اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھوں شکر و احسان ہے کہ اس نے ہمیں ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک کے با برکت مہینے سے نوازا۔ ایک مرتبہ پھر ہمیں توبہ و استغفار اورروزوں کے ذریعہ اپنے گناہوں کو معاف کرانے کا قیمتی موقعہ دیا۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس موقعہ سے صحیح فائدہ اٹھا لینا ہر کسی کے مقدر میں نہیں ہوتا۔ کتنے ہی لوگ ایسے ہوں گے جو خاطر خواہ تیاری نہ ہونے کی وجہ سے اس قیمتی موقعہ کو پانے کے بعد بھی ہاتھ سے گنوا بیٹھیں گے اور ایسے ہی لوگوں کے بارے میں حضرت جبریلؑ نے یہ بددعا کی تھی جس پر پیارے نبیﷺ نے آمین بھی کہا تھا ”جس نے رمضان کو پایا اس کے با وجود اس کی موت اس حال میں ہوئی کہ اس کی مغفرت نہ ہوئی تو اس کا ٹھکانہ جہنم کی آگ ہوگا۔“(رواہ الطبرانی، 2/243)
قرآن مجید میں خاص لفظ ’رمضان‘ کا ذکر ایک ہی بار ہوا ہے، سورۃ البقرۃ کی آیت ہے”شَہْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنزِلَ فِیہِ الْقُرْآنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنَاتٍ مِّنَ الْہُدَیٰ وَالْفُرْقَانِ فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیضًا أَوْ عَلَیٰ سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیدُ اللَّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیدُ بِکُمُ الْعُسْرَ…الیٰ آخر الآیۃ“(سورۃ البقرۃ،185)ترجمہ:رمضان وہ مہینہ ہے، جس میں قرآن نازل کیا گیا جو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے، جو راہِ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہے۔ لہٰذا اب سے جو شخص اس مہینے کو پائے، اُس پر لازم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہویا سفر پر ہو، تو وہ دُوسرے دنوں میں تعداد پوری کرے۔ اللہ تمہارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، سختی کرنا نہیں چاہتا۔
عموما رمضان المبارک کا ذکر آتے ہی ہمارے ذہنوں میں صرف روزہ کا خیال آتا ہے جب کہ اس آیت میں جو کہ قرآن مجید کی واحدآیت ہے جس میں ماہ رمضان کا ذکر کیا گیا ہے اس میں پہلے تفصیل سے قرآن مجید کے نزول اور وجہ نزول کے بارے میں بتایا گیاہے اس کے بعد کہیں پھر روزہ کی فرضیت اور اس کے احکام کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس سے ایک بات تو یہ واضح ہو گئی کہ رمضان المبارک کے مہینہ کی معنویت روزوں سے آگے بڑھ کر اور بھی بہت کچھ ہے۔البتہ اس سے روزوں کی اہمیت کو گھٹانا ہرگز مقصود نہیں ہے۔
