بقول صبا نقوی
کر گیا رحلت جہاں سے شاعرِ عالی دماغ
بجھ گیا اردو ادب کا ایک تابندہ چراغ
_____________
افتخار احمد، قیصر صدیقی اردو کے عظیم شاعر تھے-
ان کے والد کا نام مولوی عبدالغنی تھا۔ قیصر صدیقی 19 مارچ, 1937 بروز جمعہ کو سمستی پور شہر سے تین کیلومیٹر پورب بوڑی گندھک کے دکھنی کنارے پر آباد ایک چھوٹے سے گاؤں گوھر نوادہ میں پیدا ہوئے ۔ 11 نومبر 1964 بروز بدھ کو ان کی شادی اپنے ماموں عبدالحفیظ صاحب کی دوسری صاحبزادی احمدی خاتون شبنم سے ہوئی۔ قیصر صدیقی کی مختصر علالت کے بعد سمستی پور کے ایک پرائیویٹ ہسپتال میں 4 ستمبر 2018 بروز منگل کو ان کی وفات ہوگئی ۔ آبائی گاؤں گوہر نوادہ ہی میں مدفون حضرت ازغیب پیر رحمتہ اللہ کے مزار کے پہلو میں سپرد خاک کئے گئے "انا للہ وانا الیہ راجعون"
خیر البشر کے صدقے میں قیصر کو بخش دے
یہ پیکرِ خطا ہے ، میرے پاک بے نیاز
قیصر صدیقی کو شاعری کا شوق بچپن ہی سے تھا لیکن باقاعدہ شاعری کا سلسلہ اجمیر شریف میں بارہ تیرہ سال کی عمر سے شروع ہوا۔ اس سلسلے میں مستند ثبوت ہیں کہ خود قیصر صدیقی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں ۔۔"زندگی نے اسی طرح آوارہ گردی کرتے ہوئے قریب تیرہ چودہ سال مکمل کر لۓ میں اس زمانے میں اجمیر شریف میں تھا ۔۔۔۔ سید ایوب جمالی صاحب مرحوم کے حجرے کے پہلو میں ایک پھول کی دکان تھی اسی پر شعراء حضرات کی بیٹھک ہوا کرتی تھی جس میں جناب انیس نیازی مرحوم ، ساغر اجمیری مرحوم، اطہر اجمیری مرحوم رونق اجمیری مرحوم اور بہت سے شعرا جن کا نام اب یاد نہیں رہا وہاں جمع ہوتے اور شعر و سخن کے تزکرے ہوا کرتے تھے ، میرے ذوقِ شعر گوئی کو وہیں سے تحریک ملی اور میں نے جب کچھ منقبت کے اشعار کہکے ان بزرگوں کے سامنے رکھے تو سب نے میرا بہت مزاق اڑایا اور ساتھ ہی مجھے میرے بہاری ہونے کا طعنہ بھی دیا ۔ میں بہت دل برداشتہ ہوا اور سرکار غریب نواز رحمتہ اللہ علیہ میں رو رو کر دعا کی یا اللہ مجھے شاعری آجائے اور بس وہی ہوا ۔ رات کو جب سویا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میں شعر کہہ رہا ہوں ، اور پھر دوسرے دن سے میں شعر کہنے لگا ،شعر جیسا بھی کہتا مگر وزن و بحور کی خامی نہیں کہ برابر ہوتی تھی"۔
اس طرح قیصر صدیقی کی اولین فنی تخلیق نومبر 1950 میں امام عالی مقام امام حضرت حسین ابن علی علیہ السلام کی شان محترم میں زبانِ قلم سے ادا ہونے والے تیرہ اشعار کی ایک والہانہ منقبت ہے جو درگاہ کے سماع خانہ میں 5 محرم الحرام کو منعقد ہونے والی طرحی بزمِ مسالمہ کے لیۓ تخلیق کی گئی ، حضرتِ کامل اجمیری مرحوم کے مصرع طرح
"بناۓ خانۂ کعبہ حسین ابنِ علی"
پر قیصر صدیقی نے یوں طرح لگائی __
بناۓ خانۂ کعبہ حسین ابنِ علی
