سہارنے کے لئے تو پتھر کا جگر بھی کم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ 25 مارچ 1971 کو شیخ مجیب کو گرفتار کرنے کےلئے آپریشن سرچ لائیٹ تھا اس کی تیاری ظاہر ہے سارے ایسٹ پاکستان میں تھی۔اس وقت چٹاگانگ میں بنگالی نفرری لگ بھگ 5000 تھی،ایسٹ پاکستان رائفلز ۔ اور مغربی پاکستان کی فوج 20 بلوچ صرف 600 افراد پر مشتمل تھی اور ان کی ذمہ داری پورٹ اور شہر کی اہم تنصیبات کی حفاظت تھی۔ایسٹ پاکستان رائفلز کو اس سازش کی بھنک مل گئی اور انہوں نے بغاوت کر دی ۔ان کا پہلا ٹارگٹ ایسٹ پاکستان رائفلز میں موجود اردو اسپیکنگ افسر اور جوان تھے ۔ انہوں نے بے دردی ان کو اور ان کی فیملیز کا قتل کیا ۔ اسی ریجیمنٹ میں جعفر بھی تھا۔اس کو بھی شہید کر دیا اور جعفر کو بچانے کے چکر میں خلیل اپنا دایاں بازو گنوا بیٹھا۔
پھر ان ظالموں نے مکتی باہنی کے ساتھ مل کر چٹاگانگ شہر میں حاجی کیمپ کے قریب اصفہانی جوٹ ملز کی کالونی میں بے یارو مدد گار عورتوں، بچوں اور مردوں کو کلب کی عمارت میں جمع کر کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔
ہم نے پوچھا چچی کا کیا حال ہے۔ کہنے لگے اب سکون سے ہیں کیونکہ حواس کھو چکی ہیں ۔
۔ 1971 کی جولائی میں اچانک شامی بھیا ڈھاکہ گئے اور اپنی بچی کھچی فیملی کو سمیٹ کر کراچی لے آئے ۔ وہاں ان کی ملاقات جوہی سے بھی ہوئی ۔ وہ ان کو دیکھ کر پتھرا گئ اور پھر سنبھل کر کہا کہ بس اب اذیت کے دن تھوڑے ہیں ۔ شامی بھیا نے اقتدار چچا کو بھی وسٹ پاکستان چلنے کہا مگر انہوں نے جواب دیا کہ میاں اب بچا ہی کیا ہے بچانے کو؟ اب مزید ہجرت بے معنی ہے۔
کراچی میں میرے ہی گھر کے قریب انہوں نے کرائے پر گھر لے کر چچی، مسعود بھائی، محمود بھائی اور شبانہ کو سٹیل کر دیا۔
ہم نے کشور سے پوچھا کہ شامی بھیا گھر آتے ہیں؟ کہنے لگی نہیں شاذ و نادر ہی ۔ وہ یہ بھی بتا رہی تھی کہ بہت بدل گئے ہیں ۔ دوست تو ان کے پہلے بھی کم تھے مگر اب تو کوئی بھی نہیں ہے ۔ دفتری اوقات کے بعد لائبریری میں ہوتے ہیں یا پھر دو تین دن کی چھٹی پر لونگ ڈرائیو پر نکل جاتے ہیں ۔ منزل کا کوئی تعین نہیں ہوتا جدھر دل کیا۔ عموماً مکلی کی طرف نکل جاتے ہیں ۔ اقتدار چچا کے ایک غلط فیصلے نے کتنوں کو برباد کر دیا۔
پھر 71 کی جنگ چھڑ گئی، اس جنگ نے بہت سو سے جینے کی امنگ چھین لی۔ اکہتر کی جنگ نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ جنگ نے ملک کو دو لخت کردیا اور کتنے ہی بے نام و نشان ہو گئے ۔
جیسور ہمارے ہاتھ سے چھ دسمبر کو نکل گیا تھا۔ وہیں بھین کی 50 پنجاب بھی تھی، یہ لوگ پسپائی اختیار کرتے ہوئے پیچھے ہٹ رہے تھے تاکہ منگورہ میں نفری کو جمع کرکے اٹیک کیا جائے مگر راستے میں مکتی باہنی کی بارودی سرنگ بھی تھی اور ان کی چھل کھپٹ بھی ۔ تھکی ہاری فوج 15 دسمبر کو فرید پور پہنچی مگر جب تک ڈھاکہ سے اطلاع آ گئ کہ جنگ بندی کا فیصلہ ہو گیا ہے۔ بھین فرید پور سے لاپتہ ہوئے ۔ان نام نہ شہداء کی فہرست میں تھا اور نہ جنگی قیدیوں کی لسٹ میں ۔ کوئی کہتا برما نکل گئے، کوئی کہتا کہ مکتی باہنی کے ہاتھوں شہید ہو گئے ہیں ۔ غرض باتیں ہی باتیں تھی۔ ہم لوگ خاص کر امی انتظار کی سولی پر مصلوب ہوگئ ۔ ناوقت کی دستک دل ڈھڑکا دیتی تھی مگر جانے والا کبھی لوٹ کر آیا ہی نہیں ۔امی اور ابا بھی منتظر رہتے رہتے تھک کر آسودہ خاک ہوئے۔ اب شاید سب نے اوپر محفل سجائی ہو گی۔
ایکہتر کی جنگ اقتدار چچا کے گھر کو ختم کر گئی ۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد جو مار کاٹ کا سلسلہ شروع ہوا اس میں شرپسندوں نے ان کی فیکٹری کو آگ لگا دیی اور اقتدار چچا، چچی اور جوہی سب مارے گئے ۔ سبطین پہلے ہی جوہی سے اپنا بیٹا چھین کر لاہور آ چکا تھا۔ اقتدار چچا کے خاندان میں صرف الماس آپا بچیں۔ رحمان چچا (بنگالی پڑوسی) کو بھی محب وطن ہونے کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ ان کی کلینک کو آگ لگا دی گئی ۔ خلیل پہلے ہی جعفر کو بچانے کے چکر میں اپنا دایاں بازو گنوا چکا تھا۔ ان سارے حوادث کی وجہ سے وہ شدید ڈپریشن میں چلا گیا ۔
شامی بھیا نے ایکہتر کی جنگ میں بھی شاندار کارنامے انجام دیے، انڈیا کے بہترین چار جہاز گرا دئے۔
اس کے بعد انہوں نے افغان جہاد میں بھی حصہ لیا مگر لوگوں سے دور ہوتے گئے۔ تنہائی پسند اور مذہب کی طرف رجحان بہت بڑھ گیا ۔ وہ حکومت کی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کرتے تھے ۔ لہٰذا ضیاء الحق نے ان کو ریٹائر کر دیا۔ وہ پہلے ہی دنیا سے کنارہ کش تھے پھر تو درویش ہی ہو گئے ۔ ان کی زندگی کے دو ہی عشق تھے. ایک انتہائی کامیاب اور بامراد یعنی پاکستان ایر فورس اور دوسرا جس نے ان کا دل اجاڑ دیا اور زندگی کو ویران کر دیا۔ انہوں نےدونوں ہی عشق پامردی سے اپنی آخری سانس تک نبھائے. وہ اپنے قول کے دھنی تھے ۔انہوں نے اپنی زندگی میں جوہی کی جگہ کسی کو نہیں دی۔ احتشام تھے. اسی لئے شان سے جئے اور آن سے مرے۔ اللہ تعالی ان کی روح کو آسودہ رکھے ۔آمین ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...