روزوں کی اہمیت کا اندازہ نبی کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک سے ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ”کُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ یُضَاعَفُ الْحَسَنَۃُ عَشْرُ أَمْثَالِہَا إِلَی سَبْعمِاءَۃ ضِعْفٍ قَالَ اللَّہُ عَزَّ وَجَلَّ إِلا الصَّوْمَ فَإِنَّہُ لِی وَأَنَا أَجْزِی بِہِ یَدَعُ شَہْوَتَہُ وَطَعَامَہُ مِنْ أَجْلِی. لِلصَّاءِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَۃٌ عِنْدَ فِطْرِہِ وَفَرْحَۃٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّہِ۔ (رواہ البخاری،5927)آدم کے بیٹے کے نیک عمل کا ثواب دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک آگے بڑھایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے روزہ اس سے مستثنی ہے کیونکہ وہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا جزاء دوں گا۔ وہ میرے لیے اپنی شہوت اور کھانے کو ترک کر دیتا ہے۔روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت کی اور ایک اس وقت کی جب اس کی اپنے رب سے ملاقات ہوگی۔
غور کرنے کی بات یہ ہے کہ مختلف اسلامی تنظیمیں چلوں اور جماعتوں کے نام پر یا پھر کیمپ اور کانفرنس کے نام پر لوگوں سے یہ مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اپنے روز مرہ کے معمول سے کچھ وقت نکال کر اپنی تربیت اور تزکیہ کی فکر کریں لیکن رمضان کا مہینہ جو مکمل عبارت ہی ہے تزکیہ اور تربیت سے اس کے تئیں بڑے پیمانہ پر لوگوں میں بے شعوری اور بے حسی پائی جاتی ہے۔رمضان المبارک کا مہینہ دراصل تزکیہ اور عبادت کا مہینہ ہے، ذکر و اذکار کا مہینہ ہے، قرآن مجید کو پڑھنے،سمجھنے اور سمجھانے کا مہینہ ہے جب کہ ہم نے اسے سستی اور کاہلی، آرام و سکون اور کھانے پینے کا مہینہ بنا رکھا ہے۔
ذرا غور کریں!!! رمضان کے مہینہ میں آپ کے گھر آنے والے راشن کے اخراجات غیر رمضان سے کم ہوتے ہیں یا زیادہ؟ اگر زیادہ ہوتے ہیں تو پھر یہ روزہ کہاں ہوا، پھر ہم غریبوں اور مسکینوں کی حالت زار کو سمجھنے کے قابل کہاں رہے؟ یہ تو محض ایک خانہ پوری ہو گئی۔مزید ایک سوال، رمضان میں آپ کی نیند کا دورانیہ غیر رمضان سے کم ہوتا ہے یا زیادہ؟ اگر زیادہ ہوتا ہے تو یہ بھی سوچنے کا مقام ہے!!! آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم رمضان کو با برکت مہینہ بھی کہیں، اس کو اپنے لیے سعادت و خوش نصیبی کا مہینہ بھی سمجھیں اورساتھ ہی اس مہینہ کا بیشتر حصہ سوتے ہوئے گزار دیں۔حقیقت تو یہ ہے کہ نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام کے رمضان میں اور ہمارے رمضان میں اتنا ہی فرق ہے جتنا ایک زندہ انسان اور ایک بے جان لاشہ میں ہوتا ہے۔ دیکھنے میں تو دونوں ایک جیسے معلوم ہوتے ہیں لیکن ایک میں روح ہوتی ہے اور دوسرا بے جان ہوتا ہے۔
اب آئیے ذرا ایک نظر دیکھتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کا رمضان کیسا ہوتا تھا۔ اس کے بعد ہم اس کا موازنہ ہمارے آج کے رمضان کے نظام الاوقات اور ہماری دیگر رمضان کے ساتھ مخصوص مصروفیات سے کریں گے اور یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ آخر دونوں میں ایسا کیا فرق ہے کہ ہمارے روزے غور کرنے پر بالکل ہی بے جان سے معلوم ہوتے ہیں۔
نبی کریم ﷺ کے روزے:
