آلِ محمد کے دشمنوں نے ایک سازش کے تحت کوفہ کو مطعون کیا ، اِسے منافقوں اور کافروں کا شہر قرار دیا ۔ یہاں تک کہ اِسے منافقت کی علامت سمجھا جانے لگا ۔ اور یہ پراپریگنڈا اتنا عام ہوا کہ خود شیعہ بھی اِس دھوکے کا شکار ہو گئے جو دشمنوں نے پھیلایا تھا اور کوفہ کے لیے ہرزہ سرائی کرنے لگے ، حالانکہ صورت ِ حال اِس سے کہیں برعکس ہے ۔ دراصل دنیا میں کوفہ ہی ایک ایسا شہر تھا ،جو آلِ محمد کے لیے جائے پناہ تھی ، جب مدینہ اور مکہ جیسے شہروں نے آلِ محمد کو رد کر دیا ، اُ نھیں قتل کرنے کے درپے ہوئے تو ایک کوفہ ہی تھا جہاں آلِ محمد مُڑ مُڑ کر اور بار بار پناہ لیتے تھے ۔ سب سے پہلے مَیں کچھ غلط فہمیاں دُور کر دوں ۔
اول مولا علی علیہ السلام نے کوفہ میں پناہ لی ۔ وجہ اُس کی صاف یہ تھی کہ مدینہ سے چل کر بی بی عائشہ نے مولا علی کے خلاف جب بغاوت کی تو مکہ اور مدینہ سمیت ۸۰ ہزار لوگ اُس کے ساتھ تھے اور مولا کے خلاف تھے جن میں طلحہ اور زبیر بھی شامل تھے ۔ جبکہ مولا علی ؑ کے ساتھ مدینہ کے مضافات اور بستیوں سے ملا جلا کر فقط ۱۳۰۰ آدمی ساتھ نکلے تھے ، باقی ۲۱ ہزار کوفہ سے ہی مولا کی حمایت میں اُٹھے تھے ۔ آپ ہی بتائیں علیؑ کی مدد اگر کوفہ والے نہ کرتے تو مدینہ اور مکہ نے تو علیؑ کو مروا دیا تھا پہلے دن ہی۔ مدینہ والے تو علیؑ کا ساتھ دینا ایک طرف سلام لینے سے بھی گئے تھے ۔ جنگِ جمل اور جنگِ صفین اور جنگِ نہروان ،یہ تینوں جنگیں امام علی علیہ السلام نے کوفہ کے تعاون سے لڑیں ، مدینے اور مکے میں سے کسی نے مولا علی کا ساتھ نہ دیا تھا ، وہ سب لوگ عائشہ اور معاویہ کے ساتھ ہو گئے ۔ اِن تمام جنگوں میں مولا علی کی طرف سے کم و بیش دس ہزار کے لگ بھگ کوفہ کے لوگ شہید ہوئے اور یہ لوگ ایسے تھے کہ امام سے سوائے محبت کے اِن کے لیے کوئی دنیاوی فائدہ نہ تھا ۔
دوئم مولا حسین نے کوفہ کی طرف رجوع کیا۔ وجہ صاف ظاہر تھی کہ مدینہ کے لوگوں نے امام حسینؑ کی حمایت سے بالکل ہاتھ اُٹھا لیا تھا ۔ اور ایک متنفس نے بھی نہیں کہا کہ مولا آپ نہ جائیں ،ہم آپ کے ساتھ ہیں ، بلکہ اُلٹا یہ ہوا کہ ابو بکر کے بیٹے عبد الرحمان نے یزید سے ۳ لاکھ دینار لے کر بیعت کر لی ، ڈھائی لاکھ دینار عبدلللہ ابنِ عمر نے لے کر بیعت کر لی اور اِسی طرح تمام مدینہ یزید کا غلام ہو چکا تھا ۔ امام حسین وہاں کس برتے پر رُکتے ۔ مدینہ اور مکہ والوں نے تو فاطمہ سلام اللہ کا گھر ڈھا دیا تھا ۔ آگ تک لگا دی تھی ۔ یہاں تک کہ رسولِ خدا کے حجرے اور قبر تک پر قبضہ جما بیٹھے تھے ۔ اور امام حسینؑ پر جن مفتیوں نے قتل کے فتوے دے کریزید کے ہاتھ میں دیے تھے وہ سب مکہ اور مدینہ کے تھے ۔ امام حسینؑ کے کوفہ کی طرف کوچ کا معاملہ یہ تھا کہ جس وقت امام حسین علیہ السلام مکہ سے چلے کہ ابنِ زیاد نے کوفہ کا دس ہزار آدمی جو آلِ محمد پر جان نچھاور کرنے والے تھے ،وہ کنووں میں قید کردیے ، ، اُن میں اکثریت قید ہی میں مر گئی ۔ اُن کے گھر کھود دیے گئے ، بچے اور عورتیں لونڈیاں اور غلام بنا کر ایران و توران میں بیچ دی گئیں ۔ پورے شہر کی ناکہ بندی کر دی گئی ، اور امام حسین کو کوفہ سے سو کلو میٹر دُور روک دیا گیا ۔ پھر بھی امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دینے والے بہتر میں سے ۵۴ کوفہ کے تھے اور ٹوٹل دو لوگ مدینے کے تھے ۔ یہ وہ لوگ تھے جو پہلے ہی کوفہ سے نکل کر مکہ میں امام سے آملے تھے ۔
سوئم امام حسین کا بدلہ بھی قاتلوں سے کوفہ والوں نے لیا ۔ جبکہ مدینہ والوں نے اور مکہ والوں نے نہ صرف امام حسین علیہ السلام کے قاتلوں کو پناہ دی بلکہ یزیدی لشکروں کا اور زبیریوں کا ساتھ بھی دیا ۔
چہارم امام حسین علیہ اسلام کے بعد کوفہ ہی ایک ایسا شہر تھا جہان ہر حالت میں وقت کے ظالم حکمرانوں کے خلاف کوفہ ہی سے بغاوت ہوئی اور یہیں آلِ محمد کی پناہ گاہ رہی ۔ مدینہ کی حالت تو یہ تھی ، کہ مولا علی کا ساتھ نہیں دیا ، امام حسن کا ساتھ نہیں دیا بلکہ اُس کی لاش میں تیر مارے۔ اور اولادِ علی میں سے کوئی بھی مدینہ اور مکہ لوٹ کر دوبارہ نہ گیا ۔ امام زین العابدین جب یزید کی قید سے وآپس آئے تو مدینہ شہر کی بجائے دس میل باہر سکونت اختیار کی ۔ امام جعفر صادق علیہ اسلام اکثر کربلا اور کوفہ میں رہتے تھے اور جب مدینہ آتے تو روضہ پر حاضری دے کر وآپس شہر سے باہر اپنی سکونت میں چلے جاتے ، مدینہ شہر میں قیام نہ کرتے ۔ باقی آئمہ کا بھی آپ کو خبر ہے کوئی بھی مدینہ اور مکہ میں نہیں رہا ۔ یہ حالت تھی وہاں کے لوگوں کی ۔ ۔
اِن کے علاوہ
کمیل اسدی کوفہ کا ۔ حجر بن عُدی بن حاتم طائی کوفہ کا، میثم تمار کوفہ کا ، صعصہ بن صوھان کوفہ کا ،ابان کوفہ کا ، فرزدق کوفہ کا ، مالک اُشتر کوفہ کا ، عثمان ابنِ حنیف کوفہ کا ، جُندب کوفہ کا، ابراہیم کوفہ کا ، مختار ثقفی کوفہ کا ۔ ہانی بن عروہ کوفہ کا ۔ مَیں کس کس کا نام لوں ۔ مدینہ میں کوئی ایک شخص بتا دیں جس نے آلِ محمد کا ساتھ دیا ہو اور اپنی جان اور مال اِن کے بدلے قربان کی ہو ۔
اور آ ج بھی کوفہ میں ایک آدمی بھی ایسا نہیں ہے جو آلِ محمد کے علاوہ کسی کو مانتا ہو۔ ایک آدمی بھی تصور نہیں کر سکتا کہ وہ علی کے امامت کے علاوہ کسی دوسری شے کو تسلیم کرے گا ۔
