تحریر: اُوہنری (امریکہ)
مترجم: غلام مصطفٰے سولنگی (کراچی، پاکستان)
واشنگٹن کے قریب ہی مغرب میں گرین وِچ نامی ایک گاؤں ہے۔ پورے گاؤں کی گلیاں بے ترتیب سی ہیں۔ ایک گلی بل کھا کر خود ہی اپنے آپ کو ایک یا دو جگہ قطع کرتی ہوئی گزرتی ہے۔ مصوروں کے لیے اس گلی میں زبردست فنکارانہ امکان موجود تھے۔ چنانچہ فنکارانہ امکانات موجود تھے۔ چنانچہ فنکار لوگ سستے کرایوں کی تلاش میں اس نرالے گاؤں میں آپہنچے ۔ آہستہ آہستہ وہ چھڑ شاہراہ سے برتن وغیرہ خرید لائے اور یہیں آباد ہوگئے۔ اس طرح یہ گاؤں واشنگٹن ہی کی مضافاتی آبادی بن گیا۔
یہیں ایک چوڑی سی تین منزلہ عمارت کے اوپر سُو اور جانسی نے اپنا تصویر خانہ بنایا۔ جانسی کا اصل نام جو آنا تھا۔ ان میں سے ایک 'مین ہٹن' سے تعلق رکھتی تھی اور دوسری کی کیلیفورنیا سے۔ وہ آٹھویں شاہراہ کے عام سے ہوٹل کی میز پر ایک دوسرے سے متعارف ہوئی تھیں۔ گفتگو کے دوران انھیں معلوم ہوا کہ لباس، خوراک اور فن میں دونوں کی پسند یکساں ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں نے مل کرایک مشترکہ تصویر خانہ قائم کرلیا۔
یہ نومبر کا ذکر ہے جب نمونیا جیسے بدبخت اور خنک مزاج مرض نے درجنوں لوگوں کے شکار کیے، لیکن جب یہ گلیوں واقع تنگ اور کائی زدہ مکانات میں پہنچا تو اس کے قدم دھیمے پڑ گئے۔ اس مہلک مرض نے جانسی جیسی ایک چھوٹی سی کمزور عورت کو بھی شکار کرلیا۔ وہ بیچاری تو پہلے ہی کیلیفورنیا کی یخ بستہ ہواؤں کے باعث نیم مردہ ہوچکی تھی اور اتنی کمزور ہوچکی تھی کہ ہِل جُل بھی نہیں سکتی تھی۔ اپنے بستر پر پڑی ہوئی وہ چھوٹی سی محراب دار کھڑکی کے شیشوں میں سے سامنے والے مکان کی دیوارکو گھورتی رہتی تھی۔
ایک صبح سفید بالوں والے ڈاکٹر نے سُو کو برآمدے میں بُلایا۔
"میرا خیال ہے کہ اسکے زندہ بچنے کے امکان دس فیصد ہے۔" ڈاکٹر نے تھرمامیٹر جھٹکتے ہوئے بتایا، "اور یہ امکان بھی تب ہے، اگر وہ خود زندہ رہنے کی کوشش کرے، جو لوگ زندہ رہنے کی امید ختم کردیتے ہیں، ان کے لیے تمام ڈاکٹری نسخے بیکار ہیں۔ تمھاری چھوٹی سی سہیلی نے بھی دل میں یہی سُوچ لیا ہے کہ وہ ٹھیک نہیں ہوگی۔ ہاں یہ تو بتاؤ کہ اس کے دل میں کوئی آرزو بھی ہے؟"
