’’کیا مشہور پاکستانی سائنسداں، پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی زندگی پر ڈرامہ نہیں بن سکتا؟‘‘ یہ سوال گزشتہ دنوں کراچی ادبی میلے (کے ایل ایف) میں ’’پاکستانی ڈرامے کا عروج و زوال‘‘ کے عنوان سے ایک نشست میں کسی خاتون نے کیا۔ اسٹیج پر براجمان، نابغہ روزگار پاکستانی ہدایت کاروں کا جواب متفقہ اور بے رحمانہ تھا: نہیں! ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی زندگی پر ڈرامہ نہیں بن سکتا۔ ایک سائنٹسٹ کی زندگی سے بھلا کسی کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ کون ’’انویسٹ‘‘ کرے گا؟ کون ’’اسپانسر‘‘ کرے گا اس ڈرامے کو؟
یہ جواب مجھے ایک اور ہی دنیا میں لے گیا۔
’’میں نے ایک شادی کی… نہیں! میں نے دو شادیاں کیں۔ میری پہلی شادی بہت کم عمری میں، شاکرہ نام کی ایک خاتون سے کردی گئی تھی۔ مگر ہم دونوں میں ذہنی ہم آہنگی نہیں تھی۔ پھر میں جرمنی چلا گیا، جہاں میری ملاقات ’ٹلی‘ سے ہوئی اور ہم نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے شاکرہ کو خط لکھا کہ میں ایک جرمن خاتون سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ آپ بھی کم عمر ہیں، کسی دوسری جگہ شادی کرسکتی ہیں۔ کہیے تو میں آپ کو آزاد کردیتا ہوں۔ خط کے جواب میں شاکرہ نے لکھا: میں صرف ایک نام ’سلیم‘ کے سہارے پوری زندگی گزار سکتی ہوں۔ وہ واقعی شاکرہ ثابت ہوئیں اور انہوں نے اپنی ساری زندگی ’شاکرہ سلیم‘ کے طور پر گزار دی۔‘‘ یہ واقعہ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے غالباً ایک نجی گفتگو میں سنایا تھا۔
لیکن شاید یہ کسی ڈرامے کا منظر نہیں بن سکتا۔ کوئی بات نہیں، کچھ اور دیکھ لیتے ہیں۔
پاکستان بن چکا ہے لیکن تحریکِ آزادی کے ممتاز رہنما، چوہدری خلیق الزماں کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ابھی پاکستان نہیں گئے کیونکہ وہ ’’کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ، انڈیا‘‘ (سی ایس آئی آر، انڈیا) کے سربراہ ہیں۔ دہلی میں مسلم کش فسادات ہورہے ہیں؛ اور ان مخدوش حالات میں ڈاکٹر صاحب کے ہندو شاگرد، انہیں حفاظتی حصار میں گھر سے لیبارٹری اور لیبارٹری سے گھر پہنچانے کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔
ڈرامہ بنانے کےلیے یہ بھی شاید کچھ خاص واقعہ نہیں، لیکن ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کی زندگی تو نہ جانے کتنے ہی واقعات سے بھری پڑی ہے۔
یہ سچ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کا تعلق سائنس کے میدان میں کیمیا کے شعبے سے تھا، مگر انہوں نے اپنی زندگی کی پہلی کمائی اپنی پینٹنگز کی نمائش اور فروخت سے حاصل کی تھی۔ مصوری کے علاوہ انہیں ادب، شاعری اور فنونِ لطیفہ کا بھی شوق تھا۔ مثلاً، دوستوں کی ایک محفل میں ڈاکٹر صاحب نے رقص کا ایک منفرد انداز سمجھانے کےلیے باقاعدہ ’’پرفارم کرکے‘‘ دکھایا تھا۔ جرمن شاعر ’’رلکے‘‘ کی شاعری کا منظوم اردو ترجمہ بھی ڈاکٹر صاحب نے کیا تھا، جبکہ مصوری کے زبردست نقاد بھی تھے۔
لیکن چھوڑیئے صاحب! اس سے ڈرامے میں کیا خاک دلچسپی پیدا ہوگی؟ ڈرامہ بنانے کےلیے کچھ اور چاہیے۔ اسی ’’کچھ اور‘‘ کی جستجو میں مزید آگے بڑھتے ہیں۔
بھارتی وزیراعظم، جواہر لال نہرو کا کمرہ ہے۔ ان کے سامنے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی بیٹھے ہیں۔ نہرو جی گویا ہوتے ہیں، ’’سلیم! دیکھو مجھے پاکستانی حکومت کا ایک خط آیا ہے، جس میں لکھا ہے کہ سی ایس آئی آر انڈیا کی طرز پر ایک ادارہ بنانے کےلیے انہیں تمہاری خدمات درکار ہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے نہرو جی وہ خط، ڈاکٹر صدیقی کی طرف بڑھا دیتے ہیں۔ ڈاکٹر صدیقی کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر نہرو جی کہتے ہیں، ’’تم جو فیصلہ کرو گے، مجھے منظور ہوگا۔‘‘ یہ سن ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں، ’’جناب، میرا خیال ہے کہ پاکستان میں میری زیادہ ضرورت ہے، مجھے وہاں جانا چاہیے۔‘‘ یوں ڈاکٹر صاحب پاکستان آجاتے ہیں اور 1953ء میں ’’پاکستان کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ‘‘ (پی سی ایس آئی آر) قائم کرتے ہیں۔
