لفظِ "گرمی" اپنے نہاں خانۂِ اشتقاق میں حدّت و شدّت کے بیشمار بلکہ تمام معانی لیے ہوئے ہے ۔۔ یہ لفظ فقط ایک موسم کا نام ہی نہیں بلکہ ایک لطیف احساس بھی ہے جو سوزِ دُروں اور جذبِ بروں کی مِلی جُلی کیفیات کے ایک بحرِ قلزم کو وُجود بخشتا ہے ۔۔ یہ ایک حقیقت ہے جس سے اِغماض برتنا حِیطۂِ امکانی سے باہر اور قدرتِ انسانی سے خارج ہے ۔۔ یہ ایک جذبہ ہے جس کی مستیوں ، سرخوشیوں اور ہوش ربائیوں سے "بادۂِ گلفام" ساغرِ تن سے چَھلکنے لگتا ہے ۔۔ یہ ایک داستان ہے جس کا حرف حرف مہر و ماہ کی کِرنوں سے معمور اور شعاؤں سے منوّر ہے ۔۔ یہ ایک خوشبو ہے جس کے عطر بیز جھونکے "تندئِ بادِ مخالِف" سے ٹکرانا تو جانتے ہیں ہی ، اپنی سَطوت کا سکہ بٹھانے کے فن سے بھی بخوبی آگاہ ہیں ۔۔ یہ ایک خوش آئند مہمان ہے جو بیشمار موسمی سوغاتیں اور فطرتی تحائف کا ایک "کوہِ گراں" اپنے ساتھ لاتا ہے ۔۔ یہ ایک ہراول دستہ ہے اور جونہی یہ جلوہ فگن ہوتا ہے ، آم ، خربوز ، تربوز ، آڑو ، خوبانی وغیرہ سب اس کے پیچھے صف آرا ، تیغ زن ، زنار بدوش ، تیر بترکش ، ناوک براہ ، اور ذوقِ انسانی سے بر سرِ پیکار دکھائی دیتے ہیں اور لذّتِ کام و دَہن کا سامان مہیّا کرتے ہیں
یہ موسم متنوّع خصوصیات کا حامِل ہے ۔۔ کیوں کہ جب بھی میرے پردۂِ خیال پر لفظِ "گرمی" کی نمود ہوتی ہے ، دروں خانۂِ تصوّر میں پسینے کی بُوندیں ٹپکنے لگتی ہیں اور جونہی اس کی جلوہ آرائی ہوتی ہے ، تحریک و توانائی کے تمام سوئے ہوئے سوتے ميرے رگ و پے سے پُھوٹ پڑتے ہیں ، ایک آبشار رواں ہو جاتی ہے اور سُکڑے ہوئے اعضاء کی "گِرہیں" خود بخود کُھلنا شروع ہو جاتی ہیں اور کشادہ سے کشادہ تر ہوتی چلی جاتی ہیں ۔۔ اِس بات کی عملى تحقیق ہر بندہ خُود اپنے ذوق اور وجدان کے مطابق کر لے تو "اِیں خُوب تر است"
اس "موسمِ مبارک" کی ایک اور کرامت یہ بهى ہے کہ جونہی یہ ہمارے ملک میں قدم رنجہ ہوتا ہے ، طالب علموں کا تو جی چاہتا ہے کہ وہ اِس کی "بلائیں" لیں ۔۔ کیوں کہ مکتب و مدرسے کے "حلقۂِ صد کامِ نہنگ" سے رُستگاری حاصل کر کے وہ امن و عافیت کے اس سحر آگیں موڑ پر آ جاتے ہیں کہ تعطیلاتِ موسمِ گرما "رخشِ ناز" پر سوار ہو کر ان سے باہم گلوگیر ہونے کے لیے بے چینی و اضطراب کی انتہاؤں پر ہوتی ہیں ۔۔ اس منظر کی "ہیئتِ کذائی" یوں سمجھ لیجئیے کہ ایک قیدی سو سال قید با مشقت کے بعد "لقائے ہمرہاں" سے مشرف ہونے کے لیے "سمندِ شوق" پر سوار ہو کر باہر آتا ہے تو "یارانِ با وفا" کا ایک جمِّ غفیر دست بوسی اور مصافحے و معانقے کے لیے قطار اندر قطار محوِ انتظار ہوتا ہے ، تب وہ قيدى کس قدر شاداں و فرحاں اور سرور و انبساط کی "رقص گاہوں" میں ہوتا ہے ، اس کا درست تجزیہ اور صحیح اندازہ صرف طلباء کرام ہی لگا سکتے ہیں