"وہ۔۔ وہ خلیج نیپلز کی تصویر بنانا چاہتی ہے۔" سُو نے بتایا۔ تصویر بنانا۔۔۔!" اچھا ۔۔۔۔ اچھا۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ، بہرحال جہاں تک میرا تعلق ہے۔ میں آپ کی سہیلی کو بچانے کی پوری کوشش کروں گا۔ لیکن جب میرا مریض جنازے کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے لگے، تو میں دواؤں کی تاثیر نصف سمجھنے لگتا ہوں، اگر تم کسی طرح اسے سردیوں کے لیے نئے فیشن کے کوٹ کی آستین کے بارے میں ایک سوال بھی پوچھنے پر رضامند کرسکو، تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس کے بچنے کی امید دس فیصد کے بجائے بیس فیصد ہوجائے گی۔"
ڈاکٹر کے جانے کے بعد سُو تصویر خانے میں گئی اور کینوس تیار کرنے لگی ۔ تھوڑی دیر بعد وہ ڈرائینگ بورڈ سمیت سیٹی بجاتی ہوئی جانسی کے کمرے میں داخل ہوئی ۔ وہ بے حس و حرکت لیٹی ہوئی کھڑکی کی جانب تک رہی تھی۔ سُو نے سمجھا کہ وہ سو رہی ہے۔ اس لیے اس نے سیٹی بجانی بند کردی۔
اس نے اپنا بورڈ مناسب جگہ پر جمایا اور ایک رسالے کی کہانی کے لیے روشنائی سے تصویر بنانے لگی۔ ان نوجوان مصوروں کے لیے ، جو فن میں اونچا مقام حاصل کرنا چاہتے ہیں، یہ ضروری ہوتا ہے کہ شروع شروع میں وہ اُن کہانیوں کی تصویریں بنا کر اپنا راستہ ہموار کریں، جنہیں نوجوان ادیب اونچا ادبی مقام حاصل کرنے کے لیے لکھتے ہیں۔
سُو، اپنے ہیرو کے جسم پر ریاست 'اڈاہو' کے چرواہوں جیسی پتلون اور ایک شیشے کی عینک بنانے میں مصروف تھی۔ اُسے دھیمی سی آواز بار بار سنائی دی۔ وہ فوراً جانسی کے بستر کے پاس پہنچی۔
جانسی کی آنکھیں چُوپٹ کھلی ہوئی تھیں۔ وہ کھڑکی میں سے باہر دیکھ رہی تھی۔ اور گنتی گن رہی تھی۔ اُلٹی گنتی۔
"بارہ" اس نے کہااور چند لمحوں کے بعد "گیارہ" اور بڑی تیزی سے " دس "، پھر "نو" "آٹھ" اور "سات"۔
سُو نے بڑے غور سے کھڑکی کے باہر جھانکا۔ وہاں ایسی کیا چیز تھی، جسے وہ گن رہی تھی۔ اُس نے کھلے چٹیل صحن اور اس پر لے مکان کی دیوار کے سوا اور کچھ بھی نظر نہ آیا۔ ہاں، البتہ عشقِ پیچاں کی ایک پرانی بیل اس دیوار سے لپٹی ہوئی نظر آرہی تھی۔ یہ بیل مُرجھا چکی تھی اور اس کی جڑیں بھی مردہ ہوچکی تھیں۔ خزاں کی تیز اور سرد ہواؤں نے اس کے اکثر پتے گرا دیے تھے اور اب خالی شاخیں دیوار پر چمٹی ہوئی تھیں۔
"کیا بات ہے پیاری جانسی ؟" سُو نے پوچھا۔
"چھے" جانسی نے تقریباً کانا پھوسی کے سے انداز میں کہا، "اب یہ جلدی جلدی گر رہے ہیں ۔ تین دن پہلے سو کے قریب تھے۔ گنتے گنتے میرا سر چکرا گیا تھا۔ لیکن اب گننا آسان ہے۔ لو! ایک اور گیا۔ اب صرف پانچ رہ گئے ہیں۔"
"پانچ کیا، پیاری سہیلی ؟اپنی سُو کو بتا دو نا۔"
"پتے۔ عشقِ پیچاں کی بیل پر جب آخری پتا گر جائے گا، تو میں بھی مر جاؤں گی۔ مجھے یہ بات تین دنوں سے معلوم ہے ۔ کیا تمہیں ڈاکٹر نے نہیں بتایا؟"