ایسا نہیں کہ ۱۰۰ فیصد آبادی کوفہ کی امام کے ساتھ تھی بلکہ ۲۰ فی صد لوگ وہاں کے آلِ محمد کے دشمن بھی تھے ، یہ وہی لوگ تھے جو کربلا میں یزید کے لشکر کے ساتھ تھے ،انھی میں حضرت عثمان کے دو بیٹے شامل تھے ، اِنھی میں انس بن مالک کا بیٹا سنان شامل تھا جس نے علی اکبر کے برچھی ماری تھی ، اِنھی میں سعد بن ابھی وقاص کا بیٹا عمر بن سعد تھا جس نے امام کی طرف پہلا تیر چھوڑا تھا ، اور جو حر ابنِ یزید ریاحی کوفے کا تھا وہ آپ کے سامنے امام سے آملا تھا ۔ چناچہ جہاں تک مَیں نے تحقیق کی ہے کوفے کے یہ ۲۰ فیصد دشمنِ علی اور دشمنِ آلِ محمد تمام کے تمام مدینہ اور مکہ سےہجرت کر کے کوفہ آئے تھے اور یہ پہلے دن سے ہی علی اور اولادِ علی کے دشمن تھے ۔
اور دوسری طرف مدینہ اور مکہ آج بھی آپ کے سامنے ہے جہاں آلِ محمد کا نام لینا شرک اور کفر سمجھا جاتا ہے ۔ اب تھورا سا کوفے کے متعلق چند معلومات دے دوں
کوفہ عراق کے جنوبی شہروں میں سے ایک شہر ہے اور نجف کے شمال میں 10 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے. یہ پیغمبروں کی جائے پیدائش ہے ، صلح علیہ السلام ، نوح علیہ السلام ، ایوب علیہ السلام ، ادریس علیہ السلام ، اور بھی ہزاروں پیغمبر یہاں پیدا ہوئے اور یہیں رہے ۔حجرت آدم علیہ السلام بھی یہیں اُترے اور سب کی قبریں بھی یہیں ہیں ۔ابراہیم علیہ السلام کی آبادی حلہ جہاں وہ پیدا ہوئے ، وہ بھی یہیں ہے ۔ اور کائنات کی مبارک ترین ہستیاں یہاں مدفون ہیں ۔ کوفہ دوسرا بڑا شہر ہے جس کی توسیع مسلمانوں نے کی. پہلی بار امام علی(ع) نے اس شہر کو اپنی حکومت کا دارالخلافہ قرار دیا اور اسی شہر میں جام شہادت نوش کرگئے. پہلی صدی ہجری میں زیادہ تر شیعہ اسی شہر میں آبسے تھے. امام صادق(ع) نے کئی سال تک اسی شہر میں قیام کیا. اس شہر کے اہم آثار میں مسجد کوفہ اور مسجد سہلہ شامل ہیں.جو انبیا کی چلہ گاہیں ہیں اگر دنیا میں شیعہ کا آج بھی مرکز مانا جائے تو یہی کوفہ اور نجف ہے
مسجد کوفہ بہت سے انبیاء کی عبادتگاہ اور ماضی کے بہت سے واقعات کا سرچشمہ رہی ہے . رسول خدا(ص) نے سورہ تین کے نزول کے بعد فرمایا: "واختار من البلدان أربعة فقال عزوجل وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ ٭ وَطُورِ سِينِينَ ٭ وَہَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ" فالتين المدينة والزيتون بيت المقدس وطور سينين الكوفة وہذا البلد الامين مكة".
ترجمہ: خداوند متعال نے شہروں میں سے چار شہروں کو برگزیدہ شہر قرار دیا اور فرمایا "قسم ہے انجیر اور زیتون کی ٭ اور طور سینین ٭ اور امن وامان والے شہر مکہ کی" پس "تین" "مدینہ" ہے، "زیتون" "بیت المقدس"، "طور سینین" کوفہ اور "بلد الامین" "مکہ" ہے
کوفہ قبل از اسلام بھی آباد شہر اور لوگوں کا مسکن تھا.