چراغِ خانۂ زہرا حسین ابنِ علی
بنا ہےضامنِ بخشش گناہ گاروں کا
تمہارا آخری سجدہ حسین ابنِ علی
یہ اور ہوگا فزوں تر قیام محشر تک
تمہارے قتل کا چرچا حسین ابنِ علی
نگاہِ لطف و عنایت ہو اپنےقیصر پر
یہ ہے غلام تمہارا حسین ابنِ علی
اس مکمل منقبت کو قیصر صدیقی نے بزمِ مسالمہ میں سنا کر داد و تحسین حاصل کیا ۔ ایک اور سوال کے جواب میں قیصر صدیقی یوں لکھتے ہیں " میں نے اجمیر ہی میں پہلا مشاعرہ پڑھا ، مجھے یاد آتا ہے ہے کہ کوئی بڑا مشاعرہ اجمیر کے کسی کالج میں ہونے والا تھا ، جو بلبھ بھائی پٹیل کی موت کی وجہ سے ملتوی ہو گیا تھا ، اس مشاعرے کے لیے پاکستان سے بہزاد لکھنوی بھی تشریف لائے تھے ۔ جنہیں درگاہ کے مشاعرے کے لئے عرشی اجمیری مرحوم جو بزرگ شاعر تھے نے روک لیا تھا ، وہ مشاعرہ جسمیں میں نے اپنا پہلا کلام سنایا تھا اس کی صدارت جناب بہزاد لکھنوی ہی نے فرمائ تھی ، وہ مشاعرہ طرحی تھا اور طرح تھی " میر حجاز اپنا سالارِ کارواں ہے "
لہذا قیصر صدیقی صرف ساڑھے 13 سال کی عمر میں 21 دسمبر 1950 کو پاکستان سے آئے ہوئے مشہور شاعرعلامہ بہزاد لکھنوی کی صدارت میں منعقد طرحی مشاعرہ میں ایک نوخیز شاعر کی حیثیت سے شرکت کر اپنی پہلی مکمل غزل سنائی، غزل کے چند اشعار ہیں
مجبورِ لب کشائی بیمارِ نیم جاں ہے
آنکھیں بتا رہی ہیں جو قلب میں نہاں ہے
گردش میں یہ زمیں ہے چکر میں آسماں ہے
میں کیا رواں دواں ہوں عالم رواں دواں ہے
ہے نالہ کش عنادل ، مرجھا گئیں ہیں کلیاں
ایسی بہار سے تو بہتر کہیں خزاں ہے
کس کو سنائیں قیصر اہلِ چمن فسانہ
خود باغباں کے ہاتھوں برباد گلستاں ہے
حضرتِ بہزاد اس ننھے سے شاعر کا وہ لب و لہجہ دیکھ کر چونکے اور خوب خوب حوصلہ افزائی کی دوسرے استادانِ فن نے بھی دعاؤں سے خوب نوازا ۔ قیصر صدیقی تقریباً چودہ ماہ اس سفر میں اجمیر میں رہے اور بزرگ شاعر مولانا مانی اجمیری سے اصلاح لیتے رہے ۔
قیصر صدیقی اجمیر شریف سے لکھے اپنے ایک خط مورخہ 6 جنوری 1951ء کو اپنے نانا عبدالحئی مختار صاحب کو یوں تحریر کرتے ہیں ۔
" آپکا ایک خط ملا پڑھ کر دل کو ازحد خوشی ہوئی ، آپ نے جو لکھا ہے کہ یہ واقعہ رات کو ہوا یا دن کو خواب میں ہوا یا جاگتے میں یہ مجھے کوئی خبر نہیں کہ خواب میں ہوا یا جگے میں جس وقت مجھے ہوش ہوا اس وقت کچھ نہیں یاد تھا لیکن پھر مجھے یاد آیا کہ افتخار تم تو کسی آدمی سے باتیں کر رہے تھے وہ آدمی کدھر گیا اور کہاں گیا آپ جو شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ شاعری مت کرو یہاں کا تو بچہ بچہ شاعر ہے اور اگر میں نے کیا تو کیا کیا ، شاعری کی بات یہ ہے کہ ہر وقت بیٹھا رہتا ہوں نہ کہیں جانا نہ آنا دماغ میں جو کچھ آجاتا ہے وہ لکھ لیتا ہوں اور اسکی اصلاح ایک مولانا ہیں مانی صاحب انہیں سے کروا لیتا ہوں کچھ اشعار ہوۓ ہیں وہ یہ ہیں :-
