نعمت اللہ ہروی لکھتا ہے ۔ کہ ہارون ایک غریب آدمی تھا ۔ اس کی کل کائنات ایک لڑکی ، ایک بکری اور ایک گھوڑا تھا ۔ اس کی شکار پر گزر اوقات تھی ۔ ایک دن وہ معمول کے مطابق شکار پر گیا ہوا تھا ۔ چار درویش ایک لڑکے کے ساتھ اس کے گھر پر آئے ۔ ہارون کی بیوی نے انہیں عزت و احترام سے بیٹھایا اور بکری ان کی خدمت میں پیش کیا اور ساتھ ہی اپنی مفلسی و بے بصاتی کا عذر پیش کیا کہ اگر گھر میں کچھ اور ہوتا ہے تو وہ بھی آپ کی خدمت میں پیش کرتی ، آپ اسے قبول کروائیں ۔ فقراء اس کے حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے بکری واپس کرنے کی کوشش کی ، مگر عورت واپس نہیں لی ۔ درویشوں نے بکری ذبیح کیا ۔ عورت نے پکایا سب نے پیٹ بھر کر کھایا ۔ ہارون گھر لوٹا تو اس نے مہمانوں کی بڑی خاطر تواضح کی ۔ اگلی صبح وہ جانے لگے تو ہارون نے اپنی بچی اور گھوڑے کو نذرانہ کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ میری کل جائیدادیں دو جانیں ہیں انہیں قبول فرمائیں ۔ درویش اس کے حسن سلوک سے بہت متاثر ہوئے اور اس کے حق میں دعا کی ، اور ہارون سے کہا کہ ہم نے بارگاہ ایزدی سے درخواست کی ہے تجھے سات لڑکے عنایت کرے اور یہ لڑکا سیّد زادہ ہے اور اس کا نام جمال ہے ، ہم نے تجھے بخشا ہے ۔ نیز ایک شیر خوار بچہ فلاں جگہ پڑا ہے تو اسے بھی لے آ اور اپنے بیٹے سمجھ کر ان کی پرورش کر ۔ اس شیر خوار بچے کا نام کربلا رکھ اور اس کا نام سیّد زئی رکھ لے ۔ انشاللہ ان دونوں بچوں کی برکت سے تمہارا نصیب بیدار اور بخت بار ہوجائے گا ۔ سیّد جمال کی اولاد سیّد زئی کے نام سے مشہور ہوئی ۔
شیر محمد گنڈا پور کا کہنا ہے کہ انساب افغانہ کی متفقہ روایت کے مطابق قوم سیّد زئی سیّد در جمال کے خاندان سے ہیں اور صیح النسب ہیں ۔ ایک مدت سے وہ ترین قوم میں شامل ہیں اور ان کے قوانین اور لباس اختیار کرچکے ہیں ، لیکن لفظ سیّد کو ترک نہیں کیا اور باوجود افغانی تورہ پر کاربند ہونے کے باوجود خود کو خان نہیں کہتے ہیں ، بلکہ سیّد کہتے چلے آئے ہیں ۔ ان کے شجرہ سے واضح ہوتا ہے کہ سیّد علی بخاری ان کے مورث اعلیٰ تھے ۔ ان کے چار بیٹے ، سیّد در جلال ، سیّد در جمال ، سیّد در کمال اور سیّد در بلبل ہیں ۔ یہ گروہ جو سیّد در جمال کی نسل سے ہے ، اوچ اور دوسرے بخاری سیّد ان کے ہم نسل ہیں ۔ یہ سادات غرشین یا خرشین کے نام سے مشہور ہیں ۔
سیّد زئیوں کی یہ داستان مجہول اور دیومالائی لگتی ہے اور صاف ظاہر کہ نعمت اللہ کے بیان میں اضافہ اور تبدیلی کی گئی ہے اور اس میں قطع برید کے بعد ان کا تعلق بخارا کے سادات کے ساتھ جوڑا گیا ہے ۔ لہذا ہم اس کا تجزیہ کرلیں ۔
بخاری سیّد کے جد اعلیٰ سیّد عبداللہ تھے ان کی چار پشت کے بعد سیّد علی ابوالموید تھے جن کے چار بیٹے سیّد جمال ، سیّد جلال ھیدر سرخ بخاری ، سیّد نہال اور سیّد بہلول تھے ۔ ان کا نسب اس طرح ہے سیّد علی ابوالموید بن سیّد جعفرابوتراب بن سیّد محمد ابوالفتح بن سیّد محمود بن سیّد احمدابویوسف ، بن سیّد عبداللہ بن سیّد علی اصغر بن سیّد علی الاشتر بن سیّد جعفرالذکی بن علی نقیؒ بن محمد تقیؒ بن علی رضا بن موسیٰ کاظم بن ضعفر صادقؒ بن محمد باقرؒ بن زین العابدینَ بن حسینؓ بن علیؓ ہے ۔
سیّد جلال حیدؒ ر سرخ بخاری سیّد علی ابو الموید کے صاحبزادے تھے اور آپؒ بخارا میں ۵۹۵ھجری میں پیدا ہوئے تھے ۔ آپؒ مختلف ممالک کی سیرکرتے ہوئے ۶۳۰ ہجری میں ملتان آئے اور حضرت شیخ بہاؤ الدین ذکریا ملتانی کی خدمت میں ۶۳۵ ہجری میں حاضر ہوئے اور ان سے خلافت حاصل کی ۔
آپؒ کے بھائیوں کے حالات نہیں ملتے ہیں ۔ غالباً وہ بخار میں مقیم رہے ۔ کیوں کے آپؒ کے ایک صاحبزادے بخارا واپس چلے گئے تھے ۔ آپؒ کے تین بیٹوں سیّد سرمست علی ، سیّد محمد غوث اور سیّد احمد کبیر کی اولادیں برصغیر میں مقیم رہیں اور سادات بخاری کے نام سے مشہور ہوئے ۔
