جھوٹ اور پیپلز پارٹی کا چولی دامن کا ساتھ رہا ھے۔ ذوالفقار علی بھُٹو نے ایوبی آمریت سے خود کنارہ کیا لیکن انکی زندگی میں پراپیگنڈہ فیکٹری راولپنڈی بڑھ چڑھ کر یہ بکواس پھیلاتی رہی کہ ایوب خان نے بھٹو صاحب کو خود نکالا۔
بھُٹو صاحب اپنے دور کے سُپر ہیرو تھے، ایوب خان کی اکلوتی صاحبزادی نسیم ایوب خان بھُٹو صاحب پر فریفتہ تھیں جس کا حلقہ اقتدار میں سب کو پتہ تھا یہاں تک کہ ایوب خان خود کئی محافل میں بھٹو صاحب سے استفسار کرتے رھے کہ "(میرے بچوں کی طرح) تُم بھی مُجھے ڈیڈی بولا کرو" لیکن اس ملک کا بچہ بچہ جانتا ھے کہ بھٹو صاحب ایوب خان کو ڈیڈی کہتے تھے۔
سقوطِ ڈھاکہ کے دو مرکزی کردار ہماری فوج اور اسکی اتحادی جماعت اسلامی تھے جنہوں نے مشرقی پاکستان میں ظلم و جور کی وہ داستانیں رقم کیں جو آج تک بنگلہ دیش کے بچے پڑھ کر روتے ہوئے جوان ہوتے ہیں۔ بنگالی آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے احسان مند ہیں جس نے انکے قائدِ اعظم مجیب الرحمٰن کو یحیٰ خان کے چُنگل سے زندہ سلامت واپس بھجوایا حالانکہ یحیٰ بنگلہ دیشیوں کو مجیب کی لاش بھیجنے ہر مُصر تھا لیکن ہم نے بچپن سے سُن رکھا ھے کہ بھُٹو نے "اُدھر تُم اِدھر ہم" کہہ کر پاکستان توڑا۔ یہ اور بات کہ اُدھر تُم اِدھر ہم کی اخباری سُرخی کے خالق سید عباس اطہر ساری زندگی یہ کہتے مر گئے کہ بھٹو صاحب نے ایسا بالکل نہیں کہا تھا لیکن کیونکہ ممبر و مسجد سے لیکر ہر قسم کی مسلم لیگ و بدماشیہ پروردہ سیاسی و جہادی قوتوں کے پاس بلا روک ٹوک پراپیگنڈہ کا لائسنس رہا ھے لہذا آج بھی ہم ہر جگہ یہ جھوٹ ڈھٹائی سے بولتے سُنتے ہیں۔
اپریل 4, 1979 سے لیکر آجدن تک کبھی کسی وکیل نے "سرکار بنام ذوالفقار علی بھٹو" کے فیصلے کی نظیر بطور دلیل پیش نہیں کی اور انکی شہادت کو خود عدالتیں ایک افسوسناک عدالتی قتل شمار کرتی ہیں لیکن آج بھی بھٹو صاحب احمد رضا خان قصوری کے قاتل پکارے جاتے ہیں۔ بھٹو صاحب کی شہادت کے بعد بینظیر بھٹو کو ناقابلِ شادی مشہور کیا گیا، پنجابی انہیں پھٹہ کہہ کر پھبتی کستے رھے لیکن بی بی کی شادی بالخصوص بلاول کی پیدائش تک یہ جھوٹ اپنے پورے وجود کیساتھ قائم دائم رہا۔
آصف علی زرداری، جس نے اپنے دور کی سب سے خطرناک عورت (بقول پراپیگنڈہ فیکٹری راولپنڈی) سے شادی کی، مردِ اول بنتے ہی مسٹر %10 کے لقب سے سرفراز ہوئے، ملک کے گلی کوچوں میں پیپلز پارٹی کے کارکن کو مسٹر %10 کہہ کر مطعون کیا جانے لگا، حالانکہ چیئرمین احتساب کمیشن سیف الرحمان اور اس دور کے دشمن نواز شریف زرداری صاحب سے معافی تلافی بھی کر چکے لیکن مسٹر %10 کا جھوٹ آجتک وہیں کھڑا ھے کیونکہ وہ جھوٹ نواز شریف کا گھڑا ہوا تو تھا نہیں۔