وہ ہزار سامنے ہوں کریں لاکھ رونمائی
انہیں دیکھنے نہ دے گی یہ نظر کی پارسائی
تیرے میکدہ کے صدقے میں ہی تشنہ رہ گیا ہوں
میرے کج کلاہ ساقی ہے یہ خوب کج روائ
میں جہاں سے منہ پھرا کر تیرے پاس آ پڑا ہوں
کوئی اور کیا بھڑے گا میرا کاسۂ گدائی
اس میں اور لکھنے کو باقی ہے جب پورا ہو جائے گا تو پھر لکھوں گا ،،
قیصر صدیقی کے مندرجہ ذیل دو اشعار اسی واقعہ کی یادگار ہیں ۔
ایک شمع آگہی مجھے اجمیر میں ملی
ایماں کی روشنی مجھے اجمیر میں ملی
قیصر نگاہ خواجہ اجمیر کے طفیل
دنیاۓ شاعری مجھے اجمیر میں ملی
قیصر صدیقی کہنہ مشق ، زود گو اور قادر الکلام شاعر تھے ، ان کی شاعری سات دہائیوں پر محیط ہے اپنے 68 سالہ شاعری کے سفر میں مختلف اصنافِ شاعری ، بلکہ بعض نہایت مشکل اصنافِ شاعری میں بھی کامیابی کے ساتھ طبع آزمائی کی تاہم وہ بنیادی طور پر غزل کے ہی شاعر مانے جاتے ہیں اور اب تک ان کے شعری کارنامے جو بصورت کتاب منظر عام پر آئے ہیں وہ بھی زیادہ ترغزل ہی سے متعلق ہیں ۔ آج سے تقریبا 37 سال قبل اوّلین مجموعہ غزل "صحیفہ " 1983 میں شائع ہوا تھا اس کے بعد کافی تاخیر سے دوسرا ضخیم مجموعہ غزل "ڈوبتے سورج کا منظر " 2010ء میں شائع ہوا ۔ تیسرا مجموعہ "سجدہ گاہِ فلک" چوتھا مجموعہ حمد و نعت "روشنی کی بات" پانچواں مجموعہ " غزل چہرہ"( ہندی ) چھٹھا مجموعہ "زنبیلِ سحر تاب" ساتواں مجموعہ " اجنبی خواب کا چہرہ " آٹھواں مجموعہ "بے چراغ آنکھیں " نواں مشاہیر اردو ادب کے مضامین کا مجموعہ " قیصر صدیقی فنی جہات اور فکری امکانات " شائع ہوا ۔
اجمیر شریف سے آنے کے بعد قیصر صدیقی 1952 کے اوائل میں بمبئی چلے گئے اور دادر ویسٹ میں رنجیت اسٹوڈیو کے پاس مقیم ہوئے ، پاس کے پیسے ختم ہوئے تو دو دنوں تک بھوکے رہے ،فٹ پاتھ پر سوئے تو حوالات کی ہوا بھی کھانی پڑی "قیصر صدیقی نے اپنے ایک نیجی گفتگو میں بتایا کہ اگر میں بمبئی میں کبھی فٹ پاتھ پر سویا تو اللہ کے کرم سے وہ دن بھی آیا جب میں نے ہوٹل تاج میں بھی قیام کیا مگر کچھ دنوں بعد ہی کام مل گیا فلم "جگت گرو شنکر اچاریہ " میں فلم کے ہیرو ابھیبھٹاچاریہ کے ساتھ تین روپے روز پر پانچ لڑکوں کے ساتھ گروپ میں جونیئر ایکسٹرا کا رول ادا کیا ، تقریبا ڈیڑھ مہینے تک شوٹنگ چلتی رہی اس کے بعد چار اور فلموں " جھنک جھنک پائل باجے " " اونچی حویلی" " کروڑپتی " اور " عورت " میں senior extra کا رول ادا کیا اور قریب سات آٹھ ماہ بمبئی میں رہ کر گھر لوٹ آئے ۔" مندرجہ ذیل دو اشعار اسی واقعہ کی تائید کرتے نظر آرہے ہیں ۔
راون کے بچپن کا پیارا ساتھی
سیتا کا کردار نبھاتا بچپن !
