ہندوستان غلامی کے ایسے دلدل میں جا پھنساتھا جہاں سے نجات مشکل نظر آرہی تھی۔ روح فرسا محنت کوئی کرتااور فائدہ کسی کو ہوتا۔ نفع غیر کے حصہ میں جبکہ خسارا ہمارے نصیب میں ہوتا۔ ایک صدی سے زائد طویل عرصہ پر محیط غلامی کی زنجیر میں ہم بندھےرہے تھےجس میں دشمن نے مختلف النوع تشدد رواں رکھے۔ ایسا گھٹن کا ماحول کہ صدائے آزادی بلند کرنا نقارخانے میں صدائے طوطی تھا…!جب کوئی ہندستانی مطالبہ حقوق کرتاتواسے ڈرایادھمکایاجاتا۔ لہٰذامنادی حق ایسے اقدام سے دریغ کرتے جو کسی بھی عنوان سے سزا کے باعث بنیں۔یوں ہی یہ مظالم جاری و ساری رہے لیکن کب تک اذیت ناک زندگی پر گزاتاہوتارہتا…! چیونٹی بھی دبنے پر کاٹ لیتی ہے۔ حریت پسندوں نے آواز حق بلند کی اور اپنی کھوئی آزادی کے لیے تحریک کا آغاز کردیا۔
واقعہ یہ ہے کہ انگریزوں نے ۲۴؍ستمبر ۱۵۹۹ء کوکلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی قائم کی جس میں لندن کے دو سو سے زیادہ تاجر اور امراء شریک کار تھےاور ۱۶۱۲ء میں انہوں نے سورت نامی مقام پر باقاعدہ طورپر اپنے کاروبار کاآغاز کردیا۔ ہندستانی تہذیب میں مہمان کو نہایت اعلیٰ درجہ کی عظمت سے نواز جاتا ہے۔سو ہندوستانی فرماں رواؤں نے خارجی تاجروں کے ساتھ دریا دلی سے کام لیا لیکن یہ خیراندیشی خود امراء ہند کے لیے ناعاقبت اندیشی ثابت ہوئی۔ دل کے سیاہ اور جسم کے سفید مہمان رفتہ رفتہ اپنے پائوں پھیلانے لگے۔بس اورنگ زیب کی حکومت ان کے آڑے آرہی تھی اس لیےان کی مدت حیات میںدشمن کو مکمل کامیابی نہ مل سکی مگر جب دہلی کامرکز کمزور پڑگیا تو ایسٹ انڈیا کمپنی نے اپنے بال و پر پھیلانا شروع کردیئے جس کے باعث ۱۷۵۷ء میں پلاسی کا سانحہ پیش آیا جس میں نواب سراج الدولہ کی افواج کو اپنوں کی در پردہ سازشوں کا شکار ہوکر مٹھی بھر خارجی فوجوں سے شکست کھانی پڑی۔ اب صرف ٹیپوسلطان کی حکومت ان کے لیےراہ کی رکاوٹ بنی تھی اور وہ اسے راستہ کا پتھر سمجھ کر ہر ممکنہ صورت میں ہٹانے کی کوشش کرتے رہے۔ ٹیپوسلطان کواس بات کاعلم تھا کہ گھر کابھیدی ہی لنکاڈھاتاہے۔ لہٰذا اب دشمن سے کسی بھی طرح کی نرمی روا رکھنامحض احمقانہ عمل ہوگا۔
حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں لڑیں ۔ ٹیپو سلطان۱۷۸۲ء میں حکمراں ہوا اور ۱۷۸۳ء میں دشمنوں سے پہلی جنگ لڑی جس میں مقابل کو منھ کی کھانی پڑی۔ انگریز کو ٹیپو سلطان سے بہت بڑا خطرہ در پیش تھا اس لیے کہ وہ ان کے سارے غلط منصبوں کو نقش برآب کرنے پر ہمہ تن آمادہ ہوچکاتھا اور کسی بھی قیمت پر ان کی اسیری اوران کے رحم و کرم پر زندگی گزارنا گیڈر کی زندگی سمجھا۔ جیسا کہ خوداس کا مشہور قول ہے کہ: ’’شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی صد سالہ زندگی سے بہت ہے۔‘‘ اسی سبب جب جرنل ہارس کوسلطان کی خبر شہادت ملی تو اس نے ان کے نعش پر یہ جملہ کہا :’’آج سے ہندوستان ہمارا ہے۔ ‘‘
۱۸۵۷ء میں پہلی جنگ آزادی جسے انگریزوں نے غدر کا نام دیاتھا اور اس عنوان پر ایک فلم بھی ریلیز ہوچکی ہے،کے عموماً دو اہم اسباب بتائے جاتے ہیں :
اول :ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان کےکئی صوبوں اور ریاستوں کویکے بعددیگرے اپنی حکومت میں شامل کر لیاتھا جس کے باعث عوام الناس نے اس کی کالی کرتوتوں کو بھانپ لیا۔
دوم :فوجیوں کو جو کارتوس دیئے جاتے وہ سور اورگائے کی چربی سے آلودہ ہوتے اور انہیں بندوق میں ڈالنے سے پیشتر دانتوں سے کاٹنا پڑتاجس کے چلتے مسلمان اور ہندو افواج نے اس کے استعما ل سے منع کردیا۔ اس لئے انہوں نے ان حضرات کو ان کے معزز عہدے سے بے دخل کردیا۔یہ واقعہ سب سے پہلے بنگال میں ڈمڈم اور بارک پور میں رونما ہوااور پھر یہی سانحہ لکھنؤ میں بھی پیش آیا۔ برخاست شدہ فوجی ملک میں متعدد مقامات پر پھیل گئے اورلوگوں کو اس غلط کام کے خلاف آواز حق بلند کرنے کے لیے ابھارنا شروع کردیا۔ اس کام میں تمام لوگوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اورمتضاد عناصر، مشترکہ دشمن کے خلاف یکجا توہوگئے لیکن آداب جنگ اورکسی بابصیرت قیادت کی عدم موجود گی کے سبب اپنی منزل مقصود کورسائی نہ کر سکے۔