اسلام کے دور میں بصرہ کے بعد کوفہ کو گورنر اسٹیٹ سعد بن ابی وقاص نے بنایا تھا اور سنہ 15، 17 اور 19ہجری میں اس کی تعمیر کا کام سرانجام دیا. خلیفہ ثانی نے ایران کے خلاف لڑنے والے سپاہیوں کا حال دیکھا جن کی رنگت پیلی پڑ گئی تھی تو سعد کو حکم دیا کہ مسلمانوں کے قیام و رہائش کے لئے ایسی سرزمین کا انتخاب کریں جو ان کے مزاج کے ساتھ سازگار ہو. سعد نے فرات کے کنارے آباد اِس شہر کو منتخب کر کے دارالامارہ کی تعمیر کا اہتمام کیا.
جب سب نے ولایتِ اہل بیت(ع) کو رد کیا، شیعیان کوفہ نے ان کی ولایت کو قبول اور ان کی دوستی کو اختیار کیا اور اسی بنا پر بعض روایات کو مطابق کوفہ میں سکونت کو مکہ اور مدینہ میں سکونت پر ترجیح دی گئی ہے اور کوفہ تشیع کی نشوونما اور لوگوں میں اس مذہب کے فروغ کا مرکز سمجھا جاتا ہے.
اس شہر کی بڑی مسجد، جو امیرالمؤمنین علیہ السلام کا مقام شہادت بھی ہے، اسی دور میں تعمیر ہوئی. اس مسجد کا رقبہ اس قدر زیادہ تھا کہ شہر میں رہنے والے تمام جنگجؤوں کی گنجائش تھی. مسجد کوفہ بہت سے انبیاء کی عبادتگاہ تھی
آبادی
کوفہ میں مدینہ ، مکہ اور دوسرے علاقوں اور شہروں سے آکر بسنے والوں کی تعداد 15 سے 20 ہزار افراد تک تھی. سعد بن ابی وقاص نے کوفہ کی آبادی کو سات گروہوں میں تقسیم کیا:
کنانہ اور ان کے حلیف؛
قضاعہ، غسان بجیلہ، خثعم، کِندہ، اور یمنی قبائل میں سے حضرموت اور ازد
مِذحَج، حِمْیَر، ہَمدان اور ان کے یمنی حلیف قبائل؛
تمیم رہاب اور ہوازن؛
اسد غطفان، محارب ، نمر، ضبیعہ اور تغلب؛
ایاد، عک، عبدالقیس، اہل الحجر اور حمراء
یمنی قبیلہ طیّ
ان قبائل کے درمیان قبیلۂ ہمدان راسخ العقیدہ شیعہ تھے اور کوفہ میں ان کی سماجی حیثیت بھی اچھی خاصی تھی.
اسلامی حدود کے پھیلاؤ کے دوران کوفہ میں آ بسنے والے بیشتر قبائل کا تعلق یمن سے تھا، اور زیادہ تر یمنی قبائل ـ قبیلۂ ہمدان ـ شیعیان امام علی(ع) میں سے تھے. فرانسیسی مؤرخ و مستشرق لوئی ماسینیون (Louis Massignon) کا کہنا ہے: قبیلہ ہمدان ایک بڑا، اہم، طاقتور اور با اثر قبیلہ تھا اور اس کے افراد امام علی کے راسخ العقیدہ شیعہ تھے. حاطم طائی کا قبیلہ طی جو جنگ جمل اور جنگ صفین میں امیرالمؤمنین علیہ السلام کے طاقتور ترین حامی قبائل میں شمار ہوتا تھا یہ بھی کوفہ میں تھا ۔
اشعریون، جو در اصل یمنی تھے اور شیعیان امام علی میں شمار ہوتے تھے. انھوں نے یمن سے کوفہ ہجرت کی اور امویوں کے ایک گورنر حجاج بن یوسف کی شدت پسندی کی بنا پر کوفہ چھوڑ کر قم میں آباد ہوئے اور اس شہر کو مسکن اور ایران میں تشیع کے فروغ کے لئے اپنا مرکز، قرار دیا.
