یادیں عاصمہ کی؛۔ (تیسری قسط)
جب پولیس نے ہمیں واھگہ بارڈر پر مارا
یہ 31 دسمبر 2001 کی بات ہے، جوائینٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائیٹس کے اجلاس میں عاصمہ جہانگیر کی تجویز پر فیصلہ کیا گیا تھا کہ واھگہ بارڈر پر امن کا پیغام لے کر جائیں گے۔ تیاری کے بعد اس روز دوپہر کے وقت ہم کچھ بسوں، فلائنگ کوچز میں واھگہ بارڈر پہنچے۔ اچھی خاصی تعداد تھی اس امن مظاھرہ میں حصہ لینے والوں کی۔
عاصمہ کی خوبی یہ تھی کہ ایکشن کے لئے وہ ایسی تجاویز پیش کرتی تھیں جن سے رضامندی کے علاوہ اور کوئی راستہ ہی نہیں بچتا تھا۔ وہ ایسے ایکشن کے حق میں ہوتی تھیں جس کے دور رس اور فوری نتائج برآمد ہونے کی توقع ہو اور جو میڈیا کے ذریعے بڑے پیمانے پر عام لوگوں تک پیغام کو موثر انداز میں لے جائے۔ واھگہ بارڈر پر یہ امن مظاہرہ ایسا ہی ایک پروگرام تھا۔
مجھے یہ ڈر تھا کہ بارڈر کے اس امن مظاہرہ میں پولیس اور رینجرز کوئی ایکشن نہ کر دیں اور عاصمہ کو ٹارگٹ نہ کر لیں، میں اس وقت دھرم پورہ میں رھتا تھا۔ میرے تین پہلوان قسم کے دوست تھے جن کی ہم نے ذمہ داری لگا دی کہ آپ نے عاصمہ کے ارد گرد رھنا ہے کہ کوئی انہیں ٹچ نہ کرے اور اگر پولیس یا رینجرز حملہ آور ہوتی ہے تو عاصمہ کے ارد گرد ڈھال بننا ہے۔
میرے یہ دوست کوئی زیادہ سیاسی نہ تھے مگر عاصمہ جہانگیر سے بہت متاثر تھے۔ بات یہ تھی کہ ہم نے دھرم پورہ میں سٹدی سرکلز بھی کئے ہوئے تھے ایک دفتر بھی بنایا ہوا تھا۔ 9/11 کا واقعہ ہو چکا تھا، افغانستان پر نیٹو حملے کے بعد اور طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد پشاور پہنچی ہوئی تھی اور وہ مختلف افغان کیمپوں میں مقیم تھے، ان کی بری حالت تھی سردی بڑھتی جا رھی تھی۔
ایک دن طے ہوا کہ افغان مہاجرین کو سردیوں کے ان دنوں میں محلہ سے گرم کپڑے اکٹھے کر کے ان کو پشاور پہنچایا جائے اور افغان مہاجرین کے ساتھ یک جہتی کا اظہار کیا جائے۔ ایک کیمپ بھی ہم نے لگا دیا۔ ہم نے اس وقت افغان ورکرز سالیڈریٹی کمپین نامی تنظیم بنائی تھی اس مقصد کے لئے۔
عاصمہ کو اس سرگرمی کی اطلاع ملی تو مجھے فون کیا کہ میرے پاس بھی کافی ایسے کپڑے ہیں جو افغان مہاجرین کے کام آ سکتے ہیں۔ اور ایک دن انہوں نے اپنے ڈرائیور کے ھاتھ کپڑوں سے بھرے تین سوٹ کیس بھجوا دئیے۔ جب میرے ان پہلوان اور محلہ لیول کے “بدمعاش” دوستوں نے سوٹ کیس کھولے کیونکہ وہ ہی اس کیمپ کے انچارج تھے تو دیکھا کہ عاصمہ نے تو اپنے نئے سلے سلائے سوٹ بھجوا دئیے تھے۔ میرے یہ دوست عاصمہ سے بہت متاثر ہو گئے تھے۔
“کیا کمال کی خاتون ہے، اتنے نئے اور مہنگے سوٹ، افغان مہاجر عورتیں تو بہت خوش ہوں گی یہ سوٹ لے کر، ایک دو میں نہ رکھ لوں اپنی بیوی کے لئے” ایک نے کہا۔ اس کی سب نے خوب خبر لی، خبردار کوئی سوٹ ادھر استعمال نہ ہو گا۔ تمام کپڑوں کو استری کرا کے ہم نے پشاور اپنے ساتھیوں کے ذریعے تقسیم کرا دئیے۔