بینظیر وزیراعظم تھیں کہ انکا سگا بھائی اپنے گھر کے دروازے پر قتل کر دیا گیا، وہ انکے خلاف کاروائی کرتی اس سے پہلے بدماشیہ کے ایک گماشتے نے انکا تختہ اُلٹ دیا اور آجدن تک میر مرتضٰی کا قاتل آصف زرداری ھے۔ اس میں اقتدار کی حوس میں جلتے ممتاز بھٹو اور غنوی بھٹو جیسے لوگوں نے اپنی سیاسی بھڑاس نکالنے کی کوشش بھی کی لیکن کیونکہ یہ قتل اور پراپیگنڈہ پنڈی کے اشارے پر ہوا سو آجدن تک کھڑا ھے۔
جھوٹوں کی تفصیل یہیں تک محدود ناں رہی، سر ناں جھکانے کے جرم میں بی بی صاحبہ کو قتل کرتے ہی جائے واردات پرویز مشرف نے دھلوائی اور سارے ثبوت مٹا دیئے لیکن قتل کا بینیفیشری آصف زرداری کو ڈیکلئر کر دیا گیا۔
اصل مدعا کوئی نہیں سُننا چاھتا کیونکہ اصل مدعا سُن کر اگر ضمیر نے انگڑائی لی تو No Number سے فون آ جائے گا، گرفتاری ہو جائے گی، جھوٹا پولیس مقابلہ کر دیا جائے گا، بوڑھے ماں باپ پر بندوقیں تانی جائیں گی، شیعہ کافر، قادیانی کافر، توھینِ صحابہ، توھینِ رسول اگر کچھ نہیں تو قرآنی آیات کی توھین کے جرم میں نامعلوم ہجوم زندہ جلادے گا لہذا وغیرہ وغیرہ جیسے وسوسے پالنے سے بہتر ھے احتیاط کرو، سچ ناں بولو، بولنا بھی ھے تو سیدھا سیدھا ناں بولو ورنہ نتائج کیلئے تیار ہو جاو۔۔
پیپلز پارٹی کے قیام سے ہی اسکا ورکر ان پنڈی مینڈ جھوٹوں کے جواب دینے میں الجھا دیا گیا۔ بجائے اسکے کہ وہ سوشل ازم کی بات کرتا، آئین کی بالادستی کی محافظت پر معمور ہوتا، عدم برداشت کا دشمن اور مساوات کا داعی بنتا، بھُٹو ازم کا پرچارک بنتا، اسکی توانائیاں یہ ثابت کرنے میں ضائع کروا دی گئیں کہ "بھُٹو صاحب شیواز ریگل پیتے تھے یا بلیک ڈاگ؟
وہ واحد جماعت جو بدماشیہ کو آڑھے ہاتھوں لیکر ایک قوم کی تعمیر کرنے کے قابل تھی، لچر لوگوں نے اُسے سقوطِ ڈھاکہ کے الزام کی تردید میں لگا کر اسکی زندگی ضائع کی تو کی، اس مُلک کا تابناک مُستقبل گہنا دیا.. وہ قوم جس نے ایک غیرتمند لیڈر سے روکھی سوکھی کھا کر ایٹم بم بنانے کا عہد کیا تھا اسے روس کیخلاف جنگ میں جھونک کر "دُرودی کی بجائے بارودی مسلمانیت کی داغ بیل ڈالی گئی.. پیپلز پارٹی تو سارے جھوٹوں کو جھیل کر بھی زندہ رہی لیکن بہتان تراش کبھی جونیجو کبھی نواز شریف، کبھی چوہدری تو کبھی عمران خان جیسے جھوٹوں کی آڑ میں آجتک فریب کا جال بُننے میں مصروف ھے. اللہ ہماری قوم پر رحم فرمائے۔۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...