اوہ! معاف کیجیے گا، یہ بھی بالکل غیر دلچسپ واقعہ ہے۔ لیکن شاید اسی پی سی ایس آئی آر سے ڈاکٹر صاحب کی اچانک جبری برطرفی میں ڈرامہ نگاروں کےلیے کچھ دلچسپی ہو۔ خیر، کچھ اور دیکھتے ہیں۔
حسین ابراہیم جمال (ایچ ای جے) ریسرچ انسٹی ٹیوٹ آف کیمسٹری قائم ہوئے برسوں گزر چکے ہیں اور ڈاکٹر صاحب اس کے بانی چیئرمین کی حیثیت سے آج بھی تحقیقی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اسی ادارے میں کچھ ماہرین کو ڈاکٹر صدیقی سے پرخاش ہے۔ ایسے ہی ایک سائنسداں، نجی محفل میں ڈاکٹر صدیقی پر نکتہ چینی کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ’’بڈھا مر کے بھی نہیں دیتا۔‘‘ چند دن بعد یہ جملہ ڈاکٹر صاحب تک بھی پہنچ جاتا ہے، جسے سن کر وہ مسکراتے ہیں اور فی البدیہ کہتے ہیں:
دعائیں مانگے ہیں اغیار میرے مرنے کی
خدا جو چاہے تو میں ان کی ضد میں مر کے نہ دوں
ایک انٹرویو میں سرد آہ کھینچ کر فرماتے ہیں، ’’اتنی تحقیق کی، اتنے لوگوں کو پی ایچ ڈی کروایا۔ پی سی ایس آئی آر بنایا، ایچ ای جے بنایا، لیکن اپنے لیے گھر نہ بنا سکا۔‘‘ اس انٹرویو کے بعد جامعہ کراچی نے فیصلہ کیا کہ کراچی یونیورسٹی اسٹاف ٹاؤن میں ڈاکٹر صاحب کی رہائش گاہ کو ان کی ملکیت قرار دے دیا جائے۔
1990ء کے عشرے میں ایک وقت وہ بھی آیا تھا جب حکومت نے ’’خزانہ خالی ہے‘‘ کا بہانہ کرکے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کا اعزازیہ (5,000 روپے ماہانہ) بند کرتے ہوئے اپنی علم دشمنی کا ثبوت دیا تھا۔
لیکن ان سب باتوں سے، ان سب واقعات سے کسی ڈرامہ نگار، کسی ہدایتکار، کسی پروڈکشن ہاؤس یا اسپانسر کو کیا دلچسپی ہوسکتی ہے؟ وطنِ عزیز میں فنونِ لطیفہ کے ٹھیکیدار یہ سوچے بیٹھے ہیں کہ ایک سائنسداں کی زندگی، تجربہ گاہ سے شروع ہوتی ہے اور تجربہ گاہ میں ہی ختم ہوجاتی ہے۔ وہ اسے سماج کا ایک جیتا جاگتا فرد نہیں بلکہ فارمولوں اور مساواتوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔
ایک سائنسداں، پہلے ایک انسان ہوتا ہے اور اس کے بعد کسی شعبے میں مہارت کا دعویدار۔ سائنسی تحقیق سے ہٹ کر بھی اس کی ایک زندگی ہوتی جو خلوت و جلوت، دونوں کا مجموعہ ہوتی ہے۔ ڈرامے کی کاسٹ کی طرح ایک سائنسداں کی زندگی بھی مختلف چھوٹے بڑے کرداروں سے مل کر بنتی ہے۔ اس کی زندگی کا تانا بانا بھی ذاتی اور پیشہ ورانہ پہلوؤں کا احاطہ کرتا ہے۔ شاید اس کی زندگی منٹو اور قندیل بلوچ کی طرح رنگ برنگ نہ ہو، لیکن ضروری نہیں کہ وہ بالکل ہی بے رنگ، پھیکی سیٹھی اور بے کیف ہو۔
کسی اور کے بارے میں تو معلوم نہیں لیکن کم از کم ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم کی زندگی ہر اعتبار سے اس قابل ہے کہ اس پر کوئی ڈرامہ، کوئی ٹیلی فلم یا فیچر فلم بنائی جائے۔ البتہ، مشکل یہ ہے کہ اس کا اسکرپٹ بہت زیادہ تحقیق کا متقاضی ہوگا، جس کی تیاری میں ایک سے دو سال لگ جائیں گے۔ ڈرامے یا فلم کی تکمیل مزید ایک سال میں ہو پائے گی؛ اور اس پورے عمل میں لگ بھگ دس کروڑ سے پندرہ کروڑ روپے خرچ ہوجائیں گے۔ ویسے تو شوبز میں فلموں اور ڈراموں کا فلاپ ہونا کوئی بڑی بات نہیں، لیکن اگر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی مرحوم پر بننے والی کوئی فلم فلاپ ہوگئی یا ڈرامے کو تگڑی ’’اسپانسرشپ‘‘ نہیں مل پائی، تو یہ ہماری شوبز انڈسٹری کا نقصانِ عظیم ہوگا۔
اسی لیے پاکستانی اسکرپٹ رائٹرز، ڈائریکٹرز اور پروڈکشن ہاؤسز وہی سب کچھ کررہے ہیں جو اسپانسرز کو پسند ہے؛ اور اسی بناء پر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی تو کیا، وطنِ عزیز کی کسی بھی سنجیدہ علمی شخصیت پر کوئی ڈرامہ نہیں بن سکتا۔
اس بارے میں بلاوجہ کڑھنے اور جی جلانے سے کیا فائدہ؟ بہتر ہے کہ ہم ’’انٹرٹینمنٹ‘‘ کے نام پر عورت کی مظلومیت، مرد کا نکھٹو پن اور عشقیہ داستانیں دیکھتے رہیں؛ اور وطنِ عزیز کے علمی و فکری طور پر بانجھ ہونے کا شکوہ کرتے رہیں۔
۔****
شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:
آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر