اردو کا پہلا افسانہ ” نصیر اور خدیجہ “
شاباش بھائی نصیر شاباش ! چھوٹی بہن مرکے چھوٹی۔بڑی بہن کو جیتے جی چھوڑا۔ غضب خدا کا تین تین چار چار مہینے گزر جائیں اور تم کو دو حروف لکھنے کی توفیق نہ ہو ۔ حفیظ کے نکاح میں ۔ وہ بھی چچی جان کی زبانی معلوم ہوا کہ ملتان کی بدلی ہوگئی ۔ و ہ دن اور آ ج کا دن خیر صلّاح کیسی یہ بھی خبر نہیں کہ لاہور میں ہو یا ملتان میں نصیر میاں ! بہن بھائیوں کا رشتہ تو بڑی محبت کا ہوتاہے ۔ ایسی کون سی پانچ سات بہنیں بیٹھیں ہیں جو دل بھر گیا ۔ دور کیوں جاﺅ بھائی سلیم ہی کو دیکھ لو ایک چھوڑدو بہنیں ساتھ ہیں اور کس طرح؟گھربار کی مختار ۔ اندر باہر کی مالک سیاہ کریں ، چاہے سفید ۔ نہ بھائی کی اتنی مجال کہ دم مارسکے ، نہ بھاﺅج کی اتنی طاقت کہ ہوں کر سکے ۔ کسی کو دیکھ کر تو سیکھاکرو ۔ ایک وہ بھائی بہنوں کوآنکھوں پر بٹھایا ، بھانجا بھانجی کی شادیاں کیں ۔ بھانجوں کو پڑھا لکھاکر نوکرکرایا ۔ ایک تم بھائی ہو کس کا بھانجہ اور کیسی بہن ۔ چاہے کوئی مرے یا جیئے تمہاری بلا سے ۔ خدا کا شکرہے ، میں تو تمہاری روپیہ پیسہ کی بھوکی نہیں خالی محبت اور میٹھی زبان کی خواستگار ہوں ۔ جو کہیں خدانخواستہ تمہارے در پر آکر پڑتی تو کُتّے کے ٹھیکرے میں پانی پلوادیتے آخر میں بھی سنوں خطاقصور وجہ سبب۔ کچھ تو بتاﺅ ایسی لاپروائی بھی کس کام کی ، اچھے سے غرض نہ بُرے سے مطلب ۔ بہن کے تم نہیں بھائی کے تم نہیں ۔ صادقہ مرتے مرگئی اور تمہاری صورت دیکھنی نصیب نہ ہوئی ۔ امّا رہیں نہیں ، ابّا اُدھر چلے گئے ، میں اس قابل نہیں ، بڑے بھائی اس لائق نہیں ۔ اب تمہارا دلّی میں کون بیٹھا ہے جس کو خط لکھو۔ تم تو خدا سے چاہتے تھے کہ کوئی موقعہ ملے تو ایک سرے سے سب کو عاق کردوں۔ ابّا کا حج کو جانا اور اونگتے کوٹھیلتے کا بہانہ ہوگیا ۔ بہن اور بھائی ماموں اور ممانی سب کو بالائے طاق رکھا۔ چچا لاپرواہ چچی خطا وار ۔ بھائی خود غرض ، بہن گنہگار ، غرض کنبے کا کنبہ اور خاندان کا خاندان چھوٹے اور بڑے ، بڈھے اور جوان ، مرد اور عورت ،بوڑھا اور بچہ ایک بھی اچھا نہیں ۔ محبت نہیں مروّت ہی سہی ۔ بال بچوں کا ساتھ رکھنا گناہ نہیں ہے‘ دنیا جہان میں ہوتی آئی ہے مگر یہ اندھیرا کہیں نہیں دیکھا کہ الگ گھر کرتے ہی سب کو دھتا بتائی ۔ امّا کا مرنا ہماری تو مٹی پلید ہوئی مگر تم کو عید ہوگئی ۔ شفقت محبت پہلے ہی رخصت ہوچکی تھی ۔ جو کچھ تھوڑا بہت لحاظ تھا وہ بھی گیا گزرا ہوا۔ اللہ تم کو ہمیشہ خوش وخرم رکھے۔ الٰہی تمہارے بچوں کی ہزاری عمر ہو ۔ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر دیکھواب سے دوراگلے برس ذرا ظہیر کو بخار ہوگیا تھا ۔ کیسے گھبرائے گھبرائے پھرتے تھے ۔ تم کو آٹھ برس کے بچے کی یہ کچھ مامتا تھی ۔امّا کو تمہاری کتنی ہوگی ؟ نصیر میاں دنیا کے جھگڑے تو ہمیشہ ہی رہیں گے ۔ بال بچے شادی بیاہ سب ہی کچھ ہوگا ۔ اب امّاں تمہاری صورت دیکھنے نہیں آئیں گی ۔