آپ ﷺ کے روزوں کی کیفیت کا اندازہ کرنے کے لیے آپ ﷺ کی دو حدیثیں میں یہاں ذکر کروں گا۔ آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے ”مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ یْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَہ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہ.(صحیح البخاری، 38)ترجمہ:جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔یہاں لفظ ’ایمانا و احتسابا‘ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری حدیث میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا”مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّوْرِ وَالْعَمَلَ بِہٖ فَلَیْسَ لِلہِ حَاجَۃٌ فِیْ اَنْ یَّدَعَ طَعَامَہُ وَشَرَابَہُ“(بخاری،1903) ترجمہ:جو جھوٹی (بُری) بات کہنا اور اُس پر عمل کرنا نہ چھوڑے، تو اللہ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے کی کوئی حاجت نہیں۔ان دو حدیثوں سے یقینا یہ اندازہ ہو گیا ہوگا کہ روزوں کی اصل ماہیت کیا ہونی چاہیے۔
نبی کریم ﷺ کا قیام اللیل:
نبی کریم ﷺ غیر رمضان میں بھی قیام اللیل کی بہت پابندی کرتے تھے خصوصا رمضان کے مہینہ میں آپ ﷺ قیام اللیل کے لیے اور چاق و چوبند ہو جاتے تھے اور اپنے ساتھ اپنے اہل و عیال کو بھی قیام اللیل میں اٹھاتے تھے ساتھ ہی صحابہ کرام کو بھی رات میں نمازیں پڑھنے کی کثرت سے تاکید کیا کرتے تھے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرۃ ؓ فرماتے ہیں ”کَانَ رَسُوْلُ االلہِ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یُرَغِّبُ فِی قِیَامِ رَمَضَانَ مِنْ غَیْرِ أنْ یَأْمُرَہُمْ بِعَزِیْمَۃٍ، و یَقُوْلُ: مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا، غُفِرَلَہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہِ.“ (ترمذی، 808)ترجمہ: حضور نبی اکرمﷺ صحابہ کو فرضیت کے بغیر قیامِ رمضان کی ترغیب دیتے تھے۔ آپ ﷺ فرماتے: جس شخص نے ایمان اور احتساب (محاسبہ نفس کرنے) کے ساتھ رمضان کی راتوں میں قیام کیا اس کے پچھلے سارے (صغیرہ) گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔خیال رہے کہ یہاں بھی لفظ ’ایمانا و احتسابا‘ مذکور ہے۔
نبی کریم ﷺ کا قرآن مجید سے شغف:
احادیث میں وارد ہے کہ آپ ﷺ ہر سال ماہ رمضان میں حضرت جبریل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کے نازل شدہ حصوں کا دور کیا کرتے تھے۔ جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن مجید کا دو مرتبہ دور فرمایا تھا۔(بخاری و مسلم)
نبی کریم ﷺ کا صدقہ و خیرات کا اہتمام:
رسول اللہ ﷺ لوگوں میں سب سے سخی و فیاض تھے۔ آپ کی سخاوت کا دریا رمضان المبارک کے مہینہ میں بالکل رواں دواں ہوتا تھا۔حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ فرماتے ہیں ”کانَ النبیُّ صَلَّی اللہُ علیہ وسلَّمَ أجْوَدَ النَّاسِ بالخَیْرِ، وکانَ أجْوَدُ ما یَکونُ فی رَمَضَانَ حِینَ یَلْقَاہُ جِبْرِیلُ، وکانَ جِبْرِیلُ علیہ السَّلَامُ یَلْقَاہُ کُلَّ لَیْلَۃٍ فی رَمَضَانَ، حتَّی یَنْسَلِخَ، یَعْرِضُ علیہ النبیُّ صَلَّی اللہُ علیہ وسلَّمَ القُرْآنَ، فَإِذَا لَقِیَہُ جِبْرِیلُ علیہ السَّلَامُ، کانَ أجْوَدَ بالخَیْرِ مِنَ الرِّیحِ المُرْسَلَۃِ“ (صحیح البخاری)ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرمﷺتمام لوگوں سے بڑھ کر سخی تھے۔ رمضان میں جب حضرت جبریل امینؑ کی آپ ﷺ سے ملاقات ہوتی تو آپﷺ بہت زیادہ سخاوت کیا کرتے تھے۔ حضرت جبریل ؑ کی ملاقات کے وقت تو آپ ﷺکی سخاوت تیز ہوا کے جھونکے سے بھی بڑھ جاتی۔
نبی کریم ﷺ کا روزہ داروں کو افطار کرانا:
ؓ آپ ﷺ خود بھی روزہ داروں کو افطار کرانے کا اہتمام کرتے اور صحابہ کرام کو بھی اس کی تلقین کرتے، واضح رہے کہ اس کے پیچھے کوئی دنیاوی مفاد یا منشاء ہرگز پیش نظر نہیں ہوتا تھا آپ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے””مَن فطَّر صائمًا کان لہ مِثلُ أجرِہ، غیرَ أنہ لا ینقصُ مِن أجرِ الصائمِ شیءًا””مَن فطَّر صائمًا کان لہ مِثلُ أجرِہ، غیرَ أنہ لا ینقصُ مِن أجرِ الصائمِ شیءًا”(سنن ترمذی، 807)ترجمہ:جس نے کسی روزہ دار کوافطاری کروائی اسے بھی اتنا ہی اجر وثواب حاصل ہوگا اورروزہ دار کے اجر وثواب میں سے کچھ بھی کمی نہیں ہوتی۔
فجر کے بعد مسجد میں بیٹھ کر ذکر و اذکار کا اہتمام:
آپ ﷺ عام دنوں میں بھی فجر کی نماز کے بعد سورج کے طلوع ہونے تک مسجد میں بیٹھ کر ذکر واذکار کا اہتمام کیا کرتے تھے اور رمضان کے مہینہ میں اس معمول پر اور سختی سے عمل پیرا ہوتے تھے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے”من صلی الفجر فی جماعۃ ثم جلس یذکر اللہ حتی تطلع الشمس ثم صلی رکعتین کانت لہ کأجر حجۃ وعمرۃ“(ترمذی: 586)ترجمہ: جو شخص با جماعت فجر کی نماز ادا کرے اور پھر بیٹھ کر اللہ تعالی کا ذکر کرتا رہے یہاں تک کہ سورج طلوع ہو جائے، پھر دو رکعت نماز ادا کرے تو اس کے لیے مکمل حج و عمرہ کرنے کا ثواب ہو گا۔
اعتکاف کا اہتمام کرنا:
نبی کریم ﷺ اپنی پوری زندگی پابندی کے ساتھ ہر رمضان میں دس دن کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے اور جس سال آپ ﷺ کا انتقال ہوا اس سال آپ ﷺ نے دو اعتکاف کیے تھے جیسا کہ صحیح البخاری میں وارد ہے۔حضرت ابو ہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں ”کان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعتکف فی کل رمضان عشرۃ أیام، فلما کان العام الذی قبض فیہ اعتکف عشرین یوماً“ (صحیح البخاری:3/ 51)ترجمہ: رسول اللہ ﷺ ہررمضان میں دس دن اعتکاف کرتے تھے،لیکن جو آپ کی وفات کاسال تھا توآپ نے بیس دن اعتکاف فرمایا۔
شب قدر میں عبادتوں کا اہتمام کرنا:
روایتوں میں مذکور ہے کہ آپ ﷺ شب قدر میں عبادتوں کا خصوصی اہتمام کیا کرتے تھے۔ آپ اپنے گھر والوں کو اس رات اٹھاتے اور عبادتیں کرنے کی تلقین فرمایا کرتے۔ صحابہ کرام کو مخاطب کرتے ہوئے آپ ﷺ شب قدر کے تعلق سے ارشاد فرمایا”ان ہذا الشہر قد حضرکم و فیہ لیلۃ خیر من الف شہر من حرمہا فقد حرم الخیر کلہ ولا یحرم خیرہا الا حرم الخیر“(سنن ابن ماجہ: 1644)ترجمہ: یہ جو ماہ تم پر آیا ہے‘ اس میں ایک ایسی رات ہے‘ جو ہزار ماہ سے افضل ہے‘ جو شخص اس رات سے محروم رہ گیا‘ گویا وہ سارے خیر سے محروم رہا اور اس رات کی بھلائی سے وہی شخص محروم رہ سکتا ہے جو واقعتا محروم ہو۔
یہ تھا نبی کریم ﷺ کا رمضان، ایک ایسا رمضان جو انسان کی زندگی بدل دے، اس کے معمولات کی کایا پلٹ کر دے، اس کے خیالات اور اعمال کی دنیا میں ہلچل مچا دے، ایک زندہ و جان دار رمضان، ایک ایسا رمضان جو واقعتا انسان کی زندگی میں نمایاں تبدیلیاں لے کر آئے۔ یقینا یہی وہ مطلوب رمضان ہے۔یہی وہ رمضان ہے جس کی قرآن و حدیث میں بے شمار فضیلتیں اور برکتیں بیان کی گئی ہیں۔
اب ایک نظر ڈالتے ہیں اس رمضان پر جو ہم میں سے بیشتر لوگ بسر کرتے ہیں۔ ہم سحری کھانے کے لیے بالکل آخری وقت میں اٹھتے ہیں جب کہ سحری کا وقت نکل رہا ہوتا ہے۔ایسے میں بڑی مشکل سے سحری کھانے کا وقت مل پاتا ہے، تہجد کی نماز تو چھوٹ ہی جاتی ہے۔ہم میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہ وقت پر سحری کرنے کے بجائے رات میں کچھ کھا پی کر سو جاتے ہیں اور سحری کے وقت میں اٹھنے کی بھی زحمت گوارا نہیں کرتے جب کہ سحری کھانے کی فضیلت ایک سے زائد صحیح احادیث میں بیان ہوئی ہے۔بھر پیٹ سحری کھانے کے بعد عموما مسجد میں فجر کی نماز کا انتظار کرنا اور مسجد تک جانا طبیعت پر گراں گزرتا ہے اس لیے کبھی گھر میں فجر پڑھ کر اور کبھی فجر چھوڑ کر بھی سو جاتے ہیں۔جو لوگ فجر کی نماز پڑھنے مسجد جاتے بھی ہیں وہ بھی سلام کے ساتھ ہی واپس آکر بستروں میں دبک جاتے ہیں اور ذکر اذکار ہمیشہ کی طرح چھوٹ جاتے ہیں۔
اس کے بعد پھر آنکھ کھلتی ہے ظہر کی نماز کے ساتھ وہ بھی ان لوگوں کی جو نماز پڑھتے ہیں ورنہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں جو عصر کے وقت اٹھتے ہیں اور وہ بھی اس لیے کہ بازار سے افطاری کا سامان لانا اور افطاری کے لذیذ دسترخوانوں کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔عصر سے کچھ پہلے کا وقت عموما بازار کرنے کا ہوتا ہے، اس وقت بیشتر لوگ سودا سلف لانے نکلتے ہیں اور افطاری کے لیے رنگا رنگ دسترخوان سجا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ افطاری کے دوران بھی دنیا داری کی ہی باتیں ہو رہی ہوتی ہیں۔ دیرتک افطاری کرنے اورذائقہ دار پکوانوں سے لطف اندوز ہونے میں مغرب کی نماز مسجد میں چھوٹ جاتی ہے اور گھر پر ہی جماعت بنا کر یا تنہا ادا کر لی جاتی ہے۔
مغرب کے بعد چونکہ افطاری کی وجہ سے طبیعت بوجھل ہوتی ہے اس لیے کچھ دیر آرام کرنے لیٹ جاتے ہیں اور پھر عشاء کی نماز کے لیے کسی ایسی مسجد کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کم سے کم دنوں میں، کم سے کم وقت میں قران مجید سمیٹ دیا جاتا ہو (والعیاذ باباللہ)۔تراویح کی نماز سے واپس آکر کھانا کھاتے ہیں اور اس کے بعد گھروں میں یا سڑکوں پر گپ شپ کے ذریعہ نیند آنے تک وقت گزاری کرلیتے ہیں۔