کیا جانے کیا سپنے دیکھ رہا ہے
بمبئی کے فٹ پاتھ پہ سویا بچپن
قیصر صدیقی آگے لکھتے ہیں کہ__ "جب میں لوٹ کر گھر آیا تو اس وقت سواۓ ٹوٹے پھوٹے شعر کہنے کے اور کچھ نہیں جانتا تھا ، ذہن کو موسیقی سے آشنائی بچپن کے ہی ایّام میں ہو چکی تھی جس نے ذہن کو قوالی نگاری کی طرف مائل کیا اور میں نے قوالی نگاری کو اپنا معاشی محاذ بنایا ، چونکہ اس زمانے میں مظفر پور میں کچھ قوال ہوا کرتے تھے لہٰزا میں مظفر پور رہنے لگا ، یہی میری ملاقات جناب ِ سید وحید الدین شوق عظیم آبادی سے ہوئی اور میں اپنا کلام ان کو دکھانے لگا ، وہ مجھے ضروری مشورے دیا کرتے تھے ،
میری شعری تربیت پہلے انہوں نے ہی کی ، پھر وہ مظفر پور سے مونگیر تشریف لے گئے اور میں کلکتہ چلا گیا "
مظفر پور میں دورانِ قیام ستمبر 1958 میں بزمِ فروغ ادب کے زیرِ اہتمام ایک طرحی مشاعرہ بصدارت الفت مظفر پوری، عابدہ ہائی اسکول کے میدان میں منعقد ہوا، مصرعہ طرح تھا ۔۔۔۔
"قسمت سے مل گیا ہے جنوں ہمسفر مجھے "
نوجوان شاعر قیصر صدیقی نے یوں طرح لگائی _
اب فکر راہزن نہ غمِ راہبر مجھے
قسمت سے مل گیا ہے جنوں ہمسفر مجھے
اور تیرہ اشعار کی غزل مکمل کر ترنم سے پڑہ کر مشاعرہ میں تہلکہ مچا دیا اور مشاعرہ اپنے نام کر لیا ، اسی غزل کے چھ اشعار اوّل اوّل ماہنامہ جمالستان دہلی کے جولائی 1961 کے شمارے میں شائع ہوۓ تھے جو مندرجہ ذیل ہیں __
ملتا نہیں ہے جامِ محبت اگر مجھے
کچھ تلخئی حیات سہی دے مگر مجھے
اب فکر راہزن نہ غمِ راہبر مجھے
"قسمت سے مل گیا ہے جنوں ہمسفر مجھے"
فکر و نظر پہ میری جو ہیں آج معترض
کل دیکھنا کہینگے وہی دیدہ ور مجھے
شمعِ حیات میری بجھا چاہتی ہے کیا ؟
حسرت سے تک رہا ہے مرا چارہ گر مجھے
"یادش بخیر " وہ ہیں تصّور میں جلوہ گر
ایسے میں دیکھ چھیڑ نہ دردِ جگر مجھے
بن جائیں لالہ ہاۓ چمن اشکِ احمریں
مل جائے ان کا دامنِ رنگیں اگر مجھے
قیصر کو جس نے خلق سے بیگانہ کر دیا
اب تک ہے یاد انکی وہ پہلی نظر مجھے
قیصر صدیق اپنی باتوں کو آگے بڑھاتے ہوئے فرماتے ہیں_ " جب میں کلکتہ گیا تو وہاں میں نے جناب جرم محمد آبادی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا مگر یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک نہیں چل سکا کہ میں ترقی پسندوں کے ہاتھ لگ گیا، کلکتہ میں سب سے پہلے میں نے حافظ نابینا قوال جو وہاں کے بڑے قوال تھے کے لئے لکھنے لگا ، اس زمانے میں نابینا کی گائ ہوئی میری بہت ساری چیزیں مقبول ہوئیں خاص کر نعتیں ، بحرِ طویل کی ایک نعت پاک بیحد مقبول ہوئ_
وہ روضہ، وہ جالی ،وہ گنبد ،وہ منظر، وہ گل ،وہ کلی، اور وہ گلزار دیکھو
اگر خلد کو دیکھنا چاہتے ہو ، تو چل کر محمد کا دربار دیکھو
