ایک کنفیوژڈ ووٹر کی آپ بیتی…
مولا خوش رکھے آج صبح صبح آنکھ کھلی تو کیا دیکھتا ہوں "پرانے پاکستان کی ستر سالہ بوڑھی رات اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھے تمام تر اچھی اور بری یادیں نئے پاکستان کے چلچلاتے سورج کے حوالے کر کے رخصت ہو رہی تھی ہر طرف رنگ و نور کی بہار تھی، پرندے چہچہا رہے تھے، درخت غسل صبوحی کی تازگی سے سرشار تھے نومولود سورج حنائی رنگت سے اپنے گالوں پر بلے کا نشان بنوا کر مشرق سے برآمد ہو رہا تھا. البتہ میری چارپائی کے ساتھ کھڑا سٹینڈ والا پُرانا پنکھا حسب معمول گھراں گھراں کی آواز دے رہا تھا، کروٹ بدلی تو چارپائی کی چرچر بھی پرانے پاکستان کی یاد دلانے لگی، نہار منہ اٹھ کر باہر نکلا تو بڑی چہل پہل نظر آ رہی تھی ہر کسی نے نئے کپڑے زیب تن کر رکھے تھے، ایک لمحے کیلئے تو یوں محسوس ہوا جیسے آج عید ہے. راہ چلتے ایک مہاپُرش سے پوچھا میاں آج کونسی عید ہے؟ موصوف گویا ہوئے "آج عید الانتخابات ہے، یہ ہر پانچ سال بعد آتی ہے بشرطیکہ کے درمیان میں مارشل لاء کا عقرب نہ لگ جائے".
بس پھر میں نے بھی نمازِ عید ادا کرنے کے لئے سیدھا پولنگ گاہ کا قصد کیا، وہاں پہنچا تو گرمی اور حبس بالکل پرانے پاکستان جیسا تھا پسینہ پورے جسم پر پتلی پتلی پگڈنڈیاں بناتے ہوئے چوٹی سے ایڑی تک کا سفر طے کر رہا تھا لیکن پولنگ اسٹیشن پر لائن میں لگے لوگوں کے چہروں پر ایک مانوس سی خوش فہمی کی جھلک نمایاں نظر آ رہی تھی (جو کہ ہر پانچ سال بعد چہروں پر دکھائی دیتی ہے). کنوارے حضرات ووٹ ڈالنے کے لئے اتنے ایکسائیٹڈ تھے گویا انہیں ووٹ دینے کے بدلے "ووٹی" ملنے والی ہو اور شادی شدہ حضرات شاید کچھ "تبدیلی" کی امید میں ووٹ ڈال رہے تھے. کچھ ہی فاصلے پر خواتین کا پولنگ اسٹیشن تھا جہاں سے بدستور جھگڑے اور بدنظمی کی اطلاعات موصول ہو رہی تھی، ہم نے وجہ پوچھی تو بتایا گیا کہ لڑکیاں اس بات پر پولنگ عملے سے لڑ رہی ہیں کہ انکے انگوٹھے پر لگائی جانے والی روشنائی "پِنک" کلر میں کیوں نہیں ہے؟
خیر میرے ساتھ یہ ہاتھ ہوا کہ جب ووٹ ڈالنے کا مرحلہ آیا تو انگوٹھے پر لائن لگانے والے بندے نے غلطی سے میری چِیچی یعنی چھوٹی انگلی پر لائن لگا دی، جس طرح پانچ سال سے کم عمر بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے بعد چھوٹی انگلی پر نشان لگایا جاتا ہے. غالباً موصوف اس سے قبل پولیو ٹیم کے ہمراہ رہ چکے تھے. میرے نشاندہی کرنے پر اس نے انگوٹھے پر نشان لگایا، ساتھ ہی میرے ہاتھ میں دو کڑکڑ کرتی پرچیاں تھما دی گئیں جن پر انواع و اقسام کے صادق اور امین امیدواروں کے نام اور انتخابی نشان چھاپے ہوئے تھے ایک لمحے کیلئے محسوس ہوا کہ تمام امیدواروں کی قسمت کی لکیر اس وقت میرے ہاتھ میں ہے دل نے تو چاہا کہ حاتم طائی کی قبر پر لات مارتے ہوئے تمام امیدواروں کے مقدس ناموں پر ایک ساتھ مہرِ انتخاب ثبت کر دوں لیکن پھر کچھ سوچ کر اپنے دودھ کے دھلے مطلوبہ امیدوار پر مہر لگا دی.
میرے ساتھ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ زیادہ لوگوں کے سامنے پزل پڑ جاتا ہوں لہٰذا آج بھی کچھ ایسا ہی ہوا. میں جب ووٹ کی پرچی بیلٹ بکس میں ڈالنے لگا تو غلطی سے سفید پرچی سبز بکس میں اور سبز پرچی سفید بکس میں ڈال بیٹھا، یہ تو شکر تھا کہ بیلٹ بکس پہلے ہی فُل بھرے ہوئے تھے اور پرچیاں ابھی پوری اندر نہیں گئی تھیں لہٰذا میں نے جلدی جلدی پرچیاں نکال لیں. میری اس حرکت کو پاس کھڑا فوجی پورے انہماک سے دیکھ رہا تھا اس نے ایک زہر آلود نظر مجھ پر ڈالی تو میرے تن بدن میں سنسنی اور خوف کی ایک لہر دوڑ گئی میں نے جلدی جلدی پرچیاں درست باکسز میں ڈالیں، اپنا حقِ رائے دہی دودھ اور مکھن سب استعمال کیا اور سیاہی لگے انگوٹھے کو گھماتا ہوا پولنگ اسٹیشن سے گولی کی رفتار سے باہر نکل آیا.
پولنگ اسٹیشن سے گھر آتے ہوئے راستے میں دو قسم کے احساسات مجھ پر طاری رہے. کبھی لگتا کہ میں نے چونکہ پہلی دفعہ اپنا قومی فریضہ ادا کیا ہے لہٰذا مجھے خوش ہونا چاہیے لیکن پھر اس امیدوار کے کرتوت میری آنکھوں کے سامنے گھوم جاتے جسے میں نے باقیوں سے بہتر سمجھ کر ووٹ دیا تھا…..!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