اسلامی بینکاری اور جدید مالیاتی نظام
(دوسرا اور آخری حصہ)
سوداوربچت
قرض لینے والے کو سودی نظام میں بڑی کشش ہوتی ہے ۔ کیوں کی اس طرح قرض لینے والوں کو سود بار نہیں ہوتا ہے ۔ بلکہ اس کا بار ان پر پڑتا ہے ، جو ان کی اشیاء خریدتے ہیں اور اشیاء استعمال یا خریدنے والے اپنی خدمات کی قدر بڑھا دیتے ہیں ۔ اس طرح قیمتوں میں مسلسل اضافہ کی وجہ سے زر کی قدر میں مسلسل کمی ہوتی رہتی ہے ۔ اس طرح مقروض بھی فائدے میں رہتا ہے ۔ کیوں کہ وہ اصل اور سود کی ادائیگی اس رقم سے کرتا ہے جس کی قدر گرچکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے تمام دنیا میں نہ صرف سرمایاکار کاروبار یا صنعت لگانے کے لیے بلکہ عام آدمی بھی مختلف ضرورتوں کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں چاہے انہیں اس کی ضرورت نہ ہو ۔ کیوں کہ انہیں معلوم ہے ، کہ مستقل میں جب وہ اصل اور سود کی ادائیگی کریں گے تو اس کی قدر گھٹ چکی ہو گی ۔ جب کہ ان کی سرما یاکاری کی قدر اس سے کہیں زیادہ بڑھ چکی ہوگی ۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جو ظنی یا نفلی دلائل دیئے جاتے ہیں وہ جدید معاشی نظام میں سود پر صادق نہیں آتے ہیں ۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ مسلسل گرتی قدر نے ان تمام دلائل کو باطل کردیئے ہیں اور اس طرح عام لوگ زر کی گرتی قدر کی وجہ سے اپنی بچتیں بغیر نفع کے بینکوں میں رکھوانا پسند نہیں کریں گے ۔ وہ اسی صورت میں اپنا روپیہ بغیر نفع کے بینک میں رکھنے کے بجائے کارو بار یاصنعت میں لگانا زیادہ پسند کریں گے ۔ مگر ہر شخص کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ کوئی کاروبار کرے ، مگر عام آدمی ناتجربہ کار اور محدود سرمائے کا مالک ہوتا ہے ، اس لیے اس کے لیے آسان نہیں ہے کہ وہ نہ کوئی کاروبار یا صنعت لگائے ۔ دوسری طرف اس قلیل رقم سے نہ مضاربہ یا شراکت کی جا سکتی ہے ۔ اس لیے عام آدمی کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ مضاربہ یاشراکت میں اپنے محدود سرمائے سے سرمایا کاری کرے ۔اس طرح وہ زرکی گرتی قدرکی وجہ سے بینک میں بغیر نفع کے رکھوانا پسند نہیں کرے گا اور ایسی صورت میں وہ اپنی محدود رقم سے اشیاء تعیش اور دوسرے سامان کی خریداری یا زیور اور جائیداد کی خریداری کو ترجیح دے گا ، گویا وہ اس طرح اپنی محدود رقم کا تحفظ کرے گا ۔
غیر مصروف شدہ بچت کسی ملک کی معاشی راہ میں روڑے کے مترادف ہے ۔ ہر شخص زمانہ سابقہ کے مقابلے میں اپنی آمدنی سے زیادہ سے زیادہ بچانے کی کوشش کرے ، تو تمام مخلوق بہ حیثیت مجموعی زیادہ بچت نہیں کر سکے گی ۔ اس کا ’ سبب یہ ہے کہ مجموعی قومی آمدنی ( الیف ) برابر ہے اس رقم کے جو ضرروریات کی چیزوں پر خرچ کیا جائے (ض ) ۔ جمع اس رقم کے جو سرمایا کاری پر خرچ کیا جائے ( ک ) اور ان دونوں رقموں جتنی کمی بطور بچت کے کی جائے اتنی ہی قومی آمدنی میں کمی ہوجائے گی ‘۔ سرمایا کاری سے مراد کسی ایسی شے کی پیدائش جس میں انسانی محنت صرف ہوتی ہو ۔ مثلأ مشینیں مکانات ، سڑکوں ، پل ، پانی کی نہروں اور بندوں کی تعمیروغیرہ ہیں ۔ اس نقطہ نظر سے زمین سونا خریدنا سرمایا کاری نہیں ہے ۔ اس طرح سونے کے زیورات کی خریداری بھی سرمایا کاری نہیں ہے ۔ کیوں کے یہ محفوظ حالت میں رہتی ہے اور سرمایا کی تشکیل میں کوئی حصہ نہیں لیتی ہے ۔ ہمارے ملک میں اس کے برعکس صورت حال ہے لوگ اپنا سرمایا محفوظ سرمایا جائداد کی خریداری میں لگا رہے ہیں ۔ اس رجحان کی حوصلہ شکنی کرنی چاہے ۔ اس سے ایک طرف جائداد کی قیمتیں پڑھتی ہیں اور یہ ملکی معیشت میں اس کے نہایت منفی اثرات پڑتے ہیں ۔ جس میں زر کی قدر میں کمی یعنی افراط زر ۔ اس کے بجائے سرمایا کاری کاخانہ کی تعمیر میں لگایا جائے ۔
کسی ملک کیٍ قومی آمدنی میں اضافہ کا مطلب ہے کہ پیدا وار میں اضافہ ۔ اس کے لیے حکومتی سرمایا کاری ضروری ہے ۔ اس کے حصول کے لیے ملکی بچتوں میں اضافہ ضروری ہے تاکہ سرمایا کاری کے وسائل مہیا ہو سکیں ۔ جب کہ غیر مالیاتی بچتیں قدر زر میں تخفیف اور ٹیکس گریزی کا باعث بنتی ہیں ۔ بالخصوص جائیدادکی طرف بچتوں کی منتقلی کی حوصلہ شکنی ضروری ہے ۔ تاکہ ملکی بچتوں سے ہی سرمایا کاری کے وسائل مہیا ہوسکیں ۔ اس سے نہ صرف افراط زر میں کمی ہوتی ہے ، بلکہ اس سے خود انحصاری میں مدد ملتی ہے اور ادائیگیوں کا توازن بھی درست ہوتا ہے ۔
شرح سود
شرح سودکی مقولیت کے بارے میں اگرچہ اختلاف رہا ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے شرح سود بازار سے روپیہ کھینچنے اور روپیہ پھیلانے کا معقول طریقہ ہے اور لہذا ملکی مالیاتی پایسی میں اس کی شرح بہت اہم ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے جن ملکوں میں معاشی استحکام ہوتا ہے وہاں اس کی شرح کم ہوتی اور جن ملکوں میں معاشی عدم استحکام ہوتا ہے ، یعنیَ وہاں افراط زر ، بے روزگاری ، صنعت و حرفت میں کمی اور ملک عدم توازن کا شکار ہو تو وہاں شرح سود زیادہ ہوتی ہے ، تاکہ لوگوں میں بچت کا رجحان بڑھے ۔ مگر اتنی زیادہ بھی نہیں کہ صنعت و حرفت اور تجارت کے لئے نقصان دہ ہو ۔ یعنی بچت و سرمایاکاری میں توازن رکھنا ضروری ہے اور معیشت میں اس کی شرح معاشی ضروریات کے مطابق ہونی چاہیے ۔ یعنی معاشی صورت حال اس کے برعکس ہو تو یہ ملکی معیشت کو نقصان پہچاتی ہے ۔ جب کہ مناسب شرح سود نہ صرف افراط زر کم کرتی ہے ، بلکہ بچت اور سرمایاکاری میں توازن قائم رکھتی ہے اور معاشی استحکام کاباعث ہوتی ہے ۔ اس طرح ملک ترقی اور کامل روزگار کے زینہ پر قدم رکھ دیتا ہے ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