اسلام آباد
٢٢ جنوری ٢٠٢٠
جنابِ من!
السلام عليكم و رحمۃ اللہ و برکاتہ!
فرطِ خیال مائل بہ ظہور ہے اور خامۂ لرزیدہ کا خرامِ خمار زدہ اس پہ شاہد! شکوۂ روا کے طمانچوں سے ضمیر کا چہرہ جامِ ارغوانی کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اسی کشاکش نے پرچک دی اور آپ سے ہمکلام ہوا، مگر :
من ازیں رنجِ گراں بار چہ لذت یابم
کہ باندازۂ آں صبر و ثباتم دادند
خیر! لب آمدہ گلہ گذاری کو لوٹانا مناسب نہیں، اس لیے آپ کے سامنے کچھ شکووں کی زنبیلیں کھولنی ہیں :
١- صداقت کی ٹوٹتی دیوار کو آپ کے دستِ تکیہ کی سخت احتجاج ہے۔ بہر سو بناوٹ کے جلوے، سجاوٹ کا سامان لیے ہوئے ہیں :
”یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے“
فرطِ دروغ کی سیاہیوں نے چہروں کو دھنلا دیا ہے۔ اب ان آلائشوں کو اتار کر چہروں کو بے داغ کرنے والا کوئی نہیں ملتا
٢- اب طوائفوں کے جسم پہ لمس پہچان کر "جسم خوروں" کے نام گنوانے والا بھی کوئی نہیں
آہ! ”ایں سخن را چہ جواب است، تو ہم میدانی“
٣- ستائش گاہوں میں زار و زر کی کشمکش اور سجدہ گاہوں میں توحید خیالوں کی چپقلش کے احوال کیا کہوں! سبھی تسبیحِ فریب رولنے میں مگن ہیں۔ اب آپ جیسا سیاہ بورڈ پہ سفید چاک سے نقاب کشائی کرنے والا کوئی نہیں۔ سیاہی پہ سیاہی کی تہیں جم چکی ہیں، اب اگر انھیں کھرچا بھی جائے تو بے سود!
یعنی ”اے طبلِ بلند بانگ! در باطن ہیچ!“
قدم بوسی قبول کیجئے! عرض ہے کہ بارگاہِ ایزدی سے واپسی کا پروانہ طلب کیجیے۔ اور چند ایام کے لیے سرائے فانی سے پھیلے مردہ ضمیری کے کُہر کو کافور کرتے جائیے، کہ ہماری رگوں میں اب وہ لہو نہیں رہا جسے سرد مہری کی آنچ پھڑکا سکے۔
بس اب بقولِ آزادؔ : ”دل حکایتوں سے لبریز ہے، مگر زبان درماندۂ فرصت کو یارائے سخن نہیں“ اس لیے قلم کاغذ کو مہلت دیتا ہوں۔ میری گذارش بارے تفکر کیجیے گا، کہ :
کوئی شرر نہیں بچا پچھلے برس کی راکھ میں
ہم نَفَسانِ شعلہ خُو! آگ نئی جلائیے
والسلام!
نیاز مند : دائمؔ