رہی بات روزہ دار کو افطاری کرانے کی تو یا تو وہ شخص ’اجتماعی افطاری‘ کا اہتمام کراتا ہے جو اگلے سال الیکشن لڑنے والا ہوتا ہے یا پھر کچھ اسلامی تنظیمیں جن کو اپنی سالانہ رپورٹ میں ’اجتماعی افطاری‘ کو شامل کرنا ہوتا ہے۔ جو لوگ انفرادی طور پر افطاری تقسیم کروانے کا اہتمام کرتے ہیں وہ بھی عموما اپنے ہی’اسٹیٹس‘ کے لوگوں کے گھروں میں بھجواتے ہیں تاکہ دونوں طرف سے لین دین چلتا رہے۔ افسوس کا مقام تو یہ ہے کہ ہم شب قدر کا اہتمام بھی کرتے ہیں تو اس انداز سے کہ عبادت کم اور میلہ زیادہ لگتا ہے۔ چائے اور دیگر مشروبات کے دور چلتے ہیں،محض لوگوں کی نیندیں خراب ہوتی ہیں۔ عبادت کا نام و نشان شب قدر میں بھی نہیں ہوتا۔
معاف کیجئے گا میری باتیں شائد کچھ زیادہ تلخ ہو گئیں لیکن آپ خود اپنے آس پاس ایک نظر ڈالیئے یقینا آپ کو ہمارے معاشرہ اور سماج کے بیشتر افراد کچھ اسی انداز میں رمضان گزارتے ہوئے نظر آئیں گے۔ ذرا آپ خود بتایئے آخر یہ بے روح رمضان کس کام آنے والے ہیں؟ کیا اس طرح بتائے گئے رمضان قیامت کے دن آپ کے حق میں شفاعت کر سکیں گے؟ کیا ایسی تراویح جس میں نہ سننے والے کو ہوش ہوتا ہے نہ سنانے والے کو کچھ خبر ہوتی ہے اپنے پڑھنے اور پڑھانے والے کے حق میں شفاعت کر سکیں گی؟کیا یہی تربیت اور ٹریننگ اللہ تبارک و تعالیٰ کو منظور تھی جو اس نے ہمیں ایک پورے مہینہ ’ماہ رمضان‘ سے نوازا؟ یقینا آپ کا جواب نفی میں ہوگا۔ یہ رمضان ہر گز وہ نہیں جو شریعت کو مطلوب ہے۔ یہ وہ رمضان ہو ہی نہیں سکتا جو پیارے نبی کے امتیوں کو راس آجائے، صالح طبیعتیں کبھی اس طرح سے رمضان کے دن بسر نہیں کر سکتیں۔ع
روح کی گہرائیوں میں ڈوب کر دیکھا کرو
ایک دھوکا ہے نظر کا یہ سراسر سامنے!!!
اب میں اس سلسلہ میں کچھ عملی باتیں آپ کے سامنے ذکر کرتا ہوں جن کے ذریعہ امید ہے کہ رمضان کے اس بے روح قالب میں جان ڈالی جا سکے گے۔قرآن مجید کی جس آیت کا میں نے بالکل شروع میں ذکر کیا تھا اس میں صاف لفظوں میں بتایا گیا ہے کہ قرآن مجید کتاب ہدایت ہے، اس کتاب کے ذریعہ حق و باطل میں فرق کیا جا سکتا ہے۔یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب ہم قرآن مجید کو خوب خوب پڑھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں۔ قرآن مجید سے ہدایت صرف قرآن مجید کی تلاوت کے ذریعہ نہیں حاصل کی جا سکتی کیونکہ ہم میں سے بیشتر لوگ عربی زبان سے نا واقف ہیں۔ اس لیے تفسیروں کا مطالعہ کیا جانا چاہیے۔ ایک مرتبہ کوئی ایک تفسیر پڑھ جانے سے بھی شائد بات نہیں بنے گی، آپ کو بار بار مختلف تفاسیر پڑھنی ہوں گی تاکہ آپ قرآن مجید کا پیغام صحیح طریقہ سے سمجھ اور سمجھا سکیں۔
