’’کوانٹم فزکس اور انسانی رویے‘‘
اپنے اصل موضوع پر گفتگو کا آغاز کرنے سے پہلے مناسب ہے کہ ہم Theory of Quantum Entanglementکو پوری توجہ سے سمجھنے کی کوشش کریں ۔ انیسوی صدی کی آخری دہائیوں میں مغربی سائنسدانوں نے ( سائنسدان مغرب میں پائے جاتے ہیں۔۔۔ جبکہ ہم ان سے مستعار علم پر ،پھر یہاں علم الکلام کے گھوڑے پر بیٹھ کر خوب دماغی ورزش کرتے ہیں اور لاحاصل سو جاتے ہیں اور سو جاتے ہیں) اشار ے دینے شروع کر دیئے تھے کہ مادی کائنات میں بلڈنگ بلاکس ایٹم نہیں بلکہ ایٹم کے اندر Sub-atomic ذرات مادی مظاہر کا سبب ہیں۔ پھر بہت تیزی سے ایٹم کے اندر آباد ایک پر اسرار اور مکمل جہاں نو دریافت کر لیا گیا۔ اب تک پانچ ہزار سے زائد ایسے Sub-atomicذرات دریافت ہو چکے ہیں۔۔۔جنہیں اب نینو پارٹیکلز کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک ہی قسم کے دو نینو پارٹیکلز، اگر ایک دوسرے سے ساتھ چارج ہو جائیں تو انہیں باہم مربوط یعنی ed Particles entangl مانا جاتا ہے ۔ جدید سائنس کے مطابق اگر ایسے پارٹیکلز کو آپ بھلے کتنی بھی دو ری پر جدا کردیں ۔۔۔ایک جز پر ہونے والی تبدیلی پلک جھپکنے سے بھی پہلے دوسرے جز پر وہی تبدیلی نوٹ کی جائے گی۔یعنی سیکنڈ کے سوویں یا ہزارویں حصے کے تصور سے بھی پرے۔۔۔یعنی Zero time۔۔۔اور وہ بھی بلا کسی درمیانی واسطہ یا انرجی کے۔ اس مظہرِفطرت کو عظیم سائنسدان آئن سٹائن نے Spooky behaviour of neno particles قرار دیا تھا اور دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ان پارٹیکلز کا یہ پر اسرا رویہ آج لگ بھگ سو سال گزر جانے کے بعد بھی ہنوز Spooky ہی ہے۔۔۔میرا خیال ہے یہ تب تک Spooky ہی رہے گا جب تک سائنسدان ایسے باہم مربوط پارٹیکلز کے درمیان موجود ان کے واسطہ کو نہیں ڈھونڈ لیتے۔اور جب کبھی اس واسطہ کو دریافت کر لیا گیا تو انسان کو شاید کائنات میں روشنی سے بھی کروڑوں گنا زیادہ تیز رفتار ذریعہِ کمیونیکیشن میسر آجائے۔
ضمنن عرض کرتا چلوں کہ سائنسدان یہ بات پایہ تکمیل کو پہنچا چکے ہیں کہ انسانی شعور اپنے ماحول کو سمجھنے اور بدلنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔مثال کے طور پر زید جب بکر اور بکر زید کو دیکھتا ہے تو دونوں کے شعور ایک دوسرے کو زید اور بکر تسلیم کر کے اپنے باہمی تفاعل کے ذریعے مختلف مقاصد کی تکمیل شروع کر دیتے ہیں۔۔۔جب کے دوسرے کمرے میں موجود ایک اجنبی کے لیئے وہ دونوں لا موجود ہیں اور وہ اجنبی ان کے حد تک ان کے لیئے موجود نہیں ہے۔۔۔لیکن جب تینوں آمنے سامنے ہوتے ہیں ایک دوسرے کو ماننے کی حد تک تینو ں کا شعور ایک اکائی کے طور پر مشترک ہو جائے گا۔ اب یہ شعوری کرشمہ لاکھوں ،کروڑوں ار بوں انسانوں تک جا پہنچتا ہے اور یہ اربوں انسان مل کر اس کرہ ارض کے ماحول کو اپنے شعور میں متحرک دیکھتے ہیں اور پھر یہ اجتماعی شعوربطور شاہد آسمان،چاند ستاروں اور کہکشاؤں تک جا پہنچتا ہے۔ بے پنا ہ طاقتور دور بینوں سے سائنسدانوں کا انفرادی شعور اربوں نوری سالوں پر واقع کہکشاؤں کے سلسلوں تک، کے ساتھ منسلک ہو چکا ہے اور اگر کسی روز ایسا اہتمام ہو جائے کہ سات کے سات ارب انسانوں کو بڑی بڑی سکرینوں پر خلاء میں موجود کسی دوربین سے براہ راست کسی دور دراز فاصلے پر واقع کہکشاں کا نظارہ کروایا جا رہا ہو تو سمجھ لیں کہ اُس روز سات ارب انفرادی شعور ایک نقطے پر جمع ہوجائیں تو اُس اجتماعی شعور کی طاقت اُس کہکشاں کی پیدائش کا سبب بن رہی ہو گی اور ایک نا قابل تصور کائناتی وحدت وجود میں آئے گی۔
1930 کی دہائی اور ما بعد بھی آئن سٹائن اور نیل بوہر کے مابین کوانٹم لیول کے اجزاء کے ماہت اور ان کے behaviour پر خوب مباحث جاری رہے۔ پھر جان بیل اور جان کلوزئیر نے 1970کے دہائی کے اوائل میں ایٹم کو توڑنے اور کوارک یعنی نینو لیول پر ذرات کے behaviourکے مشاہدات کی مشینیں بنائیں۔
اب چلتے چلتے ذرا یہ بھی سمجھ لیتے ہیں کہ نینو پارٹیکلز کا ایک چارجڈ اور باہم جوڑا ایک دوسرے کے الٹ سمت میں رویہ کا مظاہرہ کر تا ہے۔ لیکن یہ اصول ہر وقت ہر بار مشاہدہ کرنے پر سو فیصد۔۔۔ ایسا نہیں آتا۔ کبھی تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ ایک پارٹیکل کا رویہ الٹ نظر آتا ہے اور کبھی باہم ایک جیسا ہی۔ اور اوسطاًالٹ رویہ اور سیدھا رویہ ففٹی ففٹی کے اصول کے طور پر مان لیا گیا ہے۔ پھر double slit, single slit یا Multi slit کے تجربات میں الیکٹرونز کی حرکت اور رویہ ۔۔۔بغیر مشاہدہ اور مشاہدہ کے دوران بدل جاتے ہیں۔
اب دوبارہ کائناتی ویب کی ایک اور سادہ انداز میں تشریح کرتے ہیں۔ اگر یہ ہی اجزاء سارے مادی ماحول کے بلڈنگ بلاکس ہیں تو پورا کائناتی مادہ بشمول اس منے سے سیارے پر ہر طرح کے جاندار و جما دات میں یہی نینو پارٹیکلز موجزن و رواں دواں ہیں (یہاں یاد رہے کہ ان نینو پارٹیکلز کی ایک لگاتا ر بو چھاڑ ہمارے کرہ ارض پر ہر جانب سے ہر وقت ہو رہی ہوتی ہے اور یہ اجزاء نہ صرف یہاں کچھ مقدار میں Trap ہوتے جاتے ہیں اور نئے اجسام کی تشکیل کا سبب بنتے بلکہ یہ خود کرہ ارض کے آر پار ہوتے رہتے ہیں اوران کی مستقل بو چھاڑ نہ کبھی رکی نہ تا قیامت رکے گی) یعنی قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ہر جسم میں موجود نینو پارٹیکلز لازماً بالکل اپنے جیسے چارجڈ پارٹیکلز کے جوڑوں کی شکل میں۔۔۔جو کہیں قریب ہی ہو سکتے ہیں یا پھر بہت دور۔۔۔ مربوط ہونگے۔ اگر اس قیاس کو تھوڑا پھیلا لیا جائے تو پھر ممکن ہے ہمارے کرہ ارض کا باہم مربوط کرہ بھی کہیں دوسری کائنات میں موجود ہو اور پھر ہمارے نظام شمسی کا باہم مربوط نظام شمسی کسی اور کہکشاں میں موجود ہو اور اسی طرح ہماری کہکشاں سے باہم مربوط ایک اور کہکشاں کہیں دوسری کائنات میں موجود ہو۔۔۔اور پھر بہت ممکن ہے کہ ہماری کائنات سے باہم مربوط ایک ا ور کائنات بھی ہو۔۔۔اسی لیئے اب اصطلاح یونیورس سے ملٹی ورس میں تبدیل ہو تی جا رہی ہے۔
باہم مربوط یعنی entangled واحد ذرہ سے پیچیدہ کائناتی نظاموں تک سمجھ لینے کے بعد ہم واپس اپنے کرہ اور پھر اس پر بسنے والے انسانوں پر آجاتے ہیں۔ 31مئی 2018 کوکیٹلن لیونڈر کے مطابق حالیہ کوئی سو برس کی تاریخ کے اعدادو شمار پر غور کیا جائے تو دنیا کے کسی ایک کونے میں پیدا ہونے والی بڑی تحریک نے دنیا کے دوسرے کونوں میں بسنے والے انسانوں میں بھی باغیانہ ہلچل مچا ئی۔ اب نینو پارٹیکلز کے رویہ پر ففٹی ففٹی اثرات کے اصول کے تحت واضع دیکھا جا سکتا ہے کہ کہیں ایک جیسی تحریکیں اور جذبات ابھرے اور کہیں بالکل الٹ مخالف سمت کی ہوائیں گرم ہوئیں۔ وہ اپنے طویل اور مدلل آرٹیکل میں حالیہ برسوں میں امریکہ میں صدر ٹرمپ کے صدارت میں آنے کے بعد اُٹھنے والی قوم پرست تحریک کو برٹیکس پھر فرانس ،اٹلی اور اد ھر ہندوستان میں مذہبی قوم پرست تحریکوں کو باہم مربوط مظاہر نفسیات گردانتے ہیں۔ انہوں نے دوسری بڑی مثال اسلامی دہشت گردی کی دی ہے۔۔۔کہ داعش کے پروان چڑھنے سے پہلے ہی القاعدہ ،عرب گروپ ،افغان گروپ،وسطی ایشین گروپ اور پھر افریقہ میں مختلف دہشت گرد گروہوں کو نینو لیول پر باہم مربوط ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
معزز قارئین! خواتین و حضرات!اس مضمون میں دلائل کو وسیع تناظر سے سکیڑتے ہوئے اگر میں انفرادی لیول تک لے آؤں تو یہ زیادہ رومانٹک لگے گا۔۔۔جس میں بہترین نیت کے باوجود ایک میاں کی جوڑی کے درمیان کبھی ہم آہنگی پیدا نہیں ہوتی بلکہ گھریلو حالات کی گھمبیر ترین صورت میں تشدد ،قتل یا پھر تعلق طلاق پر جا کر ختم ہوتا ہے۔ اور کہیں کہیں آپ کو ایسی جوڑی بھی دیکھنے کو ملے گی جو انس و محبت کے ایک ماحول میں ایک مثالی زندگی جیتے ہیں اور پھر لگ بھگ اکٹھے ہی طبعی موت کی نیند میں چلے جاتے ہیں۔۔۔یا پھر تھوڑے ہی وقفے سے ۔ اسی طرح مردوں یا خواتین میں باہم پہلی ملا قات پر ہی دوستیاں استوار ہوتی ہیں اور پھر ایثار و قربانی کے پہلو سے اپنے ارد گرد مشہور مثالیں قائم کرتی ہیں۔ یہ نینو پارٹیکلز اپنا بہترین مظاہرہ محبت کرنے والے جوڑوں میں ظاہر کرتے ہیں۔۔۔