یونانی مورخین جن میں آرین ، اسٹربیو اور دوسرے مورخین شامل ہیں کے مطابق ۶۲۶ ق م میں سکندر ٹیکسلہ میں کچھ عرصہ آرام کرنے بعد مئی کے مہینے میں درٰیائے جہلم کے کنارے پہنچا اور دریائے جہلم کے پار پورس کا علاقہ تھا ۔ پورس نے سکندر کی اطاعت قبول نہیں کی اور اس نے مقابلے کی تیاریاں شروع کی ۔ راجہ پورس کی فوجوں کی تعداد پچاس ہزار تھی اور دریا کے دوسرے کنارے آرستہ تھی ۔ راجہ پورس کی فوج میں دو سو ہاتھی ، تین سو رتھ ، چار ہزار سوار اور تیس ہزار پیادے تھے ۔ پورس کی کوشش تھی کہ یونانی دریا پار نہیں کریں ۔ سکندر کو پورس کے ہاتھیوں سے خطرہ تھا ۔ مگر اسے ہاتھیوں کے مقابلے میں اپنے گھڑ سواروں پر اعتماد تھا ۔ سکندر کی فوج کے لیے دریا غبور کرنا آسان نہیں تھا کیوں کہ دریا چڑھا ہوا تھا ۔ دریا کو غبور کرنے کا آسان طریقہ یہ تھا کہ اکتوبر نومبر تک انتظار کیا جائے جب کہ پانی کا زور ٹوٹ جائے اور دریا میں پانی کم ہوجائے ۔ مگر سکندر اتنا انٹظار نہیں کرسکتا تھا اس لیے اس نے آیرین کے الفاظوں میں فیصلہ کیا ہے کہ وہ راستہ چرائے گا ۔
سکندر نے دشمن کو دھوکہ دینے کے لیے اعلان کرا دیا کہ وہ پانی کے اترنے کا انتظار کرے گا اور دشمن کو دھوکہ دنے کے اس نے فوج کو گرد و نواع میں لوٹ مار اور سامان رسد جمع کرنے کے لیے روانہ کیا ۔ دوسری طرف اس کی کشتیوں کا بیڑا ادھر ادھر چکر لگا کر کسی پایاب مقام تلاش کر رہا تھا کہ وہاں سے دریا کو غبور کیا جائے ۔ اس کاروائیوں میں چھ سات ہفتے بیت گئے ۔ اس اثنا میں برسات کا آغاز ہوگیا اور طغیانی ہوگئی ۔ یونانی بیڑے نے تلاش اور جستجو کے بعد دریا کو غبور کرنے کی جگہ فوج کے پڑاؤ سے سولہ میل آگے چنی ۔ سکندر نے فوراً اس منصوبے پر عمل درآمد شروع کیا ۔ آرین کے الفاظ میں اس نے بے انتہا احتیاط کے ساتھ دلیری برتی ۔ سکندر نے پانچ ہزار آدمی کیمپ کی حفاظت کے لیے چھوڑے اور گیارہ یا بارہ ہزار فوج کے ساتھ جس میں پیادے اور سوار دونوں شامل تھے اپنے ساتھ لیے اور رات کے وقت روانہ ہوا ۔ سکندر کے روانہ ہوتے ہیں طوفان آیا اور بارش شروع ہوگئی ۔ اس لیے یونانی فوج کی نقل و حرکت کا دشمن علم نہ ہوسکا ۔ بارش کا فائد اتھا کر یونانی بیڑے نے فوج کو دوسرے کنارے پر بغیر کسی مزاحمت کے اتار دیا ۔ جب پورس کو اطلاع ملی تو بہت دیر ہوچکی تھی اور وہ عجلت میں ۲۰۰۰ ہزار سوار اور ۱۲۰ رتھوں کے ساتھ مقابلے پر آیا مگر اس نے شکست کھائی اور اس کے چار سو آدمی مارے گئے اور تمام رتھیں ضائع ہوگئیں ۔
یونانی مورخین کے مطابق بچنے والے سپاہیوں نے اس کی اطلاع پورس کو دی ۔ سکندر نے اس اثنا میں جنگی حکمت علمی کے تحت بہتر جگہ پر اپنی پوزیشن سمبھالی ۔ ہندی راجہ بھی فوج کے ساتھ میدان میں آیا مگر اس کی فوجوں کو ناہموار علاقہ میں جگہ ملی ۔ جنگ ہوئی لیکن ہم اس کی تفصیل میں نہیں جاتے ہیں تاہم اس جنگ میں پورس کو شکست ہوئی ۔ پورس کے ہاتھی مارے گئے یا قید ہوگئے اور رتھیں برباد ہوگئیں ۔ تین ہزار سوار ، کم بارہ ہزار پیادے مارے گئے اور نو ہزار قیدی بنا لیے گئے ۔ مقدونویوں کا نقصان صرف ایک ہزار جانوں کا ہوا کا ہوا ۔
یہاں کچھ نکات قابل غور ہیں جو ہیں ۔
راجہ پورس کی ریاست کوئی بڑی ریاست نہیں تھی ۔ آرین کا کا کہنا تھا راجہ پورس کی ریاست کی مغربی سرحد دریائے جہلم تھی اور اس دریا کے آگے راجہ ٹیکسلا اس کا دشمن تھا ۔ اس کی ریاست کے شمال میں ایس سایرس ایک خود مختار راجہ تھا ۔ اسے آرین نے پہاڑی ہندوستانیوں کا خود مختیار راجہ کہا ہے اور جنوب میں ایک خود مختیار راجہ سرپی تھس تھا ۔ جس کے ملک میں نمک کا پہاڑی سلسلہ واقعہ تھا ۔ یعنی راجہ پورس کے قبضہ میں کوئی بڑا علاقہ نہ تھا ۔ اس کا علاقہ شمال میں جنگلوں تک تھا ۔ یعنی صرف دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان کا علاقہ ہی اس کے پاس تھا ۔ مشرق میں درمیان دریائے چناب اور راوی کے درمیان ایک دوسرا راجہ جس کا نام بھی پورس تھا اور اسی کی دشمنی پورس سے تھی ۔ اس کے جنوب کی جانب مشرق میں قوم کیتھی اور دوسری قومیں آباد تھیں ۔ انہوں نے پورس کے مقابلے میں سکندر کی مدد کی تھی ۔ جنوب میں مالی قوم آباد تھی اور اس سے بھی پورس کے تعلقات بہتر نہیں تھے ۔ ان سے راجہ پورس اور راجہ ایس سیرس اور بہت دوسرے راجہ نے مشترکہ حملہ کیا تھا مگر شکست کھائی تھی ۔
یہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے ایک مختصر سی ریاست جس کی آبادی بھی اتنی نہیں ہوگی جتنی کے اس کی فوج کی تعداد بتائی جاتی ہے ۔ اس کی مختصر ریاست کے وسائل کیا اتنے تھے کہ وہ اتنی بڑی فوج رکھ سکے ۔ بقول سر برٹس کے اگر ہم رتھوں کی جگہ توپیں تصور کرلیں تو اس فوج کی تعداد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے برابر ہوگی ۔ جب کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پاس پنجاب کے علاوہ دیگر علاقوں جن میں کشمیر ، ہزارہ ، درہ خیبر اور دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر ڈیرہ اسمعیل خان تک کا حکمران تھا ۔ سکندر نے گلاسی قبیلہ جس کے قبصہ میں سینتس بڑے شہر تھے پورس کو دے دیئے ۔ مگر پھر بھی کوئی بڑا علاقہ اس کے زیر دست کبھی نہیں رہا تھا ۔
اس بحث سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ راجہ پورس کا علاقہ دریائے جہلم اور دیائے چناب درمیان واقع تھا اور یہ کوئی بڑا علاقہ نہیں تھا اور اس زمانے میں آبادی اتنی نہیں ہوتی تھی ۔ اس کی ریاست کے چاروں طرف جو دوسری ریاستیں تھیں وہ بھی چھوٹی اور مختصر ریاستیں تھیں اور ان ریاستوں سے بھی پورس تعلقات اچھے نہیں تھے ۔ سکندر کے مقابلے میں انہوں نے پورس کی مدد نہیں کی تھی ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ پورس کی فوج کی تعداد کو یونانی مورخین نے مبالغہ آرائی کے ساتھ پیش کیا ہے ۔ حقیقت میں سکندر دریا کی طغیانی کی وجہ سے دریا پار نہیں کرسکا ۔ جب یونانیوں نے دریا کو پار کیا تو پورس کی اس کی اطلاع مل چکی تھی اور وہ پوری طاقت کے ساتھ جو زیادہ سے زیادہ دو ہزار کی تعداد تعداد تھی جس میں سوار کی تعداد ایک دو سو سے زیادہ نہیں ہوسکتی ہے شامل تھی اور چند ہاتھی اور کچھ رتھیں باقی پیادے تھے ۔ اس مختصر سی لڑائی میں پورس نے شکست کھائی تھی ۔ کیوں کہ یونانی مورخین یہ لکھتے ہیں کہ پورس عجلت میں خود آیا تھا ۔ اس کے بعد یہ لکھتے ہیں اس فوج نے شکست کھانے کے بعد فرار ہونے والے سپاہیوں نے اس کی اطلاع پورس کو دی ۔ اس کے بعد پورس اپنی فوج کے ساتھ مقابلے کے لیے آیا اور شکست کھائی ۔ یہ اصل میں سکندر اور پورس کی اہمیت بڑھانے کے لیے بیان کیا گیا ہےْ کیوں کہ یونانیوں نے پورس کی شخصیت سے متاثر ہوگئے تھے اور اس لیے بڑھا چڑھا کر اس کی فوج اور مقابلے اور سکندر کی جنگی حکمت عملی و فراست کو بیان کیا ۔ اس کا اندازہ آپ اس سے بھی لگا سکتے ہیں کہ یونانیوں کو چند ایک جگہ کے علاوہ ہر جگہ سخت مزاحمت کا سامنہ کرنا پڑا تھا اور سخت کشت و خون ہوا تھا ۔ مگر یونانیوں نے ان لڑائیوں کی اس قدر تفصیل درج نہیں کی ہے ۔ سکندر کے بعد چند سال بعد ہی پورس کی ریاست اس سے چھین لی گئی تھی ۔ اگر وہ اتنا ہی طاقت ور ہوتا جیساکہ یونانی مورخین نے بتایا تھا تو اس کی ریاست اس آسانی سے نہیں چھنتی ۔
یہ باب قابل ذکر ہے کہ کسی مقامی یا ہندی ماخذ سے سکندر کا ذکر بھی نہیں ملتا ہے ۔ اگر یونانی اس کا ذکر نہیں کرتے تو ہمیں کبھی معلوم نہیں ہوتا کہ سکندر نے کبھی ہندوستان پر حملہ کیا تھا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