مسجد کوفہ میں حضرت علی علیہ السلام کے خطبوں اور قضاوتوں [فیصلوں] کا مرکز ہے؛ آج بھی حضرت امیرالمؤمنین(ع) کے فیصلوں کا مقام دکۃ القضاء کے نام سے مشہور ہے؛ اور آنجناب(ع) اسی مقام پر خارجی ابن ملجم کے ہاتھوں اسی مقام پر زخمی ہوئے. فزت برب الکعبہ کا نعرہ لگایا.
مسجد کوفہ، مسجد الحرام اور مسجد النبی(ص) کے بعد دنیا کی دیگر مساجد پر فضیلت رکھتی ہے، اور امام زمانہ(عج) کے فیصلوں کا مرکز بھی مسجد کوفہ ہی ہوگی. مسافر کو اختیار ہے کہ (مسجد الحرام اور مسجد النبی کی طرح) مسجد کوفہ میں بھی نماز پوری یا قصر، ادا کرے.
کوفہ کا دارالامارہ
جب سعد بن ابی وقاص کے حکم پر شہر کوفہ کو بنایا جارہا تھا، ایک محل بھی ان کے لئے مسجد کے جنوب مشرق میں تعمیر کیا گیا اور اس محل کو "طمار" (اونچا مقام) کا نام دیا گیا اور یہ مقام سعد کے بعد خلفاء، امراء اور بادشاہوں کا مقام رہائش تھا. مسلم بن عقیل کو عبیداللہ بن زیاد کے حکم پر اسی محل کے اوپر سے گرا کر شہید کیا گیا.
کربلا سے خاندان رسول(ص) کو اسیر کرکے امام حسین(ع) اور دیگر شہداء کے سرہائے مبارک کے ہمراہ دارالامارہ میں عبیداللہ بن زیاد کے پاس لے جایا گیا اور امام سجاد(ع) اور حضرت زینب(س) نے اسی مقام پر ابن زیاد کے ساتھ گفتگو کی تھی.
دارالامارہ کچھ عرصے تک مختار بن ابی عبیدہ ثقفی کا مسکن رہا اور واقعۂ عاشورا کے قاتلین کے سروں کو اسی مقام پر ان کے پاس لایا گیا.
یہ قصر یا محل سنہ 71ہجری کو عبدالملک بن مروان کے حکم پر منہدم کیا گیا.
مساجد کوفہ
مسجد کوفہ کے علاوہ دوسری مساجد بھی کوفہ میں تعمیر کی گئیں جن میں بیشتر مساجد کا تعلق مختلف قبائل سے تھا اور شیعہ روایات کے مطابق ان مساجد کی تین قسمیں تھیں:
۱۔۔۔۔۔۔وہ مساجد جن کو نیک افراد نے نیک مقاصد کے لئے تعمیر کیا؛
۲۔۔۔۔۔مساجد ملعونہ، جو پست افراد کے توسط سے پست مقاصد کی بنا پر تعمیر کی گئیں؛
۳۔۔۔۔۔۔۔وہ مساجد جن کی طرف شیعہ روایات میں کوئی اشارہ نہیں ہوا اور انہیں کوئی عنوان نہیں دیا گیا ہے.
کوفہ کی مبارک مسجدیں
مسجد سہلہ؛
مسجد بنی کاہل؛
مسجد صعصعہ بن صوحان؛
مسجد زید بن صوحان؛
مسجد غنی؛
مسجد جعفی؛
مسجد الحمراء.