صادقہ کے بچوں کو اماں اپنی زندگی تک کلیجہ سے لگائے رہیں ‘ ان کا مرنا تماکہ تینوں کی مٹی ویران ہوگئی ۔ پرسوں دونوں لڑکے بسم اللہ کا حصہ لے کرآئے تھے ۔ میں باہر کی چارپائی پر بیٹھی ہوئی رضائی ٹانک رہی تھی ۔ چھوٹا آکرگلے سے لپٹ گیا۔ کچھ خون کا جوش تھا کہ اس کی صورت دیکھتے ہی میری طبیعت بھر آئی ۔ غلاموں کی بھی حالت اچھی ہوگی جیسی ان بچوں کی تھی ۔ پھٹا ہوا کرتہ ٹوٹی ہوئی جوتی ،پاجامہ چکٹ ، ٹوپی چوہا ،بدن پہ سیروں میل، آنکھوں میں الغاروں چپڑان بچوں کو دیکھ کر مجھ کو وہ دن یادآگیا کہ جب تک دونوں کی الخالقین نہ آگئیں ۔صادقہ رابعہ کی چوتھی میں نہ گئی ۔ دیکھ لو تین چار ہی برس کے اندر اندر ۔ کیا کیا ہوگیا ۔ بُرا نہ ماننا تم قیامت تک بھی اپنے بچوں کو اس طرح نہ پالوگے جس طرح صادقہ اپنے بچوں کو پال گئی ۔ خدا کی قسم بھری ہوئی عطر کی شییاں کھڑے کھڑے حمید نے غارت کی ہیں تقدیر کی خبر نہ تھی کہ صادقہ کی اولاد یوں برباد ہوگی ۔ میں نے دیکھا نہیں مگر دادا جان ذکر کیا کرتے تھے کہ غدرسے پہلے اس مکان پر ہاتھی جھولتا تھا ۔ آج جاکردیکھوبے کُنڈی کا ایک کواڑچڑھا ہواہے او رچکنی مٹی کی ایک دیوار چنی ہوئی ہے ۔بڑے نواب کی آنکھ کا بند ہونا تھاکہ گھر بھر میں جھاڑوپھر گئی ۔ میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا ہے مسعود کے بیاہ میں صادقہ کی ساس کو گنگا جمنی پنکھے جھلے جارہے تھے ۔ لونڈیا اور مامائیں گوندنی کی طرح زیور میں لدی ہوئی تھیں ۔ دیکھتے ہی دیکھتے کچھ ایسا زمانہ پلٹا کہ آج پانی پینے کا کٹورہ بھی نہ رہا۔مٹکے میں آٹا برکت ،بقچی میں کپڑے اللہ کا نام ۔ بدن میں طاقت نہیں ، ہاتھ پاﺅں میں سکت نہیں ۔چلنے پھرنے سے مجبور ، دیکھنے سے معذور آنکھیں تھیں تو ایک آدھ کرتہ دو ایک ٹوپیاں کرکرالیتی تھیں۔اب تو اتنی بھی نہیں پڑوس کا حق سمجھو خدا کا خوف جانو،ہاتھ پاﺅں کی خیرات کہو چچی جان تین روپیہ مہینہ دیتی ہیں ۔ بس یہ کل کائنات ہے ۔ اس میں کیا آپ کھائیں کیا بچوں کو کھلائیں ۔ تین روپیہ چاردم ، ایک لڑکی کا ساتھ ، کیا کریں کیا نہ کریں ۔تین روپیہ مہینہ کا توسوکھا اناج چاہئے ۔ جو جو کچھ لکھا تھا سب ہی کچھ کرچکیں ۔ چکّیاں پیسیں، سلائیاں کیں ، ہاں اتنی بات رہ گئی کہ دَر دَرہاتھ نہیں پھیلایا ۔