دہلی پر قابض ہوجانے کے بعد انگریز فوجوں نے اہل وطن کا بے دریغ قتل وخوں کرنا شروع کردیا۔ سینکڑوں کوپھانسی پرلٹکایا۔ ہزاروں نفوس گولیوں سے اڑادیئے گئے۔ بے شمار لوگوں کو قیدی بنا کر ان کے جسموں میں طوق و سلاسل پہنادئے گئے اور مسلمانوں کو چن چن کر شہیدکیا جانے لگا لیکن کسی بھی محبان وطن نے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا یااورکسی بھی صورت میدان جنگ سے راہ فراراختیار نہیں کی بلکہ عزم وارادہ کے دھنی، ہمت کے پہاڑاور ہندوستان سے بے لوث محبت کرنے والے مسلمانوں نے اپنے سرخ لہو سے اس چمن کوترو تازگی بخشی اور سیاہ فام غداروں کو ہندوستان سے مار بھگانے کلیدی کردار ادا کیا۔
۱۸۵۷ء میں شاہ ولی اللہ، عبدالعزیز دہلوی اوردیگر محبان وطن کی محبت رنگ لائی جس کے باعث مولانا فضل حق خیرآبادی نے دشمنوں کے خلاف ،جہاد فتویٰ صادر کیااوردہلی کے تمام علما ء کے دستخظ بھی لئے۔ یہ کشت و کشتار کا سلسلہ روں دواں رہا۔ وقت گزرتا گیا لوگ آتے گئے اوراپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے درجہ شہادت پر فائز ہوتے رہے۔ یہاں تک کہ تاریخ نے لکھا ہے کہ دہلی جامع مسجد سے پشاور تک درختوں پر مسلمانوں کی گردنیں لٹکی ہوئی تھیں ۔
۱۹۱۹ء میں تحریک خلافت وجود میں آئی جس میں محمد جوہر، گاندھی جی اور دیگر جیالوں نے تمام لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر لاکھڑا کردیا۔ ۱۹۲۰ء میں گاندھی اورمولانا ابو الکلام آزاد نے غیرملکی اموال کا بائیکاٹ اور نان کوآپریشن (Boycott and non-co-operation)کی تجویز پر عمل درآمد کیا جو دشمنوں کے خلاف بہت کارگراسلحہ ثابت ہوئی اور اسی وقت ان کو احساس ہوچلاکہ اب ہمارابیڑا غرق ہونے کوہے۔ ۱۹۲۱ ء میں موپلا بغاوت، ۱۹۲۲ء میں چوراچوری میں پولیس فائرنگ، ۱۹۳۰ء میں تحریک سول نافرمانی اورنمک آندولن۔ ۱۹۴۲ء میں ہندوستان چھوڑو تحریک (Quit India movement)اور ۱۹۴۶ء میں ممبئی میں بحر ی بیڑے کی بغاوت کی حمایت میں ہونے والے مظاہروں میں پولیس فائرنگ کے دوران ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔ انگریزوں کی قید وبند جھیلنے اور ان کی گولیوں کا نشانہ بننے والوں کی تعداد کاصحیح شمار محال نہ سہی مشکل ضرور ہے۔ لیکن علماء کی تعداد بیس سے پچاس ہزار تک بتائی جاتی ہے جن میں قائدانہ صلاحیتوں کے مالک افراد کے اسماء آب زر سے تحریر کرنے کے قابل ہیں اوروہ مندرجہ ذیل ہیں :
مولانا ابو الکلا م آزاد، مولانا محمد علی جوہر، بہادر شاہ ظفر، بیگم حضرت محل، نواب سراج الدولہ، مولانا حسرت موہانی اورمولانا فضل حق خیرآباد ی وغیرہ۔
رنگ وروپ اورنسل و قوم کی تمام تر اونچ نیچ کو بالائے طاق رکھ کر ہندو، مسلم، سیکھ، عیسائی اور تما م محبان وطن کے باہمی اتحاداور بے پناہ قربانیوں کے سبب اس عزیز ملک ہندوستاں کو حیات نو عطا ہوئی۔ مسلمانوں نے عقابی نگاہوں سے فرنگی شاطرانہ چال کو نقش برآب کردیا اور تن کے گورے دل کے کالے انگریزوں کی سلطنت کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ ہمارے بزرگوں نے اپنے قیمتی خون سے اس گلستاں کی آبیاری کی ہے جس کی فتح و ظفر کی گواہی آج بھی سرخی آفتاب پر نمایاں نظر آتی ہے۔ لہٰذا! ہمیں چاہئے کہ اختلافات کی دیوار کوگراکر ہندوستان کی ترقی میں شانہ بشانہ کھڑے ہوجائیں اور ہر شر پسند عناصر کو دندان شکن جواب دے کر ملکی اتحاد کا ثبوت فراہم کریں۔ایک صدی سے زائد برسوں تک مسلسل جانفشانیوں اور قربانیوں کے بعد ۱۴ ؍اور ۱۵؍ اگست کی درمیانی شب کو ہمارا ’سارے جہاں سے اچھا وطن‘ انگریزوں کی قید وبند اورطوق و سلاسل سے آزادہوچلا۔