رمضان کے مہینہ میں ہونا تو یہ چاہئے کہ گھر میں قرآن مجید کو پڑھنے اور پڑھانے کا ایک ماحول بن جائے۔ گھر کے چھوٹے بچوں سے کہیں کہ وہ قرآن سے اچھی باتیں ڈھونڈھ کر سب کو سنائیں، ان سے کہیں کہ وہ مختلف انبیاء کے قصے قرآن مجید میں تلاش کریں اور پڑھیں، پھر گھر والوں کو بھی سنائیں، جو بچے قرآن نہیں پڑھنا جانتے ان کو اس رمضان میں یہ ہدف دیں کہ ان کو قرآن مجید کی تلاوت کرنا سیکھنا ہے۔ یقین جانیں اس سے آپ کی عید کی خوشیاں بھی دو بالا ہو جائیں گی۔ اسی طرح تراویح کے سلسلہ میں بھی اس بات کی کوشش کی جانی چاہیے کہ پہلے سے کوئی ایسی مسجد متعین کر لی جائے جہاں آرام آرام سے ترتیل کے ساتھ قرآن مجید پڑھا جاتا ہو۔ مزید یہ کوشش کریں کہ مسجدیں بدلنے کے بجائے ایک متعین مسجد میں ہی تراویح کی نماز ادا کریں تاکہ رمضان المبارک کے بابرکت مہینہ میں آپ ایک مرتبہ پورا قرآن خوش الحانی کے ساتھ نماز کے دوران سن کر مکمل کر سکیں۔
رمضان میں اگر آپ سحری کر کے سو جاتے ہیں اور آپ کے دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزر جاتا ہے تو یقین جانیں آپ نے روزہ کی کیفیت کو محسوس ہی نہیں کیا!! وہی کیفیت دراصل روزہ کی جان ہوتی ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ روزہ آپ کے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرتا ہے لیکن جب آپ روزہ رکھ کے سارا دن سوتے رہے تو آپ کو اس تقویٰ کو برتنے کا موقعہ ہی کہاں ملا؟ حدیثوں میں آتا ہے کہ روزہ دار کو غریبوں اور لاچاروں کے دکھ درد کا احساس ہوتا ہے لیکن روزہ دار اگر سحری کر کے سو گیا اور اٹھنے کے کچھ دیر بعد افطار کرنے بیٹھ گیا تو اس نے اس بھوک کو محسوس ہی نہیں کیا۔ بلکہ صحیح معنوں میں اگر دیکھا جائے تو ایسے انسان کے سال بھر کے معمول میں کوئی فرق ہی واقع نہیں ہوا۔ کیونکہ عام دنوں میں وہ رات کا کھانا کھا کر سوتا تھا اور اٹھ کر ناشتہ کرتا تھا، رمضان میں سحری کھا کر سوتا ہے اور اٹھ کر افطار کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ دونوں دورانیوں میں کوئی بہت خاص فرق بھی نہیں ہوتا۔ لہذا کوشش کی جانی چاہیے کہ روزہ رکھ کے ایسا نہ ہو کہ دن کا بیشتر حصہ سونے میں گزر جائے۔ بلکہ حتیٰ الامکان دن کے معمولات وہی رکھیں جو رمضان کے علاوہ دنوں میں ہوتے ہیں۔ اسی صورت میں یہ ممکن ہے کہ روزہ رکھنے سے آپ کے باطن کا تزکیہ اور آپ کی شخصیت کا ارتقاء ہو۔
افطاری بناتے وقت اس بات کا خیال کیجیے کہ آپ کے پڑوس میں ایسے کون لوگ ہیں جو افطاری کا نظم کرنے سے قاصر ہیں ان کو افطاری میں اپنے ساتھ شامل کیجیے۔ نبی ﷺ نے عام دنوں میں یہ تاکید کی ہے کہ سالن بناو تو اس میں شوربہ بڑھا دو تاکہ پڑوسیوں میں ایسا نہ ہو کسی کو خاشبو جائے اور اس کا دل للچائے۔ آپ اندازہ کیجیے کہ پڑوسیوں کو رمضان میں افطاری کرانے کا کتنا زیادہ ثواب ہوگا۔ افطاری کا انتظام کرانے کو حتیٰ المقدور خالصۃلوجہہ اللہ کیجیے۔ اس میں ریا کاری اور دکھاوے سے پرہیز لازم ہے۔
