یہ دونوں تصورات ۔کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں جامد ہے ۔ سب مخلوق شروع سے اسی طرح وجود میں آئی ہے اور ان میں باہمی کوئی رشتہ نہیں اور نہ ان میں باہمی کوئی رشتہ نہیں ہے اور نہ ان میں کوئی ارتقاء ہے ۔
دوسرا یہ ہے کہ زندگی اپنے آغاز سے لے کر اب تک پہم ایک سلسلہ ارتقاء میں سفر کر رہی ہے اور ہر لمحہ تبدیل ہو رہی ہے اور آئندہ بھی اس طرح کی تبدیلی اور تغیر جارہی رہے گا ۔ نہایت قدیم زمانے سے مفکرین اور سائنس دان اور مفکرین کہتے رہے ہیں ۔ ارتقاء کا نظریہ ڈارون نے پہلی دفعہ پیش نہیں کیا ، بلکہ اس سے بہت پہلے ارتقاء کی حقیقت طرف اشارہ کر رہے ہیں ۔ مثلاً قدیم یونانی مفکرین ، فلسفی اور ماہر فلکیات ہیراقلتسHERACLEITUS کا نظریہ تھا کہ دنیا کی تمام چیزیں مسلسل تغیر پزیر ہیں ۔ وہ کہتا ہے کہ زیادہ تر اہل فکر لاگاس Logaos )لفظی معنی عقل سبب ، مراد قانون کائنات( کو نہیں سمجھتے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کائنات کے بارے میں غلط رائے قائم کرتے ہیں ۔ اس کا خیال تھا کہ ’ قانون کائنات ‘ کے زریعہ کائنات کی تمام چیزیں آپس میں مربوط ہیں اور اسی قانون کے تحت تمام قدرتی واقعات رونما ہوتے ہیں ۔ اسی قانون کا ایک اہم مظہر یہ ہے کہ دو متعضاد چیزوں میں ایک اندرونی رشتہ پایا جاتا ہے ۔ مثلاً صحت اور بیماری ایک دوسرے کا تعین کرتے ہیں ۔ نیکی اور بدی سرد و گرم ایک دوسرے کے بغیر اپنا مفہوم کھو دیں گے ۔ اس طرح وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ہر چیز کے دو متعضاد پہلو ہو سکتے ہیں ۔ مثلاً سمندر کا پانی نقصان دہ بھی ہے )انسانوں کے لیے( اور مفید بھی ۔ )مچھلیوں کے لیے( اس کا کہنا تھا کسی کیفیت یا چیز کا ثبات و دوام ظاہری ، سطحی اور عارضی ہے ۔ جب کہ تغیر اصلی اور ابدی حقیقت ہے ۔ ایک اور یونانی فلسفی اناکسی مینڈ جو فلکیات کا بانی سمجھا جاتا ہے ، اس کا خیال تھا مٹی ، ہوا ، آگ اور پانی سے ہی امتزاجات اور افتراقات سے لا تعداد دنیائیں جنم لیتی ہیں اور پھر تباہ ہوجاتی ہیں اور یہ سب کچھ لامتناہی طور پر جاری رہتا ہے ۔ اس یہ خیال تھا کہ انسان مچھلی سے ملتی جلتی مخلوق سے ترقی پا کر وجود میں آیا ۔ اس طرح مسلمان مفکرین کی تحریروں میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ۔ خاص کر ان مسکویہ تحریروں میں ۔ لیکن ان مسکویہ اور دوسرے مفکرین انسان کا قریبی رشتہ دار گھوڑے کو ٹہرایا ہے ۔ اس طرح اس کا ذکر اخوان صفاء کی تحریروں میں ملتا ہے لیکن بہت الجھا ہوا ۔
فرانس کے ماہر حیاتیات و نبات ژاں بیپتست نے 1809 میں اپنی کتاب ’ فلسفہ حیات ‘ اس نے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ زندگی اپنی مختلف شکلوں میں ارتقاء سے جڑی ہوئی ہے ۔ الفریڈ ویلس نے 1858 میں بھی ارتقاء کی حقیقت کو ثابت کرنے کی کوشش کی ۔ اس کے بعد چالس ڈارون نے اس نظریہ کو انقلابی شکل دی ۔ اس کی کتاب آغاز النوع ‘ جو 1859 میں شائع ہوئی تھی ۔ اس کے بعد ہزاروں سائنس دانوں نے سائنس کے مختلف شعبوں میں کام کرتے ہوئے ایسی بے شمار حقیقتوں کو دریافت کیا ہے ۔ جس سے اس نظریہ کی تائید ہوتی ہے اور اب ارتقاء کی حقیقت سائنس کی دنیا میں مسلمہ ہوچکی ہے ۔
اس نظرے پر وقتاً وقتاً جو اعتراضات سائنسدانوں کی طرف سے کیئے گئے ، وہ ضمنی حقائق پر ہوتے ہیں اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تحقیق اسے مزید مستحکم کرنے کا باعث بنتی ہے ۔ اس نظریہ کو بنیادی طور پر رد کرنے والے دنیا میں صرف مذہبی مفکرین ہیں یا ایسے عینیت پسند سائنسدان جو مذہبی تبلیغ میں دلچسپی رکھتی ہیں ۔
گزشتہ صدی میں یہ خیال عام تھا کہ ایک بچہ ماں کے پیٹ میں قرار حمل سے لے کر پیدائش تک نو ماہ تک کے عرصہ میں ترتیب وار ان مراحل سے گزرتا ہے کہ جن سے کائنات کے اندر زندگی اپنے ارتقاء کے سفر آغاز ظہور انسان تک ساڑھے تین ارب سال میں گزری ہے ۔ یہ تفصیلات میں تو درست نہیں لیکن اس میں بنیادی صداقت کا عنصر ضرور پایا جاتا ہے ۔ علم جنین )ایمبر لوجی( کی جدید ترین تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں کے بچے (بشمول انسان) حمل ٹہرنے سے لے کر پیدائش تک ایک جیسے مراحل طہ کرتے ہیں ۔ ابتدا میں ایسے تمام جانداروں کے جنین ایک دوسرے کا مماثل ہوتے ہیں ۔ بعد میں آہستہ آہستہ ان میں اختلاف واضح ہونے لگتے ہیں ۔ آخر میں یہ بالکل الگ شکل کے ہوجاتے ہیں ۔
اس سے ثابت ہوتا کہ تمام جانداروں کے درمیان زبردست ارتقائی رشتہ ہے ۔ سائنس کے مختلف شعبے جس کے مطالعہ سے ارتقائے حیات کا ثبوت ملتا ہے ، ان میں علم الابدن (بیالوجی) خاص کر اس تحقیقی شعبے علم الانواع )ٹیکسانومی( علم العضا ، )اناٹومی( اور علم جنین (ایمیبریالوجی) شامل ہیں ۔ علم الابدان کے علاوہ ماحولیات )ایکالوجی( قدیم بناتات قدیم حیوانیات )پیل اونٹالوجی( میں سائنسی تحیقات اور علم آثار )مجحرات( اور زمانہ قبل از تاریخ کی قدیم مصنوعات وغیرہ کے سائنسی مطالعہ شامل ہے ۔
علم الانوع کی شہادت
علم الانوع کا دائرہ زندگی کے مختلف انوع SPECIES خصوصی مطالعہ کرنا ہے ۔ ان کی تعریف ، وضاحت اور درجہ بندی کرنا ہے ۔ اگر انوع میں اپنی اپنی نوع کی مختلف صفات خلط ملط ہوتی ہیں تو اس علم کی شاید ضرورت نہ ہوتی اور اس کی گواہی بھی درست نہیں ہوتی ، لیکن چونکہ ہر نوع کے جملہ افراد اپنی نوع کی خصوصیات لازمی طور پر رکھتے ہیں ۔ اس لیے نوع کی درجہ بندی ممکن ہے اور ان کے درمیان روابط کی تلاش بھی ممکن ہے ۔ مثلاً سب مرغیاں انڈے دیتی ہیں ۔ لیکن کوئی مرغی انڈے اور کوئی بچے یا پھر کوئی پرندہ پر رکھتا اور کسی پرندے کے بال ہوتے یا گندم کے ایک پودے پر کوئی تو گندم کا سٹہ ہوتا اور کوئی جوار کا یا باجرے کا تو علم الانوع ، ارتقاء کے نظریہ میں کوئی مدد نہ کرسکتا تھا ۔ لیکن علم الانوع یہ ثابت کرتا ہے کہ مختلف انواع کو مشترکہ خصوصیات کے پیش نظر چند گروہوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ اس طرح سے انواع ، اقسام ، خاندان ، سلسلہ ، جماعت ، خیل اور سلطنت میں کائی سے لے کر برگد تک اور جانداروں کی سلطنت میں پوٹوزو (ایک خلوی) خوربینی جانوروں میں سے لے کرآزاد شیر داروں تک مختلف انواع میں میں ایک باہمی رشتہ پایا جاتا ہے ، جو کسی مشترکہ جد پر مبنی ہونے کا ثبوت بہم پہچاتا ہے اور یوں نظریہ ارتقاء کی صداقت کی گواہی دیتا ہے ۔
تقابلی علم الاعضا کی شہادت
مختلف پودووں اور جانوروں کے جسمانی ڈھانچوں کا تقابلی مطالہ بھی مشترکہ اوصاف کی نشاندہی کرتا ہے اور یوں مشترکہ جد کا ایک اور ثبوت فراہم کرتا ہے ۔ مثلاً مینڈک ، چھپکلی ، درندے اور شیر دار جانداروں کے جسموں میں ہڈیوں کے ڈھانچے بنیادی ساخت ایک جیسی ہے ۔ جو ثابت کرتی ہے کہ ان سب کا جد امجد ایک ہی ہے جو کوئی ریڑھ کی ہڈی والا جاندار تھا ۔ اسی طرح تمام شیر دار جانوروں کے اعظاء کا بنیادی نظام ایک جیسا ہے ، خواہ یہ جانور تیرنے والے ہوں یا خشکی پر چلنے والے ، رینگنے والے ہوں یا اڑنے والے ۔
علم حنین کی شہادت
پیدائش سے پہلے کسی بھی جاندار کا جنین )ایمبریو( جن مراحل سے گزرتا ہے ، وہ حیرت انگیز حد تک ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ چاہے جنین ماں کے پیٹ میں ہو یا انڈے میں ۔ اگر مثال کے طور پر ریڑھ والے مختلف جانداروں کے جنین کی افزائش کا مطالعہ کیا جائے تو ابتدائی مراحل میں یہ سب ایک جیسے ہوتے ہیں ۔ اگر مچھلی ، چھپکلی اور بارہ سنگھے کے ابتدائی حنین سامنے رکھ دیئے جائیں تو ماہرین کے لیے یہ بتانا مشکل ہوگا کہ ان میں سے کون سا جنین کس جاندار کا ہے ۔ یہ مماثلت اس بات کا ثبوت ہے کہ نسلی طور پر ماضی قدیم میں یہ سب ایک مشترکہ جد سے تعلق رکھتے ہیں ۔
ماحولیات کی شہادت
دنیا کے کونے کونے میں بکھرے ہوئے جانداروں کی نسلیں اور دیگر زندہ اجسام کی شکلیں بعض اوقات ایسے عجیب و غریب مظاہر کو سامنے لاتی ہیں ، جن کا کوئی دوسرا سائنسی جواب نظریہ ارتقاء کے ممکن نہیں ہے ۔ مثلاً قریب قریب واقع کئی سمندری جزیروں میں ایسے پرندے پائے جاتے ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ، مگر اپنے قریبی براعظموں کے پرندوں سے مماثل ہیں ۔ اسی طرح ایک اور عجیب بات یہ ہے کہ ایک جیسی آب و ہوا رکھنے والے دو علاقوں میں ایک جیسے جانور نہیں پائے جاتے ہیں ۔ مثلاً برازیل اور افریقہ کی آب و ہوا ایک جیسی ہے ۔ مگر افریقہ میں گوریلے اور ہاتھی ہیں ، جب کہ برازیل میں یہ جانور نہیں ہیں ۔ ان پہلیوں کا جواب صرف نظریہ ارتقاء کے پاس ہے کہ یہ جانور ان اجداد کی نسل سے ہیں ، جو اس بر اعظموں میں وجود آئے ہیں اور بعد میں زیادہ ساز گار ماحول والے علاقوں کی طرف چلے گئے ۔ اسی قسم کے سفر میں قدرتی رکاوٹیں آخری حد کا کام کرتی تھیں ۔ پانی والے جانوروں کے لیے خشکی کا بڑا ٹکرا اور خشکی کے جانوروں کے لیے کوئی سمندر ۔ اس طرح ایک دلچسپ مثال گھڑیال کی ہے ، اس کی دو نسلیں دنیا میں دور دراز موجود ہیں ۔ ایک مشرقی ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور دوسری عوامی جمہوریہ چین میں ۔ ان کے اجداد قدیم زمانوں سے ایشیاء سے لے کر فلوریڈا تک پھیلے ہوئے تھے اور خشکی کے اس معدوم راستے پر جاتے تھے ، جو کسی زمانے میں روس کو الاسکا سے ملاتا تھا ۔ اس راستہ کے معدوم ہو جانے سے یہ دونوں نسلیں اپنے ماحول کے اثر سے قدرے تبدیل ہوتی گئیں ۔ لیکن دو انتہائی دور دراز علاقوں میں آج بھی موجود ہیں ۔ یوں نظریہ ارتقاء ان جغرافیائی پہلیوں کے تسلی بخش جواب پیش کرتا ہے ۔
مجحرات کی شہادت
لیکن سب سے مسکت دلیل خود ان خزانوں کی ہے ۔ جو زمین نے اپنے سینے میں لاکھوں کروڑوں سالوں سے چھپا کر حفاظت سے رکھے تھے ۔ یہ ان زندہ جانداروں اور نباتات کے پتھرائے ہوئے ڈھانچے ہیں ، جو لاکھوں کروڑوں سال پہلے زمین پر چلتے تھے یا لہلہاتے تھے ۔ یہ مجحرات مختلف زمانوں سے تعلق رکھتے ہیں اور زمانی ترتیب سے ان مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ جتنا قدیم کوئی پودا یا جاندار ہے ، اس کی ساخت اتنی ہی سادہ ہے ۔ جب کہ ان کی زیادہ ترقی یافتہ شکلیں یعنی زیادہ پیچیدہ اور باصلاحیت شکلیں بعد میں نمودار ہوتی گئیں ۔ مجحرات کا تسلی بخش سائنسی جواب صرف نظریہ ارتقاء کے کسی کے پاس نہیں ہے ۔
ارتقاء کا طریقہ کار
ارتقاء کا عمل عمموماً دو قوتوں کا مرحون منت رہا ہے ۔ ایک اندرونی جینیاتی تبدیلی اور دوسرا ماحول کی مواقت یا عدم مواقت کا اثر ۔ جینیاتی تبدیلی کا جدید تصور یہ ہے کہ یہ اچانک ہوتی ہے ۔ کیوں ہوتی ہے ؟ آیا کوئی کائناتی شعاعیں اچانک پڑنے سے ، کسی نئے کیمیائی مواد کے انجدب سے یا کسی اور وجہ یا وجوہات سے ؟ اس بات کا کوئی جواب نہیں معلوم ، مگر یہ حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہے ۔
دوسرا ماحول کا اثر ہے ۔ ماحول ارتقاء کی شرائط مہیا کرتا ہے ۔ حیات کے اندر جو تبدیلی کی صلاحیت اس کو ماحول کی موافقت ایک خاص رخ پر لے جاتی ہے اور مخالفت اسے کچل دیتی ہے ۔ لہذا زیادہ اہل جسم و ماحول کی مطلوبہ تبدیلیوں سے دو چار ہو کر زندہ رہ جاتا ہے اور ناہل تبدیل نہ ہوسکنے کے باعث راستہ میں ہی رہے جاتا ہے ۔ قدرتی انتخاب اور بقائے صلح کا قانون ارتقاء کے خارجی عوامل ہیں ، جب کہ باطنی عامل جنین کی تبدیلی ہے ۔
ریڑھ کے جانوروں کا ارتقاء
تقریباً تین ارب اسی کروڑ سال پہلے یک خلوی خلیہ سے زندگی کی ابتدا ہوئی تھی ۔ یہ زندہ مخلوق نہ نباتات میں شمار ہوتی تھی اور نہ ہی حیوانات میں ۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے تقریباً تین ارب سال پہلے ہوا تھا ۔ نباتات اور حیوانات کی علیحدگی کا آغاز آج سے کوئی ایک ارب سال پہلے ہوا تھا ۔ اس وقت تک نباتات اور حیوانات یک خلیاتی مرحلے میں تھے اور یہ دونوں پانی کے اندر تھے ۔ یہ ارتقاء شروع کیسے ہوا ، یہ بھی سربستہ راز ہے ۔ کیوں کہ حاصل شدہ مجحرات کے دور سے پہلے کے زمانے سے تعلق رکھتا تھا ۔ بہرحال یک خلیاتی جسموں میں ارتقاء کی پہلی یہ تھی کہ کثیر خلیاتی جسم پیدا ہوئے ۔ اس عمل کا زمانہ ساٹھ کروڑ قبل سمجھا جاتا ہے ۔ قدیم کائی اور بکٹیریا کے مجحرات جنوبی افریقہ میں ملے ہیں ۔ ان کی عمر علیٰ الترتیب تین ارب دس کروڑ سال اور دو ارب ستر کروڑ سال ہے ۔ اس طرح انٹاریو )کنیڈا( سے جو ایسے ہی مجحرات ملے ہیں وہ ایک ارب نوے کروڑ سال پرانے ہیں ۔ ایسے قدیم مجحرات کی تعداد کم ہے ۔ تاہم ساٹھ کروڑ سال قبل کے زمانے سے لے کر بعد کے تمام ادوار کے مجحرات وافر دستیاب ہیں ۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ابتدائی جسموں میں خلیوں کی تعداد مختصر ہوتی تھی اور خلیوں کی ترتیب دو پرتوں میں ہوتی تھی ، جن میں ریشوں کا کچھ فرق ہوتا تھا ، مگر اعضاء کا وجود نہیں تھا ۔ ساٹھ کروڑ سال قبل کئی جاندار وجود میں آچکے تھے جو تقریباً سب کے سب پانی میں رہتے تھے ۔
یک خلوی جسموں میں ارتقاء کی پہلی تبدیلی تو یہ تھی کہ کثیر الخلیاتی جسم نمودار ہوئے ۔ دوسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ خلیوں کی تین پرتوں میں جسموں کا ظہور ہوا ۔ جس کے باعث ۔ درمیانی پرت میں پٹھوں کا ظہور ہوا ۔ جس کے باعث اس میں حرکت کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا ۔ جسم کے مختلف تقسیم منت ہوئی اور سر اور دم کا فرق پیدا ہوا ۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ ٹکروں میں منقسم جسم وجود میں آئے ۔ دوسرے ان کے اندر کچھ کھوکھلا حصہ بھی پیدا ہوا ۔ ان خصوصیات کے نتیجے میں جوڑ دار کیڑے پیدا ہوئے ۔ آج بھی ایسے کیڑوں کا نمائندہ کیچوا موجود ہے ۔ یہ دونوں خصوصیات بعد میں زیادہ ترقی یافتہ بے ریڑھ اور ریڑھ دار جانوروں کے جسمانی نظام کی بنیاد بنے ۔
چوتھی بڑی یہ ترقی ہوئی کہ ٹکڑوں میں منقسم کھوکھلے جسموں کے ساتھ جوڑ دار اعضاء مزید لگ گئے اور ایک نیا بے ریڑھ جانور پیدا ہوا ۔ اس جانور کے لیے ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کرنا انتہائی آسان ہوگیا ۔ ان سے ترقی کرکے جڑے ہوئے پیروں والے جانور پیدا ہوئے اور کروڑ ہا کروڑ سال پہلے زندگی انہی شکلوں میں قدیم سمندروں موجود تھے ۔ ان کی اولاد میں سے سمندری بچھو پیدا ہوئے اور پھر سانس لینے والے سمندری حشرات پیدا ہوئے ۔ سب سے پہلے کیڑے تقریباً تقریباً 32 کروڑ پچاس لاکھ سال پہلے صفحہ ہستی پر نمودار ہوئے ۔ تتلیاں اس زمانے میں نمودار ہوئیں جب نباتات کی دنیا میں پھولدار پودے وجود میں آئے ۔ تاہم گزشتہ بارہ کروڑ سال سے بے ریڑھ جانوروں میں کوئی مزید عظیم تبدیلی نہیں ہوئی ۔
ریڑھ دار جانوروں کا ارتقاء
ریڑھ والے جانور دنیا کی تمام جاندار اقسام کی سب سے ترقی یافتہ قسم ہے ۔ ان کا ظہور آج سے تقریباً پچاس کروڑ سال پہلے ہوا تھا ۔ یہ جانور ۔۔۔۔۔ دنیا کا سب سے پہلا ریڑھ دار جانور جبڑے کے بغیر مچھلیاں تھیں ۔ لیکن ان کی ریڑھ کی ہڈی باقیدہ کوئی ہڈی نہیں تھی ۔بلکہ پتلے سے دھاگہ کی طرح تھی ، جو گوشت کے ریشوں سے قدرے سخت تھی ۔ رفتہ رفتہ ان میں غضروف یعنی مرمری ہڈی (نرم ہڈی) کا ڈھانچہ نمودار ہوا اور دنیا میں سب سے پہلے ہڈیوں والا ایسا جسم نمودار ہوا اور جس کا جبڑا بھی تھا اور دو اور دو کی تعداد میں خارجی اعضاء بھی تھے ۔ یہ تھی ہڈیوں اور جبڑے والی قدیم مچھلی ۔ اس کا زمانہ وجود تقریباً 45 کروڑ سال پرانا ہے ۔ ان مچھلیوں کے کچھ پتھرائے ہوئے ڈھانچے دستیاب ہوئے ہیں ۔ جو کہ 45 کروڑ سال پرانے ہیں ۔
آج کل کی کئی سمندری مچھلیاں مثلاً پھیپھڑے دار مچھلیاں ، ریڑھ دار ، پنکھ والی مچھلیاں اور گوشت دار پنکھ والی مچھلیاں اسی زمانے سے تعلق رکھتی ہیں ۔ گوشت دار مچھلیوں کے ایسے اعضاء تھے جو بعد میں بازوؤں اور ٹانگوں میں تبدیل ہونے کی بنیاد بنے ۔
دوسرا ریڑھ دار جانوروں کے ارتقاء کے دوران یہ ہوا کہ ایسے جانور پیدا ہوئے جو پانی اور خشکی دونوں پر رہ سکتے تھے ۔۔۔۔ جل تھلیئے جانور ، یہ ایسے ہوا کہ ان کے بازو اور ٹانگیں )یا یوں کہیے چار ٹانگیں( نکل آئیں ۔ نیز سانس لینے کے لیے گلپھڑوں کی جگہ پھیپھڑوں نے جنم لیا ۔ جل تھلیئے جانوروں کے وجود کا زمانہ چالیس کروڑ سال پرانا ہے ۔ ان کے چالیس کروڑ سال پرانے مجحرات بھی ملے ہیں ۔ ان کے وجود میں آنے کا ایک بڑا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ خشکی میں دور دراز پھیل گئے اور یوں زمینی زندگی کا آغاز ہوا ۔ چونکہ پانی میں تیرنے کے لیے چھوٹے چھوٹے بازوؤں اور ٹانگوں کی ضرورت تھی اور یہ بہر حال پیداوار پانی کی تھی ، اس لیے جب خشکی پر آئے تو ان کی ٹانگیں چھوٹی اور جسم بھدے تھے ۔ یہ جانور چھوٹی چھوٹی ٹانگوں کے ساتھ رینگ کر چلتے تھے ۔ ان کے ظہور کا زمانہ 38 کروڑ سال پرانا ہے ۔ یہ گھنے جنگلوں میں گھوم پھر کر رفتہ رفتہ کافی تبدیل ہوگئے ۔ مگر پیدائش کا عمل پانی میں جاکر کرتے تھے ۔
تیسری بڑی تبدیلی یہ ہوئی کہ ان جانداروں نے زمین پر انڈے دینے شروع کردیئے ۔ جس کے نتیجے میں ان کا پانی سے بنیادی رشتہ ختم ہوگیا ۔ اب یہ جنگل کے رینگنے والے جانور تھے ، ان کا جنم ۳۰ کروڑ سال قبل ہوا تھا ۔ آہستہ آہستہ ان کی لاتعداد قسموں نے جنم لیا اور یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئیں ۔ ان کے تیس کروڑ سال پرانے مجحرات دریافت ہوئے ۔ رینگنے والے جانوروں کی ایک خرابی یہ تھی کہ ان کا خون ٹھنڈا ہوتا تھا ، جیسے کہ اب بھی رینگنے والے جانوروں کا ہے ۔ اس کوتاہی کا نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ سخت سردی میں ان کا زندہ رہنا مشکل ہوجاتا تھا ۔
سردی کے ساتھ چوتھی عظیم تبدیلی تبدیلی رونما ہوئی اور گرم خون والے جانداروں کی نئی نسل وجود میں آگئی ۔ یہ مخلوق ہر قسم کے موسم میں اپنے جسم کا درجہ حرارت ایک ہی سطح پر برقرار رکھ سکتی تھی ۔ اس مرحلے پر رینگنے والے جانوروں کی نسل دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ۔ ایک تو پرندوں کی نسل نمودار ہوئی جو اپنے اجداد کی طرح انڈے دے کر بچے نکالتے تھے اور دوسرے دودھ دینے والے جانوروں کی قسمیں پیدا ہوئیں ۔ دودھ دینے والے جانوروں آج سے تقریباً 15 کروڑ سال قبل وجود میں آئے تھے ۔ یہ چونکہ یہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال کرسکتے تھے اور کافی عرصہ ان کی خوراک اور نگہداشت کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لیتے تھے ۔ لہذا ان میں سب زیادہ ترقی اور تنوع پیدا ہوا اور یہ قسم باقی قسموں سے زیادہ کامیاب ثابت ہوئی ۔ دودھ دینے والے جانوروں کی مزید ترقی کا زمانہ ’ نئی حیات کا زمانہ ‘ )سینون زونیک( کہلاتا ہے ۔ یہ ارتقائے حیات کا عظیم انشان زمانہ تھا ، جو آج سے چھ کروڑ پچاس لاکھ سال قبل شروع ہوا ۔ اس زمانے کے کئی شیر دار جانوروں کے کوئی چھ کروڑ سال پرانے ڈھانچے دستیاب ہوچکے ہیں ۔ اس دور میں شیر دار جانوروں کی کئی شاخیں پھوٹیں ، جن میں ایک ترقی کرکے مانسApe بنی ۔ جس نے آگے چل کر انسان کو جنم دیا ۔ قدیم مانس اور آج کل کے مانس اور بندر میں فرق یہ ہے کہ قدیم مانسprosimian کے 32 دانت تھے ۔ جب کہ موجودہ بندوروں 34 دانت ہوتے ہیں ۔ انسان قدیم مانس کی ترقی یافتہ شکل ہے ۔ موجودہ بندر کی نہیں ۔
ارتقاء کی رفتار
بحثیت مجموعی ارتقاء کا عمل نہایت سست رفتار ہے ۔ جس کو سالوں یا صدیوں کے حوالے سے نہیں سمجھا جاسکتا ۔ مختلف اجسام میں ارتقاء کی رفتار مختلف ہے ۔ بعض چیزوں میں تو کروڑوں سالوں میں کوئی ارتقاء نہیں دیکھنے میں آیا اور بعض چیزوں میں دس بیس لاکھ سال میں حیرت انگیز تبدیلی رونما ہوئی ہے ۔ جس نے ان کی کایا پلٹ دی ہے ۔ تاہم کچھ بھی ہو ارتقاء کو ماپنے کا پیمانہ لاکھوں کروڑوں سالوں کا پیمانہ ہے ۔ مثلاً بعض سیپیاں چالیس کروڑ سال قبل اسی شکل میں تھیں ہیں جیسی آج ہیں اور بعض جھینگے کوئی بیس کروڑ سال سے جوں کے توں ہیں اور اپاسم )چوہے کی ایک قسم( ساڑھے سات کروڑ سال سے اپنی حالت پر قائم ہیں ۔ اس کے برعکس بعض شیر دارو نے انتہائی تیز رفتاری سے اپنے آپ کو ترقی دی ۔ ، جن کی فہرست کافی طویل ہے ۔ انہی میں انسان کے اجداد بھی ہیں ، جو آج سے پچاس لاکھ سال قبل ’ کھڑے انسانی مانس ‘ )ہوموارکٹس( کی شکل میں تھے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