کوفہ کی لعنت شدہ مسجدیں
یہ وہ مساجد تھیں جو حضرت علی(ع) کے خلاف سازشیں کرنے کی غرض سے مسجد ضرار کی صورت میں تعمیر کی گئی تھیں. ان میں سے اول الذکر چار مسجدوں کی ـ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد لشکر کوفہ کی ظاہری فتح کے شکرانے کے طور پر ـ تعمیر نو کی گئی؛ اسی بنا پر یہ مسجدیں دوہری لعنت کی حامل ہیں. ان مساجد ملعونہ کا کوئی نام و نشان باقی نہيں ہے:
مسجد اشعث بن قیس کندی؛
مسجد جریر بن عبداللہ بجلی؛
مسجد سماک بن مخزومہ؛
مسجد شبث بن ربعی؛
مسجد تیم؛
مسجد ثقیف؛
ایک مسجد الحمراء کے مقام پر.
۔۔۔۔۔۔۔
کوفہ کے بارے میں
امام صادق نے فرمایا
کوفہ ہر بلا اور آفت سے محفوظ ہے؛
"ظالم و ستمگر شخص بری نیت سے کوفہ میں داخل نہیں ہوتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس سے انتقام لیتا ہے؛
شیعیان عالم کی مٹی کوفہ سے لکھی گئی ہے اور کوفہ شیعیان اہل بیت(ع) کی قیام گاہ ہے؛
کوفہ کو جنت کے باغوں میں سے ایک باغ قرار دیتی ہیں؛
ہم کوفہ سے محبت کرتے ہیں اور کوفہ ہم سے محبت کرتا ہے".
امام صادق(ع): ہی نے فرمایا
تم پر لازم ہے کہ عراق کوفہ میں سکونت اختیار کرو کیونکہ برکت اس سے بارے میل کے فاصلے تک ہے اس طرح (یعنی اس کے چاروں طرف) اور اس کے قریب ایک قبر ہے جہاں کوئی بھی مصیبت زدہ اور مغموم و محزون نہیں آتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس کو فراخی اور آسائش عطا کرتا ہے.
امام صادق(ع):
"الكوفة روضة من رياض الجنة".
ترجمہ: کوفہ ایک باغ ہے جنت کے باغوں میں سے.
امام محمد باقر(ع):
"قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ: طينة امتي من مدينتي وطينة شيعتنا من الكوفة".
ترجمہ: رسول خدا(ص) نے فرمایا: میری امت کی مٹی میرے شہر مدینہ سے اور ہمارے شیعوں کی مٹی کوفہ سے لی گئی ہے.
امام حسن عسکری(ع):
"لموضع الرجل في الكوفة أحب إلي من دار بالمدينة".
ترجمہ: کوفہ میں ایک قدم رکھنے کی جگہ میرے نزدیک مدینہ میں ایک گھر سے زيادہ پسندیدہ ہے.
امام صادق(ع):
"من كان لہ دار في الكوفة فليتمسك بہا".
ترجمہ: جس کا کوفہ میں گھر ہو اس کو لازمی طور پر محفوظ رکھے.
امام صادق(ع):
"إن اللہ احتج بالكوفة على سائر البلاد وبالمؤمنين من أہلہا على غيرہم من أہل البلاد".
ترجمہ: خداوند متعال نے کوفہ کے ذریعے دوسرے شہروں پر اتمام حجت کیا اور اس کے باشندوں میں سے مؤمنین کے ذریعے دوسروں پر اتمام حجت کیا (یا کوفہ اور اس کے مؤمنین کو دوسرے شہروں اور لوگوں کے لئے حجت قرار دیا).
امام رضا(ع):
"قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: يدفع البلاء عنہا كما يدفع عن أخبية النبي صلى اللہ عليہ وآلہ".
ترجمہ:
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: کوفہ سے بلائیں ٹال دی جاتیں ہیں جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے خیموں سے بلائیں ٹال دی جاتی ہیں.
امام صادق(ع):
"إذا عمت البلايا فالأمن في كوفة ونواحيہا".
ترجمہ: جب بلائیں عام ہوجائیں تو امن کوفہ اور اس کے نواح میں میسر ہوگا.
امیرالمؤمنین علی علیہ السلام:
"ہذہ مدينتنا ومحلنا ومقر شيعتنا".
ترجمہ: یہ ہمارا شہر، ہمار مقام و محلہ اور ہمارے پیروکاروں کی قرارگاہ اور قیام گاہ ہے.