افوہ! میں نے تو اپنی زندگی میں کبھی اس سے بڑھ کر فضول بات نہیں سنی !" سُو نے پیار سے جھڑکتے ہوئے کہا، "بھلا اس پرانے عشقِ پیچاں کی بیل کا تمہاری صحت کا کیا تعلق ؟ اور تم تو اس بیل کو پسند کیا کرتی تھیں ۔ شریر کہیں کی! بزدل مت بنو ۔ بات سنو! صبح ہی ڈاکٹر نے مجھے بتایا ہے کہ تمھارے صحت یاب ہونے کا امکان دس فیصد ہے۔ کیوں بھلا؟ بھئی جب ہم نیویارک میں ٹیکسی پرسیر کررہے ہوتے ہیں یا کسی نئی عمارت کے پاس سے گزرتے ہیں تب بھی ہمارے زندہ پہنچنے کےامکان دس فیصد ہی تو ہوتا ہے۔ سمجھ گئی نا؟ بس اب تم تھوڑی سی یخنی پی لو اور اپنی سُو کو کام کرنے دو تاکہ وہ تصویروں کے پیسوں سے تمہارے اور اپنے پیٹ کے لیے دال روٹی کا انتظار کر سکے۔"
"اب تم میری فکر مت کرو۔ " جانسی نے اپنی آنکھیں کھڑکی سے باہر جماتے ہوئے کہا، " لو! ایک پتہ اور گرا ۔ نہیں ۔۔ مجھے یخنی نہیں چاہیئے ۔ اب صرف چار پتے رہ گئے ہیں۔ میں رات کی تاریکی پھیلنے سے پہلے آخری پتے کو گرتے دیکھنا چاہتی ہوں۔ پھر میں بھی مر جاؤں گی۔"
"جانسی! پیاری جانسی! " سُو نے اس پر جھکتے ہوئے کہا۔ "کیا جب تک میں اپنا کام ختم کردوں ، تم اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکتیں؟ یہ تصویریں مجھے کل تک دینی ہیں۔ مجھے روشنی کی ضرورت تھی۔ ورنہ میں کھڑکی پر پردہ گرا دیتی۔"
"کیا تم یہ تصویریں دوسرے کمرے میں نہیں بنا سکتی ہو؟' جانسی نے سرد مہری سے پوچھا۔
"نہیں میں تمہارے پاس رہنا چاہتی ہوں۔" سُو نے کہا۔ "اور اس کے علاوہ میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ تم خوامخواہ عشقِ پیچاں کے پتوں کو تکتی رہتی رہو۔"
"اچھا تم کام ختم کر چکو تو مجھے بتا دینا۔" جانسی نے اپنی آنکھیں بند کرتے ہوئے کہا، "میں آخری پتے کو گرتے ہوئے دیکھنا چاہتی ہوں ۔ میں انتظار کرتے کرتے ہوئے تھک گئی ہوں۔ سوچتے سوچتے اکتا گئی ہوں۔ میں ہر گرفت سے آزاد ہونا چاہتی ہوں ۔ اور ان بیچارے جھڑے ہوئے پتو ں کی مانند کسی گہری تہ میں ڈوب جانا چاہتی ہوں۔ "
"سُو جاؤ۔۔۔ سُو نے کی کوشش کرو۔ " سُو نے کہا، "میں بوڑھے فقیر کی تصویر بنانے کے لیے "باحرمن" کو ماڈل بنانا چاہتی ہوں۔ میں اُسے بلانے جارہی ہوں۔ بس، ایک منٹ میں آئی۔ میرے پاس آنے تک تم ہلنے کی کوشش نہ کرنا۔"