جب میں کلکتے میں تھا تو کچھ مخلص دوستوں کا ساتھ نصیب ہوا جس نے میرے فن کو جلا بخشی، ان دوستوں میں کچھ بزرگ دوست بھی ملے، جیسے احسان دربھنگوی،ناظرالحسینی ،مضطر حیدری ، شہاب لکھنوی ،عارف القادری ، اور کچھ بے تکلف دوست جن میں ثمر آروی، شمیم آنولوی ،جزب آنولوی اور خاص طور سے وکیل اختر مرحوم جن سے میرا یارانا بہت گہرا تھا ،ان لوگوں کے توسّط سے حضرت پرویز شاہدی اور حضرتِ جمیل مظہری کے نیاز حاصل ہوۓ ،سچ پوچھۓ تو میری ذہنی تربیت ان ہی حضرات کی دوستی کے ساۓ میں ہوئی ، تو اس طرح میں نے اپنے لئے دو ٹریک بنانے ، ایک میرا معاشی ٹریک تھا جس پہ میں قوالوں کے لئے لکھتا تھا جو عوامی چیزیں ہوتی تھیں اور ایک مشاعرے کے لئے سنجیدہ ادبی چیزیں، میں مشاعرے میں جاتا تھا اور خوب شوق سے جاتا تھا ۔ "
قیصر صدیقی کے یہ دو اشعار انہیں واقعات کی یاد دلاتی ہیں۔
اوجھل نہ ہوا اہلِ بصیرت کی نظر سے
قیصر کبھی ایوانِ سخن سے نہیں نکلا
__
میرے فن میں عکسِ پرویز و جمیل
جرم کے لہجے کی رعنائی ہوں میں
ایک سوال کے جواب میں قیصر صدیقی فرماتے ہیں _" علامہ جمیل مظہری مرحوم ہم نوجوان شاعروں کے لیے علامت تھے ان کی زندگی کے شب و روز پر ہم لوگ نگاہ رکھتے تھے ان کی باتیں ان کے فقرے یہ سب ہم لوگوں کو عزیز تھے ، مجھے خاص طور سے علامہ کی شخصیت کا قلندرانہ پہلو بہت پسند تھا ، ان کی شاعری کے تعلق سے اگر کہو تو علامہ کی شاعری کا جو وہ ایک نرم روّیہ ہے ایک دھیمی دھیمی آنچ جو انکے ہاں ہے وہ بہت خوب ہے اور میں نے اپنے ہاں بھی شعوری یا غیر شعوری طور پہ اس بات کا خیال رکھا ہے کہ میری آواز میرے قاری کے ذوقِ سماعت پر گراں نہ گزرے _
جو بھی کہنا ہے وہ نرمی سے کہوں گا قیصر
کیوں کہ سیکھی ہی نہیں شعلہ بیانی میں نے
"قیصر صدیقی کے کلکتہ میں قیام کا ذکر" ۔۔ قیصر صدیقی کے رازداں اور دوست مشہور شاعر حامی گورکھپوری اکثرخاص کر اس مشاعرہ کا ذکر خوب مزے لے لے کر کرتے جو "ینگ بوائیز ایسوسیشن" خضر پور کے زیرِ اہتمام گاندھی جینتی کے موقع سے حضرت پرویز شاہدی کی صدارت میں منعقد ہوا تھا جس کی نظامت پروفیسر اعزاز افضل نے کی تھی ، ناظمِ مشاعرہ نے قیصر صدیقی کو مائک پر تشریف لانے کو آواز دی ، قیصر بغیر کسی تمہید کے ترنّم سے غزل سنانی شروع کر دی _
جب بھی قیصر رسن ودار کے چرچےہونگے
میرے جزبے میرے ایثار کے چرچےہونگے
جب جفا کوشئ اغیار کے چرچےہونگے
میرےہمدم میرے غمخوارکے چرچےہونگے
چاندنی رات کےساۓ میں کہی ہے یہ غزل
مہہ وشوں میں مرےاشعارکے چرچےہونگے
رنگ لاۓ گا شہیدانِ محبت کا __ لہو
آپ کے دامنِ گلنار کے چرچے ہونگے
غرق ہونے کو تو جائیگی کشتی ، لیکن
میری ٹوٹی ہوئی پتوار کے چرچے ہونگے
وہ بھی دن آۓگا جب بزمِ سخن میں قیصر
تیری شیرنیئ گفتار کے چرچے ہونگے
یوں تو اس غزل کے ہر شعر پر قیصر کو سامعین کے ساتھ ساتھ شعراء حضرات اور خاص کر ناظمِ مشاعرہ داد و تحسین سے نوازتے رہے ، لیکن قیصر نے جب یہ شعر ۔۔۔
غرق ہونے کو تو ہو جائے گی کشتی ، لیکن