امام صادق(ع):
"تربة تحبنا ونحبہا".
ترجمہ: "کوفہ وہ مٹی ہے جو ہم سے محبت کرتی ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں.
امام صادق(ع):
"قال اميرالمؤمنين عليہ السلام: مكة حرم اللہ والمدينة حرم رسول اللہ (صلى اللہ عليہ وآلہ) والكوفة حرمي لا يريدہا جبار بحادثة إلا قصمہ اللہ".
ترجمہ: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: مکہ خدا کا حرم، مدینہ رسول خدا(ص) کا حرم اور کوفہ میرا حرم ہے؛ کوئی بھی ظالم و ستمگر اس پر جارحیت کا ارادہ نہیں کرتا مگر یہ کہ خداوند متعال اس کی جڑیں اکھاڑ پھینکتا ہے.
امام صادق(ع) نے شہر "رے" کے باشندوں سے مخاطب ہوکر فرمایا:
"إن للہ حرما وہو مكة، وإن للرسول حرما وہو المدينة، وإن لامير المؤمنين حرما وہو الكوفة وإن لنا حرما وہو بلدة قم".
ترجمہ: بےشک اللہ کا ایک حرم ہے اور وہ مکہ ہے اور بےشک رسول خدا(ص) کا ایک حرم ہے اور وہ مدینہ ہے اور بےشک امیرالمؤمنین(ع) کا ایک حرم ہے اور وہ کوفہ ہے اور بےشک ہمارا ایک حرم ہے اور وہ شہر قم ہے.
عصر امیرالمؤمنین(ع) میں
کوفہ کے عوام نے سب سے پہلے مالک اشتر نخعی کی راہنمائی میں امیرالمؤمنین(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی اور امیرالمؤمنین(ع) نے سنہ 36 میں اہل مدینہ کے ایک ہزار جنگی مردوں کے ہمراہ کوفہ روانہ ہوئے اور کوفہ میں 12 ہزار جنگجو آپ(ع) سے آملے اور جنگ جمل میں اکثر کوفیوں نے امیرالمؤمنین(ع) کی حمایت کی اور امام(ع) اس شہر کو دارالخلافہ قرار دیا.
مدینہ کے لوگ بالخصوص بعض صحابہ امیرالمؤمنین(ع) سے ذرہ بار تعلق خاطر نہیں رکھتے تھے بلکہ وہ تو اپنے آپ کو آپ(ع) سے بڑے مجتہدین سمجھتے تھے! چنانچہ وہ آپ(ع) کی بات سننے کے لئے تیار نہیں ہوتے تھے؛ جبکہ امیرالمؤمنین(ع) اور اہلیان کوفہ کے درمیان دو طرفہ تعلق خاطر موجود تھا.
کوفہ میں شیعہ محدثین کی تعداد کے بارے میں، ایسی روایات وارد ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس شہر میں تشیع کے استقرار کے بعد شیعہ محدثین کی بہت بڑی تعداد موجود تھی. ہم دیکھتے ہیں کہ امام محمد باقر علیہ السلام کے شاگردوں کے پہلے گروہ میں متعدد افراد کا تعلق کوفہ سے تھا جن کی چوٹی پر خاندانِ اعین نظر آتا ہے. اعین برادران (عبدالملک بن اعین، اور ان کے بھائی زرارة بن اعین) کوفہ میں تعلیمات اہل بیت(ع) کی اشاعت، ترویج و تبلیغ کا سبب تھے. ادھر مدینہ میں بھی شیعیانِ کوفہ کا آنا جانا رہتا تھا جو امام صادق(ع) کی خدمت میں حاضر ہوکر کسب فیض کیا کرتے تھے جبکہ شیعہ مشائخ حدیث انفرادی یا پھر اجتماعی طور پر رخت سفر باندھ کر مدینہ جاتے اور امام صادق(ع) سے براہ راست حدیث سنتے تھے. اگر شیخ طوسی کی رجالی تالیف اختیار معرفۃ الرجال میں اصحاب امام صادق(ع) کے اصحاب کی فہرست کا ایک جائزہ لیں تو اس سے بھی اس امر کی بخوبی تائید ہوگی کہ آپ(ع) سے روایت کرنے والے درجۂ اول کے راویوں کا تعلق بھی کوفہ سے تھا اور کبھی آپ(س) سے روایت کرنے والے 10 راویوں کا مشترکہ وصف یہی ہوتا ہے کہ وہ سب کوفی ہیں؛