بوڑھا ایک باحرمن ایک مصور تھا، جو اسی مکان کی سب سے نچلی منزل میں رہتا تھا۔ اس کی عمر ساٹھ سال سے اوپر تھا۔ جسم مائیکل انجیلو کے بنائے ہوئے مجسمے 'شیطان' جیسا تھا۔ ڈاڑھی حضرت موسٰیؑ کے مجسموں جیسی اور کان اساطر جیسے۔ باحرمن ایک ناکام مصور تھا۔ پچھلے چالیس سال سے وہ برش پر رنگ لتھیڑنے میں مصروف تھا، لیکن ابھی تک ایک پتا بھی نہیں بنا سکا تھا۔ وہ ہمیشہ ایک شاہکار بنانے کے خواب دیکھتا رہتا تھا۔ لیکن اس نےابھی تک اسے بنانا بھی شروع نہیں کیاتھا۔ کئی سالوں سے اس نے کبھی کبھار کسی اشتہار کی تصویر گھسیٹنے کے سوا اور کچھ بھی نہیں کیا تھا۔ اس کے علاوہ اس بستی کے اُن نوجوان مصوروں کا ماڈل بن کر بھی کچھ کما لیا کرتا تھا، جو معقول ماڈل کی استطاعت نہ رکھتے تھے۔ وہ سگریٹ بہت پیتا تھا اور اکثر اپنےآنے والے شاہکار کے بارے میں باتیں کرتا رہتا تھا۔ وہ اوپر کے تصویر خانے والی ان دو نوجوان مصوروں کی حفاظت کرنا اپنا فرضِ منصبی سمجھتا تھا۔
جب سُو' باحرمن' کی کٹیا میں پہنچی تو وہ جو نیپر بیری (Juniper berries) سونگھ رہا تھا۔ ایک کونےمیں خالی کینوس ایزل پر رکھا ہوا تھا۔ یہ کینوس پچیس سال سے شاہکار کی پہلی لائن کے لیے منتظر تھا۔ سُو نے اُسے جانسی کے وہم کے بارے میں سب کچھ بتا دیا۔ سُو ڈر رہی تھی کہ جانسی پتے کی مانند کمزور سی تو ہے ہی۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ دنیا پر سے گرفت ڈھیلی پڑتے ہیں وہ لڑھک جائے۔
بوڑھا 'باحرمن' اس اثنا میں لگاتار سُرخ آنکھوں سے اُسے گھورتا رہا اور ایسے احمقانہ تصورات پرطنزیہ انداز سے ہنسا۔
"کتنی حماقت ہے!" وہ چلایا۔ "ایسے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں جو فضول بیلوں سے پتے گرنے سے مر جاتے ہیں؟ میں نے تو کبھی ایسی بات نہیں سُنی ۔ نہیں بھائی نہیں۔ میں تمھارے لیے بوڑھا فقیر نہیں بنوں گا۔ بھلا تم نے اس کے بھیجے میں ایسی بیکار بات کیوں آنے دی؟ ہائے بیچاری جانسی!"
"وہ بہت زیادہ بیمار اور کمزور ہے۔" سُو نے کہا۔ "اور بخار نے اس کے دماغ کو عجیب و غریب مریضانہ تصورات سے بھر دیا ہے۔ اچھا باحرمن صاحب ! اگر آپ میرے لیے پوز نہیں بناتے تو نہ بنائیں لیکن میں اتنا ضرور کہوں گی کہ آپ ایک فضول سے بوڑھے۔۔۔۔ بوڑھے بکواسی ہیں۔"
"تم بھی تو ایک بیکار عورت ہو۔" باحرمن نے منہ پھاڑ کر کہا۔ "میں نے یہ کب کہا کہ میں پُوز نہیں بناؤں گا؟ چلو میں تمھارے ساتھ چلتا ہوں۔ میں تو آدھے گھنٹے سے بک رہا ہوں کہ پوز بنانے کو تیار ہوں۔ بے چاری جانسی ۔ ان کو تو بیمار نہیں رہنا چاہیئے۔ یہ ایسی جگہ نہیں ہے کہ یہاں وہ بیمار پڑجائے۔ کسی دن میں ایک شاہکار بناؤں گا۔ پھر ہم سب یہاں سے چلے جائیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟"