میری ٹوٹی ہوئی پتوار کے چرچے ہونگے
پڑھا تو صدرِ مشاعرہ حضرت پرویز شاہدی کی جیسے جنونی کیفیت ہو گئی ہو ، اپنے مخصوص اور منفرد انداز میں زانو پر ہاتھ مار مار کر واہ واہ کرتے اور کہتے جمیل سے آگے نکال کر لے گیا ،جمیل سے آگے نکال کر لے گیا ہے پھر سے پڑھو ، واہ واہ کیا شعر نکالا ہے ،قیصر نے قریب پانچ بار اس شعر کو پڑھا ہوگا ، واقعی یہ شعر حاصلِ غزل بھی ہے اور اچھوتا بھی ۔ شاید اس وقت پرویز شاہدی کی نگاہ میں علامہ جمیل مظہری کی مندرجہ ذیل مشہور و معروف رباعی رہی ہو __
کشتی کو اچھالا کۓ سرکش دھارے
ساحل پہ نگاہ کی نہ تو ہمت ہارے
ٹوٹی ہوئی پتوار نے میری اکثر
طوفانوں کے چہرے پہ طماچے مارے
قیصر صدیقی کی یہ غزل کچھ دنوں بعد ماہنامہ نداۓ حرّیت میں شائع ہوئی تھی ۔۔۔۔
قیصر صدیقی نے چھ ہندی فلموں "خطا پیار کی"" تن بدن""تیرے جیسا یار کہاں""تحقیقات""درگا کی سوگندھ "اور مافیا ڈان کے لئے بھی نغمہ نگاری کی ہیں جس کے گیت آشا بھوسلے ، انورادھا پوڈوال ،جانی بابو للکار، محمد عزیز ،کمار شانو کویتا کرشن مورتی، انوپما دیش پانڈے،ادت نارائن ،اور الکا یاگنک کی آوازوں میں ریکارڈ کۓ گئے، لیکن افسوس کہ اس میں سے کوئی بھی فلم آج تک ریلیز نہیں ہو پائی ۔
قیصر صدیقی کو قوالی لکھنے میں محارت حاصل رہی ہے، انکی قوالیوں اور غزل کے سینکڑوں ریکارڈ، کیسٹ اور سی ڈی مختلف ریکارڈنگ کمپنیوں نے تیار کیے ہیں جو بازار میں دستیاب ہیں۔ ان کی لکھی ہوئی قوالیوں میں "اپنے ماں باپ کا تو دل نہ دکھا" زندگی اک کرایے کا گھر ہے" ماں ہے جنت تو باپ دروازہ "مسلمانوں سنبھل جاؤ قیامت آنے والی ہے"اور یہ دنیا ایک سراۓ کوئی آۓ کوئی جاۓ" وغیرہ بیحد مقبول ہیں ۔
اب قیصر صدیقی کی شخصیت اور شاعری کے متعلق چند مشاہیر اردو ادب کے قول پھر اسکے بعد کچھ متفّرق اشعار
____
بقول پروفیسر سید ضیاء الرحمن :– "قیصر صدیقی ایک زندہ ، بیدار اور فعال شاعر ہیں ۔انکا سینہ شعر و معنی کا بحر بے کراں ہے۔ ان کا ذہن اپنے مخصوص ذاتی احوال اور موجود عمومی سماجی حالات کا سچّا درپن ہے۔ انکی نگاہوں میں بصیرتوں کے چراغ روشن ہیں۔روحِ عصر انکے فن کے کالبُد میں سرگرم و رواں ہے۔ اپنی باتوں کو سلیقے اور ہنرمندی سے کہنا، اس پر مستزا ہے کہ سلیقۂ بیان قیصر صدیقی کا طرّۂ امتیاز ہے ۔ "
پروفیسر وہاب اشرفی :– مباحثہ کے 2011 کے شمارے میں لکھتے ہیں _قیصر صدیقی ایک ممتاز شاعر ہیں۔ ان کی " حمد" ان کی انفرادیت کے کئی پہلو کو پیش کر رہی ہے جسے آپ بھی محسوس کریں گے ۔"
ہے نظر نظر تری روشنی، ہے چمن چمن ترا رنگ و بو
تو ہی دھڑکنوں کا امین ہے، تو ہی زندگی کی ہے آبرو
تری شان جلّ جلالہ
یہ مہ ونجوم ، یہ کہکشاں ، یہ کلی ، یہ غنچہ ، یہ گلستاں
ہیں تری نگاہ سے ضو فشاں، جہاں دیکھۓ وہاں تو ہی تو
تری شان جلّ جلالہ
تو جو چاہے مالکِ دو جہاں، رگِ سنگ سے ہو لہو رواں