کوفہ میں امام صادق(ع) اور ائمہ(ع) کے وکلاء کی موجودگی:
ابوالعباس سفاح عباسی]] نے اموی سلطنت کو ختم کرکے عباسی سلطنت کی بنیاد رکھی تو عباسیوں کا مطمع نظر اپنی سلطنت کا استحکام تھا چنانچہ امام صادق(ع) اور آپ(ع) کی علمی سرگرمیوں سمیت بہت سے دیگر امور ابھی ان کی آنکھوں نے اوجھل تھے. اس دور میں امام صادق(ع)] نے مدینہ سے ہجرت کرکے کوفہ میں دو سال تک قیام کیا اور اس شہر میں شاگردوں کی تربیت کا اہتمام کیا. یہ دور نہ صرف شیعہ فقہاء اور محدثین کے لئے بلکہ دوسرے اسلامی فرقوں اور مکاتب کے اکابرین فقہ و حدیث کے لئے نہایت پر ثمر دور سمجھا جاتا ہے. ان ہی دو سالوں کے بارے فقہ حنفی کے امام ابو حنیفہ کا یہ قول مشہور ہے کہ "لولا السَّنَتان لہلك النعمان" (اگر وہ دو سال نہ ہوتے تو نعمان [یعنی ابوحنیفہ] ہلاک ہوجاتے). [کوفہ میں امام صادق(ع) کا دو سالہ قیام اس شبہہے کا جواب بھی ہے کہ "امام صادق(ع) نے اپنی پوری عمر مدینہ میں گذاری تھی اور ابوحنیفہ کبھی بھی کوفہ سے نہیں نکلے تھے تو پھر یہ کیسے ممکن ہو کہ ابو حنیفہ امام صادق(ع) کے شاگر رہے ہوں!؟]. شیعیان کوفہ کا تعلق ائمہ(ع) کے ساتھ ہمیشہ قائم تھا چنانچہ گنے چنے افراد ہی کبھی انحراف کا شکار ہوجاتے تھے اور باقی عوام گمراہی سے محفوظ رہتے تھے. علاوہ ازیں بیشتر شیعہ علاقوں میں ائمہ اطہار(ع) کے نمائندے اور وکلاء بھی تبلیغ و ترویج احکام و عقائد میں فعال کردار ادا کررہے تھے؛ چنانچہ کوفہ بڑی شیعہ آبادی کا مسکن ہونے کے ناطے ـ امام صادق(ع) کے دور سے آخر تک ـ کبھی بھی وکلائے ائمہ(ع) سے خالی نہيں رہتا تھا. مثال کے طور پر امام صادق(ع) نے اپنے نامی گرامی شاگرد اور صحابی جناب "مفضّل بن عمر جعفی" کو اپنے نمائندے اور وکیل کی حیثیت سے کوفہ میں متعین فرمایا تھا. امام صادق(ع) کے بعد دوسرے ائمہ(ع) کے ادوار میں ـ عصر غیبت تک ـ شیعیان عالم ایک طرف سے ائمہ(ع) سے رابطے میں تھے اور دوسری طرف سے ان کے وکلاء سے فیضیاب ہوا کرتے تھے؛ اور وکلاء کی ایک اہم ذمہ داری یہ تھی کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کے خطوط و مراسلات وصول کرکے انہيں اپنے دور کے امام(ع) کے پاس بھجواتے تھے اور ان کے جوابات وصول کرکے سائلین کو ان کے جوابات پہنچا دیتے تھے. یہ مراسلات و مکاتیب بذات خود شیعہ حدیث کی ترویج اور رأی اور قیاس و کا دامن تھامنے سے چھٹکارا دلانے میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں؛