"جب وہ اوپر پہنچے تو جانسی سوئی ہوئی تھی ۔ سُو نے کھڑکی پر پردہ گرا دیا۔ اور باحرمن کو دوسرے کمرے میں آنے کا اشارہ کیا۔ وہاں جاتے ہی پہلے انھوں نے کھڑکی میں سے جھانک کر عشقِ پیچاں کی بیل کو خوفزدہ ہوکر دیکھا اور پھر ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔ ایک لمحے تک تو وہ بُول بھی نہ سکے ۔ باہر لگاتار بارش ہورہی تھی۔ اور ساتھ ہی ساتھ برف پڑ رہی تھی۔ باحرمن اپنی پرانی نیلی قمیص میں ملبوس ایک الٹی کیتلی کی چٹان پر فقیر بن کر بیٹھ گیا۔
جب سُو کئی گھنٹے تک سونے کے بعد صبح اٹھی تو اس نے دیکھاکہ جانسی کھڑکی کے گرے ہوئے پردے کو پٹر پٹر اداس آنکھوں سے دیکھ رہی ہے۔
"پردہ ہٹا دو میں دیکھنا چاہتی ہوں۔ " اُس نے آہستگی سے تحکمانہ لہجے میں کہا۔
سُو نے کسلمندی کے ساتھ پردہ ہٹا دیا۔
لیکن دیکھیئے تو صحیح ۔ کتنی حیرت کی بات ہے۔ رات بھر موسلا دھار بارش پڑتی رہی اور خوفناک جھکڑ چلتے رہے۔ لیکن سامنے دیوار کے ساتھ عشقِ پیچاں کی بیل پر ایک پتا اب بھی لگا ہوا تھا۔ یہ بیل کا آخری پتا تھا۔ اس کے دندانے دار سرے مُرجھا کر زرد پڑگئے تھے۔ لیکن یہ ٹہنی کے پاس سے ابھی تک سرسبز تھا اور زمین سے تقریباً بیس فٹ کی اونچائی پر دیوار کے ساتھ شاخ پر لٹکا ہوا تھا۔
"یہ آخری پتا ہے۔ " جانسی نے کہا۔ میرا خیال تھا کہ یہ رات یقیناً گر چکا ہوگا۔ رات تو اتنا زبردست طوفان آرہا تھا۔ خیر یہ گر جائے گا۔ اور میں بھی اسی کے ساتھ مر جاؤں گی۔ "
"میری پیاری سہیلی!" سُو نے اپنا تھکا ماندہ چہرہ تکیے کے پاس جھکاتے ہوئے کہا۔ "اگر تمہیں اپنا خیال نہیں تو میرا ہی کچھ خیال کرو۔ بھلا میں تمہارے بنا جی کر کیا کروں گی؟"
لیکن جانسی نے کوئی جواب نہ دیا۔ وہ روح جو اپنے طویل پرسرار سفر کی تیار ی میں مصروف ہو، دنیا کی سب سے زیادہ تنہا شے ہوتی ہے۔ جوں جوں دوستی اور زمیں کا رشتہ ڈھیلا پڑتا چلا گیا۔ جانسی زیادہ سے زیادہ تصورات میں غرق ہوتی چلی گئی۔
دن ختم ہوگیا لیکن شفق کی روشنی میں عشقِ پیچاں کا اکیلا پتا اب بھی اسی طرح دیوار کے ساتھ بیل پر چمٹا ہوا نظر آرہا تھا۔ رات آتے ہی بادوباراں کا سلسلہ پھر سے شروع ہوگیا۔ بادِ شمال جھکڑوں کی صورت میں چلنے لگی اور بارش کی بوندیں کھڑکیوں کے شیشوں اور چھجوں پر ٹپ ٹپ پڑنے لگیں۔
اگلے دن جب کافی روشنی ہوگئ تو جانسی نے پھر حکم دیا کہ پردہ ہٹا دیا جائے۔
عشقِ پیچاں کا پتا اب بھی موجود تھا۔
جانسی کافی دیر تک اسے دیکھتی رہی ، اور پھر اس نے سُو کو اپنے پاس بلایا، جو اس کے لیے چکن سوپ تیار کررہی تھی۔