واپس واھگہ بارڈر پر؛ یہ تینوں پہلوان اب عاصمہ کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے ان کے ارد گرد تھے۔
ہم نے واھگہ بارڈر پر پہلا گیٹ جو بند تھا دھکہ دےکر کھول دیا اور زیرو پوائینٹ کی طرف امن کے نعرے لگاتے روانہ ہوئے۔ پولیس اور رینجرز کی بھی دوڑیں لگ گئیں۔ ان کو شائید یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہم اندر داخل ہو کر نعرے بازی کریں گے۔
اب پولیس اور رینجرز لاٹھی چارج کر رھی تھی، عاصمہ کے ارد گرد میرے یہ دوست مار کھا رھے تھے مگرعاصمہ تک پہنچنے سے ان کو روک رکھا تھا۔ دھکم پیل میں عاصمہ کبھی ادھر کبھی ادھر ہو رھی تھیں ہم بھی مار کھا رھے تھے۔ پھر رحمان صاحب اور دیگر کی فوری مداخلت سے ہم نے زیرو پوائینٹ کی طرف مارچ روک دیا۔
لاٹھی چارج بھی رک گیا۔ لیکن مظاہرین کے جذبات بھڑکے ہوئے تھے۔ میں نے جوزف فرانسس کو کہا کہ میں ایک سٹول لاتا ہوں تم اس پر کھڑے ہو کر تقریر کرو اور غصہ کم کرو، تھوڑا پانی ڈالو تا کہ ہم مذید مار سے بچ جائیں۔
جیسے ہی وہ لکڑی کے سٹول پر کھڑا ہوا، وہ خود بھی بھڑک اٹھا۔ “آج انہوں نے ہم امن ہسندوں کو مظاہرہ نہیں کرنے دیا۔ ہمیں لاٹھیاں ماری ہیں ہم ان کو جانتے ہیں یہ کس طرح ڈھاکہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔، وہ اول فاؤل کہنے لگا۔ میں نے اس سے پہلے کہ وہ جملہ مکمل کرتا اس کو زبردستی سٹول سے نیچے اتارا اور چپ کرایا۔ پھر میں نے اعلان کیا کہ آج مظاہرہ ختم، ہم لاھور پریس کلب جا رھے ہیں وھاں ابھی پریس کانفرنس کریں گے۔
جوزف فرانسس اگر بات مکمل کر لیتا تو شائید بات لاٹھی چارج سے آگے چلی جاتی۔
ہم لاھور پریس کلب پہنچے تو آئی اے رحمان، عاصمہ جہانگیر، عرفان مفتی اور میں نے پریس کو مطلع کیا کہ کا طرح پرامن مظاھرہ کو جو امن کے لئے تھا پرپولیس اور رینجرز نے تشدد کیا تھا۔
بی بی سی نے اس واقعہ پر یہ تبصرہ کیا
“In another incident, there were scuffles when police broke up a peace protest on the Pakistan-India border crossing at Wagah, the BBC's Rachel Wright reports.
Hundreds of candle-carrying demonstrators had gathered on the Pakistani side of the border just outside Lahore where the last flag-lowering ceremony was taking place before the two countries officially severed links.”
عاصمہ آج ہم میں موجود نہیں لیکن ایسے درجنوں مظاھرے جو پاکستان اور بھارت کے درمیان امن قائم کرنے اور جنگ مخالف نظریہ پر منعقد ہوئے وہ عاصمہ جہانگیر کی پہل لینے سے ہی منعقد ہوئے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