جہد اور دعا
ہماری جہد اور کوشش ہمارے ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچاتی ہے ۔ جب کہ دعا ہمیں اعتماد بخشتی ہے ۔ یعنی پہلے عمل اور بعد میں دعا ۔ ہمارے نبی ﷺ مکہ کے کافروں سے مقابلہ کرنے کے لیے بدر کے میدان میں ہتھیا باندھ کر پہنچے اور بدر کے میدان میں جنگ سے پہلے یہ دعا مانگی اے اللہ تو نے آج ہماری مدد نہ کی تو تیرے یہ مٹھی بھر بندے فنا ہوجائیں گے اور تیرا دین مٹ جائے گا ۔ آپ نے یہ دعا نہیں مانگی کہ تو ہمارے دشمنوں کو لڑائی سے پہلے ہی فنا کردے بلکہ اللہ سے مدد کی استدعا کی تھی اور نہ آپ نے مدینہ میں بیٹھ کر دشمنوں کو فنا یا مٹانے کی دعائیں مانگیں تھیں ۔ جیسا کہ آج ہمارے مولوی اور وعظ دعاؤں کے ذریعہ دشمنوں پر فتح پانے اور ہر کام کے لیے دعا کی تلفین کرتے ہیں ۔ اہم بات یہ ہے آپ ﷺ ہر نماز کے بعد دعا بھی نہیں مانگا کرتے تھے ۔ ہاں جب ضرورت ہوتی اسی وقت ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ لیا کرتے تھے اور اس کے لیے کسی خاص وقت اور اہتمام کی ضرورت نہ تھی ۔ جب کہ ہمارے یہاں اس کے برعکس ہر نماز اور ہر مذہبی تقریب کے آخر میں دعائیں لازمی مانگی جاتی ہیں ۔
قران کی ایک آیت ہے ’ان اللہ ما الصبرین’ ۔ اس آیت کے طغرے آپ نے جگہ جگہ لگے دیکھے ہوں گے ۔ ان طغروں میں اس آیت کا ترجمہ بھی درج ہوتا ہے کہ ’اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے’ اور صبر کے معنیٰ ایثار کے بتائے جاتے ہیں ۔ اس طرح اس آیت کی تشریح یہ ہوئی کہ خاموشی سے بیٹھ جاؤ ، اگر اللہ کو منظور ہوگا تو کام خود بخود ہو جائے گا ۔ حلانکہ یہ غلط ترجمہ ہے اور یہ غلط ترجمہ قران الکریم کے تمام اردو ترجموں میں کیا گیا ۔ حالانکہ اس آیت کا ترجمہ یکسر غلط ہے اور یہ آیت جہاں بھی قران الکریم میں آئی وہاں مجاہدین کا ذکر ہے ۔ عربی میں صابر کے معنیٰ اپنے معاملے میں اڑے رہنے ، لگاتار جہد اور کوشش کے ہیں اور اس آیت کا درست ترجمہ یہ ہے کہ اللہ جدو جہد اور کوشش کرنے والوں کے ساتھ ہے ۔ اس طرح اس آیت میں جدوجہد اور کوشش کی تعلیم دی گئی ہے نہ کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر قسمت پر تکیہ کرنے کی تعلیم دی گئی ہے ۔
اس غلط ترجمہ کے اثرات ہمارے معاشرے پر بہت غلط پڑے ۔ اس سے ہمارے معاشرے میں جہد اور کوشش کے بجائے قسمت پر شاکر ہونے کی خو آگئی اور کسی ناکامی پر یہ کہا جاتا ہے اللہ کو منظور ہی نہیں تھا اور حالانکہ دعائیں بہت مانگیں تھیں ۔ ہم اس ناکامی کی وجہ پر غور و فکر نہیں کرتے ہیں کہ ہم اپنی کمزوریاں اور کوتاہیاں دور کریں ۔ مگر ہم اس کے بجائے قسمت پر صابر و شاکر اور ناکامی کو اللہ کی مرضی کہنے لگے ہیں ۔ اس سوچ نے مسلم معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا اور کر رہا ۔ اس غلط ترجمہ کی بدولت مسلم معاشرت میں تصوف کا پرچار بڑھ گیا اور لوگ اپنے کاموں کے لیے جہد اور کوشش کے بجائے دعاؤں کے طلبگار ہوگئے ہیں ۔ حقایق سے زیادہ مانوق الفرت فسانوں پر توجہ دینے لگے ۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے کہ مسلمان ہر میدان میں ذلیل اور خوار ہونے لگے ہیں ۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ برصغیر کے ترجمہ قران الکریم میں اس آیت کا ترجمہ غلط کیوں کیا گیا ۔
قران کریم کا پہلا ترجمہ شیخ سعدی نے فارسی میں کیا تھا اور برصغیر میں اس ترجمہ میں کچھ ترامیم کے ساتھ شاہ ولی اللہ نے فارسی میں ترجمہ کیا ۔ اس کے بعد برصغیر میں جو بھی اردو ترجمے کیئے گئے ان میں شاہ ولی اللہ کے فارسی ترجمہ کی پیروی کی گئی ۔ کیوں کہ برصغیر میں جتنے بھی مکتبہ فکر تھے وہ اپنا سلسلہ شاہ ولی اللہ سے جوڑتے ہیں ۔ البتہ چند جگہوں پر اختلافات ضرور ہے ۔ اس وجہ یہ ہے مکتبہ فکر کے لوگون نے ترجمہ کرتے ہوئے اپنے نظریات کو بھی مد نظر رکھا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