ندیاں اوردریا
عبور کر لئے تھے اس نے
کھائیاں اور گھاٹیاں
پھلانگ چکا تھا وہ
اور
وادی اخضر
کے ڈھلوانوں پر جب
وہ پہنچا تو
رنگ برنگے قد آدم، نواسیوں نے
رنگین پیالوں میں، اسے
خوشی کی شراب پیش کی
خوشگوار ماحول نے
سرگوشی کی،
کہاں چلے ہو،رکو بھی
ہمارے روئوں جیسی
ملائم گد گدی زمینوں میں
میخیں ٹھونکو،
رشتوں کی طنابوں سے
اعتماد کا خیمہ کھڑا کرو…
اور پرستان کی شہزادی کے ساتھ
روشنی اور گرمی مِل بانٹو
ابن آدم! ہو تم
مور اور سانپ کی کہانی کیوں نہیں دہراتے.؟
اپنے پیاسے ہونٹ
اس ایک بارہماسی
شیریں چشمے کے دہانے پر رکھ کر
آنکھیں بند کرلو اور
گھٹ گھٹ کرکے
اس کا شییریں و شفاف پانی
اپنے حلق سے اتارتے جاؤ…
خدا مہربان ہے.
ڈرو مت …..
مگر
اس نے ان سنی کی
راتوں رات
بلندی پر چڑھتا گیا
جبکہ
اس کے ساتھی
دن کو شادیانے بجاتے، پھرتے رہے
آج وہ اکیلا ایک پہاڑ کی چوٹی پر کھڑا ہے
وہاں سے بہت نیچے….
دہکتے انگاروں کی طرف
چلتے ہوئے، کچھ
ایسے انسانوں کودیکھ رہا ہے
جنہوں نے اپنے سروں سے بارود لپیٹا ہے
اور اسے تو وہ
ماچس کی تیلیوں
جیسے دکھائی دیتے ہیں
وادئ اخضر میں
دھواں ہی دھواں ہے اور
کھلے آسماں میں
روشن کہکشانوں کے منظر میں گم ….
مصروف خداوں کی طرح
سب دھندوں سےبے خبر،
اجلی نیلگوں فضاوں میں
وہ سمادھی لگائے بیٹھا ہے.
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...