اس موسمِ جاں فزا کے تصوّر سے میری "قرطاسِ خیال" پر اسکندریہ کا وہ ساحلِ سمندر آ ابھرتا ہے جو "زہرہ وش جل پریوں" اور ان کی "عشوہ طرازیوں" کے ایک دلربا و فتنہ زا منظر اور ازدحامِ کثیر کا عکسِ جمیل ہے
یہ موسم "اہلِ محبّت و الفت" کے لیے تو خوش آئند ہے لیکن کچھ "من جَلوں" کے لیے اس میں ذرا بھی دلچسپی کا سامان نہیں ۔۔ وہ نہ تو اس کی حدّت سے ضَرر آشنا ہوتے ہیں اور نہ ہی اس کا سوز انھیں متاثر کرتا ہے ۔۔ یہ موسم تو کجا ! بعض کو تو "آتشِ دوزخ" بھی کم لگتی ہے کیوں کہ وہ "آتش کدۂِ اندروں" کے سوختہ ساماں ، بختِ واژوں کے زندانى اور ہمومِ بیکراں کے قلادوں میں محبوس و مجبور جو ہوتے ہیں ۔۔ غالب انھی فرزندانِ ساختہ کے جدِّ امجد تھے ۔۔ چنانچہ وہ اپنا غبارِ خاطر ان الفاظ میں کہہ گئے :
آتشِ دوزخ میں یہ گرمی کہاں
سوزِ غم ہائے نِہانی اور ہے
اب ذرا سنجیدگی کی طرف آتا ہوں ۔۔ چونکہ ہم نے اپنی روِش اور پاکیزہ تہذیب کو "آستانۂِ مغرب" پر بطورِ نذرانہ چڑھا دیا ہے ، اس لیے ہم اکثر اسی "بادۂِ غرب" میں غرق ہو کر ایسے ایسے امور سرانجام دے دیتے ہیں کہ "الأمان و الحفیظ" ۔۔ مثلا مختلف تفریح گاہوں پر "ننگِ انسانی" سے نا بلد مرد و زن کا نہ صرف "اختلاط" ہوتا ہے بلکہ ارتباط ، انضباط ، اتّصال ، اتّحاد ، اتّفاق ، ارتفاق اور انبساط تک کے تمام خارا گداز مراحل "بآسانی" طے ہو جاتے ہیں ۔۔ اور جب تک کہ ہم با خبر ہوں , ہمارے شعور و وجدان کی تمام تر قوّتیں سرتا پا "مفلوج" ہو چکی ہوتی ہیں اور ہمارا ضمیر تہذیبِ یورپ کے زندان کا دائمی زندانی ہو چکا ہوتا ہے ۔۔ اس لیے میں دست بستہ عرض گزار ہوں کہ تفریح گاہوں پر "ہجومِ بے کراں" ضرور مچائیے ، ازدحامِ بے مہار ضرور برپا کیجئے ، مگر تقاضا ہائے انسانیت کو زیبِ تن اور لبادہ ہائے شرافت کو زیبِ روح کر کے ۔۔ اس طرح ہم نہ صرف موسمی نعمتوں سے کماحقہ شادکام ہو سکیں گے بلکہ ایک بہترین اور شاندار تہذیب پر عمل پیرا ہو کر ایک مسلمان معاشرے کو فروغ بھی دے سکیں گے اور اس وقت یہ سعادت حاصل کرنے کا سنہری موقع ہے ۔۔ کیوں کہ موسم چند ایام کے لیے آتا ہے اور "دمِ واپسیں" ہزار ہا جاندار و بے جان چیزوں مین ایک ارتعاش چھوڑ جاتا ہے جو آئندہ سال تک کے لیے ایک خاص تعلق کی غمّازی کرتا رہتا ہے اور ہر لب پر گویا واصف علی واصف کا یہ نغمہ ہوتا ہے:
آواز دے کے آپ تو خاموش کو گئے
میرے لہو میں اب بھی وہی ارتعاش ہے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...