"سُوا میں بہت بُری لڑکی ہوں۔ " جانسی نے کہا۔ "کسی طاقت نے اس آخری پتے کو وہیں روک رکھا ہے۔ تاکہ مجھے یہ پتا چل جائے کہ میں نے بہت بُرا سوچا تھا۔ مرنے کی خواہش کرنا تو گناہ ہے۔ اب تم ایسا کرو کہ میرے اردگرد چند تکیے لگا دو۔ میں بیٹھ کر تمہیں سوپ بناتے ہوئے دیکھوں گی۔"
سُوپ پینے کے بعد جانسی نے کہا۔ "سُو میں کسی دن خلیجِ نیپلز کی تصویر بناؤں گی۔"
دوپہر کے وقت ڈاکٹر آیا۔ تو سُو ساتھ ساتھ برآمدے تک اسے چھوڑنے آئی۔
"برابر برابر معاملہ ہے۔" ڈاکٹر نے سُو کا پتلا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر جھلاتے ہوئے کہا۔ "اگر تم اسکا دھیان رکھو گی تو جیت جاؤ گی۔ اب میں نیچے ایک اور مریض دیکھنے جارہا ہوں۔ باحرمن ہےاس کا نام، اور وہ مصور ہے۔ اُس بے چارے کو بھی نمونیا ہوگیا ہے۔ وہ بوڑھا اور کمزور آدمی ہے۔ اور نمونیا کا حملہ بھی شدید ہے۔ اُس کے بچنے کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔ لیکن میں آج اسے ہسپتال لے جارہا ہوں تاکہ اسے زیادہ آرام مل سکے۔"
اگلے دن ڈاکٹر نے سُو کو بتایا"تمہاری سہیلی کی حالت اب خطرے سے باہر ہے۔تم جیت گئی ہو ۔ اب ذرا اچھی خوراک اور احتیاط کی ضرورت ہے۔بس!"
اُس دن سہہ پہر کے وقت سُو جانسی کے قریب آئی۔ وہ اطمینان سے بستر پر لیٹی ہوئی نیلے رنگ کا فضول سا گُلو بند بُن رہی تھی۔ سُو نے اسے اس کے آس پاس رکھے ہوئے تکیوں کو اپنے بانہوں میں جکڑ لیا۔
"باحرمن صاحب آج ہسپتال میں نمونیا کے باعث فوت ہو گئے ہیں۔ وہ صرف دو دن بیمار رہے۔ چوکیدار نے انہیں پرسوں صبح اپنے کمرے میں تکلیف سے نڈھال پایا تھا۔ ان کے جوتے اور کپڑے بُری طرح بھیگے ہوئے تھے۔اور یخ بستہ تھے ۔ اور لوگ حیران تھے کہ باحرمن اتنی مہیب رات میں کہاں گئے تھے۔ اور پھر لوگوں کو کمرے میں ایک لالٹین نظر آئی۔ جو جل رہی تھی اور ایک سیڑھی جو گھسیٹ کر کہیں لے جائی گئی تھی ۔ اور کچھ برش جو ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے ، ایک تختہ جس پر سبز اور زرد رنگ ملائے گئے تھے اور۔۔۔۔ میری پیاری سہیلی ! ذرا کھڑکی سے باہر دیوار پر عشقِ پیچاں کے آخری پتے پر نگاہ ڈالو۔ کیا تم اس بات پر حیران نہیں ہوئی تھی کہ یہ پتا ہوا کےچلنے سے کیوں نہیں ہلتا۔۔۔۔؟ کیوں نہی پھڑپھڑاتا۔۔۔۔۔؟ اری میری جان! یہ باحرمن کا شاہکار ہے۔ جس رات آخری پتا گرا ، اُسی رات انھوں نے پتے کی یہ تصویر وہاں بنا دی تھی۔"
Orignal Title: The last leaf
Written by
O. Henry (September 11, 1862 – June 5, 1910)
– an American short story writer.