اگر رات کو دیر سے سونے کی عادت ہے تو کوشش کیجیے کہ الگ سے انفرادی طور پر تہجد کی چند رکعات ادا کرلیں اور اگر جلدی سوتے ہیں تو کوشش کیجیے کہ سحری کے لیے اتنی دیر پہلے اٹھیں کہ اس وقت تہجد کی نماز ادا کر سکیں۔ اس سلسلہ میں ایک مشورہ یہ ہے کہ اگر آپ تراویح جماعت سے پڑھ رہے ہیں تو تہجد انفرادی طور پر پڑھیے۔دراصل انفرادی اور اجتماعی دونوں عبادتوں کی اپنی اہمیت ہے۔عموما ہم اجتماعی عبادات میں تو شریک ہو جاتے ہیں لیکن انفرادی عبادات کے لیے نفس کو امادہ نہیں پاتے۔ جب کہ ذاتی احتساب اور تزکیہ نفس کی راہ میں انفرادی عبادات زیادہ کارگر ہوتی ہیں۔ آپ تنہائی میں جب اللہ تبارک و تعالیٰ کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں تو اس وقت اس سے راز و نیاز کی باتیں کرنے کا ایک الگ مزہ ہوتا ہے جو تزکیہ نفس کے پورے عمل کی جان ہے۔
لیلۃ القدر کے سلسلہ میں بھی کوشش ہونی چاہیے کہ خلوص اور للہیت کے ساتھ زیادہ سے زیادہ عبادتیں کی جا سکیں۔ موجودہ دور کے بے ہنگم رواجوں اور تماشوں سے بچنے کے لیے کوشش کریں کہ لیلۃ القدر میں بھی قیام اللیل، تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کا اہتمام گھر کے اندر ہی کریں۔ اس سے آپ جہاں بہت سی بے جا خرافات سے بچ جائیں گے وہیں اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ آپ کے گھر والے بھی آپ کے ساتھ عبادتوں میں شریک ہو سکیں گے اور یہی مطلوب ہے جیسا کہ ہم نے اوپر نبی کریم ﷺ کے اسوہ حسنہ سے دیکھا۔ وہ لوگ جو استطاعت رکھتے ہوں وہ یقینا اعتکاف کرنے کی بھی کوشش کریں اور اللہ تبارک و تعالیٰ کی راہ میں مال و دولت بھی خرچ کرنے سے گریز نہ کریں۔
ایک آخری بات یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا لاکھوں شکر و احسان بجا لائیں کہ اس نے ہمیں رمضان المبارک کی عظیم ترین نعمت سے نوازا۔ نہ جانے اللہ تعالیٰ کے کتنے ہی بندے جو پچھلے سال ہمارے درمیان تھے اب اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچ چکے ہیں۔ نہ جانے ان میں سے کتنے لوگ دلوں میں یہ آس لیے بیٹھے تھے کہ اس رمضان میں قرآن کا مطالعہ کریں گے یا اس رمضان میں اعتکاف میں بیٹھیں گے۔ ہمیں اللہ تعالیٰ نے یہ مہلت عمل دی ہے لیکن ہم بھی یہ نہیں جانتے کہ ہمارا بلاوا کب آنے والا ہے۔ ہم میں سے کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے اگلا رمضان بھی دیکھنے کو ملے گا۔ پچھلے دو سالوں میں کورونا کی وجہ سے نہ جانے ہمارے کتنے قریبی رشتہ داروں نے،کتنے دوستوں نے داعی اجل کو لبیک کہہ دیا۔ یقینا یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے لیے ممکن تھا کہ وہ ان کی جگہ ہمیں اپنے پاس بلا لے اور ان کے لیے ہمیں عبرت کا سامان بنا دے۔ لہذا آپس کے گلے شکوے دور کر لیں، عداوتیں اور رقابتیں بھلا دیں اور ایک اللہ کے بندے بن کر اس کی دی ہوئی نعمت سے جتنا ممکن ہو فائدہ اٹھانے میں جٹ جائیں۔ اللہ تعالیٰ ہماری سیدھے راستے کی طرف رہنمائی کرے۔ آمین۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...