تو مکاں سے تا سرِ لامکاں، ترا نور ہی ہے چہار سو
تری شان جلّ جلالہ
یہ غریب قیصرِ بے نوا ، رہے کب تلک یونہی غمزدہ
ہو اسے بھی تھوڑی خوشی عطا، ہے حیات اس کی لہو لہو
تری شان جلّ جلالہ
_______
پروفیسر مرتضیٰ اظہر رضوی —" قیصر صدیقی اس اعتبار سے ایک اچھا جادوگر ہے کہ اسے غزل کی علامتوں کو برتنے کا اندازہ ہے اور اس اندازے میں اس کی انفرادیت پوری طرح نمایاں ہوتی ہے۔ قیصر کے کلام میں چیخ نہیں ہے لیکن دھیمی دھیمی آوازوں کی ایک مسلسل گونج ہے جو تالاب میں پھینکی ہوئی کنکری سے بننے والے دائرے کی طرح پھیلتی ہی چلی جاتی ہے ساحل سے ساحل تک یہ پھیلاؤ نامحسوس طور پر قیصر کے اشعار میں سمایا ہوا ہے۔ قیصر کہیں بھی ہمارے اعصاب کو جھنجھوڑتا نہیں ہے وہ پلکوں سے تلوؤں کو گدگدا کر ہمیں آہستہ آہستہ جگاتا ہے۔ پتہ نہیں ایسا کرنے کے لئے اسے کتنی بردباریوں کی شہتیروں کے نیچے سے گزرنا پڑتا ہے لیکن وہ بغیر کچلاۓ ہوۓ گزر جاتا ہے۔ شاید اس میں اسکی زندگی کے تجربات کا ہاتھ ہے ۔"
پروفیسر معراج الحق برق :– "میں بلا خوف و تردید کہہ سکتا ہوں کہ جناب قیصر صدیقی صاحب ایک نہایت معتبر کہنہ مشق، صاحبِ طراز اور قادرالکلام شاعر ہیں ۔ زود گوئی آپ کی صفاتِ عالیہ ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیفیت اور کمیت دونوں اعتبار سے آپ کی شاعری معیاری اور بلند مرتبہ ہے۔ تعجب خیز بات تو یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جس کی اسکولی تعلیم بھی مکمل نہ ہو سکی ہو اتنا عمدہ اور اعلیٰ درجہ کا شعر کہنے پر کس طرح قادر ہو سکا۔ یقینً یہ بات قیصر صدیقی کے وہبی شاعر ہونے کی ایک بڑی دلیل ہے۔"
پروفیسر ڈاکٹر منظر اعجاز :—- "قیصر صدیقی کا غزل کے ساتھ وہی تخلیقی رویہ دکھائی دیتا ہے، جو پھول کے ساتھ تتلی کا ہوتا ہے۔ قیصر صدیقی کا یہ شعر خود انکے تخلیقی میلان پر صادق آتا ہے__
گلوں کے ساتھ رہتے رہتے تتلی
بڑی رنگین فطرت ہو گئی ہے
ذوقِ جمال اور حسن خیال سے لبریز قیصر صدیقی کا پیمانۂ غزل بادۂ حیات سے لبریز چھلکتے ہوۓ جام کی مانند ہے جسے دیکھ کر رُخِ حیات پر زندگی کی امق تیز ہو جاتی ہے۔ احساسات کے تار گنگنانے لگتے ہیں ۔ جزبات کا عالم رنگین، دلکش اور پر کیف ہو جاتا ہے ۔ قلب میں حرکت و حرارت اور نظر میں بصیرت و بصارت کے بے شمار چراغ جل اٹھتے ہیں ۔ ڈوبتے سورج کا شفق رنگ منظر فیصلِ فکر پر حیاتِ نو اور صبحِ رنگیں کے آثار چھوڑ جاتے ہیں۔ "
ڈاکٹر ولی احمد ولی :— مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ قیصر صدیقی غزل کے ایک انوکھے اور البیلے شاعر ہیں۔ ان کی غزلیں انکی شخصیت کی طرح ہی شفّاف، شگفتہ و متین اور تہدار ہیں ____ قیصر صدیقی زود گو سیار گو شاعر ہیں، تاہم ان کی زود گوئی اور سیارگوئ سے ان کی شاعری کو کوئی صدمہ نہیں پہنچا ہے۔ ان کی غزلوں میں تجربات و مشاہدات کی رنگا رنگی اور بوقلمونی کے ساتھ ساتھ موضوعات و مضامین کا تنوع بھی ہے۔ وہ تمام باتیں اور ہر نوعیت کے مضامین کو انتہائی سادگی، شائستگی اور معصومیت کے ساتھ پیش کرنے کے ہنر سے بخوبی واقف ہیں ۔ ان کی غزلوں میں فن کی شائستگی اور اظہار کی شوخی کے ساتھ ساتھ "جوہر اندیشہ" کی گرمی بھی موجزن ہے ——— اپنے مخصوص اندازِ بیاں، جداگانہ لب و لہجہ اور منفرد رنگ و آہنگ کی وجہ کر وہ اپنے ہم عصروں میں ممتاز بھی ہیں اور انفرادی شان کے حامل بھی ہیں -"
ابوالفرح تنویر احمد:—– " قیصر صدیقی کی شاعری بادِ نسیم کی طرح سبک رو ہے جب پھولوں کو چومتی ہے تو فضا میں بھینی بھینی خوشبو بکھیر دیتی ہے جب دریچوں میں داخل ہوتی ہے تو زندگی کو شادمانی کی لزّت سے ہم کنار کر دیتی ہے۔ قیصر اپنے احساس کی ترسیل میں ہر جگہ کامیاب نظر آتے ہیں ——- سبک روی مدھم مدھم لمحہ تخلیقی عمل و فکری پرواز ان کو اپنے ہم عصروں سے ممیّز کرتی ہے اور یہی انکی شاعری کا وصف ہے ۔"
ڈاکٹر رغبت شمیم ملک، الہ آباد :——- "قیصر صدیقی ان شاعروں میں ہیں جنہوں نے اُردو ادب کی بے لوث خدمت کی ہے۔ وہ تا حیات صلے کی پروا کئے بغیر گلستانِ اردو کی آبیاری کرتے رہے اور اس میں شعر و سخن کے نو بہ نو گل بوٹے کھلاتے رہے ———- قیصر صدیقی کے مزاج میں قلندری تھی جو تا دمِ مرگ ان کے ساتھ رہی انہوں ادب کی دنیا میں اپنے آپ کو اسٹیبلیسٹ کرنے کے لئے کسی طرح کی ہشیاری نہیں کی اور نہ ہی ادبی سیاست کا حصّہ بنے۔ آخری سانس تک اردو سے محبت کرنے والا فقیر منش شاعر 4 ستمبر 2018 کو اس دنیاۓ فانی سے کوچ کر گیا لیکن شاعری کے شاہراہ پر اس نے جو نقوش قدم ثبت کۓ ہیں انکی تابانی میں مرور زمانہ کے ساتھ تیزی آتی رہے گی –"
_________
متفرق اشعار _
مشکلیں راہ کی کیا روک سکیں گی مجھ کو
میرے ہمراہ میری ماں کی دعا چلتی ہے
__
میرے بچپن پہ جسکی چھاؤ کا احسان ہے قیصر
وہ برگد یاد آتا ہے وہ پیپل یاد آتا ہے
___
دیکھنا یہ ہے مریضِ غم کا کیا ہوتا ہے حال
آج دریا کی عیادت کو سمندر آۓ گا
__
دنیا میں وفا آج بھی مل جاۓ گی لیکن
لوگوں میں نہیں صرف کتابوں میں ملے گی
___
کھو کے رہ گیا ہوں میں شہر کے اندھیرے میں
کوئی مہرباں مجھ کو میرے گاؤں پہنچا دے
____
بدلتی جا رہی ہیں ساری قدریں
کہاں کے طور اور کیسے قرینے
___
وقت بھی کیا کیا گھاؤ مثالی دیتا ہے
بیٹا باپ کو ماں کی گالی دیتا ہے
__
کوئی فرعون سا کوئی نمرود سا
ہر قدم یہاں پر ایک خدا دیکھۓ
___
گنگا جل کی قسمیں کھائی جاتی ہیں
خون میں لیکن ہاتھ بھگویا جاتا ہے
__
جیسا بھی ہو شہر مگر وہ بات کہاں
گاؤں کا ہم کو میلہ اچھّا لگتا ہے
___
گھر سے میں جب بھی اکیلا نکلا
مجھ سے پہلے میرا سایہ نکلا
___
چہرہ ایجاد ہے آئینے کی
آئینہ نکلا تو چہرہ نکلا
__
آشکار احمد
(مضمون نگارقیصرصدیقی کے چھوٹےبھائی ہیں)