صادقہ کے بچے کسی غیر کے بچے نہیں ہیں ۔ مری ہوئی بہن کی نشانی ہیں۔شاباش تمہاری ہمت پردیس میں بیٹھے راج کرو اور صادقہ کے بچے دو دو دانے کو محتاج ہوں۔دلّی میں آکردیکھو شہر میں کیا نام بدنام ہورہاہے آخربرس میں دو برس میں اپنے ہاں کی نہیں سسرال کی شادیوں میں تو آﺅ گے سب کو یاد ہے کہ اللہ رکھو لڑکی کا بیاہ سرپر آرہاہے یا یہ بھی وہیں کرلو گے ؟ اپنے پرائے ، کنبہ ،محلہ ،میل ملاپ، جان پہچان تمام دنیا جنم میں تھوک رہی ہے ۔ کس کا منہ کیلوگے؟
بڑے بھائی اس لائق ہوتے تو تم سے کہنے کی ضرورت نہ تھی ۔ بے چارے آپ ہی اپنی پریشانیوں میں گھرے ہوئے ہیں ۔ نوکری چھوٹی ، چوری ہوئی ، مقدمہ ہارے ۔ چار روپیہ مکان کے آجاتے تھے ۔ وہ بھی نہ رہے ۔ اندر کا دالان ہوا ہوہی رہا تھا ایک ہی چھینٹے میں اُڑ اُڑ کرآن پڑا ۔ اس کے ساتھ ہی لمبی کوٹھری بھی بیٹھی گئی ۔ اتنا بھی پاس نہیں کہ اینٹیں اورملبہ تو ہٹوادیں ۔ چارسوروپیہ کے قرضدار بیٹھے ہیں ۔
ایک لے دے کر منجھلی خالہ رہ گئی ہیں ۔ وہ اکیلی کیا کیا کریں ۔ صادقہ کے بچوںکو پالیں ‘ بڑی بہو کی ٹہل کریں ، اپنے گھر کو دیکھیں ، جس کا نہ کریں اسی سے بُری ، روپیہ پیسہ کے قابل نہیں ،ہاتھ پاﺅں سے باہرنہیں ، جس کے ہاں ضرورت دیکھتی ہیں آموجود ہوتی ہیں ۔ کہنے کو جس کا جو جی چاہے کہہ لو ۔ خلق کا حلق تھوڑی بند ہوسکتاہے ۔
ماموں اور باپ میں فرق نہیں ہوتا۔ مگر سمجھو تو ۔ نہ سمجھو تو بھانجا بھانجی تو خیر اپنی اولاد بھی غیر ہے ۔ خدا گواہ ہے میری تواگر جان تک کام آجائے تو دریغ نہیں۔اپنے بچے کم اور صادقہ کے بچے زیادہ ۔ مگر ذرا عقل سے کام لو ، ساری دنیا میں بدنام ہوں ، مَری ہوئی ہڈیاں اکھڑواﺅں ، امّا باوا کی ناک کٹواﺅں ،دادی داد ا تک کو پُنواﺅں ، جب ان کے ساتھ رکھنے کا نام لوں ۔ میں خود پرائے بس میں ہوں ۔ شہر کا معاملہ سسرال کی بات ، ساس نندوں کا ساتھ ہروقت کی جھِک جھِک، رات دن کی پِٹ پِٹ ، کنبے بھر میں ذلیل ہو۔ عمر بھر کے لئے مٹی پلید کرنی ،گھروں میں لڑائیاں ڈالنی ، دلوں میں فرق ڈالنے کس خدا نے بتائے ہیں ۔ امّاجان تو پہلے ہی فرماتی ہیں کہ میکے کا بھرنا بھرتی ہے ۔ بچوں کو رکھ لوں تو زندگی ہی دوبر ہوجائے ۔ تم کوماشاءاللہ اسّی روپیہ ملتے ہیں ۔دومیاں بیوی دو بچے کل چار دم ۔ اسّی روپیہ کیا کم ہیں ۔ بُرا مانو یا بھلا ، جس طرح ہوسکے صادقہ کے بچوں کو پانچ روپیہ مہینہ دو ۔ یہ روپیہ رائیگاں نہیں جائے گا، یہاں نیک نام وہاں سُرخرو ۔ نصیر میاں حق داروں کا حق سمجھو اللہ برکت دے گا ۔پھلوگے پھولوگے ، دنیا کی بہاردیکھو گے ، روزگار میں ترقی ہوگی ۔ ان بچوں کو غیر نہ سمجھو ظہیر اور حمید میں فرق نہیں ہے ۔بھائی بہن کی اولاد ایک ہوتی ہے۔ یہ بیچارے بھی کیا یاد کریں گے کہ کوئی ماموں تھا۔
دلہن بیگم کو بہت بہت دعائ۔ بچوں کو پیار ۔ اب تو ماشاءاللہ بچی پاﺅں پاﺅں چلتی ہوگی ۔ اچھا خداحافظ