وادی سندھ کی تہذیب
چھٹا مضمون
رہائشی مکانات
اصل شہر موہونجودڑو ایک ہی سائز کے مستطیل بلاکوں پر مشتمل تھا ۔ ہر بلاک شمالاً جنوباً 1200 فٹ اور شرقاً غرباً 800 فٹ تھا ۔ اس کے اندر چھوٹی گلیاں قائمہ زاویہ پر ایک دوسرے کو کاٹتی تھیں ۔ اس طرح کے چھ سات بلاک اب تک کھود کر نکالے گئے ہیں ۔ اگر کھدائی مکمل کرلی جائے تو شاید ایک میل کا پورا شہر برآمد ہوجائے ۔ جس میں بارہ رہائشی بلاک ہوں گے ، قلعہ مغربی جانب کا مرکزی بلاک ہوگا ۔ بڑی گلیاں تیس فٹ چوڑی ہیں ۔ چھوی گلیاں کہیں کہیں سے خمیدہ کردی گئی ہیں ۔ تاکہ آندھی کی صورت میں گلیوں میں ہوا کا زور ٹوٹ جائے ۔ یہ عموماً پانچ سے دس فٹ چوڑی ہیں ۔ گھروں کے دروازے بڑی گلیوں یا گزر گاہوں میں نہیں کھلتے تھے ۔ بلکہ بغل بند گلیوں میں کھلتے تھے ۔ کھڑکیوں کا رواج نہ ہونے کے برابر تھا ۔ کہیں کہیں کھڑکیاں تھیں تو ان میں پختہ جالیاں لگا کر اس میں سے ہاتھ پاؤں یا سر نکالنے کا راستہ بند کردیا گیا تھا ۔ بالائی طبقات کی عورتیں کسی قسم کے پردے کی پابند ہوں گی ۔ گھر کی چادر اور چاردیورای میں مقید رہتی ہوں گی ۔
موہنجودڑو میں ایک گھر مکمل طور پر محفوظ ہے ۔ اس میں دائیں جانب سب سے اوپر کا گھر جس کے اندر پانچ فٹ چوڑی بڑی بغلی گلی میں گھر کا دروزاہ ہے ۔ جو ایک ڈیورھی میں کھلتا ہے ۔ اس میں دروازے کے عین سامنے ایک چھوٹا سا کمرہ چوکیدار یا نوکر کے لئے ہے ۔ دائیں جانب ایک اور دروازہ ہے جو ایک مختصر گلیارے میں کھلتا ہے ۔ گلیارے میں دائیں جانب ایک کمرہ ہے ۔ جس میں کنواں ہے اور سامنے چند قدم چل کر صحن آجاتا ہے ۔ صحن ۳۳ مربع فٹ ہے ۔ صحن پہلے کھلا ہوا تھا پھر اس کے کچھ حصے میں چھت ڈالدی گئی ۔کنواں والے کمرے میں ایک زاغ بند محرابی راستہ برابر کے کمرے میں کھلتا ہے ۔ جو پختہ فرش کا غسل خانہ ہے ۔ غسل خانے سے اگلے کمرے کے نیچے سے پختہ مٹی کا پائپ گزرتا ہے ۔ اسی طرح دوسری جگہ بھی ایسا ہی زمین دوز پائپ بچھایا گیا ہے ۔ گھر کی دیواریں موٹی ہیں ۔ جس کا مطب ہے دوسری منزل بھی ہوگی ۔ پختہ اینٹوں کا زینہ اوپر جاتا ہے ۔ گلیارے میں صحن سے داخل ہونے کے بجائے بائیں جانب دروازے میں داخل ہوں تو ایک برآمدہ ہے ۔ جو بائیں جانب جاتا ہے ۔ پھر دائیں جانب مڑجاتا ہے ۔ یہاں ایک کمرے میں داخل ہوتے ہیں جہاں طاق بنے ہوئے ہیں ۔ غالباً یہاں وہ بت رکھے جاتے ہوں گے جن کی پوجا کی جاتی ہوگی ۔ اگر یہ گمان درست ہے تو پھر یہ پوجا انفرادی رنگ رکھتی اور اجتماعی عبادت خانے اس لئے کہیں نہیں ملے ۔
بعض گھروں میں کمروں میں کے اندر اینٹوں سے کھڈی بنی ہوئی ہے ۔ جس میں سوراخ دار برتن ہے ۔ جو خمدار راستے سے زمین دوز نالی سے ملحق ہے ۔ یہ فیش سسٹم لیٹرین ہے ۔ خمدار راستے کے باعث برتن میں پانی کھڑا رہتا تھا ۔ مگر بعض گھروں میں سیدھا فلیش ہوجاتا تھا ۔ گھر سے گندے پانی کے نکاس کے لئے دیوار میں سوراخ بنایا جاتا تھا اور باہر زمین دوز نالیوں کے ذریعے غلاظت شہر سے باہر چلی جاتی تھی ۔