اور آپ بخوبی آگاہ ہیں کہ99فیصد محبتیں قبل شادی یا بعد از شادی ناکام ہوتی ہیں۔ وجہ یہی ہوتی ہے کہ نینو لیول پر ان کی جسمانی یا روحانی مطابقت یا جُڑت(entanglement) قائم ہی نہیں ہو رہی ہوتی۔ایک فریق رات کو آہیں بھر بھر کے جگر میں سُدے پیدا کر رہا ہوتا ہے تو دوسرا آرام سے سو رہا ہوتا ہے۔ لیکن perfectly entangled جوڑی ہر وقت ہر حالات میں دور ہوتے ہوئے بھی ایک وقت میں ایک ہی سوچ کے تحت عمل اور رد عمل کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔۔۔اور پھر جب وہ آپس میں دن بھر کے کاموں اور ایک دوسرے کی یاد کو ایک دوسرے سے شیئر
کرتے ہیں تو Choherent actions کے متعلق جان کر مزید محبت و وار فتگی محسوس کر کے مزید باہم مربوط ہوتے چلے جاتے ہیں اور مثالی زندگیاں گزارتے ہیں۔ ایک رمانٹک مزاج عورت کو ایک ہائپر سیکسی خاوند کبھی بھی خوش نہیں رکھ سکتا ۔۔۔اسی طرح ایک رومانٹک مزاج مرد کو ایک الٹرا ہا ئپر سیکسی بیوی کبھی خوش نہیں رکھ سکتی۔۔۔اس صورت میں انہیں فوراً علیحدگی اختیار کر کیاپنا نینو لیول پر مربوط ساتھی تلاش کرنا چاہیئے۔
اس طرح آپ نے کبھی نہ کبھی یقیناًسنا ہو گا کہ فلاں عورت یا فلاں مرد اچانک حرکت قلب بند ہو جانے سے مر گئی یا مر گیا!تو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ اُس کا اصل باہم entangled پارٹنر دنیا کے کسی اور ملک میں مر گیا۔
اب اس اصو ل کو اگر روز مرہ زندگی کے اچھے یا برے بزنس پارٹنرز یا کسی کام کے سلسلے میں پہلی بار کسی افسر یا کسی بزنس مین سے ملنا اور اُس کا فوری مثبت یا سرد مہر ریسپانس دینا۔۔۔اسے بھی نینو پارٹیکلز کی مطابقت یا عدم مطابقت سے منسلک کیا جا سکتا ہے۔
معزز قارئین!نینو پارٹیکلز کے لا متناہی فاصلوں پر باھم مربوط ہو نے اور بیک وقت عمل و ردعمل کے اظہار پر تحقیقا ت ابھی تک ابتدائی مراحل میں ہیں اور میرا مضمون اُن تحقیقات کی روشنی میں خالصتاً مفروضہ جات پر مبنی ہے۔ البتہ کمیو نیکیشن اور کمپیو ٹنگ پراسس میں نینو پارٹیکلز کی ان entangled خصوصیات سے فوائد اٹھانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ اور ہمیں توقع رکھنی چاہیئے کہ مستقبل میں اشیاء اور جانداروں کی ٹیلی پورٹیشن یا انسانی نفوس کا ڈیٹاکسی سوپر کمپیوٹر میں ڈال کر مرد و عورت کے باہم Entangledجوڑیوں کا پتہ لگانے پر بھی ریسرچ ہو گی۔ اور اب چشم تصور میں لائیے اگر ایسا ہو جاتا ہے تو عشق و محبت کے گھاؤ واؤ اور دیگر کئی ایک سماجی مسائل کا سکہ بند حل سامنے آجائے گا تو یہ کرہ ء ارض ہی ہماری آنے والی نسلوں کے لیئے جنت نظیر ہو جائے گا۔
وما علینا اللبلاغ المبین!!!
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