رام پور میں عوامی شاعری یا لوک گیت کی ایک صنف چہاربیت ہے۔ اس کے موجد پٹھان ہیں۔ جو پٹھان افغانستان سے آکر ہندوستان میں آباد ہوئے، وہ اپنے ماضی اور آبائی وطن کو یاد کرتے تو دف بجا بجا کر اشعار پڑھا کرتے تھے۔ یہی سبب ہے کہ اس کو ” پٹھان راگ ” بھی کہتے ہیں۔ یہ اشعار عام طور پر ہجریہ اور عشقیہ ہوتے تھے۔ ان کی اس لوک گیت شاعری کا کوئی ریکارڈ نہ تھا نہ ہی کبھی کسی نے دیوان تیار کیا تھا۔ نواب فیض اللھ خان کے دور میں قیام سلطنت رام پور کے ساتھ ہی ہزار ہا افغان مزید یہاں آکر آباد ہوگئے اور اس جگہ کو جائے امن بھی تصور کرنے لگے۔ ان آباد گاروں میں مستقیم خان غزنوی پسر عبدالکریم خان رام پور کے ” چہار بیت ” کے موجد سمجھے جاتے ہیں۔ ابتدا میں چہار بیت صرف پشتو زبان میں ہوا کرتے تھے مگر جلد ہی اردو زبان میں بھی استعمال ہونے لگے۔ ان چہار بیتوں میں سے قدیم مسلم کلچر کی عکاسی ہی نہیں ہوتی بلکہ پٹھانوں کے طرز معاشرت، رسم و رواج اور تہذیبی رجحانات کا علم بھی ہوتا ہے۔
ان چہاربیتوں کا تعلق نہ تو روایتی شاعری سے ہے اور نہ ہی قافیہ پیمائی سے۔ اس میں قافیہ اور ردیف کی بھی ضرورت محسوس نہ کی گئی کیونکہ تکَ بند ہوتے ہوئے اس میں معنویت کی کمی نہ ہوتی تھی۔ اسے با آسانی سمجھا جاسکتا تھا۔ لوک شاعری کی یہی سب سے بڑی خصوصیت ہے کہ ہر قوم کی شاعری، عوامی شاعری ہوتی ہے جوکہ سیاست اور آداب کے تکلف سے بلکل بے نیاز ہوتی ہے۔ رام پور کی لوک شاعری میں بھی یہی خاصیت ہے۔ عبدالکریم خان نے اپنے بہت سے شاگرد چھوڑے جن میں سے کفایت اللھ خان، نجف خان، گل باز خان، تخلص گل اور کریم اللھ خان بہت شہرت ھاصل کرگئے کفایت اللھ کی شاگردی کے سلسلے میں محبوب علی خان اور غلام نبی خان ماضی تھے۔ محبوب علی کے دو شاگرد نجا میاں اور علی بہادر خان نے اس فن کو عروج پر پہنچا دیا۔ احمد آباد، بھوپال، ٹونک، جاورہ، مراد آباد، امروہہ، سنبھل، اور چاندپور وغیرہ میں یہ صنف آئی۔ قمر استاد بھی اسی صنف کے استاد تھے۔ ان کی پاکستان ہجرت سے یہ شوق کراچی ہجرت کرآیا اور اب کراچی میں بھی پروان چڑھ رہا ہے۔
رام پور میں قدیم اکھاڑے آج بھی اپنے استادوں کے نام سے مشہور ہیں۔ ہر استاد اپنی زندگی میں اپنا خلیفہ اور جانشین نامزد کرجاتا ہے۔ رضا لائبریری رام پور میں چہاربیتوں کا ایک بڑا زخیرہ محفوظ ہے۔ اس میں محمد اسمعٰیل خان صبر کی کتاب ” شاہانہ ” تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔ چہاربیت باقی لوک شاعریوں سے اس بات میں الگ ہے کہ یہ صرف مرد گاتے ہیں۔ اس کے گانے کی اصل خوبی اور کمال یہ گردانا جاتا ہے کہ آواز اونچی اور پاٹ دار ہو لہجہ کی گھن گرج اور بلندی اور پھر ٹھراو، وہی اس کا کمال ہے۔ چہار بیت کی ابتدا تو پشتو زبان سے ہوئی مگر رفتہ رفتہ اس میں عربی، فارسی اور اردو زبان کے الفاظ بھی شامل ہونے لگے۔ آج بھی کچھ قدیم چہاربیت ایسے مل جاتے ہیں جن میں کئی زبانوں کی آمیزش ہوتی ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ ہو
از ہجر تو جانانہ
کشتیم چو دیوانہ
گر جزو کل افسانہ
اکنوں تو بیا سوئم
جان مفت میں جاتی ہے
کچھ بن نہیں اتی ہے
پھٹی میری چھاتی ہے
لازم ہوا مرجانا
از ہجر تو جانانہ
دس پکڑا مالبا دہ
ہر تکڑم دبیادہ
راغلے می قضادہ
ژرمے وخوش نگاہا
من درطلب مردم
یعنی بدتن افسردم
صدر نج بددل بروم
بیرم شدم ازخانہ
از ہجر تو جانانہ
جناب حنیف خلیل صاحب کی کتاب ” اردو کی تشکیل میں پشتونوں کا کردار” سے اقتباس
بحوالہ : روہیلہ، سعودالحسن خان، رامپور، تاریخ و ادب، ابلاغ پبلشر پوسٹ کا خالق میاں علی نواز مدے خیل گنیار تھانہ ملاکنڈ