شہری منصوبہ بندی
موہنجودڑو کے مقابلے میں میسوپوٹیمیا میں ار شہر کا نقشہ ہے اس میں سارا شہر ایک بڑی گلی سے پھوٹتا ہے ۔ جو ٹیرھی میڑھی گھومتی ہوئی جاتی ہے ۔ گلیوں کا بے ترتیب یا گولائی میں ہونا خودرو گاؤں کی خصوصیت ۔ جب کہ قائمۃ الزاویہ پر کاٹتی ہوئی ترتیب دار گلیاں منصوبہ سے بنائے ہوئے شہر کی خاصیت ہوتی ہے ۔ شہر اور گاؤں کے درمیان ایک واضح فرق ۔ اس معیار کو پرکھیں تو موہنجودڑو کا شہر ٹاؤن پلانگ کے پختہ دور کی پیدوار ہے ۔
موہنجودڑو کے عروج کے زمانے میں گلیاں کچی ہوتی تھیں ۔ مگر ان میں پختہ زمین دروز نالیاں ہوا کرتی تھیں ۔ ان کی نفاست اور عمدگی اور کمال اس وجہ سے تھا کہ ہم عصر دنیا ان کا دنیا کے کسی خطہ میں جواب نہ تھا ۔ مناسب مقامات پر پختہ اینٹوں کے مین ہول تھے ۔ جن کو شہر کا عملہ صفائی صاف کرتا رہتا تھا ۔ یہ بھی امکان ہے کہ گھروں کی صفائی کرنے والے بھی حکومت سے تنخواہ لیتے تھے ۔ یعنی ذاتی غلام نہ تھے ۔ مگر آزاد شہریوں کی غلامی پر اجتماعی ملکیت تھی ۔ ہر گھر میں ایک کنواں تھا اور گلیوں میں بھی کہیں کہیں کنواں تھا ۔ گندے پانی کی نکاس کا زمین دوز انتظام تھا ۔ گھر سے جب پانی نکل کر گلی میں آتا تھا تو دیوار کے ساتھ ایک گڑھا یا مدفون برتن یا پختہ اینٹوں کا گٹر بنا ہوتا تھا ۔ تاکہ پانی گلی میں بہہ نہ جائے ۔ اہم گلیوں کے موڑ پر یا چورستوں پر ایک چھوٹا سا کمرہ ہوتا تھا ۔ جو گلی میں کھلتا تھا ۔ بظاہر یہ چوکیدار کا ٹھکانہ تھا ۔ اسی سے لگتا ہے کہ شہری معملات کے بارے میں سرکاری انتظام بہت مفصل اور سخت گیر تھا ۔
دیواروں کا عام طریقہ تعمیر آڑے سیدھے کا تھا ۔ یعنی ایک ردے میں سیدھی اینٹیں چنی جاتی تھیں تو دوسری میں آڑی ۔ مگر ایک جگہ آرائشی اسلوب بھی اختیار کیا گیا ہے ۔ دیواریں صرف اندر سے پلستر کی جاتی تھیں ، باہر سے نہیں ۔ چھتیوں میں لکڑی کا استعمال یقینی ہے اور باہر بڑھی بھی ہوتی ہوں گی ۔ اوپر جھروکے ہوتے ہوں گے ۔ جن سے عورتوں کو باہر جھانکنے کی کم ہی اجازت ہوگی ۔ تعمیراتی جمالیات ساری لکڑی سے وابستہ تھی یا شاید کوئی رنگ و روغن یا تصویریں ہوتی ہوں گی ۔ اینٹوں سے کوئی جمالیاتی کام نہیں لیا گیا ۔
اس شہر کے مکانات کا جائزہ لیں تو محسوس ہوتا ہے کہ امیر اور غریب کے گھر بھی تھے ۔ امیر گھروں سے پہلے صحن ہوتا تھا ۔ جس کاراستہ بڑی گلی میں نہیں بلکہ بغلی گلی کھلتا تھا ۔ گھر میں داخل ہوتے ہی ایک چوکیدار کے بیٹھنے کی جگہ ہوتی تھی ۔ اس کے بعد صحن تھا اور صحن کے اطراف میں چھوٹے بڑے کمرے ہوتے تھے ۔ بعض گھروں میں دو اطراف میں کمرے اور بعضوں میں صرف سامنے کی سمت میں چھوٹے بڑے کمرے ہوتے تھے ۔ ایک کمرہ امیر گھر میں غسل خانے کا ہوتا تھا ۔ جس کا فرش پختہ اور عمدگی سے بنایا جاتا تھا ۔ غلاظت کے اخراج کے لئے ہر گھر میں زمین دوز نالیاں بنی ہوتی تھیں ۔ جو باہر گلیوں کی بڑی نالیوں سے جاملتی تھی ۔ اس کے علاوہ گھر کے کوڑا کرکٹ کی صفائی کے لئے دیوار میں ایک سوراخ ہوتا تھا ۔ جس سے باہر کوڑا پھینکا جاتا تھا اور باہر اس سوراخ کے نیچے اینٹوں کی کچرا پیٹی بنی ہوتی تھی ۔ یقیناًیہاں سے شہر سرکاری عملہ صفائی اس کچرے کو لے جاتا ہوگا ۔ چونکہ یہ ایک دریائی تہذیب تھی ۔ اس لئے صفائی کی طرف زیادہ رجحان تھا ۔ جہاں پانی وافر ہو وہاں نہانا دھونا اور صفائی کے کاموں میں پانی کے استعمال میں کنجوسی کی ضرورت نہیں ۔ جیسا کہ صحرائی تمدن میں ہوتا ہے ۔ امیر گھروں میں کنویں تو تھے ۔ لیکن نسبتاً غیرب گھروں کے لئے پبلک کنویں بھی تھے ۔ پبلک کنویں پر پانی پلانے کی سبیلیں بنی ہوتی تھیں ۔
یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کم از کم تین دفعہ سیلاب آیا ۔ جس میں پورا شہر غرق ہوگیا اور پھر بعد میں اس کے اوپر دوبارہ بسایا گیا ۔ ہر بار جب نیا شہر بنا تو اس کا فن تعمیر زوال کا شکار ہوا ۔ تہذیب اور معیار زندگی اور خوشحالی میں انحطاط پیدا ہوا ۔ زوال پر آمادہ شہر کو آخر میں حملہ آوروں نے برباد کردیا ۔ یوری گنگوفسکی کا خیال ہے کہ موہنجودڑو کی آبادی ایک لاکھ سے کم نہ تھی ۔
موہنجوداڑو میں پہلی آبادی سے لے کر آخری تک شہر کا نقشہ جوں کا توں وہی رہا ۔ مکانوں کا گلی میں کھلنے راستہ اور بغلی گلیاں سب اپنی جگہ بار بار بنتی رہیں ۔ اس سے پگٹ نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ان تمام برسوں میں یا تو ایک ہی خاندان کی حکومت رہی اور اگر خاندان تبدیل بھی ہوا تو بھی قدیم روایات بغیر کسی گڑبڑ کہ من وغن منتقل ہوتی رہی ہیں اور ایسا مذہبی تسلسل کے ذریعے ممکن ہوا ہوگا ۔ ظاہر ہے کہ پیداواری آلات ذرائع اور نظام معیشت میں تبدیلی نہیں ہوتی ہوگی ۔ ملکی قوانین مذہبی عقائد کی شکل میں رائج ہوں گے ۔ نہ سماج میں واضح ترقی ہوتی ہوگی ، نہ عقائد بدلے ہوں گے ۔ شہر کے مغربی کنارے پر ایک بڑا قلعہ ہے ۔ جو تقریباً مستطیل شکل کا ہے ۔جس کا طول شمالاً جنوباً چار سو گز ہے اور عرض شرقاً غرباً دو سو گز ہے ۔ قلعہ 30 فٹ اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے ۔ اس چبوترے کے گرد پکی اینٹوں کی مظبوط دیوار ہے اور اس کا پیٹ کچی اینٹوں سے بھرا گیا ہے ۔ اس قلعے کے اندر بڑے بڑے ہال کمرے ہیں ۔ بڑے بڑے دروازے اور چبوترے ہیں ۔ قلعے کے باہر شہر کے مکانات ہیں اور غلاموں کے کواٹر ہیں ، ان کے پاس گندم پیسنے کے فرش بنے ہیں اور ان کے آگے عظیم اناج گھر ہے ۔ بڑی گلیاں زاویہ قائمہ پر مڑتی تھیں اور ان میں سے باقیدہ سیدھی گلیاں اور کوچے نکلتے تھے ۔ شہر میں کسی جگہ کھلے میدان ، پارک یا باغات نہ تھے ۔ گھروں کے اندرنی نقشہ ہر دور میں بدل جاتے تھے ۔ لیکن کنواں وہی رہتا تھا ۔ اس کے اوپر مزید گول دیوار کھڑی جاتی تھی ۔ چنانچہ اب کنواں کھود کر نکالے ہیں تو وہ بیس سے تیس فٹ اونچے کھڑے ہیں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