بالاالذکر لکھا جاچکا ہے کہ بخاری سیّد کے جد اعلیٰ سیّد عبدللہ تھے ۔ مگر پاک و ہند میں سب سے پہلے سیّد جلال حیدر سرخ بخاری تشریف لائے تھے اور وہی برصغیر میں بخاری سیّد کے جد اعلیٰ ہیں اور سیّد جمال جو ان کے بھائی تھے ، مگر ان کا تزکرہ کوئی تزکرہ دستیاب نہیں ہوا ہے ۔ غالباً یہ بخارا میں ہی رہے ۔ یہ اگر برصغیر یا افغانستان آتے تو تذکرہ نویس ان کا ذکر ضرور کرتے ۔ لہذا یہ روایت من گھڑت ہے ۔
نعمت اللہ ہراتی کی رویت کے مطابق ہارون جس نے جس نے در جمال کو پالا تھا اس کا شجرہ نسب یہ ہے ۔ ہارون بن مملونی بن تور بن ترین بن سرحبون بن سربنی بن قیس عبدالرشید ہے ۔ یہ کل سات پشتیں ہوئیں اور ان کی مدت کا حساب لگائیں تو زیادہ سے زیادہ سے دوسو سال ہوگی ۔ ( خیال رہے کہ قیس حضور صلی اللہ علیہ وصلم کا معاسر بتایا جاتا ہے ) جب کہ حضرت سیّد جلال حیدرؒ سرخ بخاری اور حضرت علیؓ کے درمیان بیس پشتیں ہوتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ درجمال سیّد جلال حیدرؒ کے بھائی نہیں ہوسکتے ہیں ۔ اس وقت غور میں اسلام آیا ہی نہیں تھا اور اس وقت تک عربوں نے بخارا بھی فتح نہیں کیا تھا ، اس لئے وہاں بخاری سیّد کی رہائش تو در کنار وہاں مسلمانوں کے رہنے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے ۔ کیوں کہ بخارا میں مسلمان پہلی دفعہ چوتھی ہجری میں داخل ہوئے تھے اور اہم ترین بات یہ ہے کہ کیا وجہ ہے ایک مسلمان بچہ کو اس علاقہ جہاں اسلام آیا ہی نہیں تھا وہاں کیسے آیا اور کیسے معلوم ہوا ہے کہ یہ سید ہے ۔ لہذ اس روایت میں کوئی حقیقت نہیں ہے اور یہ موضوع اور من گھڑت ہے ۔
یہاں سوال اٹھتا ہے کہ یہ سیّد نہیں ہیں تو کون ہیں ؟ ہمارے پاس اس کی رہنمائی کے لئے تین کنجیاں ہیں ۔ یعنی خرشین ، غرشین اور جمال ۔ جب کہ در اور بخاری بعد کی پیداوار ہیں ۔ اس کے لئے ایک تفصیلی بحث کی ضرورت ہے ۔
خر کے معنی فارسی میں گدھے اور بزرگ کے ہیں اور یہ کلمہ قدیم زمانے میں انسانی ناموں میں عام استعمال ہوا ہے اور غالباً قدیم زمانے میں افغانستان میں گدھے کی پوجا کی جاتی تھی ۔ جب کہ غڑ پشتو میں پہاڑ کو کہتے ہیں ۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ خر غڑ سے بدل گیا ہو ۔
جمال عربی کلمہ ہے جس کے معنیٰ خوبصورت کہ ہیں ۔ جمالی ایک بلوچی قبیلہ ہے جو بلوچستان اور سندھ میں آباد ہے ۔ اس کا ایک طائفہ جماری ہے ۔ اس سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس کلمہ کی اصل جماری ہے اور جمالی اس کا معرب ہے ۔ کیوں کہ قدیم زمانے میں ایرانی زبانوں میں ’ ل ‘ استعمال نہیں ہوتا تھا جو کہ ’ ر ‘ کی نرم آواز ہے ۔ پس اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جمالی کا ابتدا میں تلفظ جماری تھا ، اور وقت گزرنے کے ساتھ یہ جمالی میں بدل گیا ۔ مگر قدیم جماری ایک اقلیت کی صورت میں اب بھی باقی ہیں اور یہ اب جمالیوں کا ذیلی قبیلہ بن چکے ہیں ۔ یہ کلمہ جم دوحصوں جم 228 ماری 236 جماری پر مشتمل ہے ۔ جم کے معنی قدیم فارسی میں چاند کے ہیں ۔ ماری کے معنی بلندی یا پہاڑ کے ہیں یہ میڑ کا معرب ۔
پس جمار جسے افغان روایتوں میں جمال بنادیا گیا یہ جمار کا معرب ہے اور یہ یقیناًقدیم زمانے میں چاند کے پچاری اور اس کے اولاد ہونے کے مدعی تھے اور اس حثیت سے ماقبل اسلام تقدس کے حامل تھے اور مسلمان ہونے کے بعد بھی یہ بدستور تقدس کے حامل رہے ۔ بعد ازں ان کے تقدس کے پیش نظر انہیں سیّد تصور کرلیا گیا اور اس کے لئے تانے بانے بنے گئے ۔ یہی وجہ انہیں خرشین یا غرشین بھی کہا جاتا ہے ۔ (جاری)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...